کہا جاتا ہے کہ جب انسان مظاہر فطرت کو نہ سمجھ سکا تو اس نے مذہب کا سہارا لیا۔کیا تہذیبی ترقی کے نتیجے میں مذہب کی ضرورت ختم ہو سکتی ہے؟
مذہب سے عداوت رکھنے والے لوگوں کا دعوی ہے کہ انسان نے احساسِ بے مائیگی کی وجہ سے یا اپنی احسان مندی کے اظہار کے لیے مذہبی تصورات کو خود تخلیق کیاہے۔ ان کی باتوں کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
’’کائنات میں پیش آنے والے بہت سے واقعات کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں اور ہم طبیعیات اور کیمیاء کے قوانین کی روشنی میں ان کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکتے۔انسان نے اس معمے کو حل کرنے کے لیے اسے خالق کی طرف منسوب کر دیا،اسی طرح انسان بعض مفید حیوانات کو بھی مقدس سمجھنے لگا اور بعد میں انہیں معبود کا درجہ دے دیا۔ دریائے گنگا اور گائے کا ہندؤں کے ہاں اور دریائے نیل کا مصریوں کے ہاں مقدس سمجھا جانا ان کی نفع رسانی پر مبنی ہے۔
خوف کے بارے میں انسان کا طرز عمل بھی اس سے مختلف نہیں رہا۔بعض اشیاء سے شدید خوف نے ان سے حفاظت کی غرض سے انسان کو ان کی تقدیس پر مجبور کیا۔بعض مذاہب میں خیر اور شر کے لیے علیحدہ علیحدہ معبود ہیں،گویا محبت اور خوف کو ان معبودوں میں بانٹ دیاگیاہے۔جنت اور دوزخ کا تصور بھی یہیں سے نکلا ہے۔مذہب دراصل غم دور کرنے اور تسلی اور دلاسے کا ذریعہ ہے۔ یہ مذہبی لوگوں کی ایجاد اور عوام کی افیون ہے،جس کا وہ نشہ کرتے ہیں ... ‘‘کیا مذہب واقعی مشکل امور کی توجیہہ کرنے،غم دور کرنے،پناہ لینے اور تسلی دینے کے لیے ایجاد کیا گیا ہے؟
ہرگز نہیں،ان کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔‘‘دین’’ عربی زبان کا لفظ ہے،جس کے بہت سے معانی ہیں،جن میں سے بعض معانی اطاعت،بدلہ اور راستہ ہیں۔یہ مفاہیم دین کی تعریف میں شامل ہیں۔وہ راستہ ہے،اس میں اطاعت خداوندی ہے،نیز اس میں اطاعت کرنے والے کو انعام اور نافرمانی کرنے والے کو سزا دی جائے گی۔
دین کی شرعی تعریف حسب ذیل ہے:‘‘یہ ایک ایسا خدائی نظام ہے،جس کے تحت عقل والے اپنے محدود اختیار کو استعمال کرکے خیر بذاتہ کو حاصل کرتے ہیں۔’’(45) دین اہل خرد کو مخاطب کرتا ہے۔انسان اپنے اختیار سے اطاعت بجا لاتا ہے۔دین ارادے کو مفلوج نہیں کرتا،بلکہ اسے اس کا صحیح مقام عطا کرتا ہے۔دین کا راستہ سراسر بھلائی کا راستہ ہے۔یہ محض انسانوں کی بتائی ہوئی بھلائی نہیں،بلکہ حقیقی بھلائی ہے۔
دین سب سے پہلے عقائد کے بارے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے،بعض اوقات انسان اپنی عقل کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ اس کائنات کو کسی نے پیدا کیا ہے،لیکن صحیح اور یقینی ایمان اُس صدائے نبوت کو سننے کے بعد ہی نصیب ہوتا ہے،جو اللہ کی یاد دلانے والی اُس آواز کو سننے کے لیے مستعد اور تیار انسان کے وجدان سے ٹکراتی ہے،نیز جب کوئی نبی آتا ہے تو وہ اپنی نبوت کے دلائل سے لیس ہو کر آتاہے،خصوصاً اگر اس نبی کو قیامت تک معجزانہ اوصاف کی حامل کتاب اور دیگر بہت سے معجزات دے کر بھیجاگیا ہو تو کیا کسی ادنی سے شک و شبے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ایسی نبوت کی برکت سے انسان کو پتا چلتا ہے کہ آخرت،تقدیر اور دیگر ضروری ارکانِ ایمان پر کیسے ایمان لانا ہے۔
