علم سے متوقع مقاصد
انسان کی اولاد کے لیے اصل زندگی علم و عرفان سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ پڑھنے پڑھانے کو نظراندازکر دیتے ہیں وہ اگر زندہ بھی ہوں تو مُردہ گنے جاتے ہیں ۔ کیونکہ انسان کی تخلیق کا اہم ترین مقصد مشاہدے کے ذریعے علم حاصل کرنے اور جو کچھ خود سیکھا ہے وہ دوسروں کو سکھانے پر مشتمل ہے۔
* * * * *
کسی شخص کے بنائے گئے منصوبے اور عین نشانے پر بیٹھنے والے فیصلوں کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ تیارکردہ منصوبے اور فیصلوں کا عقل اور منطق کے ساتھ کتنا گہرا رشتہ ہے۔ جہاں تک عقل اور منطق کا تعلق ہے تو وہ بھی علم و عرفان کے ساتھ اُسی نسبت سے پنپتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علم و عرفان کی غیر موجودگی میں عقل غلام ہوتی ہے اور منطق گمراہ کن۔ ایسے میں کیے گئے فیصلے کبھی بھی نشانے پر نہیں بیٹھتے۔
* * * * *
ایک انسان کی انسانیت اس بات سے عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ خود سیکھ کر دوسروں کوکس حد تک سکھاتا اور اُن کے ذہنوں کو کس حد تک روشن کرتا ہے۔جو شخص یہ نہیں سوچتا کہ وہ جو کچھ نہیں جانتا اُسے کوشش کر کے جان لے‘ اور وہ شخص جو سیکھے ہوئے علم سے اپنی تعمیرِنو نہیں کرتا‘ اور دوسروں کے لیے خود کو مثال نہیں بناتا‘ وہ صورت سے انسان دکھائی دے تو دے سیرت کے نقطہ نظر سے ہمیں شک میں ڈال دیتا ہے!
* * * * *
جن چیزوں کے بارے میں ہمیں خود علم حاصل کریں اور پھر دوسروں کو سکھائیں وہ انسان کی ماہیت اور کائنات کے بھیدوں کے انکشاف کی طرف مائل ہونی چاہئیں ۔ وہ علم علم نہیں ہوتاجو خودی کے بھیدوں پراور تخلیق کے بارے میں ابھی تک تاریکی میں ڈوبے نکات پر روشنی نہیں ڈالتا اور جو گرہیں ابھی تک کھل نہیں سکیں اُنہیں کھول نہیں سکتا ۔
* * * * *
علم و عرفان کے ذریعے حاصل شدہ عہدے اور حصّے دوسرے طریقوں سے حاصل کردہ مقام کے مقابلے میں زیادہ بلندہوتے ہیں اور زیادہ دیرپا بھی۔کیونکہ علم‘ صاخبِ علم کو دنیا کی برائیوں سے دور رکھتا ہے اور اُسے صاحبِ فضیلت بناتا ہے۔ اُس کے دل میں اپنے لیے دوسری دنیا میں جس مقام کا تصور ہوتا ہے اُس مقام سے کہیں بلند مقا م عطا کر کے اُسے خوش کر دیتا ہے۔
یہ سب کچھ علم و عرفان ہی کے بل بوتے پرہوتا ہے۔
* * * * *
ہر ماں باپ کوچاہیے کہ پیشتر اس کے کہ ان کے بچوں کے دماغ غیر ضروری چیزوں سے بھر جائیں اُنہیں ہر حالت میں علم اور عرفان سے بھر دیں ۔ کیونکہ خالی دل اور معرفت سے محروم روحیں واقعی ہر قسم کے برے خیالات کے بیج چھڑکنے اور ان کی پودوں کی طرح افزائش کے لیے نہایت موزوں کھیتوں کی طرح ہوتی ہیں ۔ان کھیتوں میں جو بیج پہلے ڈال دیا جائے گا کٹائی بھی اُسی بیج کی فصل کی ہو گی۔
* * * * *
