اسلام اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ
مذہب اور خاص طور پر اسلام موجود ہ دور میں ایک مشکل موضوع سخن بن چکا ہے ۔ موجودہ کلچر ‘خواہ اسے علم البشریات کے حوالے سے ‘ مذہب کے حوالے سے ‘نفسیات کے حوالے سے یا تحلیل نفسی کے حوالے سے دیکھا جائے ‘مذہب کا تجزیہ مادی اصولوں کے تحت کرتا ہے ۔ ایک طرف تو مذہب قلبی طور پر محسوس کیا جانے والا تجربہ اور احساس ہے ایک ایسی چیز جس کا تعلق زندگی کے دائمی پہلوﺅں کے ساتھ ہے ۔ دوسری جانب مذہب پرست‘مذہب کو ایک فلسفے ‘ عقلی اصولوں کے مجموعے یا محض تصوف کے طور پر دیکھ سکتے ہیں ۔ اسلام کے معاملے میں مشکل بڑھ جاتی ہے کیونکہ بعض مسلمان اور پالیسی ساز اسلام کو خالصتاً سیاسی ، سماجی اور معاشی تصور کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اگر ہم مذہب ، جمہوریت یا کسی دوسرے نظام یا فلسفے کو درست طور پر سمجھنا اور اس کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تو ہمیں انسانیت اور انسانی زندگی کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔ اس تناظر میں مذہب اور خصوصاً اسلام کا موازنہ جمہوریت یا کسی دوسرے سیاسی ، سماجی یا معاشی نظام سے نہیں کیا جاسکتا ۔ مذہب کا مرکز نظر بنیادی طور پر ز ندگی کے نا قابل تبدل پہلو ہیں جبکہ سیاسی ، سماجی اور معاشی نظاموں اور نظریات کے محور سماجی زندگی کے تغیر پذیر پہلو ہیں ۔ جن کا تعلق دنیاوی زندگی کے ساتھ ہے ۔ مذہب کا تعلق جن پہلوﺅں کے ساتھ ہے وہ آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ انسانیت کے آغاز پر تھے اور اس طرح رہیں گے ۔ دنیاوی نظام حالات کے تحت بدلتے رہتے ہیں اور ان کا تجزیہ اپنے دور کی نسبت سے لگایا جاتا ہے ۔ اللہ پر ایمان ‘حیات بعد از موت ‘انبیاءآسمانی کتابیں فرشتے اور تقدیر جیسے معاملات کا زمانے کے بدلنے سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح عبادت اور اخلاقیات کے آفاتی اور نا قابل تبدل معیاروں کا بھی زمانے یا دنیاوی زندگی کے ساتھ خاص واسطہ نہیں ہے ۔
مذہب یا اسلام کا موازنہ جمہوریت کے ساتھ کرتے ہوئے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جمہوریت ایک بتدریج فروغ پانے والا اصلاح پذیر نظام ہے۔جمہوریت کااطلاق مقام اور حالات کی مناسبت سے مختلف الشکل ہے دوسری طرف اسلام نے ایمان ویقین ‘عبادت اور اخلاقیات سے متعلق نا قابل تبدل اصول وضع کررکھے ہیں اس لئے اسلام کے دنیاوی امور سے متعلق پہلوﺅں کی جمہوریت سے موازانہ کیا جائے
اسلام کس طرز حکومت کی بات کرتا ہے ۔
اسلام کا مقصود نظر اور اس کی ناقابل تبدل جہتیں ہماری روز مرہ کی متغیر زندگی کے اصول وضع کرتی ہیں۔اسلام کسی لگے بند ہے نظام حکومت کی تجویز پیش نہیں کرتا جس میں تبدیلی ممکن نہ ہو بلکہ اسلام ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہوں اور وقت اور حالات کے مطابق مطلوبہ طرز حکومت کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیتا ہے ۔
اگر ہم اس موضوع کو اس چیز کی روشنی میں دیکھیں اور اسلام کا موازنہ آج کی جدید جمہوریت سے کریں تو ہم اسلام کی پوزیشن اور جمہوریت کو ایک دوسرے کے مقابلے میں بہتر طورپر سمجھ سکیںگے ۔