عبادت کی برکت سے ایمان مرجھاتا ہے اور نہ پراگندہ ہوتا ہے۔ اس پر بڑھاپا طاری ہوتا ہے اور نہ وہ بوسیدہ ہوتا ہے، بلکہ دلوں میں ہمیشہ تروتازہ رہتا ہے۔عبادت کے بغیر ایمان اپنی نورانیت، رونق، ذوق و شوق اور عشق کھو بیٹھتا ہے،جس کے نتیجے میں انسان کے ہاتھ میں منوں مٹی تلے دبے آباء واجدادکی عظمت پر فخر کرنے کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ وہ ہمیشہ اپنے مشائخ عظام اور علمائے صالحین کے مناقب بیان کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے مناقب کا تذکرہ اچھی بات ہے، خصوصاً آج کل کے دور میں جب آباء و اجداد کو برا بھلا کہنے کا رواج چل پڑا ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں اور نہ ہی ایمان کی بقا اور دوام کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
جن پنج وقتہ نمازوں میں ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں وہ نہ صرف ہمارے ایمان کو تازہ کرتی ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے ہمارے عہد کی تجدید کرکے اسے تقویت بھی پہنچاتی ہیں،تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم نماز کے ہر رکن میں قرآنی آیات کی تلاوت کرتے اور تسبیحات پڑھتے ہوئے ان کے معانی پر غوروفکر کریں،لیکن اگر اِلفت و عادت پڑ جانے کی وجہ سے نماز میں پژمردگی آگئی اور اس کی روح ختم ہوگئی تو فرض تو ادا ہو جائے گا،لیکن اس سے کسی قسم کی برکت حاصل نہ ہوگی۔
اسی لیے ہم ایک عظیم روحانی شخصیت کو دیکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب انہیں سجدے میں نماز کی حلاوت محسوس ہوئی تو پکار اٹھے:‘‘ کاش! مجھے اس جیسی ایک اور نماز نصیب ہو جاتی۔صحابہ کرام کی ساری نمازیں ایسی ہی ہوتی تھیں۔’’انہیں نماز کے ہر رکن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نیا پیغام موصول ہوتا تھا۔ ان کی نمازوں میں اِلفت کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ان کی دیگر عبادات بھی ایسی ہی روحانیت کی حامل ہوتی تھیں،لہٰذا حج کرنے،زکوٰۃ دینے،روزہ رکھنے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ ان عبادات سے اپنے ایمان کو تقویت پہنچانے والی روحانی غذا حاصل کیا کریں۔
دین کا ایک پہلو معاملات سے متعلق بھی ہے۔مومن کی معاشی سرگرمیاں رضائے الٰہی کے مطابق ہونی چاہئیں،جس کی صورت یہ ہے کہ اس کی تجارت کے اصول و مبادی کے لیے معیار قرآن و سنت ہوں۔اس کے نتیجے میں اس کے ایمان کو تقویت ملے گی،کیونکہ ایسے اصولوں پر عمل درآمد صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب خواہشاتِ نفس پر قابو پا کر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور احکام کی اطاعت اختیار کی جائے۔
فرض کریں ایک مسلمان اپنا سامان فروخت کرنا چاہتا ہے۔اگر اس کے مال میں کوئی عیب ہے تو اسے اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔اسے پتا ہے کہ اگر اس نے عیب کا ذکر کیا تو اس کا منافع کم ہوجائے گا یا اسے نقصان اٹھانا پڑے گا،لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی وجہ سے اس کا دل مطمئن ہوگااور جب وہ نماز میں اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہوگا تو یہ سکونِ قلب نماز کی برکات کے حصول میں معاون ثابت ہوگا،جس کے نتیجے میں اس کے ایمان میں تروتازگی آئے گی۔ رضائے الٰہی حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنا وسیلہ اختیار کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے اور رسول اللہﷺنے بھی ان تین لوگوں کے قصے میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے،جو ایک غاز میں محبوس ہوگئے تھے اور انہوں نے وہاں سے نجات پانے کے لیے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا مانگی تھی۔ان میں سے ایک اپنے والدین کا فرمانبردار تھا۔دوسرے نے انتہائی مشکل وقت میں پاکدامنی کامظاہرہ کیا تھا اور تیسرا دوسروں کے حقوق کا خاص خیال رکھتا تھا۔