جب اللہ تعالیٰ کوہماری عبادت کی ضرورت نہیں توہم اپنی مرضی کے مطابق عبادت کیوں نہیں کرسکتے؟
اللہ تعالیٰ کی عبادت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی معرفت پرموقوف ہے۔انسان اس کائنات کے حسین مناظراوراس میں جاری وساری نظم ونسق کے دلائل دیکھتاہے تواس نظام سے اسے چلانے والے تک پہنچتاہے۔اس کائنات کو غورسے دیکھنے والے پریہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ اس میں کوئی بھی چیزبے فائدہ اوربغیرترتیب کے نہیں پیداکی گئی ہے، جس کے نتیجے میں وہ بھی اس نظام کے تحت زندگی گزارنے کو ضروری خیال کرتاہے۔
اسی طرح اگرانسان کائنات کوحسن وجمال کے پہلو سے دیکھے تواسے ایسے حیرت انگیز اورخارق العادت حسن وجمال کامشاہدہ ہوگاکہ اس سے زیادہ حسین وجمیل منظرکاتصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔انسان سے لے کر زمین وآسمان اورستاروں کے محیرالعقول اور دلفریب حسن وجمال کودیکھ کریہ ممکن نہیں کہ انسان اس کے پیچھے کائنات اورحسن وجمال کے خالق کونہ دیکھ سکے۔ یہ غوروفکرانفس میں ہویاآفاق میں {qluetip title=[1]}[1] اس سے آیت مبارکہ ﴿سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ ﴾ (فصلت:۵۳) ‘‘ہم عنقریب ان کو اطرافِ عالم میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن حق ہے۔’’کی طرف اشارہ ہے۔{/qluetip}جب بھی انسان خوبصورت ترین شاہکاروں اور فن کے شاہپاروں سے بڑھ کرحسین صفاتِ الہیہ کوخوبصورت پتنگوں کی مانندچمکتے ہوئے دیکھتا ہے تواس کادل خوشی ومسرت سے اس بچے کی طرح سرشارہو جاتا ہے، جو خوشی سے اچھلناکودنااور شور مچانا چاہتاہے۔ انسان بھلائی اورحسن وجمال کاسرچشمہ بننے والی ان صفات پر حیرت و استعجاب کااظہارکیے بغیر نہیں رہ سکتا اورکائنات کے مالک کاتصورکرکے اس کی عظمت و جلال سے ہوش وحواس کھونے لگتاہے۔
ایک اورپہلوسے دیکھیں تو یوں لگتاہے جیسے کائنات کی ہر چیزپہلے کہیں اورتیارکی گئی ہے اورپھرحضرتِ انسان کے استعمال کے لیے پیش کی گئی ہے۔بہت سی نعمتیں انسان کومحفوظ پیکنگ اور مختلف قسم کے پھلوں کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ساری زمین ہرقسم کے کھانوں سے چنے ہوئے دسترخوان کاسماں پیش کررہی ہو۔
جب انسان ان نعمتوں کی طرف اپناہاتھ بڑھاتاہے توان نعمتوں کے حقیقی مالک کے وجود کو محسوس کرتاہے اوراس احساس سے اسے خاص قسم کی لذت محسوس اور خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ اگر بچے کواپنی ماں کی چھاتی سے دودھ پیتے ہوئے شعورہوتاتووہ یہ سمجھتاکہ اس قدرمفیدغذا اس کے فائدے کے لیے کسی دوسرے عالم سے آرہی ہے اورواقعات کے ان تمام مظاہرکے پیچھے کوئی احسان کرنے اوررزق دینے والی کریم ذات موجودہے اوریہ سوچ کرتعظیم سے اس کی گردن جھک جاتی۔
