صدیقین کامقام شہداء سے افضل کیوں ہے؟
صدیق تصدیق کرنے والے سچے انسان کو کہتے ہیں جبکہ شہید موجود اور گواہی دینے والے شخص کو کہتے ہیں۔شاید شہید کو شہید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور تقریباً دنیوی زندگی جیسی زندگی گزارتے ہیں۔یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں بلندترین مقام ہیں۔
صدیوں سے مسلمان ان دو مرتبوں کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے رہے ہیں۔بہت سے لوگوں کو خصوصاً صحابہ کرام کو شہادت کا مقام حاصل ہوا۔خلفائے راشدین میں سے تین کو شہادت نصیب ہوئی،جبکہ چوتھے خلیفہ صدیقیت کے بلندترین مقام پر فائز ہوئے۔ذیل میں ہم اس موضوع سے متعلق ایک امراضافی پر گفتگو کرنے کے بعد ان دو مرتبوں کے خصائص بیان کریں گے۔یہ خصائص دلوں میں شوق کے جذبات پیداکرتے ہیں۔
ہر انسان میں کسی نہ کسی حد تک سچائی پائی جاتی ہے اور اسی کے مطابق اسے صدیقیت کا مقام حاصل ہوتا ہے،نیز احادیث نبویہ کی رو سے موت کی بہت سی صورتیں انسان کو شہادت کا مقام دلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں،تاہم ان دونوں مرتبوں کے بلندترین درجات بھی ہیں،جو ان کی آخری حدود ہیں کہ جنہیں اس لیے عبور کرنا ممکن نہیں کہ ان کے بعد صرف نبوت کا درجہ رہ جاتا ہے۔جس طرح درخت کے بیج سے لے کر پھل تک مختلف درجات ہوتے ہیں اسی طرح ایمان کے بھی مختلف درجات ہوتے ہیں۔شہادت اور صدیقیت بلندترین درجات ہیں اور ان کے بعض بہت اہم ابعاد ہیں۔
جو انسان بھی زبان سے اسلام کا اقرار اور دل سے اس کی تصدیق کرتا ہے، وہ قلبی تصدیق کی بدولت کسی نہ کسی حد تک صدیقیت کے دروازے میں داخل ہو جاتا ہے۔اس در کی محض چوکھٹ سے گزرنا بھی انسان کی بہت بڑی سعادت ہے۔اسی لیے بخاری ومسلم میں مروی ایک حدیث نبوی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے ذکر کی مجلسوں میں پھرتے رہتے ہیں۔ذکر سے صرف اللہ کی تسبیح ہی مراد نہیں،بلکہ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے،جس میں الوہیت، ربوبیت اور قدرتِ الٰہیہ کی کاریگریوں پر غور و فکر کے معاملات کا تذکرہ ہوتاہے۔اس قسم کی محفلوں میں ذکر،غوروفکر اور شکر کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔لہٰذا ذکر کے موضوع کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے:
اللہ تعالیٰ کے گھومنے پھرنے والے اصحابِ فضیلت فرشتے ذکر کی محفلوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔جب وہ ذکر کی کسی مجلس کو پاتے ہیں تو ان کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور انہیں اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں،یہاں تک کہ ان کے اور آسمان دنیا کے درمیان کی ساری فضا کو بھر دیتے ہیں۔جب وہ لوگ جدا ہو جاتے ہیں تو یہ فرشتے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے احوال سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ان سے پوچھتے ہیں: ‘‘تم کہاں سے آئے ہو؟’’وہ جواب میں کہتے ہیں: ‘‘ہم دنیا میں آپ کے ان بندوں کے پاس سے آرہے ہیں،جو آپ کی تسبیح، تکبیر، تہلیل اور تحمید میں مصروف تھے اور آپ سے مانگ رہے تھے۔’’اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں:‘‘وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟’’وہ جواب میں کہتے ہیں:‘‘وہ آپ سے آپ کی جنت مانگ رہے تھے۔’’ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں:‘‘کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟’’ وہ کہتے ہیں: ‘‘نہیں،اے پروردگار!’