دنیا میں ہماری آزمائش کیسے ہوتی ہے؟ وحدت سے یا افتراق سے؟ کیا صحابہ کرام کی بھی ایک دوسرے کے ذریعے آزمائش کی گئی؟

ایک آیت مبارکہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُم بِبَعْض﴾ (الأنعام:۵۳)‘‘اور اسی طرح ہم نے بعض لوگوں کی بعض سے آزمائش کی ہے۔’’ اس سے معلوم ہوتاہے کہ انسانوں کو ایک دوسرے کے ذریعے آزمایا جاتا ہے۔ اس موضوع پر ہم درج ذیل نقاط کی صورت میں روشنی ڈال سکتے ہیں:

اول: انسانوں میں سے ہی بعض افراد کو نبی کی حیثیت سے مبعوث کیا جاتا رہا ہے۔نبی اپنے معاشرے کے لوگوں کے لیے آزمائش ہوتا تھا،یہی صورتحال ہمارے رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت پیش آئی۔اس دور کے بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیاکہ ابوطالب کے یتیم اور فقیر بھتیجے جس کے پیروکاروں میں صاحب حیثیت لوگ بھی شامل نہیں کو کیوں نبی بنا کر بھیجا گیا؟اگر کسی نبی کی بعثت ناگزیر تھی تو طائف کے مسعودبن عروہ یا مکہ کے ولیدبن مغیرہ کو نبی بناکر بھیجا جاتا،نیز اگرچہ قریش ایک ممتاز قبیلہ ہے،لیکن طاقتور ترین قبیلہ نہیں،جبکہ نبی کو طاقتور ترین قبیلے میں مبعوث ہونا چاہیے تاکہ اس کے قبیلے کے لوگ اس کا دفاع اور حفاظت کر سکیں۔انہوں نے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ نبی کو فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔جو شخص ہماری طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے،بھلا وہ نبی کیسے ہو سکتا ہے؟آج بھی بعض ان لوگوں کے لیے اس میں آزمائش کا پہلو ہے،جو یہ کہتے ہیں کہ جس شخص کی نو بیویاں ہوں بھلا وہ نبی کیسے ہو سکتا ہے؟

اوپر ذکر کردہ اعتراضات سے جو بات مجموعی طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے آزمایا جاتا ہے۔اس عالم رنگ و بو میں حضرت انسان کی آمد کا مقصد ہی آزمائش ہے،تاکہ آزمائش کے مرحلے سے گزرنے کے بعد اچھے برے اور کھرے کھوٹے میں تمیز ہو جائے۔صرف اسی صورت میں دنیا کی تخلیق کے مقصد کی تکمیل ہوسکتی ہے۔اگر دنیا میں اس قسم کی آزمائش نہ ہوتی توحضرت ابوبکر صدیق کی ہیرے کی طرح کی روشن شخصیت ابوجہل کی کوئلے کی طرح کی سیاہ شخصیت سے کیسے ممتاز ہوتی؟دوسرے لفظوں میں اگر یہ امتحان نہ ہوتا تو ‘‘حقیقت احمدیہ’’ کا ظہور ہوتا اور نہ ہی وہ خیرہ کن آفتاب کی صورت میں جلوہ گر ہو کر ضیاپاشی کرتی۔

رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے انہیں معدنیات سے تشبیہ دی ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ‘‘دورِجاہلیت کے بہترین لوگ اگر دین کی سمجھ سے بہرہ مند ہو جائیں تو وہ دورِاسلام میں بھی بہترین کہلائیں گے۔’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام لوگوں کے مزاجوں کو پگھلا کر مخصوص مدت کے لیے مخصوص سانچوں میں ڈھال دیتا ہے اور پھر ان کی شخصیتوں کو نکھارنے کے لیے انہیں ان کی روحوں کے ساتھ یک جان کر دیتا ہے،گویا ان کی فطرت میں حقیقت کی طرف جو میلان پنہاں ہوتا ہے اسے عیاں کر دیتا ہے،تاہم معدنیات اپنی خصوصیات کو ہمیشہ برقرار رکھتی ہیں،چنانچہ سونا سونا،چاندی چاندی اور تانبا تانبا ہی رہتا ہے۔فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ یہ معدنیات کھوٹ سے پاک ہو کر صاف ستھری ہو جاتی ہیں،چنانچہ آزمائشیں اور امتحانات ان معدنیات کو کھوٹ اور ملاوٹ سے پاک کر کے صاف کرنے کے طریقے ہیں۔

