تم عورتوں کو مارنے کے ارشادِنبوی پر کیسے عملدرآمد کرتے ہو؟
عورتوں کو مارنے سے متعلق کوئی بھی ارشادِنبوی موجود نہیں۔رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو کچھ ارشاد فرمایا تھا وہ سب کو معلوم ہے،البتہ اس سوال کا تعلق درج ذیل آیت مبارکہ سے ہے: ﴿وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً﴾(النساء:۳۴)‘‘اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی اور بدخوئی کرنے لگی ہیں تو پہلے ان کو زبانی سمجھاؤ۔اگر نہ سمجھیں تو پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو۔اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو پھراگر تمہارا کہنا مان لیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانا مت ڈھونڈو۔ بیشک اللہ بہت اونچا ہے بڑا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں مردوں کو درج ذیل ہدایات دی گئی ہیں:
اول: نافرمان، درشت مزاج اور متکبر عورتوں کو سب سے پہلے مردسمجھائیں۔ جب تک عورتیں تمہارے ساتھ رہیں،تمہارا کہا مانیں اور تمہاری نسل کے جاری رہنے کا ذریعہ بنیں اس وقت تک ان کی صحیح راہنمائی کرنا، انہیں نصیحت کرنا اور مناسب انسانی رویے اپنانے میں ان کی مدد کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ممکن ہے ان میں کچھ کمزوریاں ہوں یا ان کے بعض رویے تمہیں پسند نہ آئیں،ایسی صورت میں تمہیں ان کی مدد کر کے ان کی درست راستے کی طرف راہنمائی کرنی چاہیے۔بعض اوقات وہ اپنے حسن و جمال کا ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں،لیکن تمہارا اولین فرض ان میں اللہ تعالیٰ کی نگرانی کا شعور پیدا کرنا ہے۔یہ ( فَعِظُوہُن) کی مختصر وضاحت ہے۔
دوم: خوابگاہ وہ جگہ ہے،جسے بعض عورتیں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور مرد پر حکمرانی قائم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔اگر عورت خوابگاہ میں اپنے اس مقصد کو پانے میں کامیاب ہو جائے اور مرد کو اپنا غلام بنا لے تو ایسے شخص کو دیگر معاملات میں اپنی بیوی سے اطاعت و فرمانبرداری کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔اس کے برعکس اگر اس میدان میں جو کہ عورت کا میدان سمجھا جاتا ہے،مرد اپنے ارادے کو استعمال کرے، سر تسلیم خم نہ کرے اور عورت کے ہاتھوں میں کھلونا نہ بنے تو اس کے لیے نفسیاتی طور پر عورت پر اپنی سیادت قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آداب اور رازداری کا خیال رکھا جائے تاکہ گھر یا باہر کے کسی فرد کو اس کا علم نہ ہو سکے۔یہ انتہائی حساس معاملہ ہے،اس لیے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے تاکہ فریقین کی مرضی کے مطابق نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
مرد کو چاہیے کہ خوابگاہ کو چھوڑے اور نہ ہی دوسرے بستر پر سوئے،بلکہ اپنی قوتِ ارادی کا مظاہرہ کرنے کے لیے بیوی کی طرف پیٹھ پھیر لینا ہی کافی ہے،اس طرح وہ عورت کا ہتھیار اسی کے خلاف استعمال کر کے اسے اپنا ہتھیار استعمال کرنے کا موقع نہیں دے گا اور عورت کی انا پرستی کے مقابلے میں اپنی شخصیت کا اظہار کر کے زبانِ حال سے اسے پیغام دے گا کہ میں اس سے ہر گز زیر نہ ہوں گا۔
