گولان بطور معلم اور مذہبی استاد
تھامس مشل
پہلے مجھے ان تعلیمی اداروں کا پتہ چلا جسے محترم فتح اللہ گولان کی قیادت میں تحریک کے کارکن چلا رہے ہیں اور پھر ان کی تحریروں کی طرف متوجہ ہوا تاکہ علم پھیلانے کی اس کوشش کی منطق اور فتح اللہ گولان اور ان کے ساتھیوں کا وژن جان سکوں ۔
شروع میں یہ بتانا ضروری ہے کہ محترم فتح اللہ گولان کا ان سکولوں کے ساتھ کیا رشتہ ہے جنہیں عام طور پر ” گولان سکولز “ یا ” گولان موومنٹ کے سکولز “ کہا جاتا ہے ۔ بنیادی طور پرمحترم گولان خود کو ایک معلم کہتے ہیں البتہ وہ تعلیم دینے اور پڑھانے میں فرق کرنے میں بہت محتاط ہیں وہ کہتے ہیں کہ استاد بہت سے لوگ ہو سکتے ہیں لیکن معلم بہت کم لوگ ہوتے ہیں ۔
انہوں نے اس بات کی وضاحت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کے ان کے اپنے کوئی سکول نہیں ہیں ۔” میں یہ بتاتے بتاتے تھک چکا ہوں کہ یہ میرے اپنے سکول نہیں ہیں یہ سکول جن ممالک میں قائم کئے جاتے ہیں ان ممالک اور اس مقصد کے لئے کام کرنے والی تعلیمی کمپنیوں کے مابین معاہدوں کے تحت قائم کئے جاتے ہیں ۔ ہر سکول خود مختار ادارہ ہوتا ہے لیکن زیادہ تر اسکول تعلیمی سازوسامان اور انسانی وسائل کی فراہمی کے لئے ترک کمپنیوں کی خدمات پر انحصار کرتے ہیں ۔“
پہلی مرتبہ میں نے ان سکولوں میں سے ایک سکول جنوبی فلپائن کے ایک جزیرے من ڈناﺅ کے مقام زمبونگا میں 1995ءمیں اس وقت دیکھا جب مجھے پتہ چلا کہ شہر سے چند میل باہر ایک ترک سکول قائم کیا گیا ہے۔ اسکول پہنچنے پر سب سے پہلی چیز جس نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا وہ سکول کے داخلے پر موٹے حروف میں لکھا اس کانام ” فلپائن ، ترک “ سکول برائے برداشت وروا داری“ تھا ۔
50 فی صد مسلمان اور 50 فیصد عیسائی آبادی والے شہر زمبو نگا میں واقعی یہ بڑا مثبت اظہار تھا ۔ ایک ایسے مقام پر یہ سکول واقع تھا جہاںگزشتہ 20 برس سے اسلامی علیحدگی پسند تحریکیں فلپائنی حکومت کی فوجی قوت کے خلاف مسلح جدوجہد کررہی تھیں ۔ ایک ایسی جگہ جہاں اغواء‘گوریلا جنگ‘ چھاپہ مار کارروائیاں ، گرفتاریاں ، لوگوں کا غائب ہونا اور ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کے ہاتھوں لوگوں کا قتل عام روز مرہ کا معمول بن چکا تھا ۔ یہ سکول مسلمان اور عیسائی فلپائنی بچوں کو معیاری تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مثبت انداز میں رہنے اور تعلقات قائم کرنے کا ماحول فراہم کررہا تھا ۔ مجھے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ فلپائن ، ترکش سکول آف ٹالرنس نے علاقے میں موجود عیسائی اداروں کے ساتھ ابتداہی سے گہرے مراسم قائم کررکھے ہیں ۔
تب سے میں نے دوسرے سکولوں کے دورے بھی کئے ہیں اور تدریسی اور انتظامی عملے کے ساتھ تعلیمی پالیسی پر بات بھی کی ہے ۔