دوم: شیطان کو جن لوگوں کے گمراہ ہونے کی توقع نہیں ہوتی انہیں گمراہی کا شکار کرنے کے لیے بعض بری چیزوں کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔شیطان کے ہاتھ میں کھلونا بننے والے ایسے لوگوں میں بعض اوقات اچھی خاصی روحانیت کے حامل لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔برائی کو مزین کر کے اور اچھائی کو بدنما اور ناپسندیدہ صورت میں پیش کرنا بسا اوقات معمولی کام دکھائی دیتاہے،لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے اور اس کے نتائج اس قدر تباہ کن ہیں کہ اس کی نسبت شیطان کی طرف بھی کی جاسکتی ہے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شیطان کے لیے ‘‘المزیّن’’(خوبصورت بنا کر پیش کرنے والا) کا نام استعمال کیا ہے۔

نیز ہماری آزمائش کا ایک پہلو وہ مسابقتی جذبات بھی ہیں،جنہیں شیطانی نفوس اور نفسانی خواہشات ہمارے دلوں میں بھڑکاتی ہیں حتی کہ رشک کا احساس جو بظاہر ایک پاکیزہ جذبہ دکھائی دیتا ہے اور لوگوں کو دینی خدمات سرانجام دینے میں مسابقت پر ابھارتا ہے اگر محض منافست کے جذبے میں بدل جائے تو اس میں آزمائش کے پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

مثلاً اگر لوگوں کی ہدایت کے سلسلے میں ایک شخص کی کوششیں کسی دوسرے شخص کی کوششوں کی بہ نسبت زیادہ ثمر آور ثابت ہوں تو اگر مؤخر الذکر شخص اول الذکر شخص سے حسد کرنے لگے تو یہ اس کے لیے آزمائش بن جائے گی۔

اگرچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَإِنَّکَ لَتَہْدِیْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (الشوری:۵۲) ‘‘اور بیشک اے نبی تم سیدھا رستہ دکھاتے ہو۔’’لیکن ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَاءُ﴾(القصص:۵۶) ‘‘اے نبی تم جس کو دوست رکھتے ہو اسے ہدایت نہیں کر سکتے،بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔’’اس سے ثابت ہوتاہے کہ ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔مرشد صرف سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتا اور اس پر روشنی ڈالتا ہے، تاکہ انسانیت اس صراط مستقیم پر چل کر حق سبحانہ و تعالیٰ کو پا لے اور گمراہی سے بچ جائے،لیکن نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور وہی دلوں کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرماتے ہیں۔اس کا کوئی خارجی وجود نہیں،یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ قدرت اور ارادے کے دائرے میں موجود ہے،بلکہ اس کا وجود محض علمی اور اضافی ہے۔

آزمائش کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو فصاحت اور تقریر کا ایسا ملکہ عطا فرماتے ہیں،جس کی بدولت وہ قرآنی حقائق پر بہترین اور خوبصورت انداز میں روشنی ڈالتا ہے۔اسے دیکھ کر کسی اور کو اس سے حسد ہونے لگتا ہے اور وہ حسرت سے کہنے لگتا ہے: ‘‘مجھے بھی اس طرح کی صلاحیت کیوں نہ دی گئی؟’’یہ بھی ایک طرح کی آزمائش ہے،جس کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔

یہ درست ہے کہ تمام رسول اللہ تعالیٰ کے منتخب بندے تھے،لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو دوسروں پر فضیلت عطا کی ہے: ﴿تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْض﴾ (البقرۃ:۲۵۳)‘‘یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔’’ اس آیت مبارکہ سے ہماری اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض رسولوں کو خاص خاص فضائل عطا فرمائے ہیں اور انہیں ایسے مقامات عطا فرمائے ہیں،جن تک دیگر انبیائے کرام کی رسائی نہیں ہوئی،تاہم مجموعی طور پر نبوت ایسی فضیلت ہے کہ دنیا کی کوئی اور فضیلت اس کی ہم پلہ نہیں اور بعض انبیائے کرام میں بعض مخصوص فضائل کے نہ پائے جانے سے ان کی نبوت پر کسی بھی طرح آنچ نہیں آتی۔

حسد اور شکایت کے احساس پر مشتمل‘‘کیوں’’کے سوال کی اور بھی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں: ‘‘میں دعوت کے سلسلے میں اِس سے زیادہ خدمات کیوں نہیں پیش کر سکتا؟’’ ‘‘میں دوسروں کی اِس سے زیادہ مالی مدد کیوں نہیں کر سکتا؟’’ ‘‘اِس سے زیادہ لوگ میری بات کیوں نہیں سنتے؟’’ اس طرح کے سینکڑوں سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔درحقیقت اس قسم کے سوالات مسلمانوں کی وحدت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔اللہ تعالی نے آغاز سے ہی مسلمانوں کو اختلاف کا باعث بننے والے تمام اسباب سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔آیت مبارکہ﴿وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُوا﴾ (الأنفال: ۴۶)‘‘اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ ایسا کرو گے تو تم بزدل ہو جاؤ گے۔’’ میں اس موضوع پرتفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

یہ آیت مبارکہ اہل ایمان کو مخاطب کر کے انہیں تاکید کرتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے مادی یا روحانی اختلافات میں نہ پڑیں،بلکہ مشترکہ نقاط پر متحد رہنے کی کوشش کریں اور مثبت پہلوؤں کے بارے میں بھی اختلاف کرنے سے گریز کریں۔ حسد،منافست اور رشک کو نزاع کا باعث نہ بننے دیں،ورنہ ان کی ہوا اکھڑ جائے گی اور قوت ختم ہو جائے گی۔انفرادی کاموں کے ثمرات انفرادی سطح تک محدود رہتے ہیں، جبکہ جماعتی سطح پر کیے جانے والے کاموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ کا نزول ہوتاہے اور ہر فرد کو پوری جماعت جتنا اجر و ثواب ملتا ہے۔

انفرادی عبادت کا ثواب ہر فرد کو علیحدہ علیحدہ ملتا ہے،لیکن اس کے برعکس اجتماعی عبادت میں دعا کے لیے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرنے،دلوں کے ایک ساتھ دھڑکنے،اجتماعی طور پر مشقت اٹھانے اور ایک ہی چیز کو مل کر مانگنے کے نتیجے میں پوری جماعت پر بھرپور رحمت الہٰیہ کا نزول ہوتا ہے۔یہ بات انفرادی طور پر حاصل نہیں ہو سکتی۔انفرادی جدوجہد سے انسان زیادہ سے زیادہ اپنے کنبے کا سربراہ بن سکتاہے، لیکن اگر پوری جماعت کی صفیں سیدھی ہو جائیں اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں تو پورے معاشرے کی سطح پر ایک مؤثر قوت وجود میں آئے گی اور اس جماعت کے زیر سایہ رہنے والے لاکھوں افراد میں سے ہر ہر فرد اپنے آپ کو اپنی قوم کی طاقت کا نمائندہ تصور کرے گا اور اس طاقت کی بدولت انہیں بیرونی طاقتوں سے تحفظ ملے گا۔ اگر کسی فرد نے اس وحدت اور صف سے نکل کر کوئی انفرادی پناہ گاہ تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس کے سرسے جماعت کا سایہ اٹھ جائے گا اور اس کے اوپر ایک چھوٹی سی چھتری رہ جائے گی۔ایسی صورتحال میں حدیث مبارک ’’جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے۔’’(1) کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے اور جلد ہی قوم کو اس کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔

