مسلمانوں کے لیے انتہا پسندی کے سرطان سے لڑنا ضروری ہے
ایک ایسے وقت میں جب خود کو اسلامک سٹیٹ کہلانے والا ایک گروہ جو داعش کے نام سے جانا جاتا ہے،مشرق وسطیٰ میں تباہی و بربادی جاری رکھے ہوئے ہے، مسلمانوں کو ملقن العنانیت کے اس نظریے کا مقابلہ کرنا ہوگا جو اسے اور ایسے دیگر گروہوں کو طاقت فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کا ہر ایک عمل تمام مسلمانوں پر اثر انداز ہوتا ہے ، انہیں د وسرے لوگوں کے لیے اجنبی بناتا ہے اور ان کے ایمان اور نظریات کے متعلق غلط فہمیوں کو مزید گہرا کرتا ہے۔
دہشت پسند بنیاد پرستوں کے مظالم کے لیے اسلام کو الزام دینا درست نہیں لیکن جب دہشت گرد اسلام کا لبادہ اوڑھتے ہیں تو وہ برائے نام سہی مگر اس شناخت کو اپنا لیتے ہیں، لہٰذا اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اس سرطان کوہمارے معاشروں میں جڑ پکڑنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہم بھی ایمان پر دھبہ لگنے کے عمل میں جزوی طورپر ذمہ دار ہوں گے۔
سب سے پہلے ہمیں ظلم و تشدد کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے اور کسی ایسے نظریے کا شکار نہیں بننا چاہیے۔ ظلم وتشدد کا سامنا ہونا خود بھی ایسا ہی کرنے یا اس کی مذمت نہ کرنے کا جواز نہیں ہے۔ یہ صرف میری ذاتی سوچ نہیں کہ یہ دہشت گرد بڑے گناہوں کے مرتکب ہورہے ہیں بلکہ اگر قرآن و سنت کے بنیادی مآخذ کا ایمانداری سے مطالعہ کیا جائے تو فطری نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ ان بنیادی مآخذ کے اصول کے تحت صدیوں سے قرآن کریم اور سیرت اور حدیث کے ماہرین سلف صالحین اور علمائے کرام دہشت گردوں کے ان دعوؤں کی سراسر نفی کرتے ہیں۔
دوم یہ کہ یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کے نظریہ کلیّت کو فروغ دیا جائے کیونکہ بعض اوقات مختلف پس منظر کے حامل پیروکاروں کو انپے اندر سمو لینے کی لچک پر تنقیدکی جاسکتا ہے، تاہم اسلام کی بنیادی اخلاقیات تشریح کی محتاج نہیں۔ ایسے ہی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک معصوم کی جان لینا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ (قرآن:5:32) حتٰی کہ دوران جنگ دفاع کے دوران بھی کسی بھی نہتے شخص خصوصاً خواتین، بچوں، مذہبی شخصیات پر حملہ کرنا رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ممنوع ہے۔
ہمیں دنیا بھر میں امن و سلامتی کے متلاشی لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان اقدار کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
انسانی نفسیات اور خبروں کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات یقینی ہے کہ انتہا پسدئی کی آوازوں کی نسبت دیگر صف اول کی آوازیں سرخیوں میں جگہ حاصل نہیں کر پاتیں۔ مگر میڈیا کو مورد الزام ٹہرانے کی بجائے ہمیں نت نئے طریقے سوچنے ہوں گے جن سے ہماری آواز سب تک پہنچ سکے۔
سوم یہ کہ مسلمانوں کو انسانوں کے حق، عزت، زندگی اور حریت کوعوامی سطح پر فروغ دینا چاہیے۔
یہ اسلامی اقدار میں سب سے زیادہ بنیادی اہمیت کی حامل چیزیں ہیں اور نہ تو کوئی فرد اور نہ ہی کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما یہ حق رکھتا ہے کہ وہ انہیں چھین سکے۔ اپنے دین و ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کامطلب یہ ہے کہ ہم ثقافتی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی تنوع کا احترام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں اس فرق کی وجہ ایک دوسرے کو شناخت کرنا بیان کرتا ہے(قرآن:49:13) اللہ کی مخلوق ہونے کے ناطے ہر انسان کی عزت کرنا(17:70) اللہ کا احترام کرنا ہے۔