انہوں نے نجات پانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے ان نیک اعمال کے وسیلے سے گڑگڑا کر دعا مانگی،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات دلائی،غار کے دہانے پر گرنے والی چٹان لڑھک گئی اور وہ صحیح سالم باہر نکل آئے۔(46) یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ مسلمان حتی الامکان رسول اللہﷺ جیسے اخلاق اپنانے کی کوشش کرے اور ہر معاملے میں حتی کہ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، سونے اور عبادت کرنے میں بھی آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے،اس لیے اگر لوگ ہمیں ایک سکے کے بدلے ہزار سکے دیں تب بھی ہمارے لیے اس سے بچنا ضروری ہے،بلکہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں کے مقابلے میں ہمیں یہی موقف اختیار کرنا چاہیے،کیونکہ قیامت کے دن وہ ہمارے لیے بھڑکتی ہوئی آگ میں تبدیل ہو جائیں گے۔
حاصل یہ کہ دین تجزی اور تقسیم کو قبول نہ کرنے والے ایک مکمل نظام سے عبارت ہے،دوسرے لفظوں میں تجزی اور تقسیم کو قبول کرنے والی چیز دین نہیں کہلا سکتی۔دین ایک قدآور درخت کی مانند ہے۔عقائد اس کی جڑیں ہیں۔عبادات وغیرہ اس کی شاخیں ہیں۔معاملات اس کے پھول ہیں۔تعزیرات اس کی پہرے دار ہیں اور اذکار و اوراداسے آسمان اور زمین دونوں طرف سے غذا مہیا کرنے والے عناصر ہیں۔ دین ایک مکمل نظام کی حیثیت سے نبی اکرمﷺ کے ذریعے سے پہنچایاگیا انسانیت کے لئے خدائی عطیہ ہے۔
یہ ممکن تھا کہ ہر انسان کا وجدان اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر اس سے بغیر کسی واسطہ کے براہ راست دین کی روح حاصل کرلیتا،لیکن چونکہ تمام انسانوں کی روحیں مطلوبہ پاکیزگی کی حامل نہیں ہوتیں،اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے اپنے بندوں میں سے انبیائے کرام کا انتخاب فرمایا:﴿اللَّہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَئِکَۃِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ﴾(الحج:۷۵) ‘‘اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔بیشک اللہ دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لیے ملائکہ اور انسانوں میں سے،جسے چاہتے ہیں منتخب فرماتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ تک پیغام رسالت پہنچانے کے لیے اپنی تخلیق کے دن سے رکوع و سجود اور تسبیح میں مصروف بے شمار ملائکہ میں سے حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کاانتخاب فرمایا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے تئیس سال تک رسول اللہ ﷺکے پاس وحی لانے کی خدمات سر انجام دیں۔ رسول اللہ ﷺہمہ تن گوش ہو کر انتہائی احترام کے ساتھ وحی سنتے۔اس دوران آپﷺاور جبرائیل امین علیہ السلام کے درمیان اس قدر گہرے دوستانہ مراسم قائم ہوگئے کہ جب جبرائیل علیہ السلام آخری مرتبہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ پر وفورِ جذبات سے گریہ طاری ہوگیا۔اللہ تعالیٰ فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لیے ایسی ہستیوں کا انتخاب فرماتے تھے۔
دوسرے انبیائے کرام کا انتخاب بھی اسی انداز سے افضل ترین اور ادائے رسالت کے لیے موزوں ترین افراد میں سے ہوتا تھا۔وہ سب کے سب کندن تھے۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ منتخب ہستی تھے،اسی طرح آپ ﷺ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے والے صحابہ کرام بھی بہترین انتخاب تھے۔دین ایسی ہی سنہری کڑیوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے۔