ہرانعام واحسان جہاں اس انعام واحسان کے مالک کاپتادیتاہے، وہیں اس کی عزت کرنے اور احترام بجالانے کابھی تقاضاکرتاہے۔ہمیں جہاں کہیں بھی کسی نعمت، جمال یانظام کا مشاہدہ ہو، ہمیں اس نعمت،جمال یانظام کے حقیقی مالک کے سامنے اظہارِبندگی کرناچاہیے، دوسرے لفظوں میں جب بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے وجود کا احساس دلائیں ہمیں فوراً اس کی بندگی بجا لانی چاہیے، اسی لیے معتزلہ اورکسی حدتک ماتریدیہ بھی کہتے ہیں کہ اگرکسی بھی نبی کی بعثت نہ ہوئی ہوتی اورکوئی بھی مرشد انسانیت کی اللہ تعالیٰ کی طرف راہنمائی نہ کرتا تو بھی کائنات میں موجود نشانیاں اور دلائل انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کافی ہوتے اورانسان اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے اور اس معرفت کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کاپابندہوتا۔ ماتریدیہ کے نقطہ نظرکی تائید میں مختلف مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، مثلاًاگرچہ رسول اللہﷺکے بعض معاصرین نے بتوں سے بھرے ہوئے کعبہ کے پاس پرورش پائی اور انہیں کسی نے بھی توحید کے حقائق کی تعلیم نہیں دی، لیکن اس کے باوجودان کے احساسات اس بدو کے احساسات جیسے تھے، جس نے کہاتھا:‘‘جب مینگنی اونٹ پر اور نشاناتِ قدم چلنے والے پردلالت کرتے ہیں تو گھاٹیوں والی زمین اور برجوں والا آسمان لطیف و خبیرذات پرکیسے دلالت نہیں کرسکتا۔‘‘
جب صحراء میں تا حدنگاہ پھیلی ہوئی ریت کے سواکچھ نہ دیکھنے والے ایک بدو کا یہ تجزیہ ہے تو دوسرے انسان اس نتیجے پرکیوں نہیں پہنچ سکتے۔رسول اللہﷺانسانیت کی نجات کے لیے ایک عظیم لائحہ عمل لائے تھے۔اگریہ تعبیر درست ہوتی توہم کہہ دیتے کہ آپﷺمافوق الانسان ہستی تھے۔آپﷺنے نبوت سے پہلے کائنات کی حقیقت کوپالیاتھا اوراللہ تعالیٰ کے وجود کو محسوس کرکے غارحراء میں تلاش،غوروفکر اورعبادت کاسلسلہ شروع فرمادیاتھا۔
صحیح بخاری میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺغارحراء میں عبادت کیاکرتے تھے اورمکہ مکرمہ صرف توشہ لینے کے لیے آتے تھے۔اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ انسان اپنے ادراک کے ذریعے بعض اشیاء کودریافت کر کے کسی نہ کسی حدتک اللہ تعالیٰ کی بندگی بجالاسکتاہے۔اس سلسلے میں زیدبن عمروکی بسترمرگ پرکہی گئی بات قابل توجہ ہے۔ زیدبن عمرو حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچاتھے۔ انہوں نے اپنی وفات سے کچھ دیرپہلے اپنے خاندان کے تمام افرادکوبلایااورانہیں اپنے گردجمع کرکے نبی منتظر کے اوصاف کے بارے میں جوکچھ وہ جانتے تھے،بتایا۔انہیں رسول اللہﷺ کو دیکھنانصیب نہ ہوا، دوسرے لفظوں میں انہوں نے ساحل تک اپناگھوڑا دوڑایا،لیکن وہ اسلام کے سفینے میں سوار نہ ہو سکے، لیکن انہیں رسول اللہﷺکے زمانۂ ظہور کا پوری طرح احساس تھااوران کاانگ انگ ‘‘حقیقت احمدیہ’’ سے واقف تھا،تاہم اپنے احساس کو تعبیر کرنے کے لیے ان کے پاس الفاظ نہ تھے۔ وہ کہاکرتے تھے:‘‘افق پرنورالٰہی کاسپیدہ طلوع ہورہاہے اورمجھے اس کے ظہورپذیرہونے کا یقین ہے،گویامیں اس کے آثارکواپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔’’پھروہ اللہ تعالیٰ کے طرف متوجہ ہو کر کہاکرتے تھے:‘‘اے عظیم خالق! میں آپ کاکماحقہ ادراک نہ کرسکا۔اگرمیں آپ کاادراک کرسکتاتو میں آپ کی کماحقہ عبادت کرتااورآپ کی عظمت کے اعتراف کے طورپرقیامت تک سربسجود رہتا۔’’اس سے ثابت ہوتاہے کہ اگر یہ روشن ضمیرانسان بت پرستانہ معاشرے میں پیدانہ ہوا ہوتا تو وہ اس کائنات اورا س کے نظام میں غوروفکرکے نتیجے میں خداتعالیٰ کی بندگی کے فرائض بجالاتا۔
اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتے ہی بندگی شروع ہوجاتی ہے، لہٰذاجب تک ہم پر انعامات کی اس قدربارش کرنے والی ذات موجودہے، اس وقت تک بندگی بھی موجودہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں بندگی کے اس احساس کو ودیعت کر دیاہے،اسی احساس کے نتیجے میں زیدبن عمرونے کہاتھا:‘‘... میں آپ کی عظمت کے اعتراف کے طورپر قیامت تک سربسجود رہتا۔’’صرف آسمانی وحی ہی بندگی کاصحیح طریقہ بتاسکتی ہے اوراس کے نتیجے میں اسے خدائی احکام کے دائرے میں رکھتے ہوئے انحراف سے بچاتی ہے، دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ بندے سے فرماتے ہیں:‘‘میں اللہ ہوں اور تو میرابندہ ہے۔تونے مجھے میرے انعامات کی وجہ سے پہچاناہے اورمیں تجھے اپنی یاد دلانے کے لیے آدابِ بندگی سکھاؤں گا۔سب سے پہلے وضو کر اور پھراپنے نفس کا مقابلہ کرنے کے لیے میرے سب سے بڑے ہونے اوردوسری ہر شے کے چھوٹے اورکمزورہونے کاتذکرہ کر، اس کے بعد خضوع کی علامت کے طورپراپنے ہاتھ اپنے سامنے باندھ کر حتی الامکان عبادت میں دھیان پیداکرنے کی کوشش کراورجس مقام کی طرف رسول اللہﷺنے پرواز کی تھی اس مقام تک روحانی بلندی حاصل کرنے میں رغبت کا اظہار کر، اس کے بعد شکربجالاتے ہوئے رکوع کر۔ جب بھی تورکوع کے لیے جھکے گا نئی نئی چیزوں کو پائے گا، اس کے بعد تواضع کااعلیٰ ترین مقام پانے کے لیے سجدے میں چلاجا، اس کے بعد کھڑاہو جا، لیکن تیری حالت یہ ہوکہ دوبارہ سجدے میں جانے کے لیے تیرادل بے چین ہو۔’’ کیونکہ اس حالت میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:’’بندے کو اپنے پروردگار کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں نصیب ہوتاہے۔‘‘نیزارشاد خداوندی ہے: ﴿وَتَقَلُّبَکَ فِیْ السَّاجِدِیْنَ﴾ (الشعراء: ۲۱۹)‘‘اور نمازیوں کے ساتھ تمہارے رکوع اورسجود کو بھی دیکھتا ہے۔’’آپ اپنے آپ کو جس قدرسجدے کے ماحول اور تقاضوں سے ہم آہنگ کریں گے، آپ کو اسی قدربلندمعراج نصیب ہوگی، جوکہ نمازکااصل مقصودہے۔
اس سے ثابت ہوتاہے کہ عبادت کا حاصل اللہ پرایمان لانااوراس کی ذات کی معرفت حاصل کرنااور پھر محبت اورتعظیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکام کی روشنی میں اس معرفت کے تقاضوں پرعمل کرناہے۔
اوپرذکرکردہ تفصیل سے اس موضوع کے ایک پہلو کی وضاحت ہوجاتی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہم سے اس بات کاتقاضاکرتی ہے کہ ہم ناسمجھی کا مظاہرہ کریں اور نہ ہی کوئی نامناسب کام کریں،بلکہ واضح آیات کی روشنی میں نبی اکرمﷺکے نورانی ارشادات کی پیروی کرتے ہوئے ہمہ وقت رضائے الٰہی کی جستجومیں رہیں۔