اگر معاشرے میں بھلائی ہو اور اس کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق مضبوط ہو تو دوسرے معاشرے اس کا احترام کرتے ہیں۔غارِ ثور میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہی صورتحال پیش آئی تھی، لہٰذا اگر ہم دو ہوئے تو تیسرے اللہ تعالیٰ،تین ہوئے تو چوتھے اللہ تعالیٰ،چار ہوئے تو پانچویں اللہ تعالیٰ اور چھ ہوئے تو ساتویں اللہ تعالیٰ ہوں گے ... کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ نصرت کا وعدہ فرمایاہے۔

لیکن اگر ہم نے انفرادی طورپر اپنا اپناکردار ادا کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ کماحقہ تعاون نہ کیا تواللہ تعالیٰ ہمیں اس برکت سے محروم فرما دیں گے،جس سے وہ جماعت کو نوازتے ہیں،دوسرے لفظوں میں ایسی صورتحال میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی معیت اور حمایت حاصل نہ ہوگی۔اگر معاشرے کے افراد صالح ہوں تو ان سے صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے،اللہ تعالیٰ ایسے معاشرے کی مدد فرماتے اور اسے اپنی خصوصی حفاظت اور رحمت میں لے لیتے ہیں،جس کے نتیجے میں فرد کو اپنی مخصوص چھتری کے ذریعے اپنی حفاظت کرنے کے بوجھ سے چھٹکارا مل جاتا ہے،کیونکہ اسے آسمانی امن کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔

بلاشبہ توفیقِ الہٰی کے حصول کے لیے جماعت ایک اہم اور فعال ذریعہ ہے۔اگر کوئی انسان ساری زندگی کہیں گوشہ نشین رہے،اپنے اوقات صوم و صلوٰۃ کی ادائیگی میں صرف کرے،اپنی ساری دولت مساکین پر لٹا دے،حج ادا کرے،حجر اسود پر آنسو بہائے اور مکہ معظمہ یا روضہ شریف میں جہاں نماز کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے نماز ادا کرے تب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ملنے والا اجر و ثواب انفرادی سطح تک ہی رہے گا،لیکن جونہی وہ اپنا ہاتھ جماعت کے ہاتھ میں دے گا اس کے دل میں اس کی قوم جتنی وسعت پیدا ہو جائے گی۔قرآن کریم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کہتاہے: ﴿إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً﴾(النحل: ۱۲۰)‘‘بیشک ابراہیم لوگوں کے امام تھے۔’’گویا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولوالعزمی کی تصویر پیش کرنے کے لیے انہیں ایک فرد کی بجائے پوری قوم کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔

اولوالعزم اور بلند حوصلہ افراد پرمشتمل معاشرے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت و حمایت ہوتی ہے۔اگرچہ اہل ایمان کی ہمتیں عام طور پر بلند ہوتی ہیں، لیکن اکثر اوقات ایک دوسرے کے ذریعے آزمائے جانے کے وقت بہت کم لوگ آزمائش پر پورے اترتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات چھوٹے چھوٹے اور سادہ سے تخمینے خانہ کعبہ جیسے تقدس کی حامل وحدت،اتفاق اور شیرازہ بندی کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں اور یہ صورتحال ہردم متوقع عنایت الہٰیہ کے متوجہ ہونے سے مانع بن جاتی ہے۔

