مثالی آدمی مثالی معاشرہ
محمد فتح اللہ گولن سے میرا باقاعدہ تعارف 2010میں اس وقت ہوا جب ترکی سے کوئی 300تاجر عید قربان سے چند دن قبل لاہور آئے اور انہوں نے اعلان کیاکہ وہ اپنی عید سیلاب زدگان کے ساتھ گزاریں گے۔ یہ ہمارے لیے واقعی اچنبھے کی بات تھی ۔ ترکی اس وقت دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے اور اس لحاظ سے اس کے تاجر بھی خاصے امیر کبیر واقع ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے طرز رہن سہن کے حوالے سے بھی ہمیں اندازہ ہے کہ وہ خاصا مغربی ہے ، سو ایسے لوگ کیونکر اس بات پہ آمادہ ہوئے کہ وہ اپنی عید اپنے خاندان والوں کے بجائے سیلاب زدگان کے ساتھ گزاریں گے ۔ اس واقعہ نے میرے دل میں ترکی جانے اور وہاں کے لوگوں سے ملنے کا اشتیاق اور بڑھا دیا۔ میں جس ترکی سے کتابو ں کے ذریعے واقف تھا وہ بقول مغربی ممالک یورپ کا مرد بیمار تھا۔ اس کے علاوہ میری واقفیت کمال اتا ترک اور ان کی اصلاحات کے نتیجے میں بننے والے ترکی کے بارے میں زیادہ تھی۔ اتا ترک جنہوں نے خلافت کے خاتمے کے بعد ترکی کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنے ملک کو ترقی دینے کے راسے پر گامزن ہوتے ہوئے اپنی تاریخی، تقافتی اور مذہبی روایات کو ترک کر دیا۔ ترکی ایک لمبے عرصے تک اس کے بعد یورپ کے رنگ میں رنگا ایک ملک جہاں فوج اور بیورو کریسی نے مل کر یورپی طرز معاشرت اور اخلاقی قدروں کو فروغ دینے کا رجحان رہا بن کر سامنے آیا۔ اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ سر پر سکارف لینے ، اسلامی لباس پہننے ، دفاتر میں نماز پڑھنے پر پابندی تھی۔ نظام حکومت اور اداروں کی تشکیل مکمل طور پر سیکولر تھی اور اس پر عمل کرانے کے لیے فوج سے مدد کی جاتی تھی۔ مشکل یہ تھی کہ ان تمام اقدامات کے باوجود ترکی ایک ترقی پذیر ملک نہیں تھا۔ عوام کی مالی حالت خراب تھی۔ ترکی کی کرنسی روبہ زوال تھی اور اسکے اثرات تمام اداروں پر پڑرہے تھے ۔ یہ صرف دس پندرہ برس پہلے کی بات ہے کہ جب اسی ترکی نے طیب اردگان کی سربراہی میں انگڑائی لی اور اب ترکی ایک ترقی پذیر ملک ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ اداروں کی تشکیل نو کے بغیر یا ان میں تبدیلی لائے بغیر کیا یہ ترقی ممکن ہو سکتی تھی۔ اس کا جواب یقیناً نہیں میں ہے اور ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ترک ادارے کافی عرصہ پہلے سے تبدیل ہو رہے تھے۔ یہ تبدیلی ان کے کے ہاں جناب محمد فتح اللہ گولن جیسے لوگ لے کر آئے اور اب اس کے اثرات یہ ہیں کہ ترکی نہ صرف یہ کہ اپنے اداروں کی تشکیل میں اسلامی ہے ، بلکہ یہ بھی کہ اس کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے ۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا ۔ مثالی انسان کیسے بنا جا سکتا ہے۔ مثالی معاشرہ کیسا ہونا چاہیے ۔ فتح اللہ گولن کا فلسفہ کیا ہے اس حوالے سے رومی فورم پاکستان ، فائونٹین میگزین، رائڑز اور جرنلسٹس فاؤنڈیشن پاک ترک سکول نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان حکومت پنجاب اور پنجاب یونیورسٹی کے تعاون سے لاہور میں 20اور 21نومبر کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا۔ پاکستان میں اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد پاک ترک تعلقات کو فکری اور نظری طور پر قریب لانا تھا۔ فتح اللہ گولن کے بقول اگر فرد مثالی ہو گا تو معاشرہ خود بخود مثالی بن جائے گا۔ یوں ہم زمین پہ پر امن اور خوشحال زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں گے ۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے بے شمار سکالرز شرکت کے لیے آئے اور ان کے مقالے سن کر اور ان سے گفتگو کر کے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فتح اللہ گولن صاحب کے خیالات اور فلسفہ نے ان سب کو کس حد تک متاثر کیا ہے۔
یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ میں تھوڑا سا تعارف آپ کو فتح اللہ صاحب کا دے دوں۔ فتح اللہ گولن ترکی کے ایک روائتی مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی قرآن مجید کی تعلیم انہوں نے اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی اور عربی ، فارسی اپنے والد گرامی سے سیکھی ۔ ان کے والد اس وقت اپنے زمانے کے بے شمار علما ئے کرام اور فضلائے کرام سے دوستی رکھتے تھے۔ سو فتح اللہ گولن کو اپنے والد کی سرپرستی میں ان علمائے کرام اور فضلائے کرام سے علم سیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں روایتی اسلامی علوم فلسفہ، منعلق، حدیث اور دوسرے علوم شامل ہیں۔ انہوں نے موجودہ دور کے اکابر ین کی کتب سے بھی استفادہ کیا اور جو سبق انہوں نے سیکھا وہی موجودہ ترکی میں اس بے مثال ترقی کا باعث بنا۔
کسی بھی معاشرے میں ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام ادارے یعنی خاندان سیاسی نظام، مذہب اور معاشی نظام ہم آہنگ ہو کر چلتے ہوں۔ ان سب اداروں کے لیے ایک گورننگ فلسفہ بھی ہونا چاہیے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو ہمارے اکثر اکابرین سمجھ نہ پا ئے لیکن فتح اللہ گولن نے اس حقیقت کو مان لیا ان کے افکار سے متاثر ہو کر تبلیغی، رفاہی، ذرائع ابلاغ ، صحت، صنعت ، تعلیم اور دیگر بہت سے شعبوں میں ان کے پیرو کاروں نے انقلابی کام کئےہیں۔ ان کے بنائے ہوئے ہائر ایجوکیشن کے ادارے جس میں فاتح یونیورسٹی جیسی یونیورسٹیاں شامل ہیں ۔ فزکس اور دیگر سائنسی علوم شامل ہیں ،ایسی ریسرچ ہو رہی ہے جو کسی بھی ترقی یافتہ یورپی ملک کا مقابلہ کر سکتی ہے ۔ ان کے بنائے ہسپتال یورپی اور امریکہ کے انتہائی شاندار ہسپتالوں کا مقابلہ کر تے ہیں۔ اخبارات ، رسائل ، کتب ،ٹی وی سٹیشن ، سب پران کے افکار کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے اور یہ سب ایسے اشخاص کر رہے ہیں جو ان کے خیالات سے متاثر ہیں۔
سب سے بڑا کام ان لوگوں نے تعلیم کے شعبے میں کیا ہے ۔ ان حالات میں 1970سے لے کر اب تک بے شمار سکول کھولے گئے ہیں۔ ان کے مطابق ایک آئیڈیل ماڈل ایجوکیشن سسٹم وہ ہے جو طلبا کے اندر علم کو سائنسی بنیادوں پر سیکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا درس بھی دے ۔ یہ کوئی نیا اور اچھوتا خیال نہیں ہے،لیکن گولن نے اس خیال کو ہر قسم کے نظریاتی تعصب سے پاک کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں تعلیم بنیادی طور پر نالج حاصل کے ساتھ ساتھ اچھے کردار اور استدلال قوت حاصل کرنے کا نام ہے ۔ اس کے لیے آدمی کو اپنی نسل اور عصتی سے بلند ہو کر سوچنا ہو گا۔ تعلیم اس کے لیے اس کی مدد کرے گی، ان خیالات کی روشنی میں ہمیں اپنے حالات کا جائزہ بھی لینا چاہیے اور یہ سوال اٹھانے چائیں کہ کیا ہماری تعلیم ہمیں اپنے نسلی تفاخر، اپنی نسلی روایات اور عصبی جاہلیت سے آزاد کر رہی ہے۔ کیا ہم علم حاصل کرے کے بعد اپنے نظریاتی تعصب سے پاک ہو جاتے ہیں کیا ہمارے ادارے ہم آہنگ ہو کر چل رہے ہیں کیا ہماری یونیورسٹیاں ایسی بن گئی ہیں کہ ان کا مقابلہ یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے کیا جا سکے۔ کیا ہمارے ہسپتال ایسے صاف اور ماڈرن ہیں کہ دوسری دنیا سے لوگ علاج کے لیے یہاں آنے لگیں۔ کیا ہمارے اندر دوسرے کو خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ نسل یا عقیدے سے ہو برداشت کرنے کا حوصلہ پید ا ہو گیا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم کسی بھی صورت نہ تو مثالی فرد بن پائے ہیں اور نہ ہی ہمارا معاشرہ مثالی معاشرہ بن پایا ہے۔ ترکی نے انصاف، اخلاقیات اور کرپشن سے پاک نالج پر مبنی ایک مثالی معاشرے کا خواب تقریباًپورا کر لیا ہے۔ ہم ایسا کب کر پائیں گے اس پر ہمیں بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔
- Created on .