راز اور رازداری
بھید طاقت کا ایک ایسا سرچشمہ ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا‘ اور ایک ایسی فوج کی طرح ہے جِسے شکست نہیں دی جا سکتی۔
* * * * *
راز ناموس ہے۔ راز کی حفاظت کرنے والاناموس کی حفاظت کرتا ہے‘ خواہ راز اس کا ذاتی ہو یا کسی اور کا ۔راز فاش کرنے والا اپنے شرف اور حیثیت کو سرِ عام چھوڑ کر اُن کی کما حقہ‘ حفاظت نہ کرنے والا تصوّر کیا جاتا ہے۔
* * * * *
بعض کاموں میں راز حضرت خضر سے مشابہت رکھتا ہے۔ وہ یوں کہ جب تک عیاں نہ ہو عنائت سمجھا جاتا ہے۔
خاموشی بھی ایک حکمت ہے لیکن اس کے حکیم یا بہت کم ہیں یا پھر بالکل ہی نہیں ہیں ۔
* * * * *
انسان اپنا راز جس شخص کے سپرد کرتا ہے وہ شخص اتنا امین ہونا چاہیے کہ اُس کے پاس ناموس امانت کے طور پر رکھی جا سکے۔اور اس کی حفاظت کرنے کے بارے میں وہ اتنا حسّاس ہونا چاہیے جتنا خود اپنی ناموس کی حفاظت کے لئے محتاط ہوتا ہے۔اِمانت کسی ایسے ناقابلِ اعتبارشخص کے سپرد نہیں کرنی چاہیے جو امین نہ ہو اورراز ایسے شخص کے سپرد نہیں کرنا چاہیے جو راز کو ناموس نہ سمجھے۔
* * * * *
اپنی زبان کو قید میں رکھنے والاالفاظ کی قید میں پھنسنے سے بچارہتا ہے۔
* * * * *
بھید رکھنا اور دوسروں کے بھیدوں کی پاسداری کرنا ایک ایسی ا نسانی خوبی ہے جس کا تعلق سوفی صد اِرادے اور ادراک سے ہے۔جس طرح اُن لوگوں سے رازداری کی امید نہیں کی جاتی جن میں قوتِ ارادی کا فقدان ہو‘ اسی طرح کبھی یہ بھی نہیں سوچا جاسکتا کہ جو لوگ اتنے سادہ لوح ہوں کہ اپنے کاموں اور اپنی باتوں کو ہی نہ سمجھ سکیں ‘ وہ راز چھپا سکتے ہوں ۔
* * * * *
اگر کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو رازدان بناتا ہے جوپہلے ہی سپرد کردہ کئی راز فاش کر چکا ہو تو یہ ایسے انسان کو رازداں بنانے والے شخص کی ناسمجھی یا بھیدی کے انتخاب میں اُس کی نا اہلی کی علامت ہے ۔ جس شخص نے اپنے دل میں اچھی طرح بٹھا لیا ہواوراس کی آنکھیں کھل چکی ہوں ‘ اُسے زندگی بھر یوں نہ تو دھوکاکھانا چاہیے اور نہ ہی گمراہ ہونا چاہیے!
