نئے ہزاریئے کے آغاز پر
جس طرح ہر صبح اور آنیوالی بہار اپنے جلو میں ایک نیا آغاز اور نئی امید لے کر آتی ہے اسی طرح ہرصدی اور ہزاریہ اپنے ساتھ یہی کچھ لے کر آتا ہے ۔ یوں وقت کی گاڑی پر سوار انسان جس کا اس پر کوئی اختیار نہیں ‘ ہمیشہ ایک ایسی چنگاری اورتازہ ہوا میں ایک ایسی گہری سانس کا متلاشی رہا ہے جو اس کی زندگی میں جوش و ولولہ بھر دے اس کی ہمیشہ یہ آرزو رہی ہے کہ یہ ظلمت سے نکل کر روشنی اس آسانی کے ساتھ آجائے جس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ قدم رکھنا۔ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا پر حقیقی مرد اور عورت کب نمو دار ہوئے ۔ تقویم کے مطابق جو کہ ہم آج استعمال کرتے ہیں ہم حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد تیسرے ہزاریئے کے آغاز پر ہیں تاہم وقت کے گزرنے کا حساب لگانے کے اپنے پیمانے ہیں مثلاً مستند عالمی پیمانوں کے مطابق دنیا ایک نئے ہزاریئے کے آغاز پر ہے ۔ یہودی تقویم کے لحاظ سے ہم آٹھویں ہزاریئے کے دوسرے نصف میں ہیں ۔ ہندو تقویم کے مطابق ہم کالی یوگا کے دور سے گزررہے ہیں اور اسلامی تقدیم کے مطابق ہم دوسرے ہزاریئے کے پہلے نصف کے اختتام کے قریب ہیں۔
البتہ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ وقت کا ہر پیمانہ ایک نسبتی پیمانہ ہے ۔ اگر چہ کے ایک صدی سو سالوں پر محیط ہوتی ہے لیکن ایک اوسط آدمی کی عمر کے لحاظ سے جو کہ ساٹھ برس کے لگ بھگ ہوتی ہے ۔60 برس کی صدی کا تصور بھی قابل ذکر ہے ۔ اس لحاظ سے ہم حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد آج چوتھے ہزاریئے میں ہیں اور ہجرت کے بعد سے تیسرے ہزاریئے میں جو کہ اسلامی کیلنڈر کا نقطہ آغاز ہے ۔
اس بات کا ذکر میں اس شدید روحانی بے چینی کے حوالے سے کررہا ہوں جو کہ اس ہزاریئے سے وابستہ خوفناک بد شگونیوں کی وجہ سے خاص طور پر مغرب میں پائی جاتی ہے ۔
انسان ہمیشہ امید کے سہارے زندگی گزارتا ہے اور اس طرح سے انسان امید ہی کی پیداوار ہے اور امید کے کھوجاتے ہی اس میں زندگی کا جوش بھی دم توڑ دیتا ہے قطع نظر اس کے اس کا جسمانی وجود اپنی جگہ قائم ہوتا ہے ۔ امید کا تعلق ایمان سے ہے ۔جس طرح موسم سرما ایک برس کے چوتھائی حصے پرمحیط ہوتا ہے اسی طرح انسانی زندگی کا موسم سرما بھی ایک مختصر مدت کے لئے ہوتا ہے۔ خدائی کام انتہائی حکمت اور رحمت کے تحت جاری وساری رہتے ہیں جس طرح سلسلہ شب وروز انسان کی امید بند ھا تا ہے اور ہر نیا سال اپنے ساتھ موسم بہار اور موسم گرما کی حرارت کی امید لئے آتا ہے اسی طرح انسان کی زندگی کا مایوسی کا دور بھی مختصر ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والا دور ایک فرد اور قوم کی زندگی میں خوشی ومسرت کا دور ہوتا ہے ۔
