عالمی سطح پر تعلیمی خدمات کا پھیلاﺅ
تعلیم کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے ۔ ہم اس موضوع کا جائزہ تین حوالوں یعنی انسان اور نفسیات ، قومی ، سماجی اور آفاقی حوالوں سے لیں گے ۔
کئی صدیوں سے ہم عصری مغربی فکر کے زیر اثر ہیں بلا شبہ اس کے کئی بلند پہلو ہیں ۔ تاہم اس میں کئی خامیاں بھی ہیں ماضی کے جس دور سے گزر کر یہ فکر یہاں تک پہنچی ہے اور جو مخصوص حالات اس نے پیدا کئے ہیں ان خامیوں کا تعلق اسی کے ساتھ ہے از منہ وسطیٰ میں اس وقت جب یورپ پر چرچ یا چرچ کے منتخب کردہ بادشاہوں کی حکمرانی تھی اسلامی دنیا سے اس کا واسطہ اندلس اور صلیبی جنگوں کے ذریعے پڑا کئی دیگر عوامل کے ساتھ اس نے نشاة ثانیہ اور اصلاحی تحریک کا درکھولا ، ان عوامل کے ساتھ ساتھ یعنی زمین کی کمی ، غربت ، بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کی ضرورت ، اور رودباد انگلستان جیسی قومیں جو فطری طور پر سمندری تجارت کا رجحان رکھتی تھیں ان عوامل میں سمندر پار جغرافیائی دریافتوں کی کوشش بھی شامل تھی اس تمام تر صورتحال کی بنیادی وجہ مادی ضروریات کی تکمیل تھی کیونکہ اس صورتحال کی بناءپر سائنسی علم چرچ کی مخالفت میں زور پکڑ رہا تھا اس لئے اہل یورپ کو سائنس بمقابلہ مذہب کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کی بناءپر سائنس مذہب سے کٹ گئی اور کئی لوگ مذہب سے بیگانہ ہوگئے ۔ اور نتیجتاً صورتحال مادہ پرستی اور کمیونزم کی طرف لے گئی ۔ سماجی جغرافیہ کے حوالے سے انسانیت کا سامنا مغربی تاریخ کے انتہائی پر اثر پہلوﺅں یعنی عالمی استحصال ، مفادات کی نافتح ہونے والی جنگ ، دو عالمی جنگوں اور دنیا کے بلا کوں میں تقسیم سے ہوا ۔
مغرب نے کئی صدیوں سے دنیا کو اقتصادی اور فوجی طور پرجکڑرکھا ہے ۔ حالیہ صدیوں میں مذہب اور سائنس کے تصادم میں کئی دانشور حلقے بھی شامل ہوچکے ہیں ۔ اٹھارویں صدی میں روشن خیالی کی جن تحریکوں کا آغاز ہو ان میں انسان کو محض ذہن کے حوالے سے دیکھا جانے لگا اور اس کے نتیجے میں مادہ پرستی اورعقلیت پرستی کے پیروکار انسان کومادی اور جسمانی وجود کے حوالے سے دیکھنے لگے نتیجتاً یکے بعد دیگر ے روحانی بحران سر اٹھا نے لگے یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ یہ بحران اور روحانی آسودگی کی کمی نے گزشتہ دوصدیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا جس کے باعث مفادات کی جنگیں ہوئیں اور جس کا نکتہ عروج دو عالمی جنگیں تھیں ۔
ایک ایسے دین کے پیروکار ہونے کے باعث جسکی تاریخ اور جوہر مختلف ہے ہم مغرب کو چند بنیادی چیزیں دے سکتے ہیں جس کے ساتھ ہمارے گہرے ، معاشی ، سماجی اور حتیٰ کہ فوجی رشتے ہیں اور پوری انسانیت کو وسیع پیمانے پر ۔انسانیت کی سمجھ بوجھ اور انسانیت کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر ان میں سر فہرست ہے ۔ نہ تو یہ محض ہم تک محدود ہے اور نہ ہی یہ خود ساختہ ہے بلکہ یہ وہ نقطہ نظر ہے جو ہمیں ظاہر کرتا ہے ۔