سائنس ، انفارمیٹکس ، اور لسانیات میں ان اداروں کی جاندار کارکردگی کا مظاہرہ تعلیمی مقابلوں میں ان کی کامیابی سے ہوتا ہے ۔ بشکک میں واقع ایک جونیئر ہائی سکول میں میں نے ساتویں جماعت کے کرغیز بچوں سے آدھ گھنٹے تک خطاب کیا ۔ پھر استاد نے بچوں سے پوچھا کہ کیا وہ میرے تلفظ اور استعمال کئے گئے الفاظ کے فرق سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں امریکن انگلش بول رہا تھا یا برطانوی تو انہیں یہ فرق بتانے میں زرہ بھی مشکل پیش نہیں آئی جس نے مجھے حیران کردیا ۔ میں یہ توقع کررہا تھا کہ ان کے نصاب اور ماحول میں اسلامی عنصر بہت نمایاں ہوگا مگر ایسا نہیں تھا ۔ جب میں نے اس عنصر کی عدم موجودگی کے بارے میں استفسار کیا جس کی موجودگی میرے انداز کے مطابق ایک ایسے ادارے میں لازمی تھی جو کہ مذہب کے زیر اثر تھا تو مجھے بتایاگیا کہ زمبونگا میں عیسائی اور مسلمان طلباءکی موجودگی اور بدھ مت اور ہندو طلباءکی موجودگی اور اسی طرح کرغزستان میں طلباءکی ملی جلی موجودگی کی وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ انہیں فرقہ وارانہ تعلیم کی بجائے آفاقی اقدار مثلاً ایمانداری ، محنت ، ہم آہنگی ، اور اصول پسندی کی تعلیم دی جائے ۔
ان تجربات نے مجھے محترم فتح اللہ گولان کی تحریروں کے مطالعے پر اکسایا تاکہ میں ان علمی اصولوں اور محرکات کو ٹھیک طرح سمجھ سکوں جو ان سکولوں کی بنیاد ہیں اور دیکھوں کہ محترم فتح اللہ گولان کی کیا تکنیک ہے جس نے انہیں ایک ایسا ماہر تعلیم بنایا کہ وہ اپنے سوچ اور فکر سے اوروں کو متاثر کر سکیں ۔
فتح اللہ گولان کی تعلیمی فکر:۔
ترک ری پبلک کے قیام کے وقت سے بہت سے ترک مسلمان حکومت کی طرف سے شروع کئے گئے جدت پسندی کے پروگرام کی مخالفت اس بنیاد پر کرتے چلے آرہے ہیں کہ حکومت مغربی تہذیب کی خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر اندھا دھند اسے اپنا رہی ہے ۔ ان کے خیال میں سکولرائزیشن مذہب مخالف رجحان کی پیداوار ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جدت پسندی کے حوالے سے کی جانے والی اصلاحات کی بنیاد یہ خاموش نظریاتی سوچ ہے کہ مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور آگے بڑھنے کے لئے معاشرے اقتصادیات اور سیاست سے اس کا عمل دخل ختم کرنا پڑے گا ۔ جب سے ری پبلک کا قیام عمل میں لایاگیا تب سے یہ صف آرائی شروع ہے اور ترکی میں باہم مد مقابل تعلیمی نظام میں مذہب بمقابلہ سیکولرائزیشن کی تحت ایک ایسی بحث بن چکی ہے جس میں ہر مفکر اور دانشور کو اپنی جانبداری اور حمایت واضح کرنی ہے ۔
میرے خیال میں ایک وجہ جس کی بناءپر دائیں اور بائیں بازو والے محترم فتح اللہ گولان کو اکثر حدف تنقید بناتے ہیں وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسے معاملے میں کسی بھی فریق کی حمایت کرنے سے انکار کیا ہے جو ان کے خیال میں بند گلی میں لے جاتا ہے ۔ وہ مستقبل کے امکانات کے پیش نظرجو سوچ پیش کررہے ہیں جو موجودہ بحث سے آگے لے جانے والی ہے ۔ گولان کے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ ترک ری پبلک کے مقرر کردہ حدف یعنی جدت پسندی کا حصول ہے لیکن حقیقی معنوں میں جدت پسندی کا مقصد تکمیل ذات کے ذریعے ہی پورا کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن تعلیمی اصطلاح میں اس کے لئے متنوع تعلیمی دھاروں کو یکجا کرتے ہوئے ایک ایسے تعلیمی انداز کی تخلیق کرنی ہوگی جو آج کی دنیا کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو پورا کر سکے ۔