تاہم یہ بات یاد رہے کہ آیات مبارکہ میں ان مراحل کا تذکرہ مخصوص ترتیب اور تسلسل سے ہے۔اگرچہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ’’واو‘‘ مطلق جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے،لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ حرف ترتیب اور تتابع کا فائدہ بھی دیتا ہے،دوسرے لفظوں میں پہلے پند و نصیحت سے کام لینا چاہیے،لیکن اگر یہ بے اثر ثابت ہو تو بیوی سے خوابگاہ میں علیحدگی اختیار کی جائے۔ہمارے نزدیک ارشاد باری تعالیٰ ﴿وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ﴾ کا یہی مطلب ہے۔
سوم: کبھی اوپر ذکر کردہ تمام اقدامات ناکافی ثابت ہوتے ہیں اور عورت کی نافرمانی اور ہٹ دھرمی برقرار رہتی ہے۔ایسی صورت میں یعنی تیسرے مرحلے میں مخصوص شرائط و قیود کے تحت مرد کو عورت پر ہاتھ اٹھانے کا حق حاصل ہوتا ہے،تاہم عورت کو ایسے انداز سے مارنے کی اجازت نہیں،جس سے اسے شدید تکلیف پہنچے۔ ارشاد باری تعالیٰ ﴿وَاضْرِبُوہُنَّ﴾ کا یہی مفہوم ہے۔
اس موضوع پر گفتگو کر تے ہو ئے ان تین مراحل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔انہیں نظر انداز کرنا یا اس کی تائید یا مخالفت کرتے ہوئے صرف مار پر ہی زور دینا حدِاعتدال سے تجاوز ہے،کیونکہ مار کوئی مقررہ اور متعین ضابطہ نہیں ہے۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘اللہ کی بندیوں کو نہ مارا کرو۔’’ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:‘‘ عورتیں اپنے خاوندوں پر شیر ہو گئی ہیں۔’’ یہ سن کر آپ ﷺ نے انہیں مارنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔(۱) کچھ ہی عرصہ بعد رسول اللہ ﷺ کا گھر اپنے خاوندوں کے ہاتھوں پیٹے جانے کی شکایت کرنے والی عورتوں سے بھر گیا۔ ازواجِ مطہرات نے اس معاملے کی اطلاع رسول اللہ ﷺ تک پہنچائی۔رسول اللہ ﷺ یہ جان کر مسجد کی طرف نکلے اور صحابہ کرام کو جمع فرما کر ارشاد فرمایا:‘‘بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر محمد کے گھروالوں کے پاس آئی ہیں۔ایسے لوگ اچھے نہیں ہیں۔’’(۲)
اس طرح رسول اللہ ﷺ نے مسئلے کا حتمی حل پیش فرما دیا،یعنی آپ ﷺ نے ابتدا میں مارنے کی اجازت دے کر شکایت کی راہ ہموار کی اور جب شکایت کی گئی تو مارنے کی ممانعت فرما دی۔مارنے کی ممانعت والی بہت سی احادیث آیت مبارکہ کے اجمال کی تفصیل کرتی ہیں،مثلاً رسول اللہ ﷺ نے ایسے مردوں کے رویے پر جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں اور پھر رات کے وقت جانوروں کی طرح ان پر جا پڑتے ہیں تنقید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:‘‘کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح مارتا ہے اور پھر رات کو اس سے مجامعت کرتا ہے؟’’ ‘‘کیا تم میں سے کسی شخص کو اس بات سے حیا نہیں آتی کہ وہ دن کے آغاز میں اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح مارتا ہے اور پھر دن کے اختتام پر اس سے ہم بستری کرتا ہے؟‘‘