اس موضوع کادوسراپہلویہ ہے کہ انسان کو زندگی کے تمام شعبوں میں خواہ ان کا تعلق تجارت کے ساتھ ہویاعلم وفن کے ساتھ،زراعت کے ساتھ ہویاصنعت کے ساتھ، ہمیشہ کسی نہ کسی مربی سے بہت سے امورسیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔فرض کریں آپ میں سے ہرایک کوئی مخصوص کاروبارکرتاہے، مثلاًایک شخص ٹیکسٹائل مل کامالک ہے،دوسراپلاسٹک تیارکرتاہے اورتیسراگفٹ شاپ چلاتاہے۔فرض کریں تجارت کے اصولوں سے واقف ایک تجربہ کار شخص ہماری مصلحت کی خاطر اور ہمیں نقصان سے بچانے کے لئے ہم سے تمام سرگرمیاں عمدگی سے انجام دینے کا مطالبہ کرتاہے اورہمیں اکھٹاکرکے ہم سے کہتاہے:‘‘چونکہ یہ کام ضروری ہے، اس لیے آپ اسے سرانجام دے سکتے ہیں، لیکن اسے عمدگی سے سرانجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ محنت اور سرمائے کے عوامل کو بہتر انداز سے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ میانہ روی اختیارکریں اور فضول خرچی سے بچیں، نیزفلاں فلاں تدابیراختیارکریں...‘‘
اگرہم ذرابھی انصاف سے کام لیں توہم اس شخص کی پندونصیحت کوغورسے سنیں گے اور اس کی ایک ایک بات کوسمجھ کراپنے کاروبار کو اس کے مطابق ترتیب دیں گے،کیونکہ ان ہدایات سے اس کاکوئی مفاد وابستہ نہیں،بلکہ ان میں سراسرہمارا فائدہ ہے، اسی طرح ہم طاعات و عبادات اپنی مرضی اورخواہش کے مطابق نہیں اداکرتے،بلکہ جس انداز اور شکل وصورت میں ہمارے خالق و معبودنے انہیں سرانجام دینے کاحکم دیاہے، اس کے مطابق ان کی ادائیگی کرتے ہیں،کیونکہ خالق کے بتائے ہوئے ہرطریقے میں روح کی تقویت کاسامان ہے،جس کے نتیجے میں ہماری عبادات ایسی بابرکت بنتی ہیں،جیسے ایک خوشے سے سات خوشے پیداہوتے ہیں۔نہ معلوم ہم’’اللہ اکبر‘‘کہتے ہوئے کسی ایسے بٹن کو دبادیں،جس سے ہم پررحمت الٰہیہ اورالہام کے دروازے کھل جائیں یا سورت فاتحہ پڑھتے ہوئے کسی خفیہ کوڈ والے تالے کی کوئی خفیہ چابی ہمارے ہاتھ لگ جائے ۔ نہ جانے نماز کے ایک ایک رکن کی ادائیگی میں ہمارے سامنے کتنے خفیہ دروازے کھلتے ہوں گے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم سجدہ کرتے ہیں توتمام راستے درست اورتمام دروازے کھل جاتے ہیں اورہماری دعائیں مقام الوہیت کی طرف بلندہوتی ہیں اورہمیں معززفرشتے گھیر لیتے ہیں۔ بھلا ایسا ہونے کاکون انکارسکتاہے؟سچی خبردینے والے نے اپنی بلیغ اورنورانی گفتگو میں ہمیں ایساہونے کی خبردی ہے، لہٰذاعبادت کاافضل طریقہ وہی ہے جوہمارے پروردگارنے ہمیں بتایا ہے،کیونکہ جس خدانے انسانی مشین کوبنایاہے وہ اس مشین کے طریقۂ استعمال سے زیادہ واقف ہے اوراس بارے میں زیادہ بہتر جانتاہے کہ دنیوی اوراخروی معاملات میں اس سے بہتر سے بہتر نتائج کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔جس ذات نے اس مشین کوبنایاہے اس نے اس کے ساتھ ایک ‘‘ہدایات نامہ’’ بھی فراہم کیا ہے، لہٰذا اگر اس مشین کو دانش مندانہ اور درست اندازسے چلانامقصودہے تواس ‘‘ہدایات نامے’’کوبغورپڑھناضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ عبادت جیسے جی چاہے ادا نہیں کی جاسکتی،بلکہ اسے رسول اللہﷺکی تعلیمات اور ارشادات کی روشنی میں اداکرناضروری ہے اوریہی اس کی افضل ترین صورت ہے،جو امت محمدیہ پراللہ تعالیٰ کاخصوصی فضل واحسان ہے۔ہم اللہ تعالیٰ سے وہی دعامانگتے ہیں جو رسول اکرمﷺنے مانگی تھی کہ ہمیں آنکھ جھپکنے کی مقداربھی اپنے نفس کے حوالے نہ کیجئے۔
- Created on .