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘‘اگر وہ میری جنت دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا!’’ فرشتے یہ بھی کہتے ہیں: ‘‘اور وہ آپ کی پناہ مانگ رہے تھے۔’’ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: ‘‘وہ کس چیز سے میری پناہ مانگ رہے تھے؟’’وہ کہتے ہیں: ‘‘اے پروردگار! وہ آپ کی دوزخ سے آپ کی پناہ مانگ رہے تھے۔’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘‘کیا انہوں نے میری دوزخ دیکھی ہے؟’’ وہ کہتے ہیں: ‘‘نہیں’’ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘‘اگر وہ میری دوزخ دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا!’’ فرشتے مزید کہتے ہیں: ‘‘اور وہ آپ سے گناہوں کی بخشش بھی طلب کر رہے تھے۔’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘‘میں نے انہیں بخش دیا،جو چیز انہوں نے مانگی وہ انہیں عطا کر دی اور جس چیز سے انہوں نے پناہ مانگی اس چیز سے انہیں پناہ دے دی۔’’اس پر فرشتے کہتے ہیں:‘‘اے پروردگار! ان میں ایک گناہگار بندہ ایسا بھی تھا جو ان کے پاس سے گزر رہا تھا اور پھر ان میں بیٹھ گیا۔’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘‘میں نے اسے بھی بخش دیا۔وہ ایسے لوگ ہیں، جن کا ہم نشین سعادت سے محروم نہیں رہتا۔’’ {qluetip title=[1]}(1) البخاری، الدعوات؛ مسلم، الذکر و الدعاء والتوبۃ والاستغفار.{/qluetip}
لہٰذا جو شخص کلمہ توحید کا اقرار کر کے اسلام میں داخل ہو جائے اس کا کچھ بھی مقام ہو وہ جماعت میں شمار ہوتا ہے اور یہ بھی صدیقیت کا ایک درجہ ہے،کیونکہ یہ اگرچہ ایک عام درجہ ہے،لیکن اس میں بھی ایک خاص قسم کا اخلاص اور تعلق پایا جاتا ہے، تاہم اس مقام کا ایک بلندترین درجہ بھی ہے،جس پر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ فائز ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر اس وصف کے اطلاق کے بارے میں ایک واقعہ بھی مشہور ہے۔کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺنے مشرکین مکہ کو واقعہ معراج و اسراء کے بارے میں بتایا تو بعض مشرکین دوڑے دوڑے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ محمد(ﷺ) ایسے ایسے کہہ رہے ہیں۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ‘‘تم ان کی طرف جھوٹی بات منسوب کر رہے ہو۔’’انہوں نے کہا: ‘‘بخدا! وہ ایسی بات کہہ رہے ہیں۔’’اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: ‘‘اگر آپﷺ نے واقعی یہ بات فرمائی ہے تو آپﷺ نے سچ فرمایا ہے۔’’ {qluetip title=[1]}(2) البدایۃ و النھایۃ،ابن کثیر،۳/۱۱۱.{/qluetip}
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے بڑے دعوے کی تصدیق کی اور اس طرح مرتبہ صدیقیت کے اس آخری مقام تک جا پہنچے کہ جس کے بعد صرف نبوت کا مرتبہ رہ جاتا ہے ۔ہر انسان اپنے ایمان کے لحاظ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے اپنا مقام پاتا ہے،تاہم اس کے لیے علم الیقین کا عین الیقین اور پھر حق الیقین میں تبدیل ہونا ضروری ہے،جس کے حصول کا ایک ذریعہ حضورِ قلب سے تکوینی نشانیوں پر غوروفکر کرنا بھی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا شہادت کے بھی مختلف درجات ہیں۔اگر کوئی عمارت گر پڑے اور اس کے نیچے دب کر کچھ اہل ایمان جان بحق ہو جائیں تو وہ شہید سمجھے جائیں گے۔اگرچہ ان کے ساتھ دنیا میں شہیدوں والا برتاؤ نہیں کیا جائے گا،لیکن وہ ان لوگوں میں شمار ہوں گے،جنہیں آخرت میں شفاعت کا حق حاصل ہو گا۔اس میں وہ لوگ بھی داخل ہوں گے،جو وبا، طاعون، پیٹ کے درد یا اس جیسی دیگر بیماریوں کی وجہ سے فوت ہوئے ہوں گے۔
