دعوت کی محنت کو چھوڑنے اور اس سے بے تعلق ہونے والے اپنے بھائیوں سے کیسارویہ اختیار کرناچاہیے؟
بعض اسباب کی بنا پر ہمارے بعض بھائیوں کا دعوت سے تعلق ٹوٹ گیا ہے۔ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہے،لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ ہمارا ایمانی رشتہ برقرار ہے۔وہ ہمارے بھائی ہی ہیں اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق مسلمان جس قدرومنزلت اوراحترام کامستحق ہوتا ہے وہ بھی اس کے حقدار ہیں۔ دوسرے ہر معاملے کی طرح یہاں بھی قرآن و سنت ہی معیار ہیں۔ہم ان کی کبھی بھی غیبت نہیں کر سکتے،کیونکہ غیبت حرام اور اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے، گویااپنے بھائی کی قول و فعل سے اہانت کرنے اور اس کاگوشت دیگچی میں پکا کر کھانے میں کوئی فرق نہیں۔بعض حالات میں غیبت کرنا جائز ہوتا ہے،جس کی تفصیل کتبِ فقہ میں موجود ہے،تاہم میں ایسے حالات اور حدود کے قریب جانے کے حق میں نہیں ہوں،کیونکہ ایسے حالات میں بہت ہی کم لوگ اعتدال کی راہ اختیار کر سکتے ہیں۔
لہٰذا ہرشخص کا اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ان حدود کے قریب جانا درست نہیں۔یہ تواس مسئلے کا ایک پہلوہے۔اس کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے اس بھائی کے بارے میں جو بات کہیں گے وہ کبھی نہ کبھی اس تک ضرور پہنچے گی،جس کے نتیجے میں وہ ہم سے اور بھی دور ہو جائے گا اور چونکہ ہم اس کا سبب بنے ہیں، اس لیے اس کی ذمہ داری ہم پربھی عائد ہو گی۔یہ کوئی معمولی گناہ نہیں،کیونکہ اس دعوت اورمبارک دینی خدمت سے کسی کو دور یا محروم کرنے کا کسی کو بھی حق حاصل نہیں۔ممکن ہے کہ ہمارے اس قسم کے غلط رویے سے ایک دور میں دعوت پر اپنی جان فدا کرنے والاشخص نہ صرف اس سے دور ہو جائے،بلکہ اس کا دشمن بن جائے،جس طرح حق دعوت سے عداوت رکھنا بہت بڑا گناہ ہے،اسی طرح اس کا باعث بننابھی جرم عظیم ہے۔
بعض لوگ اکثر اوقات ایسی دعوتی یا دینی جماعت پر تنقید اور اس سے استہزاء کرتے نظر آتے ہیں،جس کے تحت وہ کام نہیں کر رہے ہوتے۔اگر ہم اس پہلو کو پیش نظر رکھیں تو جماعت سے دور ایسے افراد کے تمام تصرفات کی توقع حکمت کا تقاضا معلوم ہوتاہے۔ یہ ان کی بری تقدیر اور بدنصیبی ہے۔ان لوگوں کی اس تکلیف دہ صورتحال پرہم افسوس اور ترحم کے اظہار کے سوا کیا کر سکتے ہیں؟ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم دوسروں سے ایسا رویہ اپنائیں جیسا ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہم ان کی جگہ ہوتے تو دوسرے ہم سے اپناتے،دوسرے لفظوں میں ہمیں اس معاملے میں انہیں ضرورت سے زیادہ ملامت نہیں کرنی چاہیے۔
یہی رسول اللہﷺکی سنت ہے۔آپﷺنے غلطی کرنے،شک میں مبتلا ہونے اور اعمال یا خدمات سرانجام دینے میں کوتاہی کرنے پر کبھی کوئی بات نہیں کہی۔ آپﷺ عبداللہ بن ابی بن سلول ایسے جن لوگوں کے نفاق سے واقف تھے،لیکن آپ ان کی بھی غیبت نہ فرماتے،بلکہ ان کے ظاہر کو قبول فرماتے۔اُس کے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان طرازی کرنے کے بعد صحابہ کرام نے آپ ﷺسے اس کے قتل کی اجازت مانگی،لیکن آپﷺنے اس کے خلاف کوئی بات ارشاد نہ فرمائی، بلکہ فرمایاکہ میں لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتا کہ محمد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کروا دیتا ہے۔اگر آپ حدیث کی کتابوں کو کھنگالیں گے تو آپ ان میں کوئی ایسی حدیث نہ پائیں گے،جس میں آپ ﷺنے کسی مؤمن کو تکلیف پہنچائی ہو یا اس کی بے عزتی کی ہے۔اگرآپ کو کوئی ایسی بات مل گئی تو میں اپنی سابقہ بات سے رجوع کرلوں گا اورآئندہ کبھی ایسی بات نہ کہوں گا،لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کو کبھی ایسی بات نہ ملے گی۔ہمارے پیش نظرہمیشہ یہی معیار رہناچاہیے اوراپنے بھائیوں کی کبھی بھی غیبت نہیں کرنی چاہیے۔