جب کوئی اور چارہ کار نہ رہے اور پہلے دو اقدامات بے اثر ثابت ہوں تو مار کو آخری علاج اور استثنائی صورت کے طور پر صرف ایسی عورتوں کے بارے میں اختیار کیا جا سکتا ہے،جو اپنی فطرت اور مزاج کی وجہ سے مار کے بغیر ٹھیک نہیں ہوتیں، اسی طرح ضروری ہے کہ مارپیٹ عورت کے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ نہ ہو، اسی لیے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ‘‘چہرے پر مارنے سے بچو۔’’کیونکہ چہرہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا آئینہ دار ہے۔اس کے بعض خطوط اس حقیقت کے عکاس ہیں، لہٰذا چہرے پر مارنے سے بچنا ضروری ہے۔دراصل مارنے کا مقصد بیوی میں عظمت اور عزت کے جذبات پیدا کر کے اس میں تحریک پیدا کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کم سے کم وسائل کا استعمال ضروری ہے۔یہ تحریر لکھتے وقت میری عمر ترپن سال ہو چکی ہے،لیکن اس کے باوجود مجھے آج تک یاد ہے کہ پرائمری کی ایک استانی نے کیسے میرے کان سے پکڑ کر مجھے کہا تھا:‘‘تم ایسے ہو؟’’ جب بھی مجھے یہ واقعہ یاد آتا ہے تو مجھے یہ نصیحت بھی یاد آجاتی ہے اور میں اس تنبیہ کے نفسیاتی اثر کو اپنے ضمیر پر پڑتا محسوس کرتا ہوں۔
بیوی کی اصلاح اور درستی کے لیے مار پیٹ کو آخری چارہ کار کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے، نیز اس سے عورت کو ایذا نہیں ہونی چاہیے۔یہ بھی یاد رہے کہ اگر مردوں نے مارنے میں حد سے تجاوز کیا یا مار نے میں ان کے پیش نظر اصلاح کے سوا کوئی اور مقصد ہوا تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے جوابدہ ہوں گے۔
جس طرح ہم عورت کی اصلاح اور درستی کی امید سے پندونصیحت اور عمدہ گفتگو سے کام لیتے ہیں اور اس کی عزتِ نفس کو مجروح کیے بغیر محض اس کی اصلاح کی غرض سے خوابگاہ میں اس سے علیحدگی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں،اسی طرح اگر معمولی سی مارپیٹ اس کی اصلاح کے لیے ضروری ہو تو ہم اسے بھی استعمال کر سکتے ہیں،لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر وہ ہم سے کسی معاملے میں اختلاف کرے یا کسی بات سے انکار کرے تو ہم جانوروں کی طرح اسے مارنے لگیں۔یہ درشت،بے مقصد اور جاہلانہ عمل ہے،جس پر انسان سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سخت بازپرس ہوگی۔یہ بات تربیت کی تمام صورتوں پر صادق آتی ہے۔استاد اپنے شاگرد کو اصلاح یا ادب سکھانے کے سوا کسی اور غرض سے نہیں مار سکتا،ورنہ وہ جوابدہ ہوگا۔
اب میں پوچھتا ہوں کہ پندونصیحت اور علیحدگی کے تمام اقدامات کی ناکامی کے بعد تجربے کی روشنی میں آخری چارہ کار کے طور پر مارپیٹ کو کس فہم و دانش کی بنیاد پر ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے؟ فرض کریں اگر سو میں سے ایک عورت کی اصلاح مارپیٹ کے ذریعے ممکن ہو تو اسلام اصلاح کے اس اسلوب کو کیوں ممنوع قرار دے؟ یہ بھی اصلاح اور تربیت کا ایک طریقہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مخصوص شرائط کے تحت مارنے کی اجازت دی ہے۔آپ ﷺ نے سخت مارپیٹ سے منع فرما کر عورت کی حسد اور انتقام کے جذبات سے حفاظت فرمائی ہے۔
بعض اوقات اس سلسلے میں یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جب مرد کو نافرمان اور ہٹ دھرم بیوی کو مارنے کا حق حاصل ہے تو عورت کو نافرمان اور ہٹ دھرم خاوند کو مارنے کا حق کیوں نہیں حاصل؟