* * * * *
اگر انسان کسی ایسی صورتِ حال سے دوچار ہو جہاں راز فاش کرناضروری ہو جائے تو اُسے چاہئیے کہ وہ جو کچھ جانتا ہے بتا دے۔مگر خواہ مخواہ دل کا ڈھکنا کھول کرراز فاش کرنے سے ہر حالت میں گریز کرنا چاہیے۔ یہ بات دل سے ہرگز نہیں نکالنی چاہئیے کہ ایک دن آئے گاجب ہر جگہ بے دریغی سے دل کے سارے راز بکھیرتے پھرنے والے لوگ خودکو بھی اوراس معاشرے کو بھی جس میں وہ رہتے ہیں ‘ موت کے منہ کی طرف گھسیٹ کر لے جائیں گے اور انہیں کوئی اس سے بچا نہیں سکے گا۔
* * * * *
انسان کو چاہیے کہ اپنی خفیہ باتوں کو اٍدھر اُدھر فاش ہونے سے بچانے کے لئیے خاص احتیاط برتے۔خاص طور پراگر یہ باتیں معیوب یا غیر دلکش ہوں ‘ یا نتیجے کے اعتبار سے بے فائدہ ہوں تو۔۔۔ کیوں کہ ایسی حالت اکثر ایسی صورتِ حال پیدا کر دیتی ہے جو دوستوں کی شرمندگی اور دشمنوں کے مذاق کا باعث بن سکتی ہے۔
* * * * *
سینے اس لئیے بنائے گئے ہیں کہ وہ راز رکھنے کے لئیے ایک صندوقچے کا کام دیں ۔عقل ان صندوقچوں کا تالا اور قوتِ ارادی ان کی کنجی ہے ۔جب تک اس تالے اور کنجی میں کوئی نقص نہیں پڑتا تب تک صندوقچے کے اندر پڑے جواہرات تک کسی کی رسائی کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔
* * * * *
جو شخص دوسروں کے رازتمھارے پاس لاتا ہے وہ تمھارے راز بھی دوسروں تک لے جا سکتا ہے۔ اس لئےے ایسے بے اعتبار لوگوں کو ہر گز ایسا موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ ہماری بالکل غیر اہم خصوصیات سے بھی واقف ہو سکیں ۔
* * * * *
احمق کا دل اُس کی زبان کی نوک پر ہوتا ہے اور عقلمند کی زبان اُس کے سینے کے سب سے پچھلے برج میں ہوتی ہے۔
* * * * *
احمق کو رازدان بنانے سے بچنا لازم ہے۔ اِرادتاََ بدی کرنے کے علاوہ وہ بعض اوقات نیکی کرنے کا سوچتے سوچتے بھی بدی کر جاتا ہے۔
* * * * *
بعض رازصرف ایک شخص کی ‘ بعض ایک خاندان کی اور بعض پورے معاشرے اور قوم کی دلچسپی کے ہوتے ہیں ۔ایک انفرادی راز فاش ہو تو شخصی حیثیت‘ ایک عائلی راز منظرِ عام پر آ جائے تو عائلی حیثیت‘ اور معاشرے کے کسی بھید کے فاش ہونے سے قومی حیثیت سے دوسروں کو کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ راز جب تک سینے میں رہتا ہے صاحبِ راز کے لئیے طاقت کا کام دیتا ہے۔ مگر جب دوسروں کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ ایک ایسا ہتھیار بن جاتا ہے جو صاحبِ راز کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے کہا ہے:” تیر ا راز تیرا اسیر ہے۔ فاش کرتے تو تم اُس کے اسیر بن جاتے ہو۔“
* * * * *
اصولاََ بہت سے گراں قدر کام کسی خاص راز کو حاصل کیے بغیر سر انجام نہیں دئیے جا سکتے۔ اگراس بھیدسے واقف افراد اِسے فاش ہونے سے بچائے رکھیں تو اوروں کے لئیے اس کام کے ایفا میں ایک قدم آگے بڑھانا بھی نا ممکن ہو جاتا ہے۔یہاں تک کہ ایسے راز کا فاش ہوجانا بعض اوقات سرمایہ کاروں کے لئیے شدیدخطرے کا باعث بن جاتا ہے۔ خاص کر جب متعلقہ کام کا تعلق کسی ایسے نازک موضوع سے ہو جس پر قوم کی حیات و بقا کا دارومدار ہوتا ہے۔۔۔۔!
* * * * *
کسی ریاست نے اپنے ملکی بھید اپنے دشمن کے ہاتھوں میں جانے دئیے۔ مثلاََ ایک فوج نے اپنی ساری جنگی حکمتِ عملی اپنی دشمن کی فوج کے آگے کھول کر رکھ دی۔ اب اگر اپنے یہ راز کھو دینے والا ملک اپنے لئیے خواہ کتنا ہی کارآمدمردِ عمل کیوں نہ ڈھونڈ نکالے‘ اِس ملک کے سنبھل جانے‘ اِس کی فوج کے فتح حاصل کرنے اور اس کے مردِ عمل کے کامیابی حاصل کرنے کا قطعاََکوئی امکان باقی نہیں رہتا۔
- Created on .