جس طرح رسول اللہ ﷺنے تبلیغِ دین کی خاطر مختلف قسم کی تکلیفیں اٹھائیں،اسی طرح دوسرے انبیائے کرام نے بھی طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیں اور ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کیا۔انہوں نے یہ سب کچھ کسی دنیوی غرض سے نہیں کیا،بلکہ اگر رسول اللہ ﷺاپنی دعوت سے دستبردار ہو جاتے تو انتہائی مالدار بن جاتے،دنیا کی ہر نعمت و آسائش پا لیتے،خوب صورت ترین عورت سے شادی کر لیتے اور مکہ کے رؤساء میں شمار ہوتے،لیکن نبوت کے سامنے ان چیزوں کی کیا حیثیت تھی؟
رسول اللہ ﷺ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی اور اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے ستاروں کو آپ کے راستے میں فرشِ راہ بنایا گیا،لیکن آپ ﷺ وہاں ایسا حسن وجمال دیکھنے کے بعد جسے آپ سے پہلے کسی نے دیکھا تھا اور نہ آپ کے بعد کوئی دیکھے گا،اپنی امت کو بام عروج پر لے جانے کے لیے واپس تشریف لے آئے۔اس قدر حسن و جمال کا مشاہدہ کرنے اور اس قدر قرب کی لذت کا مزا چکھنے کے بعد ان مقامات کو کون چھوڑ سکتا ہے؟لیکن آپ ﷺ اس دنیا کی طرف لوٹ آئے جہاں لوگ آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے،آپ پر گندگی پھینکتے اور آپ پر سنگ باری کرکے آپ کو لہولہان کر دیتے۔آپ اس شہر کی طرف لوٹ آئے جس میں آپ کا مذاق اڑایا جاتا اور آپ سے انتہائی اہانت آمیز سلوک کیا جاتا۔اپنی دعوت اور فریضہ رسالت کی ادائیگی کی خاطر ان تمام مصائب کو برداشت کرنے سے آپ ﷺکا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہ تھا۔جس انسان کے دل کو جنت کے حسین مناظر بھی اپنا اسیر نہ بنا سکے اور اس نے اپنی امت کے پاس واپس آنے کو ترجیح دی وہ مفاد پرست انسان ہوسکتا ہے اور نہ ہی مصلحت پسند۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز ہیں۔انہیں ہماری عبادت کی کوئی ضرورت نہیں،لیکن ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ ہم اس کی بندگی کریں۔جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کے لیے ساری مخلوق میں سے منتخب فرمایا،اسے متوازن زندگی گزارنے کی تعلیم دینے کے لیے قرآن کریم میں بیان کردہ طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیا،دوسرے لفطوں میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا نظام خود نہ چلا سکنے کے باعث اور غلط راستوں پر بھٹکنے سے بچانے کے لیے ہم پر اپنا فضل فرمایا اور دین کی صورت میں ایک نورانی طرزِ زندگی کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے آپ کو خدائی تعلیمات اور معیاروں کے مطابق ڈھالنے اور اپنے من میں پوشیدہ تمام صلاحیتوں کو اعلیٰ مراتب کے حصول کے لیے بروئے کار لانے کا حکم دیا۔
بلاشبہ ہمیں دین کی ضرورت ہے۔اگر انسان کو اپنی حقیقی ضروریات کا علم اور اس بات کا احساس ہو جائے کہ اس کی تخلیق صرف ابدی سعادت کو پانے کے لیے ہوئی ہے اور اگر وہ اپنی تمام صلاحیتوں اور قابلیتوں کو استعمال اور ان میں اضافہ کر سکے تو وہ درج ذیل الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے گا:‘‘اے ہمارے پروردگار! ہمیں ایک ایسا نظام حیات دیجئے،جس کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھال کر ٹھوکریں کھانے اور غلط راستوں پر بھٹکنے سے بچ سکیں اور ہمیں ایسے پُرپیچ راستوں پر سرگرداں پھرنے سے بچائے،جن کی کوئی منزل نہیں۔‘‘
بڑے بڑے فلسفیوں اور اہل خرد کو بھی اس راہ میں ٹھوکریں کھانی پڑیں اور وہ کبھی بھی حقیقت کو نہ پاسکے،جبکہ رسول اللہ ﷺ کے نقشِ پا کی پیروی کرنے والا انسان ایک قدم بھی بے مقصد نہیں اٹھاتا،بلکہ زندگی کا ہر لمحہ خود آگہی کے ساتھ دوسروں کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے گزارتا ہے،کیونکہ وہ رضائے الٰہی کی تلاش میں رہتا ہے اور رسول اللہﷺ کی اسوۂ حسنہ ہونے کی حیثیت سے پیروی کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی عمر کے سرمائے کے ہر لمحے سے اس بیج کی مانند فائدہ اٹھاتا ہے،جس سے سات خوشے پیدا ہوتے ہیں۔
