مقدمہ
بیلی( BAILEY) کے مطابق”سب سے دراز عمر سب سے زیادہ سوچنے والا ہوتا ہے۔“ اِنہی معنوں کو جیمز ایلن JAMES ALLEN)) یوں بیان کرتا ہے:”حرکت ‘سوچ کی کلی کے کھلنے کا نام ہے اور لذت یا رنج و الم اِسی کے پھل ہیں ۔ یوں انسان اپنے ہی افعال کے تلخ اور میٹھے پھلوں پر زندہ رہتا ہے۔“ ہمارے پیغمبرﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک گھنٹے کا تفکر سالہا سال کی نفلی عبادت سے بہتر ہے سوچ کی اہمیت کے نقطہِ نظر سے اِس فرمان کی اہمیت بالکل ہی جداگانہ ہے۔
سوچ ایک مضطرب دماغ کی عزیز اولاد ہے۔ڈِیکارٹ) DESCARTES) کا یہ کہنا کہ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں “ ایک ایسا چٹکلا ہے جس کے مطابق زندگی کا ہدف ہی انسان کے زندہ رہنے کی حکمت اور سبب ہے۔ اگر کوئی خیال ہم سے پہلے کسی اور کے ذہن میں آ چکا ہو تو وہ ہماری سوچ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ بالکل اسی طرح ہماری سوچ بھی کسی اور کے ذہن میں آنے والی اِسی طرح کی سوچ کے داخلے کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ لیکن ہم میں سے کوئی شخص بھی ایک ہی خیال کو ہُو بہو کسی دوسرے شخص کے اسلوب میں بیان نہیں کر سکتا۔ اسلوب ایک ایسا طرزِ بیان ہے جو ہر شخص کی اپنی ذات سے منسلک ہوتا ہے۔یعنی ہر انسان کا اسلوب دوسروں کے اسلوب سے مختلف ہوتا ہے۔اگر ایک اسلوب کسی دوسرے شخص کی سوچ کو بھی متاثر کرے اور دو افراد کے خیالات بظاہر ایک جیسے دکھائی دیتے ہوں ‘ پھر بھی اُن میں اِس نقطہِ نظر سے کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور پایا جائے گا۔
سوچنا ایک صلاحیت ہے جبکہ کسی خیال کو ایک خاص شکل دینا مہارت ہے۔”ہستی مختلف رازوں کو خود بخود ہمارے سامنے نہیں لا رکھتی۔یہ راز اُس وقت ہمارے سامنے آتے ہیں جب ہم سوچ کی راہوں سے گزر چکے ہوتے ہیں ۔“ انسان سوچ کے قوانین کو بھی سوچ ہی کے ذریعے منکشف کرتا ہے۔”علّت۔تاثیر“ کی عالمگیر موزونیت کی عمدہ ترین شکل بھی صرف سوچ ہی میں موجود ہے۔
اگر تفکّر کی خلوت گاہ میں خاموش لیکن نہایت مصروف کارکردگی کی پیدا کردہ تھکان کے بعد سوکھی ہوئی عقل اور منطق الہام کی راہ بند نہ کریں اور نہ ہی مُخیلہ کے پر نکلنے کا راستہ روکی دوسری طرف اگر الہام اور مُخیلہ بھی حقیقت پسندانہ عقل اور منطق کی چھلنی میں سے گزرنے سے انکار نہ کریں تو سجھ لیجیئے کہ بس اس مبارک چنگاری نے‘ جسے سوچ کہتے ہیں ‘ آگ پکڑ لی ہے۔ اس قسم کے خیالات ساری انسانیت کے لیے ایک ایسا اثاثہ ہیں جو کبھی کم نہیں ہوتا۔
سوچ‘ اِدراک کا ایک سپرنگ کی طرح تیزی سے بلندی کی طرف جانا‘ شعور کا کلمئہ طیّبہ کی حالت اپنا نا‘ دل و دماغ کا باہمی تعاون‘”مساجدِ کلیم“ کی برکت‘ رہنمائی اور ہدایت کی قندیل‘ تجربے کی اٹلس‘ خوشئہِ تبلیغ‘ بوسہئِ تلقین‘ گلدستہءالہام‘ رازوں کا حوض‘ مُوثر علم‘ آئیڈیل کی ٹیک‘ انسانی مشن کی ابجد‘ ۔۔۔یہ ہے اُن پُر نور مندرجات کا خاکہ جو آپ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اس کتاب کے وسیلے سے آپ کو پیش کیا جا رہا ہے۔
ہمارادارلاشاعت اپنے معزز قارئین کی خدمت میں ” المیزان یا شمعِ راہ“ نام کی یہ کتاب ان احساسات اور خیالات کے ساتھ پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے کہ وہ اسے سمجھنے کی جدوجہد کو اور اس کتاب کو اپنا ہم سفر بنائے رکھیں گے۔
- Created on .