چوتھا یہ کہ مسلمانوں کو اپنے معاشروں کے ہر ایک رکن کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنے چاہیںو۔ جہاں سائنس، آرٹس اور دیگر علوم کے ساتھ ہرانسان کے لیے عزت ان کی ثقافت کا ایک حصہ ہو۔ دنیائے اسلام کی حکومتوں کو ایسا تعلیمی نصاب مرتب کرنا چاہیے جو جمہوری اقدارکو فروغ دے۔ عزت و احترام اور دوسروں کو قبول کرنے کے لیے سول سوسائٹی ایک اہم کردار کی حامل ہے۔ یہ وجہ ہے کہ خدمت تحریک نے 150سے زیادہ ممالک میں اسکول، تعلیمی ادارے اور مکالمے کے ادارے قائم کیے ہیں۔
پانچواں یہ کہ مسلمانوں کو دینی تعلیم فراہم کرنا س لیے بہت اہم ہے کہ اس سے انتہا پسند اپنے اس ہتھیار سے محروم ہوجائیں گے جس کی مدد سے وہ مختلف نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں جب مذہبی آزادی سلب کرلی جائے جیسا کہ مسلم دنیا کے کئی حصوں میں کئی دہائیوں سے ہوتا رہا ہے تو پھر ایمان اندھیروں میں پروان چڑھتاہے اور غیر تعلیم یافتہ اور بنیاد پرستوں کے ہاتھوں تشریح پاتا ہے۔
آخر میں یہ کہ مسلمانوں کو مردوں اور عورتوں دونوں کے یکساں حقوق کی حمایت کرنی چاہیے، عورتوں کو مواقع فراہم کیے جانے چاہیں اور انہیں اس سماجی دباؤ سے آزاد رکھنا چاہیے جو ان کی برابری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مسلمانوں کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صورت میں ایک عظیم مثال موجود ہے جو اپنے وقت کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ عالم، استاد اور سماجی رہنما کی حیثیت کی حامل تھیں۔
دہشت گردی مختلف پہلووں کا حامل مسئلہ ہے چنانچہ اس کا حل بھی سیاسی ، ماھشی، معاشرتی اور مذہبی تمام جہات پر اثر انداز ہونے والا ہونا چاہیے۔ عمومی حل اس مسئلے کو صرف مذہب کی حد تک محدود کرتے ہیں جوخطرے کے شکار نوجوانوں اور وسیع تر مفہوم میں تمام دنیا کے لیے نقصان رسانی کا باعث ہوگا۔ عالمی برادری کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمان حقیقی اور علامتی ہر دو انداز میں دہشت گردی کا بنیادی شکار ہیں۔ اسی طرح ان دہشت گردوں کو ختم کرنے اور مزید اضافہ روکنے میں مدد کی جا سکتی ہے ۔ اس وجہ سے حکومتوں کو ایسے بیانات اور افعال سے گریز کرنا چاہیے جن کا نتیجہ مسلمانوں کی تنہائی کی صورت میں نکلے۔
ظلم و زیادتی اور دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہیں گے جو مذہبی الفاظ کو توڑمروڑ کر پیش کریں گے۔ جس طرح عیسائی قرآن کو جلانے یا کوکلس کلان کے افعال کی توثیق نہیں کرتے اور بدھ مت کے پیروکاروہنگیا مسلمانوںپر روارکھے جانے والے ظلم کی حمایت نہیں کرتے اسی طرح صف اول کے مسلمان ظلم و زیادتی اور دہشت گردی کے حامی نہیں۔
تاریخی طورپر مسلمانوں نے انسانی تہذیب کے فروغ میں بہت کچھ کیا ہے۔ اس کے لیے ہمارا اہم ترین کردار اس دور میں تھا جب ایمان کی بنیاد باہمی احترام ، آزدی اور انصاف پر تھی۔ اسلام کے داغدار رخ کو بحال کرنا شاید انتہائی مشکل ہو مگر مسلمان اپنے معاشروں کو امن و سلامتی کی روشنی کے مینار بنا سکتے ہیں۔
- Created on .