سلسلہ شب وروز جس کے پیچھے خدائی حکمت کارفرما ہوتی ہے ایمان اور بصیرت والوں کے لئے خوف یا مایوسیت کا باعث نہیں ہے بلکہ نیک دل اور بصیرت رکھنے والوں کے لئے مسلسل غور وفکر یا د الٰہی اور اس کا شکر ادا کرنے کا موجب ہے جس طرح دن کی تخلیق رات میں ہوتی ہے جس طرح موسم بہار موسم خزاں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ۔ اسی طرح ایک انسان کی زندگی کی تطہیر اس کی پختگی اور پابندی اور ثمر آوری بھی اس سلسلہ شب وروز کے دوران ہوتی ہے اسی طرح شب وروز کے چکر میں انسان کی خداداد صلاحیتیں اس کی لیاقت اور کمال کی صورت میں نمو دار ہوتی ہیں سائنس کی مختلف شاخیں گلاب کے پھول کی طرح کھلتی چلی جاتی ہیں اور وقت کی کھڈ ی پر ٹیکنالوجی کی بنائی کرتی ہیں اور یوں انسان کا پہلے سے طے شدہ انجام کی جانب سفر جاری رہتا ہے ۔
اس عمومی نقشے کے بیان کے بعد جوکہ نہ تو ذاتی ہے اور نہ ہی موضوعی بلکہ انسانی تاریخ کی ایک معروضی حقیقت ہے ‘یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم سرما یا سرمائی حالات کو جوکہ رنج وغم اور بیماری سے تشبیہ رکھتے ہیں خوش آمدید کہتے ہیں ۔ باوجود اس کے کہ عارضہ اور بیماری بالآخر ہمارے جسم کی مزا حمت کو بڑھاتے ہیں ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کو تقویت دیتے ہیں اور جس کے نتیجے میں طبعی شعبے میں ترقی کا عمل آگے بڑھتا ہے اس کے باوجود یہ باعث آزاد اور تکلیف ہے مذہبی اور اخلاقی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ہمارے گناہوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے جو کہ زمین اور آسمان کو ہلا سکتے ہیں ایسے اعمال جن کا کرنا حرام ہے اور جنہیں قانون اور اخلاقیات بھی سخت نا پسند کرتے ہیں اگر چہ کہ یہ تباہی وبربادی انسان کو اپنی خطاﺅں اور لا پرواہی کا احساس دلانے کے لئے بیدار کرتی ہے اور جس کی وجہ سے ارضیات ‘تعمیرات ‘انجینئرنگ اور متعلقہ احتیاطی تدابیر کے شعبے میں ترقی ہوتی ہے ۔ باوجود اس کے ایمان والے اپنی کھوئی ہوئی میراث پھر سے حاصل کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں خیرات اور صدقات دینے لگتے ہیں اور حتیٰ کہ اپنی جان بھی قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اس کے باوجود یہ انسانیت کے لئے خاصی تباہ کن ہوتی ہے ۔ اسی حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے
اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گر جا گھر اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔ (22:40)
با الفاظ دیگر اللہ کی ذات کی پہچان اس قدر کمزور ہوگی کہ مرد وزن جوکہ خود سے زیادہ طاقتور چیز کو تسلیم کرنے پر مائل نہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ آخرت میں ان سے ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہوگی ۔ مکمل طور پر بھٹک جائیں گے اور دنیا کو نا قابل رہائش مقام بنادیں گے ۔
مثلاً جنگ جائز ہوسکتی ہے ۔ باوجود اس کے بعض جنگیں جو اصولوں کی خاطر حالات کی بہتری کے لئے لڑی جاتی ہیں ان کے فوائد ہوسکتے ہیں لیکن ان کی خواہش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ جنگ سے بہر حال نقصان ہوتا ہے یہ اپنے پیچھے تباہ و برباد مکانات ‘خستہ حال خاندان اور روتے پیتے یتیم اور بیوائیں چھوڑ جاتی ہیں ۔