علم سیکھنے کا مقصد یہ ہے کہ دائرہ علم ابنِ آدم کا مرشد اور رہبر بنے اور علم سے حاصل کردہ چیزوں کے ذریعے انسانی کمالات کی جانب لے جانے والی راہیں منورہوں ۔ چناچہ وہ علوم جو روح کے حوالے نہیں کئے جاتے وہ اپنے مالک کی پیٹھ کا بوجھ ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ معرفت جو انسان کا رخ عُلوی اہداف کی طرف نہیں موڑتی وہ محض دل اور سوچ کے حمّال کا کام کرتی ہے۔
علم علم کو جاننے کا نام ہے۔
علم اپنے آپ کو جاننے کا نام ہے۔
اگر تو خود کو بھی نہیں جانت
تو پھر یہ علم کس قسم کا ہے! (یونس ایمرے)
* * * * *
وہ علم جس کا ہدف اور مقصد معلوم ہو‘ اپنے مالک کے لیے ابدی برکت کا ایک وسیلہ اور ایک لازوال خزانہ ہے۔ اس خزانے کے مالک جب تک زندہ رہتے ہیں بلکہ اس کے بعد بھی‘ ایک میٹھے پانی کے چشمے کی طرح ہمیشہ زیارت ‘ مرکزاور وسیلہءخیر بنے رہتے ہیں ۔ اس کے برعکس دلوں میں شبہات اور تردد پیدا کرنے والے‘ روحوں کے چہروں کو سیاہ کرنے والے‘ وہ جن کے خالی خولی مفروضوں کا ہدف بھی مجہول ہو‘ وہ سب لوگ یوں ہیں جیسے نا امید بھٹکتی روحوں کے گرد اُڑتے رہنے کے بعد رک جانے والاگندگی کا ڈھیر یا روحوں کو پھانسنے کا پھندا۔
* * * * *
علم اور سائنس کی کئی شاخیں ہیں ۔ اور ہر شاخ جن مختلف مضامین پر مشتمل ہوتی ہے وہ اگرچہ تقریباََ ہر انسان کے لیے مفید ہوتے ہیں لیکن انسان کی عمر اور اس کے وسائل محدود ہونے کے باعث ان سب مضامین کی تعلیم حاصل کر کے ان سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس اعتبار سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اُن مضامین کی قدروقیمت کا حساب لگائے جواُس کے اپنے لیے اور اُس کی قوم کے لیے ضروری ہیں ‘ اور غیر ضروری مضامین پر اپنی عمر خواہ مخواہ ضائع نہ کرے۔
* * * * *
اگر ایک حقیقی صاحبِ علم اپنے کام اور تحقیقات کو اپنے تجربے کی بنا پر‘سب سے درست خبروں اور سب سے کم گمراہ کن بیانوں کی روشنی میں تیار کر کے آگے بڑھاتا جائے تو اُس کا دل ہر وقت پرسکون اور اس کا کام آسان رہے گا۔ وہ بے چاری روحیں جو علم کے صحیح سرچشموں سے محروم ہوتی ہیں وہ لگاتار اپنی راہ اور سمت بدلتی رہیں گی‘ کسی طرح بھی خام خیالی سے چھٹکارا نہیں پا سکیں گی۔ اِس لئے ہر وقت آہ و بکا‘ کرتے کرتے پریشانی اور بد دلی میں ہی کراہتی رہیں گی۔
* * * * *
ہر شخص کی قدرو قیمت کا انحصار اس کی حاصل کردہ تعلیم پر اور اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کی تعلیم میں کون کون سے مضامین شامل تھے اور ان مضامین میں وہ کتنے پانی میں ہے۔ جو شخص اپنے علم کو محض چرچے کے ایک عنصر کی طرح استعمال کرتا ہے اُس کی قدرو قیمت بھی اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ اور وہ جو اپنے علم کو اشیاءاور حوادث کی پہچان کے لیے ایک منشورِ مثلثی(Prism (کے طور پر استعمال کر کے‘ مکان کے سب سے زیادہ اندھیرے گوشوں تک اُس کی روشنی پہنچاتے ہیں ‘اور جو اپنے علم و عرفان کی مدد س پر لگا کر مابعدالطبیعات کی حقیقتوں سے روشناس ہوجاتے ہیں اُن کی قدروقیمت بھی اس کے مطابق زیادہ ہوتی ہے۔
- Created on .