تاریخی رومی سے لے کر عصر حاضر کے رومی تکمولانا رو م کا 736واں یوم وفات منایا گیا
لاہور :۔ مولانا جلال الدین رومی مغرب میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مسلمان شاعر ہیں کیونکہ انھوں نے خالق (خدا) کے لئے مخلوق (انسانوں ) سے محبت کی ضرورت پر زور دیا۔
ان خیالات کا اظہار عظیم مسلمان مفکر اور صوفی شاعر جلال الدین رومی کے 736ویں یوم وفات پر رومی فورم اور پنجاب یونیورسٹی سینٹر برائے ساﺅتھ ایشین سٹڈیز کے اشتراک سے جمعرات 17دسمبر2009کو ہونے والے سیمینار میں کیا گیا۔
رومی فورم کے چیئرمین ہارون کوکن اوررومی فورم کے اکیڈمک اینڈ میڈیا کو ارڈینٹر سوات اروان کلیدی مقررین تھے ۔ جبکہ تقریب کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جمیل انور نے کی ۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے رومی فورم کے چیئرمین ہارون کوکن نے کہا کہ رومی اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ عظیم لوگوں کی قبریں زمین پر نہیں بلکہ صاحب عقل افراد کے دلوں میںہوتی ہیں۔ رومی کی میراث صرف ان کی زندگی تک محیط نہ تھی بلکہ اس کے بعد آنے والی صدیوں اور اآج بھی قائم ہے۔ رومی فورم کے چیئرمین نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ رومی کے محبت، برداشت اور ہم آہنگی کے اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کی بنیاد اسلامی تعلیمات سے لی گئی ہے۔ انھوں نے کہ کہ رومی فورم، پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ تعاون بڑھائے گی اور یونیورسٹی کیمپس میں ان تبرکات مقدسہ کی تصویری نمائش منعقد کی جائے گی۔ کہ جو اس وقت توپ کاپی میوزیم استنبول میں محفوظ ہیں۔
رومی فورم کے اکیڈمک اور میڈیا کو ارڈنیٹر سوات اروان نے اپنے خطاب بعنوان”تاریخی رومی سے لے کر عصر حاضر کے رومی تک“ میں کہا کہ رومی کی تعلیمات پاکستان کے موجودہ مسائل کے حل میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے انسانی و سائل کو بروئے کار لانے اور قول و فعل کا تضاد دور کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔ سوات اروان نے ترک مفکر اور مصنف محمد فتح اللہ گلین کی مثبت تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے اسلامی طرز فکرکو اپنانے پر زور دیا کہ جس کی اثاث مولانا رومی کی تعلیمات اور ان کی زندگی ہے۔ انھوں نے محمد فتح اللہ گلین کی تعلیمات سے متاثر خدمت خلق کی اس عظیم کاوش کا ذکر بھی کیا کہ جو دنیابھر میں امن وسلامتی کی نقیب ہے۔
سیمینار میں اس بات کا ذکر بھی ہوا کہ رومی کے الفاظ کو آواز، فتح اللہ گلین کی شکل میں ملی اور مولانا رومی کے پیغام محبت ، خدمت خلق اور بھائی چارہ کا مجسم نمونہ محمد فتح اللہ گلین کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مفکرین گلین کو دور جدید کا رومی کہتے ہیں۔
اسلام آبا دکلب کے ڈاکٹر نعیم مشتاق نے اپنے مقالے میں اسلام کے عالمگیر پیغام سے وابستہ رومی کی تعلیمات کی افادیت کی جانب توجہ مبذول کرائی اور بین المذاہب مکالمے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بہت سے ایسے مسائل کی نشاندہی کی کہ جن کے متعلق غلط فہمیاں عام رہی ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ جہاں مسلمان صرف جلال الدین رومی کے پیغام کے ساتھ روحانی طور پر متعلق رہے ہیں وہیں مغربی دنیا نے رومی کو بطور شاعر علمی انداز میں پر کھا ہے۔
اپنے صدارتی خطبے میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل انور نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب مولانا جلال الدین رومی کے یوم وفات (شب عروس) کی مناسبت سے ایک تقریب منعقد کی گئی ہے۔ جناب وائس چانسلر اور سنٹر برائے ساﺅتھ ایشن سٹڈیز کے اساتذہ نے فتح اللہ گلین کی تعلیمات سے متاثر رضا کارانہ شہری تحریک کو خراج تحسین پیش کیا اور پاکستان میں امن واستحکام کے قیام کےلئے رومی کی تعلیمات پر عمل دارآمد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
- Created on .