تاہم زندگی کے حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی انہیں نظر انداز کرنا چاہئے بنی نوع انسان اسمائے حسنیٰ اور صفات ربانی کا آئینہ ہے اسی لئے اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ یہ دنیا کو اس کے نام پر خوشگوار جگہ بنائے اگر بنی نوع انسان خیر وشر کے پیچھے کار فرما حکمت اور مقصد کو نہ سمجھ پائے جو کہ خالق کائنات کی طرف سے ہے تو پھر یہ مایوسیت اور قنوطیت سے دامن نہیں چھڑا سکتا وجودیت کے لٹریچر کے مطابق زندگی کے لئے بے معنی عمل ‘وجود ایک بے مقصد ویرانی بن جاتی ہے خود کشی ایک مستحسن عمل اور موت ایک ناگزیر حقیقت بن جاتی ہے ۔
بنی نوع انسان کی بنیادی فطرت :۔
اس موضوع کے متعلق بنیادی معاملات بتا دینے کے بعد ہم تیسرے ہزاریئے کی طرف چلتے ہیں انسانی تاریخ کا آغاز دو انسانوں سے ہوا جن میں انسانیت کا جوہر چھپا ہوا تھا ۔
اس دور کا انسان جو کہ اصل ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کررہا تھا آرام اور سکون میں تھا اور بعد میں آنے والے خاندان بھی مزے اور سکون کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ وہ ایک متحد معاشرے کی حیثیت سے زندگی گزاررہے تھے اور ان کے خیالات میں بھی یکسانیت تھی ۔
اس روز سے انسانیت کا جو ہر نہیں بدلا اور اسی طرح رہے گا ۔ ان کی زندگی کی اطرافی حقیقتیں ان کا جسمانی ڈھانچہ ان کے نمایاں خصائص ‘مقام پیدائش اور موت بنیادی ضروریات ‘پیدائشی خواص اور اس کے علاوہ گرد وپیش کا فطری ماحول نہیں بدلا اس کے لئے بعض بنیادی اور نا قابل تبدل حقائق اور اقدار کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے زندگی کے ثانوی حقائق کی بنیاد پر بنیادی حقائق اور اقدار ہوتی ہیں ‘ تاکہ آسمان کے سائے تلے موجود یہ دنیا ارض جنت بن جائے ۔
اوپر ہم نے چند ایسے معاملات کا ذکر کیا جو کہ ضرر رساں اور نا خوشگوار ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح انسان کی بعض عادات پہلی نظر میں بری نظر آتی ہیں مثلاً نفرت ‘حسد ‘عداوت ‘ غلبہ پانے کی خواہش ‘لالچ ‘غصہ اور انا پرستی ‘ ایک انسان کے اندر بعض دیگر پیدائشی جبلتیں اور ضروریات ہوسکتی ہیں جو کہ اس کی دنیاوی زندگی کے تسلسل کو ممکن بناتی ہیں مثلاً خورد ونوش کی احیتاج اور ہوس اور غصے کی جبلت ‘تمام انسانی جبلتوں ‘ضروریات اور خواہشات کی تربیت ورہنمائی ان ابدی آفاقی اقدار کی سمت میں ہونی چاہئے جن کا تعلق انسانیت کے بنیادی پہلوﺅں کے ساتھ ہے اس طرح خورد ونوش کی احتیاج اور ہوس اور غصے کی جبلت کو قابو میں لایا جاسکتا ہے اور اسے مکمل اچھائی یا نسبتاً اچھا بنایا جاسکتا ہے ۔
اسی طرح انا پرستی اور نفرت کو بھی اچھی عادات کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے ۔ حسد اور عداوت کو بھی اچھے کاموں میں مسابقت کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے ۔ نفرت کی جبلت کو شیطان سے نفرت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جو کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور انہی جذبات کو بذات خود نفرت اور عداوت کی طرف بھی موڑا جاسکتا ہے ۔ ہوس اور غصے کی جبلت انسان کو اچھے کاموں کی انتھک ادائیگی پر مجبور کر سکتی ہیں ۔ انا پرستی انسان کو اس کے نفس کی پہچان کرواسکتی ہے اور اس طرح انسان اس کی تربیت کرتے ہوئے اسے پاک صاف کرسکتا ہے ۔