چنانچہ احادیث میں وارد ہے کہ ڈوب کر جان بحق ہونے والا شخص بھی اس قسم کے شہداء میں داخل ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض حادثات سے انسان کو شہادت کا مخصوص مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے،تاہم شہادت کا ایک اعلیٰ ترین درجہ بھی ہے جو ان لوگوں کو ملتا ہے،جو دین کی سربلندی کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دن رات دین کی سربلندی کی خاطر جدوجہد کرتا ہے اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے شہادت کی دعا کرتا ہے اسے شہادت کا مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے،گو اسے بسترپر ہی موت کیوں نہ آئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مقام فاروقیت کے ساتھ ساتھ شہادت کے اعلیٰ ترین مقام پر بھی فائز تھے۔وہ عمربھر شہادت کی تمنا کرتے اور اس سے محرومی کے اندیشے پر آنسو بہاتے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خطبات جمعہ دینے لگے اور انہوں نے اپنے کسی خطبے میں اس اندیشے کا اظہار بھی کیا۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہر خطبہ بڑا اہم ہوتا تھا،یہاں تک کہ اس امت کے علامہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں رسول اللہﷺنے یہ کہہ کر دعا فرمائی تھی: ‘‘اے اللہ! اسے دین کی سمجھ اور تاویل کا علم عطا فرما!’’جب مکہ مکرمہ میں ہوتے اور انہیں خبر ملتی کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے والے ہیں تو وہ آپؓ کا خطبہ سننے کے لیے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کا سفر فرماتے۔آپ رضی اللہ عنہ کے اکثر خطبات کو بعض سامعین قلم بند کر لیتے تھے،یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے پاس آپ رضی اللہ عنہ کے متعدد خطبات محفوظ ہیں،جن سے اہل علم اورفقہاء بہت سے امور کا استنباط کرتے رہتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں نبوت کے موضوع پر گفتگو فرمائی اور رسول اللہﷺ کے عالی اوصاف کا تذکرہ کرنے کے بعد رسول اللہﷺ کی قبر مبارک کی طرف رخ پھیر کر آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ‘‘اے اس قبر والے!آپ کو مبارک ہو۔‘‘
ہم بھی اپنے لیے شہادت کے طلبگار ہیں، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنے وسیع کرم کی بنیاد پر عطا کرتے ہیں تو وہ قابلیت کی بجائے ضرورت کی بنیاد پر نوازتے ہیں۔چونکہ ہم حاجت مند ہیں اور اپنی ضرورت کی وجہ سے اس کے درِسخاوت کو کھٹکھٹاتے ہیں،اس لیے وہ ہمیں ہرگز خالی ہاتھ نہ لوٹائیں گے۔وہ اپنے در پر صدا لگانے والے کسی بھی سائل کو بے مراد نہیں لوٹاتے۔چونکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دل سے شہادت مانگی تھی،اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت کا اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا۔انہیں ایک ایرانی مجوسی کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی۔یہ صبح کا وقت تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ محراب میں کھڑے تھے۔جب آپ رضی اللہ عنہ سجدے کے لیے جھکے تو اس خائن نے خنجر آپ رضی اللہ عنہ کے سینے میں گھونپ دیا۔