آیت کریمہ کی رو سے مرد عورتوں پر قوّام ہیں اور اس قوّامیّت کا مدار اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ برتری پر ہے۔مرد کو عورت پر کئی پہلوؤں سے برتری حاصل ہے، تاہم اس برتری کو ایک جسم کے مختلف اجزاء کی ایک دوسرے پر فوقیت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے،مثلاً اگر مرد کو آنکھ کی حیثیت حاصل ہے تو عورت کو کان کا مقام حاصل ہے اور اگر مرد کو دماغ کا مقام حاصل ہے تو عورت کو دل کی حیثیت حاصل ہے، حاصل یہ کہ دونوں کے درمیان گہرا رشتہ ہے۔دل کے خون کو پمپ کرنے پر دماغ کی زندگی موقوف ہے اور دماغ کی کسی شریان کے پھٹنے سے دل کی موت واقع ہو جاتی ہے۔دونوں اعضا کی زندگی کا ایک دوسرے پرانحصار ہے۔ اگرچہ وہ دو مختلف اعضاء ہیں،لیکن ان کا تعلق ایک ہی جسم کے ساتھ ہے،تاہم اگر ہم اس موضوع پرمجموعی حیثیت سے نظر ڈالیں تو ہم عورت پر مرد کی برتری کا انکار نہیں کر سکتے۔
مرد پورا سال بھرپور نشاط کے سا تھ گزارتا ہے اور مشکل ترین کام سرانجام دیتا ہے۔وہ جسمانی اور نفسیاتی ہر دو لحاظ سے عورت سے زیادہ طاقتور ہے۔ مشکل ترین کام مغرب میں بھی مردوں کے ہی سپرد کئے جاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ کانوں کے کارکن ہمیشہ مرد ہوتے ہیں۔ دوسری طرف عورت اپنے طبیعی تقاضوں کی وجہ سے ہر ماہ کے کچھ ایام حالت حیض میں گزارتی ہے اور نفاس کی حالت میں تو تقریباً دو ماہ بستر پر گزارتی ہے۔وہ جسمانی طاقت اور قوتِ ارادی کے لحاظ سے بھی مرد کی بہ نسبت کمزور ہوتی ہے اور ہر وقت ہر قسم کی معاشرتی محفلوں میں شرکت نہیں کر سکتی،نیز اپنی قیمتی ترین متاع کھونے کی صورت میں معاشرے کے افراد سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتی،اس لیے اس کے لئے شدید احتیاط کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔وہ بغیر محرم کے طویل سفر نہیں کر سکتی۔
اگر ہم ان امور اور دیگر امور جن کے معروف ہونے کی وجہ سے انہیں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں،کو پیش نظر رکھیں تو مرد کی عورت پر برتری ناقابل انکار حقیقت بن کر سامنے آتی ہے،لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے کو ان دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔چونکہ عورت میں رحمت و شفقت اور حساس مزاجی زیادہ ہوتی ہے،اس لیے بچوں کی پرورش اسے سونپی گئی ہے،جو باپ کے بس کی بات نہیں،لیکن دوسری طرف مرد میں خارجی حالات کے دباؤ کو برداشت کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اسے مشکل ترین کاموں کو سرانجام دینے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔
جب بچہ رات کو رونے لگتا ہے تو بعض اوقات باپ بیڈروم چھوڑ کر کسی دوسرے کمرے میں جانے پر مجبور ہو جاتا ہے،لیکن ماں دوڑ کر بچے کے کمرے میں جاتی ہے اور صبح تک اس کے ساتھ رہتی ہے،کیونکہ اس کے دل میں بچے کی ناقابل بیان حد تک محبت ہوتی ہے۔ایک افسانوی قصہ مشہور ہے کہ کسی بیٹے نے اپنی ماں کو ذبح کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔جب وہ اس کے دل کو کاٹنے لگا تو اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا اور اس کے منہ سے بے اختیار ’’ہائے امی!‘‘ نکلا جسے سن کر ماں کے دل نے پکارا: ‘‘جی میرے بیٹے!’’ اگرچہ یہ فرضی قصہ ہے،لیکن ماں کی محبت پر خوب اچھی طرح روشنی ڈالتا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی ایسا وحشی شخص اپنی ماں پر ظلم و ستم ڈھائے اور پھر کسی مشکل میں گرفتار ہو جائے تو اس کی ماں سب سے پہلے اس کی مدد کو آئے گی اور اس کی حمایت کرے گی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جذبات کے معاملے میں عورت کو مرد پر سبقت حاصل ہے اور اگر اس سبقت سے صحیح مصرف میں کام لیا جائے تو یہ خیرکثیر کا باعث بنتی ہے۔