تمام منفی احساسات اور جذبات کو جدوجہد کے ذریعے نیکی اور بھلائی میں بدلا جاسکتا ہے۔ اسی طرح انسان اشرف المخلوقات کے درجے تک پہنچ سکتا ہے ۔ اور یوں انسان ایک عام انسان سے حقیقی اور کامل انسان بن سکتا ہے ۔
اور اس طرح خود کو تخلیق کا بہترین نمونہ بنا کر پیش کرسکتا ہے ۔ ان حقائق کے باوجود انسانی زندگی کے حقائق ان رہنما اصولوں کی پیروی نہیں کرتے ۔ منفی جذبات اور عادات انسان کو شکست سے دوچار کردیتے ہیں اور انسان اس قدر مغلوب ہوجاتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کا سبق سکھانے والے مذاہب کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ مثبت جذبات کو بھی روند دیا جاتا ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر انسان کی زندگی اندرونی کشمکش اور اس کے اظہار سے عبارت ہے ۔ کشمکش کی یہی لہریں ایک فرد کی ذاتی زندگی ‘معاشرے اور تاریخ کو جنگ وجدل ‘ظلم وجبر اور استبداد کا میدان بنادیتی ہیں اور اسکے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا انسان خود ہے ۔
مرد وزن دونوں کو اپنے اعمال کا ثمر ملتا ہے ۔ تاریخ کے پہلے دور میں انسان اتفاق کے ساتھ ایک معاشرے میں خوش وخرم زندگی بسر کررہا تھا جس کے ممبران خوشی اور غم میں شریک ہوتے لیکن اس کے بعد انسان نے اپنی گردن حسد ‘لالچ اور ایک دوسرے کے استحصال کے زنگ آلود جوے میں پھنسالی ۔ اس کے نتیجے میں قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا اس طرح انسانیت نفاق کی راہ پر چل پڑی ۔ دنوں ‘موسموں اور سالوں کی طرح ہزار یئے یکے بعد دیگرے چلے آتے ہیں اور یہ چکر بدستور جاری ہے ۔
دوسرا ہزاریہ :۔
دوسرے ہزاریئے کا آغاز صلیبی جنگوں سے ہوا اور اس کے بعد منگولوں نے مسلم دنیا پر چڑھائی کردی ۔ جو کہ اس وقت دنیا اور تاریخ کا دل تھی ۔ تمام تر تباہی اور بربادی کے باوجود اور مذہب اور بعض اوقات معاشی ‘سیاسی اور فوجی بر تری کے نام پر ہونے والے جرائم کے باوجود اس ہزاریئے نے مشرقی تہذیب کو اپنے عروج پر دیکھا یہ الٰہیاتی آفاقی اور دیر پا اقدار پر قائم تھی اور مغربی تہذیب کی بنیاد طبیعاتی سائنس پر تھی اس دوران کئی خطے دریافت ہوئے اور کئی سائنسی ایجادات ہوئیں البتہ مشرقی اور مغربی تہذیبیں ایک دوسرے سے الگ اپنی اپنی جگہ قائم تھیں یہ دوری جو کہ نہیں ہونی چاہئے تھی اس کی وجہ اول الذکر سائنس سے دور ہونا اور ثانی الذکر کی روحانیت الٰہیات اور دیر پا اقدار سے دوری تھی اس کے نتیجے میں اس ہزاریئے کی آخری صدی میں وہ تباہی اور بربادی دیکھنے میں آئی جسکا تصور نا ممکن ہے انسان کی رعونت اور انا پرستی کی بنا پر جس کا سبب اس کی کامیابیاں تھیں مرد وزن کو پوری دنیا میں نو آبادیاتی نظام ‘بڑے پیمانے پر خون ریزی ‘خونی انقلابات اور خونی جنگوں ‘نسلی تضادات اورشدید سماجی اور مالی نا انصافیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایسے آہنی پردوں کے پیچھے زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا جس میں انسانی آزادی ‘وقار اور اہلیت کی نفی کی گئی ۔