ذیل میں ہم پورا واقعہ بیان کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو شہادت کا شوق اور خواہش کامل درجے کی تھی، دوسرے نماز بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کی نماز تھی کہ اکثر اوقات آپ رضی اللہ عنہ پر نماز کے دوران اس قدر گریہ طاری ہو جاتا تھا کہ مقتدیوں کو آپ کی قراء ت کی بھی سمجھ نہ آتی یا آپ کی پنڈلیاں آپ کا بوجھ اٹھانے سے عاجز آجاتیں اور آپ نماز میں ہی زمین پر آگرتے۔ذرا ایسی نماز کے کسی سجدے کا تصور کیجیے جس میں انسان اپنے پروردگار سے قریب ترین ہوتا ہے۔ایسے لمحات میں کہ جب انسان کو اعلیٰ ترین مقام تک پہنچانے کے لیے تمام شرائط پائی جاتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہ کو شہادت کے بلند ترین مقام تک پہنچانے کے لیے ایک وار بھی کافی تھا۔ارشاد ربانی ہے: ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ (العلق:۱۹) ‘‘اور سجدہ کرنا اور اللہ کا قرب حاصل کرتے رہنا۔’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حالت سجدہ میں اس قدر قرب خداوندی حاصل تھا کہ جس قدر ایک غیر نبی انسان کے لیے ممکن ہوتا ہے۔رسول اللہﷺ نے اپنے ارشاد: ‘‘اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔’’ {qluetip title=[1]}(3) الترمذی، المناقب عن رسول اللہ.{/qluetip} میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
شہادت کے اس بلند ترین مرتبے کے نیچے اور بھی بہت سے درجات ہیں۔ جو لوگ بدر، احد، مؤتہ، جناق قلعہ، طرابلس یا افغانستان میں روس کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے یا آج فلسطین میں یہودیوں کے ظلم وستم کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں ان میں سے ہر ایک کو شہادت کے ان مراتب میں سے کوئی نہ کوئی مرتبہ ضرور حاصل ہوتا ہے۔
خلفاے راشدین میں سے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما بھی شہید ہوئے۔ ان میں سے ایک قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے شہید ہوا اور دوسرے کو مسجد جاتے ہوئے شہید کیا گیا۔شہداء کی آخری حالت کی بنا پر ان میں فرقِ مراتب قائم کیا جا سکتا ہے۔اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی مخصوص حالت کی بنا پر اس قدر عظیم ہستی تھے کہ ان پر کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ آلِ بیت کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے تو ان کی فضیلت سب سے بڑھی ہوئی ہے، لیکن اگر عمومی فضائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا پہلا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دوسرا نمبر ہے۔
اگرچہ میرے پاس اس بات پر کوئی قابل وثوق دلیل نہیں ہے کہ شہید دوسرے شہداء کے لیے اور صدیق دوسرے صدیقین کے لیے شفاعت کرے گا،لیکن میرا دل کہتا ہے کہ ایسا ہو گا اور پھر یہ لوگ اپنے اقرباء اور جاننے والوں کی شفاعت کریں گے۔باقی جہاں تک ان دونوں مرتبوں پر فائز لوگوں کا تعلق ہے تو امید ہے کہ رسول اللہﷺان کے بارے میں براہِ راست شفاعت کریں گے۔
ان مراتب کے اسراروں سے پردہ اٹھانا میرے جیسے شخص کی طاقت سے باہر ہے۔اس مقام کے اعلیٰ ترین مرتبے تک پہنچنے والی ان ہستیوں کے حالات کی وضاحت کرنا میرے جیسے شخص کے لیے ممکن ہے اور نہ ہی دوسروں کے لیے ان کی کیفیت کو سمجھنا ممکن ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ صدیقیت کا ہر مرتبہ شہادت کے ہر مرتبے سے افضل ہے،بلکہ ان کی فضیلت کی کمی بیشی کا تعلق صرف ان کے بلندترین رتبے کے ساتھ ہے۔پہلے مقام کے بلندترین رتبے پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دوسرے کے بلندترین رتبے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فائز ہیں۔
- Created on .