علم اور جہالت
علوم کی کتابوں میں نشان لگا کر اُنہیں کھنگالتے رہنا موجود اشیاءکے بیان کو دھراتے رہنے کے نقطہءنظر سے تو مفید ہو سکتا ہے مگرجہاں تک الہام اور اُس سے نتائج اخذ کرنے کا تعلق ہے یہ سلسلہ بالکل مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اٍس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنے کے ہزاروں نقصان ہیں ۔
* * * * *
علم ہدایت کے لیے ایک اہم رہبر ہے ‘بالخصوص وہ علم جو وحی پر منحصر ہو اوروحی سے ہی پھلا پھولا ہو۔ ایسا علم ارض و سماکو پھلانگنے کی حدود تک پہنچ جاتا ہے اور اسے خاص وقعت حاصل ہو جاتی ہے۔
* * * * *
موجودہ زمانے میں مُوجد اور محقق تربیت کے ذریعے نہیں تیار کیئے جاتے۔ اب ایسے لوگ نقل کے ذریعے تیار ہوجاتے ہیں ۔ اب ایسی روحوں کی ضرورت ہے جو کسی حد تک ہر چیز کو بدلنے کے قابل ہوں ‘ جو ہر شے سے بغاوت کر سکتی ہوں ۔ اب ہر چیز بدل جانے کو ہے۔ کتاب ‘ مکتب‘ دروازے‘ قطاریں سبھی کچھ۔ اب ہر شے کی ابتداءتنقید سے کی جانے کی بنیاد رکھی جاچکی ہے۔
* * * * *
جہالت بدترین دوست ہے۔سب سے وفادار ہمراہی علم ہے۔
* * * * *
علم اور حلم اکٹھے ہو جائےں تو علم سر چکرا دینے والی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔
* * * * *
جاہل کو غصّہ آئے تو وہ چیختا چلاتا ہے۔ عقلمند کو غصّہ آ جائے تووہ اُن اشیاءکے بارے میں اپنا منصوبہ بناتا ہے۔جو اس کام کے لیے لازم ہوتی ہیں ۔
* * * * *
فضیلت کا انحصار تین چیزوں پر ہے:علم‘ حلم‘(نرم مزاجی) اور عبادت۔
* * * * *
اگر علم عمل کامبنع نہیں بن سکتا تو اس کے مقدر میں خشک ہو جانا ہی لکھا گیا ہے۔
* * * * *
علمی انکشافات کے لیے رہبری کرنے کے لیے ایک ضرورت نہایت خورد بین پیشرو ہے۔
* * * * *
سمجھنا اور بات ہے اور جاننا کچھ اور۔ہزار چیزوں کو جاننے سے ایک چیز کو سمجھنا بہتر ہے۔
* * * * *
اپنے آپ کو” میں نہیں جانتا“ کہنے کی عادت ڈالو۔ تا کہ تمہیں کبھی بھی”میں نہیں جانتا “ کہنے کی شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔۔۔۔!
* * * * *
مختلف قسم کے مقابلوں کی طرح اگر غربت کا بھی مقابلہ کرایا جا سکتا تو جہالت اس مقابلے میں ضرور بادشاہ بن جاتی۔
- Created on .