کسی حد تک یہ مذکورہ بالا وجوہات کی بناءپر ہوا اور اس کے علاوہ بائیبل میں موجود پیش گوئیاں تھیں جس کی وجہ سے مغرب میں بہت سے لوگ اس خوف میں مبتلا تھے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر خون میں نہلا دی جائے گی ۔ یہ لوگ نئے ہزاریئے کے حوالے سے خاصے نا امید اور متفکر ہیں ۔
ہماری توقعات :۔
جدید ذرائع مواصلات اور ذرائع آمدورفت نے دنیا کو ایک بڑے گلوبل ولیج میں بدل دیا ہے لہٰذا وہ لوگ جن کے خیال میں کسی بھی ملک میں ہونے والی اہم اور بنیادی تبدیلیاں صرف اس ملک تک محدود رہیں گی در اصل حقائق سے بے خبر ہیں ۔ یہ باہمی تعلقات کا زمانہ ہے آج لوگوں کا ایک دوسرے پر زیادہ انحصار ہے اور ایک دوسرے کی زیادہ ضرورت ہے جس کی بنا پر باہمی تعلقات میں قربت آرہی ہے۔
تعلقات کا یہ جال جو کہ ظالمانہ نو آبادیاتی نظام کے دور کو پیچھے چھوڑ آیا ہے باہمی مفادات پر قائم ہے اور کمزور فریق کے لئے فائدہ مند ہے مزید برآں ٹیکنالوجی اور خاص کر ڈیجیٹل الیکٹرونک ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے معلومات کا تبادلہ اور ترسیل بتدریج ترقی کررہی ہے اس کے نتیجے میں فرد نے آگے بڑھ کر اس امر کو نا گزیر بنادیا ہے کہ انفرادی حقوق کا احترام کرنے والی جمہوری حکومتیں مطلق العنان حکومتوں کو ختم کردیں ۔
اس لحاظ سے فرد دیگر افراد کے مقابلے میں اپنی حیثیت رکھتا ہے ۔ فرد کے حقوق معاشرے کے لئے قربان نہیں کئے جاسکتے اور سماجی حقوق کا انحصار شخصی حقوق پر ہے یہی وجہ تھی کہ جنگ سے نڈھال مغربی معاشروں نے الہامی مذاہب میں موجود انسانی حقوق اور آزادی پر توجہ دی تمام تر تعلقات میں انہیں فوقیت حاصل ہے ۔اان تمام حقوق میں زندگی کا حق جو کہ صرف اللہ ہی دے سکتا ہے اور لے سکتا ہے سر فہرست ہے اس حق کی اہمیت جو کہ ایک بنیادی قرآنی اصول ہے قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے ۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی ۔ (5:32)
دیگر حقوق میں مذہب اور عقیدے کا حق آزادی اظہار کا حق ‘املاک کی ملکیت کا حق اور ایک انسان کی چار دیواری کا حق ‘ شادی اور اولاد پیدا کرنے کا حق ‘بات چیت اور سفر کا حق ‘اور تعلیم حاصل کرنے کی آزادی کا حق شامل ہیں ۔
اسلامی فقہ کے اصول اور چند دیگر حقوق پر قائم ہے اور جنہیں تمام جدید قانونی نظام قبول کرتے ہیں مثلاً نسل کَشی اور اپنی فکری صلاحیتوں کا استعمال اور بلا تفریق رنگ ونسل انسانی برابری پر یقین اور رنگ ونسل ‘ولسانی امتیاز کی نفی یہ تمام چیزیں نئے ہزاریئے کے لازمی اجزا ہوں گے اور ہونے چاہئیں ۔
مجھے یقین ہے کہ نئے ہزاریئے کی دنیا زیادہ خوشحال ‘انصاف پر مبنی اور زیادہ محبت والی جگہ ہوگی اسلام عیسائیت اور یہودیت کی جڑیں ایک ہی ہیں ان کے لوازمات بھی ایک ہیں اور ان کی آبیاری کا منبع بھی ایک ہے ۔ا اگر چہ کہ کئی صدیوں تک یہ مذاہب ایک دوسرے کے حریف رہے لیکن ان کی مشترک باتیں اور مخلوقات عالم کے لئے ایک خوشحال اور خوشگوار دنیا کی تعمیر کی مشترکہ ذمہ داری بین المذاہب مکالمہ کو لازمی بناتی ہیں ۔