انسان وہ مخلوق ہے جو کہ محض جسمانی وجود یامحض عقلی وجود یامحض جذبات یا محض روح سے نہیں بنی بلکہ انسان ان تمام عناصر کے مجموعہ اور توازن کا نام ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک ضرورتوں کے جال میں بندھا ہے اور انسانی ذہن کی ضرورتیں بھی انتہائی اہم اور لازمی ہیں اور ماضی اور مستقبل کے حوالے سے پائی جانے والی تشویش اس کی قوت محرکہ ہے اور انسان ان سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتا ہے کہ
”میں کون ہوں؟ “
”یہ دنیا کیا ہے ؟“
” زندگی اور موت مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟“
” مجھے اس دنیا میں کس نے بھیجا اور وہ مجھ سے کیا چاہتا ہے “؟
اور یہ کہ ”دنیاوی سفر میں میرا رہبر کون ہے“ ؟
مزید برآں انسانی ساخت جذبات سے تشکیل پاتی ہے جسے محض عقل سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا اور انسان روحانی مخلوق بھی ہے جو ہمیں انسانی شناخت عطا کرتی ہے ۔ ہر انسان یہی کچھ ہے جب ایک مرد یا عورت جس کے گرد تمام نظام گھومتے ہیں اور جو تمام کوششوں کا مرکز ہے ان تمام پہلوﺅں کا مجموعہ بن جاتا ہے اور جب ہماری تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں تب ہم حقیقی خوشی حاصل کر سکتے ہیں حقیقی انسانی ترقی اور ہمارے اصل وجود کی ارتقاءتعلیم کے ذریعے ہوگی ۔
تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے آیئے اپنے میں اور جانوروں میں ایک فرق کا جائزہ لیتے ہیں ۔
اس ابدی سفر کے آغاز ہی سے جو عالم ارواح سے شروع ہوکر دنیاوی زندگی کے سٹیج تک پھیل جاتا ہے ۔ انسان ہمیشہ کمزور ہوتا ہے اور اسے دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
تاہم جانور اس دنیا میں اس طرح آتے ہیں جیسے وہ پہلے ہی سے مکمل ہوں ۔ اپنی پیدائش کے بعد دو گھنٹوں یا دو دنوں ، یا دو ماہ میں جانور ہر وہ بات سیکھ چکے ہوتے ہیں جو انہیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے یعنی کائنات سے ان کا رشتہ اور زندگی کے قوانین انہیں سب پر عبور ہوتا ہے ۔ زندہ رہنے کی قوت اور کام کی صلاحیت جسے حاصل کرنے میں ہمیں 20 برس لگتے ہیں شہد کی مکھی یا چڑیا کا بچہ 20 دنوں میں سیکھ جاتا ہے ز یادہ بہتر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ یہ سب کچھ پیدائشی طور پر لے کر آتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ حیوانات کا یہ بنیادی فرض نہیں کہ وہ علم اور آگہی کے ذریعے یا دوسروں کی مدد سے اپنی ذات کی تکمیل کریں ۔ ان کا کام فطری صلاحیت کے ذریعے کام کرنے اور اپنے خالق کی بندگی کرنا ہوتا ہے ۔
دوسری طرف جب ہم اس دنیا میں آتے ہیں تو ہمیں سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ ہم زندگی کے قوانین سے لا علم ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ 20 برسوں یا شاید پوری زندگی میں ہم زندگی کے قوانین کی ماہیئت اور معنی یا کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے ۔ ہم اس دنیا میں بہت کمزور اور لا چارگی کی حالت میں بھیجے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہم ایک یا دو برس میں اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں اور یہ سمجھنے میں ہماری پوری زندگی گزر جاتی ہے کہ ہمارے فائدے میں کیا ہے اور نقصان میں کیا ہے صرف سماجی زندگی کی بدولت ہی ہم خود کو اپنے فائدے کی طرف موڑ سکتے ہیں اور خطرات سے بچ سکتے ہیں ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ایسی مخلوق کے طور پر جو اس عارضی مہمان خانے میں خالص فطرت کے ساتھ آئی ہے ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنی سوچ اور فکر اور اپنے تصورات کو صاف ستھرا بنائیں تاکہ ہم آئندہ آنے والی زندگی کو بہتر طور پر گزارنے کے لئے اپنی فطرت میں دیگر خوبیاں پیدا کر سکیں مزید برآں ہمیں چاہئے کہ بندگی کے ساتھ ساتھ اپنے دل اپنی روح اور تمام فطری صلاحیتوں کو فعال کریں ۔ اپنے اندر اور باہر کی دنیا کو یکجا کرتے ہوئے جہاں کئی اسرار اور پیچیدگیاں موجود ہیں اپنے وجود کے راز کو سمجھیں اور انسانیت کے حقیقی مقام تک پہنچیں ۔
مذہب اور سائنس کا تصادم اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی مادہ پرستی نے انسانیت کی طرح فطرت کوبھی مادی اشیاءکا مجموعہ سمجھ رکھا ہے جو کہ محض انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وجود میں آئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ہمیں کرہ ارض پر ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے ۔
غور کریں کہ ایک کتاب مصنف کے ذہن میں روحانی طور پر موجود الفاظ ہی کا مادی اظہار ہے اس لئے ایک ہی حقیقت دو مختلف انداز میں بیان کرنے میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں ہے اسی طرح ایک عمارت ایک نقشہ نویس کے ذہن میں روحانی طور پر وجود رکھتی ہے جبکہ حقیقی عمارت مادی وجود رکھتی ہے ۔ مختلف دنیاوی زاویوں سے کسی چیز کو دیکھنے میں کوئی تضاد نہیں ہے جو کہ ایک ہی مفہوم ایک ہی مافی الضمیر اور ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ اس لئے قرآن پاک ( جو کہ اللہ کی کتاب ہے ) میں وجود کائنات (جوکہ اللہ کی طاقت اور اس کی منشاءکا اظہار ہے )میں اور سائنس میں (جو کہ اس کا مطالعہ کرتی ہے ) کوئی تصادم اور تضاد نہیں ہے پوری کائنات ایک بہت بڑا قرآن ہے جس سے اللہ کی طاقت اور اختیار کا اظہار ہوتا ہے اگر یہ اصطلاح درست ہے تو بہ الفاظ دیگر پوری کائنات ایک طرح سے ایک وسیع قرآن ہے ۔
اور پھر اس طرح ایک دوسری شکل میں کائنات کے اصولوں کے مظہرکے طور پر قرآن پاک کاغذ پر موجوداز خود ایک کائنات ہے ۔
حقیقی معنوں میں مذہب سائنس اور سائنسی کاموں کی حد بندی یا مخالفت نہیں کرتا ۔
مذہب سائنس کی سمت متعین کرتا ہے اس کے صحیح مقصد کا فیصلہ کرتا ہے اور اخلاقیات اور آفاقی انسانی قدروں کو رہنمائی کے لئے اس کے سامنے رکھتا ہے اگر اس حقیقت کو مذہب میں سمجھ لیا جاتا اور مذہب اور علم کے مابین تعلق کی پہچان کر لی جاتی تو آج معاملہ مختلف ہوتا ۔ سائنس فائدہ پہنچانے کی بجائے ز یادہ ضرر رساں نہ ہوتی اور یہ بچوں کی تباہی اور دوسرے تباہ کن ہتھیار بنانے کے لئے استعمال نہ ہوتی ۔