جمہوریت کے تصور کی شاخیں قدیم دور سے پھوٹتی ہیں جدید آزاد جمہوریت نے امریکی (1776) اور فرانسیسی انقلاب (1789-99) سے جنم لیا جمہوری معاشروں میں لوگ مسلط کردہ حکومت کی بجائے اپنا نظام حکومت خود چلاتے ہیں اس طرز حکومت میں فرد کو کمیونٹی کے پر بر تری حاصل ہوتی ہے جو کہ اپنی زندگی گزارنے کے انداز کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے تاہم انفرادیت مطلق نہیں ہوتی ۔
لوگ معاشرے میں رہتے ہوئے بہتر زندگی گزارتے ہیں اور اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ لوگ اپنی سماجی زندگی کی کسوٹی کے مطابق اپنی آزادی کو ایک ترتیب اور حدیں رکھیں ۔
حضور فرماتے ہیں کہ تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح یکساں ہیں اسلام رنگ ونسل عمر قومیت یا جسمانی خوبیوں کی بناءپر انسانوں میں تمیز نہیں کرتا ۔ حضور فرماتے ہیں کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔ اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاﺅ ۔
وہ لوگ جو پہلے پیدا ہوئے یا جن کے پاس زیادہ دولت ہے یا جو لوگ کسی خاص خاندان یا لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کا وارثتی حق نہیں رکھتے۔
سچائی طاقت ہے:۔
مزید برآں اسلام درج ذیل بنیادی اصول بھی پیش کرتا ہے ۔
- سچائی طاقت ہے جس سے یہ اصول رد ہوتا ہے کہ حق کا دار ومدار طاقت پر ہے ۔
- انصاف اور قانون کی حکمرانی لازمی ہے ۔
- عقیدے اور زندگی گزارنے کی آزادی ‘ذاتی ملکیت کی آزادی ‘نسل کَشی کی آزادی
- صحت ( جسمانی اور ذہنی ) کی آزادی اور اس کا حق سلب نہیں کیا جاسکتا
- فرداپنی انفرادی زندگی کسی بیرونی دخل اندازی کے بغیر گزارنے کا حق رکھتا ہے۔
- کسی بھی انسان کو ثبوت کے بغیر مجرم نہیں گردانا جاسکتا یا اسے کسی دوسرے کےجرم کی سزا نہیں دی جاسکتی ۔
- مشاورت پر مبنی انتظامی نظام قائم کرنا لازمی ہے ۔
انسان کے تمام حقوق یکساں اہمیت کے حامل ہیں اور معاشرے کے لئے فرد کے حقوق کو قربان نہیں کیا جاسکتا ۔ اسلامی معاشرے سے مراد ایسے انسانوں پر مبنی معاشرہ ہے جو کہ اپنی مرضی میں آزاد ہوں اور اپنی ذات اور دوسروں کے لئے ان کا رویہ ذمہ داری پر مبنی ہو اور اس سے بھی بڑھ کر اسلام انسانیت کو ایک ”موٹر “ کی طرح دیکھتا ہے جو کہ تاریخی عمل میں اپنا کردار ادا کررہی ہو جوکہ انیسویں صدی کے مغربی تصورات جدلیاتی مادیت اور تاریخیت کے برعکس ہے جس طرح اس دنیا اور آئندہ کی زندگی کا دار ومدار انسان کے ارادے اور طرز عمل پر ہے اسی طرح ایک معاشرے کی ترقی یا زوال کا دار ومدار بھی اس کے باسیوں کی قوت ارادی ‘دنیا کے بارے میں تصور اور طرز زندگی پر ہے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔
اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی (13:11)
با الفاظ دیگر ہر معاشرے کے مقدر کی لگام اس کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ نبی پاککے قول کے مطابق" جیسے تم خود ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے
یہ ہے جمہوریت کی بنیادی روح جو کہ کسی بھی اسلامی تصور سے باہم متصادم نہیں ہے ۔