اس ڈائیلاگ کا دائرہ ایشیائی مذاہب اور دیگر علاقوں تک وسیع ہوگیا ہے اور نتائج بہت مثبت نکلے ہیں
جب کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ ڈائیلاگ ایک ناگزیر عمل کے طور پر شروع ہوں گے اور تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا طریقہ سمجھ میں آجائے گا ۔
گزشتہ قوموں نے ایک ایسی تلخ کشمکش دیکھی جو کہ نہیں ہونی چاہئے تھی یعنی سائنس بمقابلہ مذہب اس کشمکش نے دہریت اور مادہ پرستی کو پروان چڑھایا اور اس نے کسی بھی مذہب سے زیادہ عیسائیت کو متاثر کیا سائنس مذہب کے ضد نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد فطرت اور انسانیت کو سمجھنا ہے اور دونوں صفات ربانی یعنی اللہ کی رضا اور اس کی قدرت کے مظہر ہیں ۔ مذہب کا منبع آسمانی کتابیں صحائف ہیں جو کہ اصل میں کلام اللہ ہیں ان میں قرآن ‘انجیل اور تورات اور دیگر صحائف شامل ہیں ۔ عیسائی اور مسلمان علماءکا شکریہ کہ جن کی کاوشوں کی بدولت یوں دکھائی دینے لگا ہے کہ چند ہی صدیوں میں مذہب اور سائنس کا تصادم ختم ہوجائے گا یا کم از کم اس تصور کے غلط ہونے کا احساس پیدا ہوجائے گا ۔
اس تصادم کے خاتمے سے ایک نئے طرز کی تعلیم سامنے آئے گی جس میں سائنس اور مذہب باہم پیوست ہوں گے اور اخلاقیات اور روحانیت کی تعلیم سے صحیح معنوں میں روشن فکر انسان جنم لیں گے جن کے قلب مذہبی سائنسوں اور روحانیت سے منور ہوں گے ۔ ان کے ذہن مثبت سائنسوں سے روشن ہوں گے جن میں تمام انسانی خوبیاں اور اقدار موجود ہوں گی جو اپنے دور کے سماجی معاشی اور سیاسی حالات سے آگاہ ہوں گے ۔
ہماری دنیا اپنے خاتمے سے قبل ایک شاندار دور بہار دیکھے گی اس دور بہار میں امیر اور غریب کے مابین فاصلہ کم ہوجائے گا ۔ دنیا کی دولت اور وسائل کی تقسیم انسان کی محنت اس کے سر مائے اور اس کی ضروریات کے مطابق ہوگی جہاں رنگ ونسل زبان اور عمومی تصور کی بنیاد پر امتیاز کا خاتمہ ہوگا بنیادی انسانی حقوق اور آزادی محفوظ ہوگی۔ افراد آگے بڑھ کر اور اپنی مخفی صلاحیتوں کو سمجھ کر محبت ‘علم اور ایمان کے بال وپر کی طاقت سے پرواز کرتے ہوئے سر فرازی اور بلندی پالیں گے ۔ اس دور بہار میں جب موجودوہ سائنسی اورفنی ترقی کا جائزہ لیا جائے گا تو آج کے دور کی ترقی گھٹنوں کے بل چلتے بچے کا عہد طفولیت دکھائی دے گی ۔ انسان خلائی سیر اس طرح کرے گا جس طرح بیرون ملک کا سفر کیا جاتا ہے پیار ومحبت کا درس دینے والے وہ لوگ جن کے پاس بغض وکینہ کے لئے وقت نہیں ہوتا اپنا عزم دوسری دنیاﺅں میں لے جائیں گے ۔
جی ہاں اس دور بہار کی بنیاد محبت ‘ہمدردی ‘خداترسی ‘ڈائیلاگ ایک دوسرے کو قبول کرے باہمی احترام ‘انصاف اور حقوق پر قائم ہوگی ۔ یہ وہ وقت ہوگا جب انسانیت اپنے اصلی جوہر کو پالے گی اچھائی اور بھلائی نیکی اور پاکبازی دنیا کا خاصہ ہوگی خواہ کچھ بھی ہودنیا اس راہ پر جلد یا بدیر آہی جائے گی کوئی بھی اسے روک نہیں سکتا ۔
ہم اس انتہائی مہربان ذات سے دعا کرتے ہیں کہ ہماری امیدوں اور توقعات کو دم توڑنے سے بچا ۔
- Created on .