دین انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے انسانی عقل کی تخلیق ہرگز نہیں ہے۔ دین کے بنیادی خدوخال اس پر مبنی ہیں کہ وہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ ایک ایسا نظام ہے،جس کا تصور انسانی فطرت میں آغاز سے ہی ودیعت ہے۔انسان فطری طور پر دینی تعلیمات کا محتاج ہے۔صرف دین کی برکت سے انسان درست عقیدے اور اچھے معاملات کا علم حاصل کر سکتا ہے،نیز دین کی برکت سے وہ جنت کا ایسا مستحق ٹھہرتا ہے کہ وہ اس کے سانچے میں ڈھل کر رفتہ رفتہ پختہ ہوتا رہتا ہے اور آخر کار اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ رسول اللہﷺقیامت کے دن اسے پہچان کر اس کی دستگیری فرماتے ہوئے لواء الحمد کے نیچے اپنی امت میں شامل فرمالیں گے۔
جب رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا کہ آپ میدانِ محشر میں اپنی امت کو کیسے پہچانیں گے تو آپﷺ نے فرمایا:‘‘قیامت کے دن میں اپنی امت کے افراد کو پہچان لوں گا۔’’ صحابہ نے عرض کی:‘‘یارسول اللہﷺ! اتنی زیادہ مخلوق میں آپ انہیں کیسے پہچانیں گے؟’’ آپﷺ نے فرمایا:‘‘مجھے بتاؤ۔اگر کسی شخص کے پیشانی اور پائوں سے سفید گھوڑے کالے سیاہ گھوڑوں میں ہوں تو کیا وہ انہیں پہچان نہ لے گا؟صحابہ کرام نے عرض کی: ‘‘کیوں نہیں پہچانے گا۔’’ آپ ﷺ نے فرمایا:’’میری امت کے لوگ بھی قیامت کے دن ایسی حالت میں آئیں گے کہ وضو کی برکت سے ان کی پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں روشن ہوں گے۔’’(47) ہمیں پہچانے جانے کی ضرورت ہے اور ہم دین اور اس کے حیات افروز انفاسِ طیبہ کے حاجت مندہیں۔
دین نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق بنیادی تعلیمات فراہم کی ہیں۔ صرف تنگ نظر لوگ ہی دین کو ناقص چیز سمجھ سکتے ہیں۔جو لوگ دین کو اپنی زندگیوں سے بے تعلق کر کے طاقِ نسیان میں ر کھنے کی کوشش کرتے ہیں،انہیں کبھی نہ کبھی اپنی اس تاریخی غلطی کی برائی اور اس پر ندامت کا احساس ہوگا۔اس غلطی کا ارتکاب اور اعتراف مشرق و مغرب کے کئی ممالک میں کیا جارہا ہے، تاہم دین زندگی کی روح ہے،جس سے مفر نہیں۔
دین کے کچھ اصول وفروع ہیں۔جہاں تک اصولوں کا تعلق ہے تو ان میں کسی قسم کا تغیر نہیں ہوسکتا۔اصولوں کے لحاظ سے ہمارے اور حضرت آدم علیہ السلام کے دین میں کوئی فرق نہیں،کیونکہ آسمانی مذاہب کے اصولی عقائد ایک جیسے ہیں۔نص نہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ میں قطعی حکم لگانے سے گریز کرتا ہوں،لیکن کہا جا سکتا ہے کہ ملائکہ کے دین کے اصول بھی وہی ہیں جو ہمارے ہیں،یعنی جن باتوں مثلاً اللہ تعالیٰ،اس کے فرشتوں،کتابوں،رسولوں،تقدیر اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر ہم ایمان رکھتے ہیں ان پر وہ بھی ایمان رکھتے ہیں۔فرق صرف ایمان کے مرتبے اور مقام کاہے۔
یہی بات عبادات کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔کوئی بھی ایسا آسمانی مذہب نہیں،جس نے اپنے ماننے والوں پر عبادت کو لازم نہ ٹھہرایاہو۔مختلف قوموں اور زمانوں میں عبادت کا طریقِ کار مختلف ہوسکتا ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے اس کی فطرت،حالات اور زمانے کے مطابق عبادت کا طریقِ کار مقرر فرمایا ہے،لیکن ایک بنیادی تعلیم کی حیثیت سے عبادت کی روح اور حقیقت میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
