گناہ اور تلافیئِ گناہ
اگر گناہ فطرت کے چہرے پر ایک بدنما دھبہ ہے تو توبہ اور ندامت دوبارہ فطرت کی طرف پلٹ جانے کا نام ہے۔
* * * * *
دل میں جو زنگ گناہ چھوڑ جاتا ہے وہ جسم پر مسلط ہو جانے والے ایک وائرس کی طرح ہوتاہے جو جلد یا بدیر اپنی موجودگی کو محسوس کروا لیتا ہے۔
* * * * *
موت کے بارے میں نہ سوچنا دل کو زنگ لگ جانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔اور موت کا ڈر ایمان کی کمی کی وجہ سے ہے۔
* * * * *
سوُئے زن عقل کی بیماری ہے یا دل کی گندگی۔اس سے چھٹکارے کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کے بارے میں ہوش سے کام لے۔
لاپرواہی کے نتیجے میں ہم جن گڑھوں میں جا گرتے ہیں اُن سے نکلنے کا واحد ذریعہ اپنی لاپرواہیوں کی تلافی ہے۔
* * * * *
اگر تیری رہائش گاہ بلّور کی ہے تو دوسروں کی مرغیوں کے دڑبے پر پتھر نہ پھینک!
* * * * *
جو شخص دوسروں کے عیب گننے میں مشغول رہتا ہے وہ خود بھی ساری زندگی عیبوں ہی کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔
* * * * *
کہتے ہیں ”نہ کوئی ایسا دلیر انسان ہے جو گھوڑے سے کبھی نہ گِرا ہو‘ اور نہ ہی کوئی ایسا گھوڑا ہے جو کبھی بِدکا نہ ہو۔“اہم بات یہ ہے کہ انسان گرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہو اور اپنے آپ میں آ جائے۔
* * * * *
”کل کروں گا“کی سوچ ارادے کے فقدان کی ایک دوسری شکل ہے۔
* * * * *
بڑے بڑے گناہ شہوت کے جنگل میں پروان چڑھتے اور بڑھتے ہیں ۔۔۔ شہوت پر حکومت سب سے بڑی حکومت ہے۔
* * * * *
گناہ کے بارے میں لا پرواہی سب سے بڑا گناہ ہے۔
* * * * *
درخت اگر سوکھا نہیں ہے تو اسے بہار کا احساس ہو جاتا ہے۔
* * * * *
تجھ پر اگر اللہ کا قہر نازل نہیں ہوا تو آپے سے باہر نہ ہو۔ یہ سوچ کر کانپ جا کہ اللہ مہلت بھی دیتا ہے۔
* * * * *
حقیقی مومن وہ ہے جس کا رابطہ ہر لمحے اللہ(جلِّ جلا لہ‘) کے ساتھ رہے۔گناہ وہ ضرر رساں شرارے ہیں جو اس ارتباط کو کاٹ دیتے ہیں ۔
- Created on .