آج کل یہ الزامات لگائے جاتے ہیں کہ مذہب لوگوں کو تقسیم کرتا ہے اور دوسروں کو مارنے کے راستے کھولتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گزشتہ چند صدیوں سے جاری استحصال خاص طور پر بیسویں صدی میں روا رکھے جانے والے استحصال اور جنگوں میں جن میں لاکھوں کروڑوں انسان لقمہ اجل بنے اور اس سے بھی زیادہ تعداد میں لوگ زخمی بے گھر اور یتیم اور عورتیں بیوہ ہوئیں ۔ مذہب اور خاص طور پر اسلام کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں تھا ۔ سائنسی مادہ پرستی جو زندگی اور دنیا کے حوالے سے خود کو مذہب سے کاٹ لینے والا طرز فکر ہے اس استحصال کی ذمہ دار تھی ۔ ماحولیاتی آلودگی جس کی وجہ سائنسی مادہ پرستی ہے مغرب کی سوچ سے ایک خاص نسبت رکھتی ہے ۔اور کرہ ارض کے لئے خطرہ بننے والی اس ماحولیاتی آلودگی کی بنیاد یہ سائنسی اعتقاد ہے کہ فطرت ان چیزوں کا اکٹھ ہے جن کا مقصد محض جسمانی ضروریات کی تکمیل سے بڑھ کر کچھ نہیں۔در حقیقت فطرت محض مادی چیزوں کے ڈھیر سے بہت بڑھ کر ہے ۔ اس کا اپنا ایک تقدس ہے یہ ایک ایسا نگار خانہ جہاں اسمائے حسنیٰ کی جھلک ہر طرف نظر آتی ہے ۔
فطرت کا حسن ایک گہرا مفہوم لئے ہوئے ہے جب ایک درخت زمین میں جڑیں پکڑتا ہے ۔ جب پودوں پر پھول لگتے ہیں جب درختوں پر خوشبو دار پھل لگتے ہیں بارش ہوتی ہے جب ندیاں بہتی ہیں جب ہم سانس لیتے ہیں ان سب سے اسی مفہوم کااظہار ہوتا ہے فطرت کا حسن انسان کے ذہن وقلب کو شہد کی مکھی کے چھتے کی طرح بنا د یتا جہاں فطرت کے حسن کارس جمع ہوتا ہے اس فطری حسن کی تلاش میں انسان شہد کی مکھی طرح یہاں وہاں سفر کرتا ہے اس کی سمجھ بوجھ اور غور وفکر کی بنیاد فطری حسن کی تلاش ہوتی ہے ۔ ایمان کا شعور نیکی اور بھلائی ‘ اللہ کی رضاءکے لئے انسانیت اور خدائی مخلوق کے ساتھ محبت ‘ دوسروں کی مدد ‘ دوسروں کی زندگی کے لئے اپنی ذات کی قربانی سے اس چھتے کی تخلیق ہوتی ہے جب کہ بدیع الزمان سید نور سی نے کہا کہ تعلیم انسانی ذہن کو سائنسی علم کے حوالے سے جلابخشتی ہے اور اس کے علاوہ ایمان اور بھلائی کے حوالے سے قلب کو منور کرتی ہے علم کی یہی سمجھ بوجھ جو کہ ایک طالب علم کو ان دوپروں کے سہارے انسانیت کے آسمان کی بلندیوں پر اڑنا سکھاتی ہے ۔ یہ چیز سائنس کو مادہ پرستی سے اور اسے ضرر رساں ہونے سے اور ایک خطرناک ہتھیار بننے سے بچاتی ہے کیونکہ یہ مادی اور روحانی دونوں حوالوں سے مفید ہے آئین سٹائین کے الفاظ میں مذہب کی یہ سمجھ بوجھ اسے مفلوج نہیں ہونے دے گی اور نہ ہی یہ اسے فہم وشعور سے‘ زندگی سے اور سائنسی حقیقت سے کٹنے دے گی جس کی وجہ سے مذہب ایک ایسے جنونی ادارے کی شکل اختیار کرلیتا ہے جو افراد اور قوموں کے بیچ دیواریں کھڑی کرنے لگتا ہے ۔
علم کے ذریعے انسانیت کی خدمت :۔
ذرائع آمدورفت اور مواصلات میں ہونے والی روز افزوں ترقی کا شکریہ کہ جس نے دنیا کو ایک عالمی دیہات میں بدل دیا ہے ۔ آج کے دور میں قومیں ایک دوسرے کی پڑوسی بن چکی ہیں ۔ البتہ ہمیں آج کی دنیا میں یہ بات خصوصاً ذہن نشین کر نی ہوگی کہ قومی وجود کی ضمانت صرف اسی صورت میں دی جاسکتی ہے جب ایک دوسرے کے مخصوص قومی مزاج کا حفاظت کی جائیگی۔ قوموں اور ملکوں کو یکساں سانچے میں ڈھالنے سے وہ قومیں جو اپنے جدا گانہ مزاج کو بر قرار رکھنے میں ناکام ہوں گی ان کا وجود مٹ جائے گا دیگر قوموں کی طرح مذہب اور زبان تاریخ اور وطن کے ساتھ وابستگی ہمارے مزاج کا جزو لا ینفک ہیں جیسا کہ ترکی کے مشہور شاعر اور ادیب یحییٰ کمال نے اپنی کتاب
میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہی ہماری تہذیب اور ثقافت ہے جس کا ماخذ اسلام اور وسطی ایشیاءہے اور جس کی آبیاری صدیوں سے انا طولیہ ‘ یورپ اور حتیٰ کہ افریقہ میں ہوئی اس کی مثال ذیل میں دی جارہی ہے ۔ ایک لوک کہاوت ہے کہ ایک ہمسائے کو اپنے ہمساسئے کے گھر کی راکھ کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ کے پاس دوسروں کی ضرورت کی راکھ موجود نہیں تو کوئی بھی آپکی قدر نہیں کرے گا جیسا کہ اوپر ذکر کیاگیا ہے ہمیں انسانیت کو اس سے زیادہ دینا ہے جتنا کہ ہم اس اسے لیتے ہیں ۔ آجکل رضا کار اور غیر سرکاری تنظیموں نے کمپنیاں اور غیر سرکاری تنظیمیں قائم کی ہیں اور بڑے جوش وجذبے کے ساتھ دوسروں کی خدمت کررہی ہیں ۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تعلیمی اداروں کی شدید مالی مسائل کے باوجود مقبولیت اور اپنے مد مقابل مغربی اداروں کے ساتھ اس قدر قلیل وقت میں برابر کا مقابلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو ہم نے کہا ہے اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔
بطور ترک عوام گزشتہ صدیوں سے ہمارے سامنے کئی مسائل جمع ہوچکے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اسلام کے خارجی جوہر پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور اس کی اندرونی خوبیوں کو نظر انداز کررہے ہیں ۔ اس کے بعد ہم نے دوسروں کی نقالی شروع کر دی اور یہ گمان کرنے لگے کہ اسلام اور مثبت سائنس باہم متصادم ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ثانی الذکر خدائی قوانین کی ہی دریافت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اختیار کو ظاہر کرتی ہے اور قرآن کا ایک مختلف اظہار ہے جو اللہ کی کلام کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے ہم ایسا کرنے لگے ۔ اور نتیجتاً یہ لا علمی‘ علمی ‘ فکری اور انتظامی آمریت کی طرف لے گئی ۔ اس سے نا امیدی کا احساس پیدا ہوا جس نے تمام لوگوں اور اداروں میں بد نظمی پیدا کی ۔ کام میں کنفیوژن پیدا کی اور تقسیم کار سے ہماری توجہ ہٹ گئی ۔
قصہ مختصر ہمارے تین بڑے دشمن جہالت ‘ غربت اور اندرونی افتراق پیدا کیا ۔ علم ‘ قوت کار اور اتحاد ہی سے اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ جہالت ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اس لئے اپنے ملک کی خدمت کا سب سے صحیح طریقہ یہ ہے کہ علم کی روشنی سے اسے دور کیا جائے اب جبکہ ہم ایک عالمی گاﺅں میں رہ رہے ہیں یہی انسانیت کی خدمت کا اور دوسری تہذیبوں سے ڈائیلاگ کا سب سے بہتر طریقہ ہے ۔