عظیم مفکر علامہ بدیع الزمان نورسی کے کردار سے بھی ہمیں یہی راہ نمائی ملتی ہے،جب کچھ عرصہ تک ان کے بعض تلامذہ ان سے دور رہے اور پھر آخرکار دوبارہ ان کے پاس آگئے تو انہوں نے ایسے تلامذہ کے خلاف کوئی بات نہ کہی،بلکہ ان کے لوٹنے پران کی تعریف کی اور صرف ان کے واپس لوٹنے پر زور دیا۔ان کے بارے میں ہماری یاداشت میں یہی بات باقی رہ گئی ہے،لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس واپسی سے پہلے فراق اور دوری بھی ہوئی تھی،لیکن اپنی گفتگو میں انتہائی احتیاط برتنے والے اس عظیم راہنما نے ان کی واپسی پر تو زور دیا،لیکن ان کی مفارقت اور دوری کے بارے میں ایک سطر بھی نہ لکھی۔اگرچہ ان کی زندگی میں بہت سے لوگوں نے ان پر بہت سے الزامات لگائے اوران کی شخصیت پرحملے کیے،لیکن انہوں نے ایسے لوگوں کے خلاف کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جو غیبت کے دائرے میں آتی ہو اور نہ ہی ان میں سے کسی کانام ظاہرکیا۔کسی انسان کا مؤمن کی حیثیت سے کفرکے خلاف موقف اختیار کر کے جنت کامستحق ٹھہرناکوئی معمولی بات نہیں،اس لیے جس طرح ہم سانپ اوربچھوؤں سے دوربھاگتے ہیں،اسی طرح ہمیں اپنے بھائیوں کی غیبت کرنے سے بھی بچناچاہیے۔
اس موضوع کوایک دوسرے پہلوسے بھی دیکھا جا سکتاہے۔عام حالات میں اسلامی نظام کے تحت جو سزائیں نافذ کی جاتی ہیں وہ محاذِ جنگ پر نافذ نہیں ہوتیں،یعنی اگر کوئی شخص محاذِجنگ پر چوری،زنا یا قذف کا مرتکب ہو تو اسے ان جرائم پر سزا نہیں دی جائے گی۔اس میں حکمت یہ ہے کہ کہیں وہ شخص اپنے بچاؤ کے لیے دشمن سے نہ جاملے،کیونکہ اگر وہ شمن سے جا ملا تو ایک تو وہ دائمی خسارے میں مبتلا ہو گا،دوسرے ہم ایک ایسے شخص کو اپنا دشمن بنا بیٹھیں گے جو ہمارے سارے رازوں سے واقف ہے اور یہ دونوں باتیں ہمارے لیے نقصان کا باعث ہیں،اس لیے اگرچہ حالات پر قابو پانا ضروری ہے،لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اسے اپنا دشمن بنائیں اور نہ ہی اس کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاؤ کریں،بلکہ اس کے ساتھ بہترین حسن سلوک کریں۔
مثلاًبعض اوقات ہمارا کوئی بھائی خوف یا کسی منصب کی خواہش کی وجہ سے ہم سے دور ہو جاتاہے۔ایسے شخص سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس کے اس فعل کے محرکات سے واقف ہیں،جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ محتاط رہنا چاہتا ہے۔احتیاط اچھی بات ہے،لیکن ہم اس سے اس بارے میں جھگڑا نہیں کریں گے۔ہمارا ایسا رویہ اختیار کرنے سے اس کے سامنے ہمارے دروازے کھلے رہیں گے۔ہو سکتا ہے سالہاسال بعدہمارے تعلقات پھر سے استوار ہو جائیں۔ہو سکتا ہے اسے بعد میں حقیقت معلوم ہو جائے اور وہ ہمارے پاس لوٹ آئے۔اگر وہ اپنی غلطی اور ہمارے موقف کے حق بجانب ہونے کا اعتراف کر لے تو ہم اس سے کہیں گے:‘‘تم اب بھی حق بجانب ہو۔’’
نیزجس شخص کی ہم غیبت کر رہے ہوتے ہیں،اس کے ساتھ بعض اور لوگوں کی رشتہ داری، محبت یا اشتراک فکر کا تعلق ہوتاہے۔غیبت سے ایسے لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس میں ہمارا ہی نقصان ہے پھرآج ہی اپنی ساری باتیں نہیں کہتے،بلکہ آنے والے دنوں میں بھی ہم نے باتیں کرنی ہوتی ہیں،لہٰذا اسے آج کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
بسااوقات ایسے لوگ ہماری غیبت کرکے ہمیں تکلیف پہنچاتے ہیں،لیکن ہمیں اس کے مقابلے میں ایسا ہی برتاؤ نہیں کرنا چاہیے،کیونکہ ہمیں اپنی عزتِ نفس کی خاطر انتقام لینے اور شخصی معاملات میں الجھنے سے سخت اجتناب کرنا چاہیے۔دعوت کی عظیم محنت کی خاطر ہمیں اپنا سب کچھ قربان کر دینا چاہیے۔جب رسول اللہﷺکی شخصیت اور اسلام پرحملے ہو رہے ہوں تو ایسے حالات میں ہم اپنی عزت کو موضوعِ بحث نہیں بنا سکتے،بلکہ اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔اس دور میں ہم کسی انسان کی جو بہترین مدد کر سکتے ہیں وہ اس کی دینی زندگی کی حفاظت کی مدد ہے۔اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچناہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
- Created on .