یہ انداز مقابلہ بازی اور محاذ آرائی کے انداز سے یکسر مختلف ہے جس کا مقصد ماضی کا احیاءاور اس کا بقاءہے ۔محترم فتح اللہ گولان اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ ان کے نام سے منسوب اسکول عثمانی نظام یا خلافت کو بحال کرنے کی کوشش ہے ۔ محترم فتح اللہ گولان یہ بات پر زور دے کر دہراتے ہیں کہ اگر نئے حالات سے مطابقت اور ہم آہنگی نہ پیدا کی گئی تو اس کا نتیجہ مٹنے کی صورت میں نکلے گا۔
جدت پسندی کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خود کو ماضی سے یکسر کاٹ لینا خطرناک عمل ہوگا ۔ روایتی اقدار سے کٹ جانے سے یہ خطرہ ہے کہ نوجوان جو تعلیم حاصل کرینگے وہ اقدار سے خالی ہوگی اور مادی کامیابی کے حصول سے بڑھ کر اس میں کچھ نہیں ہوگا ۔ غیر مادی اقدار جیسے فکر کی گہرائی ‘صاف اور واضح سوچ ، جذبات اور احساسات کی گہرائی ، ثقافت سے لگاﺅ اور روحانیت میں دلچسپی کو جدید تعلیمی طور طریقوں میں نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ منڈی کی معیشت کے عالمی نظام میں بڑے پیمانے پر چیزوں کی تیاری کو ممکن بنانا ہی جدید تعلیمی طور طریقوں کا مقصد بن چکا ہے ایسے طلباءملازمت حاصل کرنے کے لئے تو یقینا تیار ہوں گے لیکن حقیقی انسانی آزادی حاصل کرنے کے لئے درکار اندرونی ساخت سے محروم ہوںگے معاشی اور سیاسی دونوں میدانوں میں قائدین ‘ملازمت کے حصول کو ممکن بنانے والی اور اقدار سے پاک تعلیم کو فروغ دینا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے مقتدر حلقوں کے لئے تربیت یافتہ لیکن غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو قابو کرنا آسان ہوجاتا ہے گولان کہتے ہیں کہ اگر آپ عوام کو کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ بہت آسان ہے آپ انہیں تعلیمی حوالے سے پیاسا رکھیں جبر واستبداد کے شکنجوں سے وہ صرف تعلیم ہی کے سہارے نکل سکتے ہیں ، موزوں آفاقی تعلیم ہی کے ذریعے سماجی انصاف تک پہنچا جاسکتا ہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو لوگوں کو شعور اور دوسروں کے حقوق کا احترام سکھا سکتی ہے لہٰذا گولان کے خیال میں بہتر تعلیم کی غیر موجودگی نہ صرف یہ کہ سماجی انصاف کے قیام میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ لوگ انسانی حقوق کا ادراک کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں اور ان میں دوسروں کو قبول کرنے اور برداشت وروا داری کا جذبہ بھی پیدا نہیں ہوتا ۔ اگر لوگوں کو اپنے بارے میں سوچنے کے لئے اور سماجی انصاف کو پروان چڑھانے کے لئے موزوں تعلیم دی جائے تو وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے والے اور تبدیلی لانے والے انسان بن سکیں گے ۔
