علم کے بارے میں
اس ڈر سے کہ مثبت علوم الحاد کی طرف لے جائیں گے‘ان علوم سے دور رہنا بچپنا ہے۔ ان علوم کو سو فی صد دین اور ایمان کی ضد کے طور پر دیکھتے ہوئے ان کی تعلیم سے انکار کاوسیلہ بنانا پیشگی فیصلہ صادر کرنے کے برابر ہے اور یہ رویہ جہالت ہے۔
* * * * *
علوم ہماری فلاح کی گارنٹی دے کر ہمیں جتنا انسانیت کی بلندی تک پہنچاتے ہیں ۔اُتنے ہی ہمارے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں ۔اس کے برعکس جو علم اور ٹیکنالوجی عمر بھر بنی آدم کو ڈراﺅنے خواب دکھاتی رہتی ہے۔ وہ ایک جادو ہے۔ ایک شیطان ہے جو ہماراراستہ روک دیتا ہے۔
* * * * *
موجودہ صدی کی ابتداءمیں علم کو خدائی کا درجہ دے کرہر شے کو اُس پر قربان کر دینے والے بعض تنگ نظر مادہ پرستوں کے مقابلے میں ‘ اس دور کے بین الاقوامی علماءکا کہنا ہے کہ” بے دین علم اندھاہوتا ہے اور بے علم دین لنگڑا ہوتا ہے“ یوں ایک صدی پر محیط ہیبت ناک ہذیان کو نہایت لطیف طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔نہ جانے اگر وہ لوگ آج ہمارے زمانے کے ان علماءکو دیکھتے جو اندھے بھی ہیں اور لنگڑے بھی تو اس سلسلے میں کیا کہتے!
* * * * *
یہ دعویٰ کرناجہالت اور تعصب کی علامت ہے کہ مثبت علوم میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ ان علوم کے علاوہ دوسری ہر شے کو رد کر دینا بھی جاہلانہ تعصب ہے۔ ہر نئے حاصل کردہ علم کی روشنی میں اس بات کا احساس ہو جانااور اسے قبول کر لینا کہ ابھی ڈھیروں چیزوں کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے‘ ایک صحیح علمی ذہنیت اور سوچ کی جہت ہے۔
* * * * *
علم اورٹیکنالوجی انسان کی خدمت میں حاضر ہیں ۔ان سے ڈرنے کا کوئی سنجیدہ سبب موجود نہیں ہے۔علمیت اور علم کی رُوسے ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھنے میں بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔خطرہ صرف جہالت میں ‘ لاعلمی میں اور اپنی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے گریز کرنے میں ہے۔
- Created on .