مگر سب سے پہلے تعلیم ایک انسانی خدمت ہے کیونکہ دنیا میں ہمیں سیکھنے اور تعلیم کے ذریعے تکمیل ذات کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ بدیع الزماں نورسی نے مستقبل کے لئے ایک حل پیش کیا کہ عیسائی مذہبی رہنماﺅں کے ساتھ متنازعہ معاملات پر بحث نہ کی جائے بلکہ دیگر مذاہب کے پیروں کاروں کے ساتھ ڈائیلاگ کیا جائے ۔
جیسا کہ مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا ۔ میرا ایک پاﺅں بیچ میں ہے اور دوسرا پاﺅں دوسری قوم کے لوگوں میںہے ۔ انہوں نے ایک بڑا دائرہ بنایا جس میں تمام موحد آگئے جسکا مطلب یہ ہوا کہ طاقت اورجبر کے استعمال کے دن لد گئے انہوں نے فرمایا ، مہذب انسان پر فتح حاصل کرنے کے لئے اسے قائل کرنا پڑتا ہے “ اس طرح انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جو لوگ مذہب کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ڈائیلاگ ‘ دلائل اور گفت شنید کی راہ اختیار کرنا لازمی ہے ۔ اور اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ مستقبل میں انسانیت علم اور سائنس کی جانب رخ پھیر دے گی اور آنے والے وقت میں عقل اور منطق کی حکمرانی ہوگی اور آخر میں سیاست اور براہ راست طور پر سیاست میں پڑے بغیر انہوں نے اس دور میں اور مستقبل میں حقیقی مذہبی اور قومی خدمت کا نقشہ کھینچا ہے ان اصولوں کی روشنی میں میں نے ملک وقوم کی خدمت کے لئے لوگوں کی بالخصوص بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے بالعموم حوصلہ افزائی کی ۔
لوگوں کو تعلیم دینے اور ان کی ذہنی سطح بلند کرنے کے لئے میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ تعلیم عام کرنے کے لئے ریاست کی مدد کریں ۔ جہالت کو علم سے غربت کو محنت اور سرمائے کے حصول سے اور اندرونی افتراق اور علیحدگی کو اتفاق ‘ ڈائیلاگ ‘ اور برداشت کے ذریعے شکست دی جاسکتی ہے انسانی زندگی میں ہر مسئلے کا دار ومدار خود انسانوں پر ہوتا ہے تعلیم آگے بڑھنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے خواہ ہمارا سماجی نظام انتہائی ناکارہ ہو یا ایک گھڑی کی طرح ٹھیک چل رہا ہو ۔
سکول :۔
حکومت کی طرف سے پرائیویٹ سکولوں کے قیام کی اجازت کے بعد سے بہت سے لوگوں نے آسودہ زندگی گزارنے کے باوجود اس نیک کام میں پیسہ لگایا ۔ در حقیقت انہوں نے یہ کام عبادت کے جذبے کے تحت کیا ۔ میرے لئے یہ نا ممکن ہے کہ میں اندرون ملک اور بیرون ملک ان تمام سکولوں کے بارے میں بتا سکوں میں نے ان سکولوں کی محض حوصلہ افزائی کی اور ان کی تجویز پیش کی اس لئے اس لئے میں ان بہت سی کمپنیوں کے نام یا ان مقامات کے بارے میں بھی نہیں جانتا جہاں یہ کھولے گئے ہیں
البتہ کسی حد تک میں نے اس معاملے کی پریس کے ذریعے اور علی بیرا م اوگلو‘ ساحن الپے ‘ اور اٹلگان بیسئر جیسے نامور صحافیوں کے مضامین کے ذریعے تشہیر کی آزر بائیجان سے لے کر فلپائن اور سینٹ پیٹرز برگ سے لے کر ماسکو تک سکول کھولے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے ملک کے نامور یہودی تاجر عزیر گاری جن کا تعلق یا کٹسکی سے ہے ‘بھی ہمارے ساتھ بہت تعاون کررہے ہیں ۔ یہ سکول تقریباً ہر ملک ماسوائے ایران جیسے ممالک میں جہاں ہمیں سکول کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی ‘ میں کھولے گئے ہیں ۔