پہلے لوگوں کا کہنا ہے: ‘‘بقدر الکدّ تکتسب المعالی’’ (محنت کی بقدر بلندیاں ملتی ہیں۔) اگرچہ یہ حدیث نبوی نہیں ہے،لیکن جوامع الکلم میں سے ضرور ہے۔اس کا حاصل یہ ہے کہ جس قدر مشقت اٹھائی اور جدوجہد کی جائے گی اسی قدر مادی اور روحانی کامیابیاں نصیب ہوں گی۔کون جانتا ہے کہ ایک بیج کو مٹی سے اپنی کونپل نکالنے کے لیے زیرزمین کس قدر تکلیف اور مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔وہ پھٹتا ہے،زمین کو پھاڑنے کی تکلیف برداشت کرتا ہے اور سورج کی تمازت کا سامنا کرنے کے لیے اپنے اندر استعداد پیدا کرتا ہے۔چونکہ یہ تمام جدوجہد اور مشقتیں وجود اور نئی زندگی حاصل کرنے کی خاطر ہوتی ہیں،اس لیے ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جس قدر ہم پر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور انعامات کی بارش ہوتی ہے اسی قدر ہم پر ذمہ داری کا بوجھ زیادہ ہو جاتاہے۔ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے ہمیں جو عالی مقام عطا فرمایا ہے اس میں ہماری ذاتی قابلیت یا فضیلت کاکچھ بھی دخل نہیں۔ہمیں اسے لطفِ الٰہی سمجھنا چاہیے۔جب بھلائی اور جمال کے مختلف مظاہر کا ہمارے پاس سے گزر ہوتاہے تو وہ ہمارے دروازوں پر دستک دیتے جاتے ہیں،کیونکہ ہمیں ان کی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ضرورت ہے۔ہم خود اس جمال کا مظہر کسی صورت نہیں بن سکتے۔ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جو لطف الٰہی ہمارے سروں پر برستا اور ہمارے سارے وجود میں سرایت کرتا ہے وہ جماعت کی برکت ہے۔کوئی بھی شخص انفرادی طور پر اپنے آپ کو اس کا باعث نہیں قرار دے سکتا۔

سوم: جماعت کے وجود کے لیے مادی مفاد بھی آزمائش کی ایک صورت ہے۔سیاست دانوں کے اختلافات کے پیچھے یہی محرک کارفرما ہوتا ہے۔یہ اختلافات مادی مفادات سے متعلق نزاعات پر مبنی منفی اور تخریبی فکر کا نتیجہ ہوتے ہیں،کیونکہ مخصوص عہدوں پر بہت سے لوگوں کی نظریں جمی ہوتی ہیں اور نہ ختم ہونے والی خواہشات کے بندے اپنے ذاتی مفادات اورمصلحتوں کے پیچھے دوڑتے ہیں،جس کے نتیجے میں اختلاف اور نفاق جنم لیتا ہے اور قوم کی وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے،حالانکہ کسی سے صلے یا شکریے کی توقع رکھے بغیر ہر قسم کی ذمہ داری اور قربانی صرف رضائے الٰہی کے حصول کے لیے پیش کی جانی چاہیے تھی۔اگر ایسا ہو جائے تو اختلافات اور جھگڑوں کا باعث بننے والے مادی مفادات کے امتحان میں بہت سے لوگ سرخرو ہو جائیں۔ہم نے یہ ساری گفتگو وحدت اور شیرازہ بندی سے متعلق سوال کے جواب میں کی ہے،ورنہ انسان کو پیش آنے والی آزمائش کی صورتیں بہت زیادہ ہیں۔ان کی تحدید ممکن نہیں۔چونکہ سوال کا ایک حصہ اس قسم کی آزمائش کے صحابہ کرام کو پیش آنے سے متعلق ہے، اس لیے ہم اس بارے میں بھی کچھ معروضات پیش کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔

صحابہ کرام کے اس قسم کی آزمائش سے مستثنیٰ ہونے کی کوئی وجہ نہیں،چونکہ وہ روحانیت کے بلندترین مقام پر فائز تھے، اس لیے ان کا سخت ترین آزمائشوں میں گرفتار ہونا خصوصاً ان ادوار میں جب امورِ سلطنت چلانے کے طریقِ کار کے بارے میں مختلف اجتہادی آراء سامنے آرہی تھیں امرِلابدی تھا،لیکن آزمائش کی شدت و سختی کے باوجود کسی ایک صحابی نے بھی راہِ حق کی تلاش نہ چھوڑی۔جب ان میں سے کسی کو احساس ہوا کہ وہ حق پر نہیں ہے تو اس نے ایسے حالات میں اپنی تلوار نیام میں ڈال لی جب ایساکرناآسان نہ تھا۔

جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مقابلے کے لیے نکلیں تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور انہیں اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث بھی یاد آگئی چنانچہ وہ اپنے اس اقدام پر سخت نادم ہوئیں اور واپس لوٹ آئیں۔(2)

حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بہادر اور خوددار انسان تھے۔وہ نو برس کی عمر میں اسلام لائے۔ان کا چچا انہیں چٹائی میں لپیٹ کر اسے آگ لگا دیتا اور ان سے اسلام کو چھوڑنے کا مطالبہ کرتا،لیکن یہ ایذارسانی اور تعذیب انہیں کسی بھی چیز سے دستبردار ہونے پر مجبور نہ کر سکی۔ رسول اللہ ﷺ ان کی شجاعت اور خودداری کی طرف توجہ دلانے کے لیے فرمایاکرتے تھے:‘‘ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری ہوتا ہے۔میرا حواری زبیر بن عوام ہے۔ ’’(3)

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔ایک دن رسول اللہ ﷺنے حضرت زبیر بن عوام اور اپنے داماد اور چچازاد بھائی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مدینے کی گلیوں میں اکھٹے جاتے ہوئے دیکھا۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو آپس میں محبت کرنے والے ان نوجوانوں کے مستقبل کے حالات کے بارے میں بتا دیا تھا،اس لیے آپ ﷺ کو علم تھا کہ میرا پھوپھی زادبھائی زبیر ایک دن میرے داماد اور چچازاد بھائی علی کے مدمقابل کھڑا ہو گا،چنانچہ آپ ﷺنے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ‘‘بخدا تم ضرور اس سے ایسی حالت میں لڑو گے کہ تم ظالم ہو گے۔ ’’اس بات پر سالوں گزر گئے اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ بات بالکل بھول گئی۔زمانہ بدل گیا اور ایک دن جنگ جمل میں حضرت زبیر نے اپنے آپ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے آمنے سامنے پایا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:‘‘اے زبیر! میں تمہیں خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں یاد نہیں کہ ایک دفعہ ہم دونوں ایک جگہ جمع تھے کہ رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس سے گزرے اور تم سے فرمایا: ‘‘اے زبیر! کیا تم علی سے محبت نہیں کرتے؟’’تم نے کہا: ‘‘کیا میں اپنے خالہ زاد،پھوپھی زاد اور اپنے ہم مذہب سے محبت نہیں کرتا؟’’ اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ‘‘اے زبیر! ایک دن تم ضرور اس سے ایسی حالت میں جنگ کرو گے کہ تم ظالم ہو گے۔’’ اس پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ‘‘بلاشبہ آپ ﷺنے یہ بات ارشاد فرمائی تھی، لیکن میں اسے بالکل بھول گیا تھا آج مجھے یہ بات یاد آگئی ہے۔بخدا میں تم سے جنگ نہ کروں گا۔’’(4) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی یہ بات حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے سر پر بجلی بن کر گری۔انہیں آپ ﷺ کی کئی سال پہلے کی ارشاد فرمودہ حدیث یاد آگئی اور انہوں نے اپنی تلوار فوراً نیام میں ڈال لی،حضرت علی رضی اللہ عنہ سے گلے ملے اور معافی و درگزر کی درخواست کی۔اس کے بعد وہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور جنگ سے علیحدگی اختیار کرلی،لیکن ایک بدبخت نے پیچھے سے وار کر کے انہیں شہید کر دیا اور ان کا سر کاٹ کر انعام کی امید سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خیمے میں لے آیا۔جب خیمے کے پہرے دار نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو واقعے کی اطلاع دی تو انہوں نے فرمایا: ‘‘حضرت زبیر کے قاتل کو جہنم کی بشارت سنا دو۔میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ‘‘ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری ہوتا ہے۔میرا حواری زبیر ہے۔ ’’(5) حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے پاس سے کوئی بات ارشاد نہ فرماتے تھے،بلکہ وہی بات ارشاد فرماتے جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوتی تھی۔

جیسا کہ آپ نے دیکھا صحابہ کرام کو بھی آزمایاگیا،لیکن ان کی آپس کی لڑائی اجتہاد کی بنیاد پر حق کی خاطر ہوتی تھی اور جب انہیں معلوم ہوتا کہ وہ حق پر نہیں ہیں تو فوراً جنگ چھوڑ کر صلح کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔ان میں سے کسی نے بھی تقدیر پر اعتراض نہیں کیا۔اگر وہ ایسا کرتے تو مصیبت دہری ہو جاتی۔وہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی آزمائش میں مبتلا ہوئے،انہوں نے قرآن کی روشنی میں اپنی فراست کو استعمال کرتے ہوئے حق تک پہنچنے کی کوشش کی۔