عورت ہی نئی نسل کی تربیت کرتی ہے۔اچھی تعلیم و تربیت اسے انسانیت کی معراج پر پہنچا دیتی ہے۔مرد تو زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارتا ہے،جبکہ عورت صبح سے شام تک اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنے میں مصروف رہتی ہے۔مائیں ہی ہیروؤں، عظیم ہستیوں اور انسانیت کے لیے قابل فخر شخصیات کی تربیت کرتی ہیں۔اگر مرد اور عورت اپنی اپنی امتیازی خصوصیات اور صلاحیتوں کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیں تو گھر دنیا میں ہی جنت کا نمونہ پیش کر سکتا ہے۔
مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں،یہی وجہ تھی کہ جنت جس میں ہر چیز کامل ترین صورت میں موجود تھی،میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تکمیل کے فوراً بعد ان کی خاطر اماں حواء کو پیدا کیا گیا۔اگر اماں حواء کی تخلیق پہلے ہوتی تو ان کی خاطر حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا جاتا،کیونکہ ان میں سے کسی ایک کے لیے دوسرے سے استغناء ممکن نہ تھا۔عورت گھر کے اندر کے کام سرانجام دیتی ہے اور مرد باہر کے۔جس طرح مرد کی ذمہ داریاں بعض پہلوؤں سے دشوار ہیں،اسی طرح عورت کے بعض فرائض بھی مشکل ہیں، لیکن ‘‘المغانم بحسب المغارم’’(نفع نقصان کی بقدر ہوتا ہے۔) کے اصول پر مبنی مرد کی قوّامیّت اس کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ڈالتی ہے،یہی وجہ ہے کہ بیوی بچوں پر خرچ کرنا اور گھر کے تمام اخراجات اٹھانا مرد کی ذمہ داری ہے۔
عورت کے حمایتیوں(Feminists) کی طرف سے پیش کیے جانے والے حقوقِ نسواں کا نتیجہ عورت کے مقام میں کمی اور اس کی تحقیر و تذلیل کے سوا کچھ نہیں نکلا۔عورت کا مردوں جیسے کام سرانجام دینا سردیوں میں ننگے پھرنے اور گرمیوں میں کوٹ پہننے جیسی احمقانہ حرکت ہے۔عورت اسی وقت تک معزز ہوتی ہے جب تک وہ اپنے صحیح مقام پر رہتی ہے،اسی طرح مرد اسی وقت تک لائق احترام ہوتا ہے جب تک وہ اپنی حدود میں رہتا ہے اور ان سے تجاوز نہیں کرتا۔جو لوگ ان کی جگہوں میں ردوبدل کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کی لعنت کا مستحق قرار دیتے ہیں،کیونکہ ان کا یہ طرزِعمل فطرت سے جنگ کے مترادف ہے۔جس قسم کی بدانتظامی جسم کے اعضاء کے مقامات کو بدلنے مثلاً کان کو گھٹنے، ناک کو پیٹ کے درمیان اور آنکھ کو پاؤں کے نیچے لگانے سے پیدا ہوگی،اسی طرح کی بد انتظامی مرد اور عورت کے اپنی اپنی جگہیں بدلنے سے پیدا ہوگی۔ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ عورت عورت بن کر اور مرد مرد بن کر رہے۔جو لوگ ان کی جگہوں میں تبدیلی لانے کے لیے سرگرم ہیں وہ فطرت کے خلاف جنگ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
(۱) سنن أبی داؤد، النکاح.
(۲) سنن أبی داؤد، النکاح.
- Created on .