مثال کے طور پر آخرت کے عقیدے کولے لیجئے۔اس کا تصور ہر آسمانی مذہب میں پایا جاتا ہے۔یہ ان بنیادی تعلیمات میں سے ہے،جن کے بارے میں ہر نبی نے اپنی امت کو اجمالی یاتفصیلی طور پر ضرورآگاہ کیا ہے۔اگر بھلائی کی ترغیب اور برائی سے روکنے والا یہ عقیدہ نہ ہوتا تو دین اور انسان کے بنائے ہوئے معاشی اور معاشرتی نظاموں کے درمیان کوئی امتیاز باقی نہ رہتا۔دین کے بہت سے احکام اور تعلیمات کی بنیاد ہی موت کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان پر ہے۔
اگر آخرت پر ایمان نہ ہوتا تو عبادات،دین کی خاطرمصیبتیں جھیلنے اور قربانیاں دینے اور کسی بھی عقیدے یا ایمان کا کوئی فائدہ نہ رہتا اور انسان بہت سے اخلاقِ حمیدہ کو چھوڑ بیٹھتا۔آخرت پر ایمان ہی ہمیں اچھے اخلاق اپنانے کی ترغیب دیتا ہے،کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ ہم جو بھی نیکی یا بدی کریں گے،ہمیں اس کا بدلہ ملے گا نیز ہم انتہائی بے صبری سے اس لمحے کے منتظر ہیں جب ہم اپنے پروردگار کے جمال کا دیدار کریں گے۔اس دیدار کے مقابلے میں جنت کی زندگی کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔اس عظیم مقام تک پہنچنے کے لیے اور ہمارے دلوں میں سلگتی آتشِ محبت کی وجہ سے ہماری روحوں کو جلا ملتی ہے اور وہ ہمیں اس ملاقات تک پہنچانے والے سیدھے راستے پر بغیر کسی انحراف کے چلنے پر مجبور کرتی ہیں۔
انبیائے کرام اذنِ خداوندی سے پچھلی شریعتوں کے فروعی احکام کو منسوخ کرتے رہے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے۔اس کا تعلق انسانی شعور کے ارتقا اور پختگی سے ہے۔سیدنا آدم علیہ السلام کے دور میں انسانیت ابھی طفولیت کے مرحلے میں تھی،لیکن رسول اللہﷺ نے اپنے آپ کو عصر کے وقت کے سورج سے تشبیہ دی ہے،دوسرے لفظوں میں آپﷺ کے دور میں انسانیت پختگی اور کمال کی حدکو پہنچ کر حق و باطل کے درمیان اچھی طرح تمیزکرنے لگی تھی،اسی لیے اس نے باطل کے بعد آنے والے حق کو مضبوطی سے تھام لیا۔
دین کے فروعی احکام بھی اس مرحلے کے بالکل مناسبِ حال ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی وسیع حکمت کے تحت ان فروعی احکام کو مقرر فرمایا،اسی لیے اس دین کی عبادات کے طریقِ کار میں سینکڑوں مصلحتوں اور حکمتوں کا مشاہدہ کیاجاسکتاہے،گویااس مرحلے کی عبادت کا طریقِ کار ایک باشعور اور پختہ ذہن قوم کے بالکل مناسبِ حال ہے،جبکہ دوسرے مذاہب تبدیل و تحریف کا نشانہ بن کر اپنی اصلی شناخت کھو بیٹھے ہیں، بلکہ اگر ان کی اصل ہیتِ محفوظ بھی رہتی تب بھی وہ اس دور کے لیے مناسب نہ ہوتے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اِس دورکے لیے،جس دین کو پسند فرمایا ہے وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔
حاصل یہ کہ مذہب کبھی بھی سیلابوں اور آسمانی بجلیوں جیسی قدرتی آفات سے انسانی خوف کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا،نہ ہی دین کبھی ایسا معاشی یامعاشرتی نظام رہاہے،جس کا ہدف انسان کے معاشی اور معاشرتی مسائل حل کرکے اسے آسودہ حالی اور سعادت سے ہم کنارکرناہو۔رینان اور روسو کا یہ دعوی بھی بالکل غلط ہے کہ یہ انسانی فطرت کی پیداوار ہے،بلکہ یہ انسان کو دونوں جہانوں میں سعادت سے ہم کنار کرنے والے خدائی قوانین کے مجموعے سے عبارت ہے۔ہماری سعادت اورسکونِ قلب اس پرمنحصرہے،اسی کے ذریعے ہم احکام خداوندی سے وابستہ رہ سکتے ہیں اور جنت میں پہنچ کر جمالِ خداوندی کا دیدار کر سکتے ہیں۔تہذیب و تمدن کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے وہ انسانیت کو دنیوی سعادت کی ضمانت کبھی فراہم نہیں کرسکتی،لہٰذا وہ دین کی جگہ کیسے لے سکتی ہے؟
- Created on .