ایک دفعہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمررضی اللہ عنہما آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کسی بات پر ناراض ہوگئے اور اٹھ کر چلے گئے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ معذرت کرنے کے لیے ان کے پیچھے پیچھے گئے،لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان کی معذرت قبول نہ کی اور اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا،تاہم تھوڑی ہی دیر بعد انہیں اپنے رویے پر ندامت ہوئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کو واقعے سے آگاہ کیا تاکہ آپ ﷺ اس کا کوئی حل نکالیں۔رسول اللہﷺ نے حاضرین مجلس سے ارشاد فرمایا:‘‘تمہارے یہ ساتھی بھلائی میں سبقت لے گئے ہیں۔‘‘

تھوڑی دیر بعد انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھا تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اپنے طرزِعمل کے بارے میں پوچھیں تاکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان کی گفتگو سے جو تکلیف پہنچی ہے وہ اس سے درگزر فرمائیں۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو غصہ آگیا،جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے:‘‘بخدا یارسول اللہ! زیادتی میری طرف سے ہوئی تھی۔’’اس موقع پر رسول اللہﷺ نے دنیا کو اپنے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقام سے آگاہ کرنے کے لیے فرمایا: ‘‘کیا تم میری خاطر میرے ساتھی کو چھوڑو گے نہیں؟کیا تم میری خاطر میرے ساتھی کو چھوڑو گے نہیں؟جب میں نے کہا تھا: ‘‘اے لوگو! میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم سب کی طرف رسول ہوں تو تم نے میری تکذیب کی،لیکن ابوبکر نے میری تصدیق کی۔ ’’(6)

یہاں ہم جس بات پر زور دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام ہر حال میں حق پر قائم رہتے،اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے،حق کی جستجو میں رہتے،اسے دوسری ہر چیز پر ترجیح دیتے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے۔

حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے چھ ماہ تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی اور ان کے گرد چاہنے والوں کا ایک ایسا حلقہ موجود تھا،جو ان سے خلافت کے مطالبے پر اصرار کا خواہاں تھا۔چھ ماہ کے بعد جبکہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی وفات کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا وہ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور مسجد میں موجود لوگوں سے فرمایا: ‘‘میرے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے چھ ماہ تک رکنے کا باعث ان کی مخالفت تھی اور نہ ہی آج میرے آنے کا سبب کسی قسم کا خوف ہے،بلکہ چونکہ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ خلافت و امارت ان کا حق ہے،اس لیے میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے آگیا ہوں۔‘‘

انسان کو ‘‘الوقاف عندالحق’’ (حق کی شدت سے پاسداری کرنے والا) ہونا چاہیے۔صحابہ کرام حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو ‘‘الوقاف عندالحق’’ (حق کی شدت سے پاسداری کرنے والے) کے الفاظ سے یاد کرتے تھے۔ کسی بھی مسئلے میں وہ اپنی رائے کو اہمیت نہ دیتے تھے،کیونکہ کسی بھی معاملے میں ان کی رائے کی تصحیح کے لیے کسی آیت مبارکہ یا حدیث نبوی کا حوالہ دیا جاتا تو وہ فوراً اپنی ذاتی رائے سے رجوع کرکے حق بات کو قبول فرما لیتے تھے۔