چونکہ اسلام فرد اور معاشرے کو اپنی تقدیر کا خود ذمہ دار ٹھہراتا ہے اس لئے لوگوں کو اپنا نظام انتظام چلانے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے قرآن پاک معاشرے سے مخاطب ہوتے ہوئے " اے انسانوں ‘اور اے ایمان والو‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ ایک جمہوری معاشرے پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں وہی ہیں جن کا ذکر اسلام کرتا ہے اور ان کی درجہ بندی ان کی اہمیت کے لحاظ سے انتہائی اہم‘ نسبتاً اہم اور واجبی کے طور پر کر تا ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ۔
اے ایمان لانے والو تم پورے کے پورے اسلام میں آجاﺅ (2:208)
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو جو مال تم نے کمائے ہیںاور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔ (2:267)
تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لے لو۔ (4:15)
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ‘اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ ( 4:58)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو (4:135)
اگر دشمن صلح اور سلامتی کی طرف مائیل ہوں تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجاﺅ (8:61(
اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو ناداستہ نقصان پہنچا بیٹھو (49:6)
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو انکے درمیان صلح کراﺅ ۔ (49:9)
فی الجملہ قرآن پاک کل انسانیت سے مخاطب ہے اور جدید جمہوریہ کی تمام ذمہ داریاں اسے سونپتا ہے ۔
لوگ ان فرائض کی تقسیم کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ان کی بجا آوری کے لئے ضروری بنیاد قائم کرتے ہیں ۔ حکومت کے ادارے میں یہ تمام بنیادیں موجود ہوتی ہیں لہٰذا اسلام کی مجوزہ حکومت سماجی معاہدے پر قائم ہوتی ہے عوام الناس اپنے منتظمین کا انتخاب کرتے ہیں اور عمومی مسائل پر بحث مباحثہ اور غور کرنے کے لئے ایک کونسل تشکیل دیتے ہیں اس کے علاوہ بحیثیت کل بھی انتظامیہ کا احتساب کرتے ہیں خاص طور پر ہمارے پہلے خلیفہ (632-661) کے عہد میں حکومت کے بنیادی اصولوں پر جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے مکمل طور پر عمل کیا جاتا تھا چوتھے خلیفہ حضرت علی کی وفات کے بعد سیاسی نظام ملوکیت میں بدل گیا جس کی وجہ اندرونی کشمکش اور عالمی صورتحال تھی ۔ خلافت کے برعکس ملوکیت میں اقتدار سلطان کے خاندان میں ہی ایک دوسرے کو منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ باوجود اس کے کہ آزادانہ انتخا بات کا انعقاد نہیں ہوتا ‘معاشروں نے ایسے اصول بر قرار رکھے جو کہ آج کی آزاد جمہوریت کی روح ہیں ۔
اسلام سب کو ساتھ لے کر چلنے والا مذہب ہے ۔ یہ خداکی واحدانیت پر یقین رکھتا ہے جو کہ سب کا خالق ‘مالک ‘رازق اور کل کائنات کا نظام چلانے والا ہے ۔ اسلام پوری کائنات کا مذہب ہے یعنی کہ پوری کائنات اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی پابند ہے لہٰذا اس طرح کائنات کی ہر شے مسلمان ہے اور اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر چل کر اس کی اطاعت کرتی ہے ۔ حتیٰ کہ خدا کو نہ ماننے والا شخص یا کسی دوسرے مذہب کا پیروکار بھی جہاں تک اس کے جسمانی وجود کا تعلق ہے لازمی طور پر مسلمان ہی ہے پوری زندگی مادر رحم میں وجود میں آنے سے لے کر مٹی میں مل جانے تک انسان کا ریشہ ریشہ اس کا بدن خالق کائنات کے بنائے گئے قوانین کی پیروی کرتا ہے اس طرح اسلام میں خدا ‘فطرت اور انسانیت نہ تو ایک دوسرے سے دور ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے اجنبی۔ یہ اللہ کی ذات ہی ہے جو خود کو فطرت کے ذریعے انسانیت پر آشکار اکرتی ہے اور فطرت اور انسانیت تخلیق کی دو ایسی کتابیں ہیں جن کے ہر لفظ سے خدا کا وجود ظاہر ہوتا ہے ۔ اور اس سے انسان کو پتہ چلتا ہے کہ ہر شے کا مالک ایک خدا ہے ۔ اس طرح انسان کو کائنات میں کوئی بھی چیز اجنبی دکھائی نہیں دیتی ‘ انسان کی ہمدردی محبت اور خدمت صرف کسی ایک قوم ‘رنگ یا نسل کے انسانوں تک محدود نہیں رہتی ۔ حضور پاک نے یہ بات یوں کہی
" اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی (بہنیں ) بن جاﺅ
اسلام تمام مذاہب کو تسلیم کرتا ہے :
اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام اپنے سے پہلے آنے والے تمام آسمانی مذاہب کو تسلیم کرتا ہے۔ اسلام پہلے والے تمام انبیاءاور آسمانی حقائق کی حقانیت کو تسلیم کرتا ہے جو کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں آئے نہ صرف یہ کہ اسلام انہیں تسلیم کرتا ہے بلکہ ان پر ایمان کو مسلمان ہونے کے لئے لازمی شرط قرار دیتا ہے اس طرح اسلام تمام مذاہب کے بنیادی اشتراک کو تسلیم کرتا ہے ۔ ایک مسلمان بیک وقت حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ ‘حضرت داﺅد ‘حضرت عیسیٰ ‘اور دیگر تمام عبرانی انبیاءکو مانتا ہے ۔
اس ایمانی پہلو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی حکومتوں کے ماتحت رہنے والے عیسائی اور یہودی کیوں کر اپنے مذہبی حقوق سے مستفید ہوتے رہے ۔
اسلامی سماجی نظام ایک پاکیزہ معاشرہ قائم کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ یہ انسانی حقوق کو نہ کہ طاقت کو سماجی زندگی کی بنیاد تسلیم کرتا ہے اس میں تصادم کی کوئی گنجائش نہیں تعلقات کی بنیاد ‘ایمان ویقین ‘پیار محبت ‘ باہمی احترام و تعاون اور ہم آہنگی کوہونی چاہئے نہ کہ جنگ وجدل اور ذاتی مفادات کافروغ ‘سماجی تعلیم بلند تر مقاصد کے حصول اور تکمیل ذات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اسکا مطمع نظر محض اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین کو ممکن بنانا نہیں ہوتا ہے ۔
حق کی راہ پر چلنے کے لئے متحد ہونا لازمی ہے اور نیکی اور بھلائی ”تعاون اور یگانگت کو جنم دیتی ہے اور ایمان ویقین بھائی چارے کے ماحول کو یقینی بناتا ہے تکمیل ذات کے لئے قلب وروح کی حوصلہ افزائی سے ہم دونوں جہانوں میں کامیاب وکامران ہوسکتے ہیں ۔
جمہوریت نے وقت کے ساتھ ترقی کی ۔ جس طرح ماضی میں یہ کئی مراحل سے گزرتی رہیں اسی طرح مستقبل میں بھی اسکا ارتقاءاور ترقی جاری رہے گی اور اس کا یہ عنصر زیادہ انسانی اور منصفانہ شکل اختیار کرے گاایک ایسا نظام جو راستگی اور سچائی پر مبنی ہوگا ۔
اگر نبی نوع انسان کو بحیثیت مجموعی اس کے روحانی وجود اور اس کی روحانی ضروریات کو الگ کئے بغیر دیکھا جائے اور یہ بھلائے بغیر کہ انسان کی زندگی محض اس جہان فانی تک محدود نہیں بلکہ حیات جاودانی کی متمنی ہے تو پھر ممکن ہے کہ جمہوریت تکمیل کی انتہا کو پہنچ کر پوری انسانیت کے لئے مسرت وشادمانی کا باعث ہو ۔ برابری ‘برداشت اور انصاف کے اسلامی اصول ہی اسے ممکن بنا سکتے ہیں ۔
- Created on .