جو قلم کا ر اور دانشوروں سکولوں میں گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان سکولوں کی مالی معاونت ترک رضا کار تنظیمیں کررہی ہیں ۔ ان میں سے اکثر یا تمام میں بچوں کی فیسوں کے ذریعے مالی اخراجات پورے کئے جارہے ہیں ۔ مقامی تنظیمیں سکولوں کے لئے زمین کی فراہمی ‘ عمارتوں کی فراہمی اور بوقت ضرورت پرنسپل اور اساتذہ کی فراہمی کے ذریعے خاطر خواہ مدد کرتے ہیں وہ اساتذہ جو اپنے ملک اپنی قوم اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور جو زندگی کا مقصد اوروں کی خدمت کی سمجھتے ہیں کم تنخواہ پر بھی بڑے جوش وخروش کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔
ابتداءمیں ہمارے فارن مشن آفیشلز اپنی حمایت و تعاون کے حوالے سے تامل کا مظاہرہ کررہے تھے کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا کام کیا جارہا ہے ۔ البتہ اس وقت ان میں سے زیادہ تر ان سکولوں کے حق میں ہیں ترکی کے دو گزشتہ صدور ‘مرحوم ترگت اوزال اور عزت مآب سلیمان ڈیمرل اور ان کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے چیئر مین مصطفےٰ کلیمی اور خارجہ امور کے سابقہ وزیر حکمت چیٹن نے ان سکولوں کا دورہ کرکے ان اسکولوں کی حوصلہ افزائی کی مقامی تنظیمیں سیکولر زم کے حوالے سے اتنی ہی حساس ہوتی ہیں جتنا کہ ترک حکومت یا اس سے بھی زیادہ جن خیالات کا اظہار بیرام اوگلو نے کیا ہے انہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے الپے بیئر اور دیگر روشن خیال صحافیوں نے کہاہے کہ یہ تمام ممالک ان سکولوں کے حوالے سے اپنے مستقبل کے بارے میں ذرہ برابر خدشات نہیں رکھتے ماسکو میں اس اسکول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ماسکو نیشنل ایجو کیشن آفس کے سربراہ نے کہا ۔”روس کی حالیہ تاریخ میں دو اہم واقعات رونما ہوئے ایک یوری گیگارن کا چاند پر قدم رکھنا اور دوسرا یہاں ترک سکول کا قیام“ انہوں نے اسے ایک تاریخی واقعہ قرار دیا ۔
بعض لوگوں کے نزدیک دنیاوی زندگی اس دنیاوی مہمان خانے میں چند روزہ قیام ہے اور اس کا مقصد اپنی تمام نفسیاتی خواہشات کی تکمیل ہے ۔ اوروں کا نقطہ نظر اس سے مختلف ہے اور اس لئے زندگی کو مختلف مفہوم دیتے ہیں ۔ میرے نزدیک یہ دنیاوی زندگی چند سانسوں پر محیط ہے اور اس سفر کا آغاز عالم ارواح سے ہوا اور یہ ابدی زندگی جنت یا خدا معاف کرے جہنم تک جاری رہے گی۔یہ زندگی بہت اہم ہے کیونکہ یہی زندگی ہماری آئندہ زندگی کی صورت گری کرے گی اور اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ زندگی اس طرح گزارنی چاہئے کہ ہم ابدی زندگی کے حق دار بن سکیں اور اس ذات کی جس نے یہ زندگی بخشی ہے رضا حاصل کر سکیں یہ راستہ خدمت کے نا گزیر پہلوﺅں سے گزر کر جاتا ہے جس میں اپنے رب کی بندگی ‘ اپنے کنبے کی خدمت ‘ عزیز واقارب کی خدمت ‘ رشتہ داروں کی خدمت ‘ ہمسایوں کی خدمت اس کے بعد اپنے ملک وقوم کی خدمت اور سب سے آخر میں بنی نوع انسان اور اللہ کی مخلوق کی خدمت ‘ یہ خدمت ہمارا حق بھی ہے اور دوسروں تک اسے بڑھانا ہماری ذمہ داری ہے ۔
- Created on .