ایک مرتبہ اپنے دورِخلافت میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کو عورتوں کو زیادہ مہر دینے سے منع فرمایا تاکہ نوجوانوں کا بوجھ کم ہو اور ان کے لیے شادی کرنا آسان ہو،لیکن جب وہ منبر سے اترے تو ان سے ایک قریشی خاتون ملی اور کہا:‘‘اے امیرالمؤمنین!اللہ کی کتاب پیروی کی زیادہ حقدار ہے یاآپ کی بات؟’’انہوں نے فرمایا: ‘‘اللہ کی کتاب،لیکن بات کیا ہے؟’’اس خاتون نے کہا:‘‘آپ نے ابھی لوگوں کو عورتوں کو زیادہ مہر دینے سے منع کیا ہے،حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:﴿ وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْئاً﴾(النساء: ۲۰)‘‘اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو اور پہلی عورت کو ڈھیر سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔’’ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے پورے احترام سے اس کی بات سنی۔ اگرچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی نصیحت غلط نہ تھی،لیکن اپنی حساس مزاجی اور ادب کی بنا پر انہوں نے فرمایا: ‘‘ہر ایک عمر سے زیادہ سمجھ دار ہے۔’’یہ کہہ کر وہ واپس منبر پر گئے اور لوگوں سے کہا: ‘‘میں نے تمہیں عورتوں کو زیادہ مہر دینے سے منع کیا تھا،لیکن (میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں)آدمی اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے۔’’(7)

یہ بات نہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دین سے ناواقف تھے،لیکن ان کا حق کے بارے میں ادراک اس قدر گہرا اور اس کے ساتھ تعلق اس قدر مضبوط تھاکہ انہوں نے اس عورت کے سامنے تاویل یا اعتراض کا راستہ اختیار کرنا پسند نہ کیا،بلکہ سادگی سے حق کو قبول کر لیا۔ بڑے بڑے اہم کارنامے ایسی ہی عظیم ہستیوں نے سرانجام دیئے ہیں۔ جس قدر ہم صحابہ کرام جیسے مزاج کو اپنانے کی کوشش کریں گے،اسی قدر اللہ کی توفیق ہمارے شامل حال ہو گی۔ مناسبت علت کے قاعدے سے اگر ایک دور میں ایک مخصوص وزن کو اٹھانے کے لیے مضبوط پٹھوں کی ضرورت ہو تو کسی دوسرے دور میں اس وزن کو اٹھانے کے لیے بھی اتنے ہی مضبوط پٹھے درکار ہوں گے۔کمزور بازؤں کے ذریعے اسے اٹھانا ممکن نہ ہوگا۔جس طرح ایک کلو گرام کا صحیح وزن کرنے کے لیے ترازو کے دوسرے پلڑے میں بھی ایک کلو گرام وزن رکھنا ضروری ہے،اسی طرح جن عظیم حقائق کی فتح یابی کے لیے صحابہ کرام جیسے حضرات درکار تھے،غلبے اور نصرت کے لیے آج بھی ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔کمزور و ناتواں لوگوں کے ہاتھوں ان حقائق کے غلبہ و فتح کی امید کرنا لاحاصل ہے،لہٰذا دشمنوں کی فتنہ انگیز سازشوں کو ناکام بنانے کی خاطر ہمارے لیے صحابہ کرام کی طرح حق کو تھامنے اور یکجہتی اور صف بندی کرنا ناگزیر ہے۔ہمارے جذبات کو عروج پر دیکھ کر ان پر مایوسی کے تاریک بادل چھا جائیں گے، لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے،جب ہم نفس پرستی چھوڑ کر حق کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیں۔ یکجہتی اور مضبوط صف بندی کے حصول کی صرف یہی صورت ہے۔


(1) کنزالعمال، الھندی، ۲؍۸۹.

(2) صحیح ابن حبان،۸؍۲۵۸؛ المستدرک، الحاکم، ۳/۱۲۰؛ دلائل النبوۃ، البیھقی، ۶/۴۱۰.

(3) البخاری، کتاب الجہاد والسیر؛ مسلم، فضائل الصحابۃ.

(4) البدایۃ و النھایۃ، ابن الکثیر، ۷/۲۴۱۔۴۳۲.

(5) المسند الامام أحمد، ۱/۸۹،۱۰۲؛ المعجم الأوسط، الطبرانی، ۷/۱۳۰.

(6) البخاری، تفسیرالقرآن.

(7) کنزالعمال، الھندی،۱۶/ ۵۳۶۔۳۸۵.

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