تعلیمی اصلاحات لانے کے لئے اساتذہ کی تربیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ گولان کہتے ہیں کہ تعلیم دینا پڑھانے سے مختلف عمل ہے ۔ پڑھانے والے بہت ہوسکتے ہیں لیکن تعلیم دینے والے بہت کم ہیں ۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پڑھانے والے اور تعلیم دینے والے دونوں طلباءتک معلومات پہنچاتے ہیں اور انہیں مہارتیں سکھاتے ہیں لیکن تعلیم دینے والا انسان طلباءکی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے ۔ ان میں سوچنے اور پرکھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے ۔ وہ طلباءکے کردار کی تعمیر کرتا ہے اور کسی مقصد کے لئے کام کرنے کا جذبہ ابھارتا ہے ۔ جو لوگ طلباءکو صرف تنخواہ حاصل کرنے کے لئے پڑھاتے ہیں اور جنہیں طلباءکے کردار سازی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی انہیں وہ ” اندھے کی اندھوں کی رہنمائی کرنا“ قرار دیتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے مد مقابل تعلیمی نظاموں میں رابطے اور تعاون کے فقدان نے گولان کے خیال میں ایک ایسی محاذ آرائی پیدا کردی جو نہیں ہونی چاہئے یعنی سائنس بمقابلہ مذہب ، ایک مصنوعی تقسیم نے 19 ویں اور بیسویں صدی میں دونوں طرف کے دانشوروں سیاستدانوں اور مذہبی قائدین کی توانائیاں ختم کر ڈالیں اور اسکا نتیجہ تعلیمی فلسفے اور طریقہ کار کی تقسیم کی صورت میں نکلا ۔ جدید سیکولر ماہرین تعلیم‘ مذہب کو وقت کا ضیاءاور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ۔ مذہبی دانشوروں کے بیچ ہونے والا مباحثہ جدت پسندی کے استرداد کی طرف لے گیا جو کہ اس کی اصل روح اور اصل مقصدسے ہٹ کر تھا ۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک ایسے تعلیمی عمل کے ذریعے جس میں مذہبی مفکرین کو سائنس اور سائنسدانوں کے بارے میں خاطر خواہ معلومات حاصل ہوگی اور جس میں ماہرین سائنس کو مذہب سے واقفیت ہوگی مذہب اور سائنس کے درمیان عرصے سے جاری محاذ آرائی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی یا کم از کم دونوں فریقین کو اس کا ادراک ہوسکے گا ۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ایک نئے طرز تعلیم کی ضرورت ہے جس میں مذہب اور سائنس دونوں ساتھ ساتھ ہوں گے اس طرح سائنس اخلاقیات اور روحانیت کی تعلیم ایک ساتھ دی جاسکے گی ۔ اس طرح ایسے روشن فکر انسان پیدا کئے جاسکیں گے جن کی سوچ و فکر مذہبی سائنس اور مادی سائنس دونوں سے منور ہوں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو انسانی اور اخلاقی اقدار کے ساتھ جینا جانتے ہوں گے اس کے علاوہ انہیں اپنے دور کے سماجی معاشی اور سیاسی حالات کا بھی ادارک ہوگا ۔
تعلیم کے حوالے سے محترم گولان کی تحریوں میں متعدد اصلاحات استعمال کی گئی ہیں اور غلط فہمی سے بچنے کے لئے ان کی وضاحت ضروری ہے پہلی اصطلاح روحانیت اور روحانی اقدار ہے ۔ بعض لوگ اسے مکمل طور پر مذہب کے لئے استعمال کئے گئے کو ڈورڈ کے طور پر لیں گے ۔ تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ گولان نے یہ اصطلاح وسیع مفہوم میں استعمال کی ہے ۔ ان کے نزدیک روحانیت میں نہ صرف مذہب شامل ہے بلکہ اخلاقیات ، منطق ، ذہنی صحت اور فکری کشادگی بھی شامل ہیں ۔ ان کی تحریروں میں استعمال ہونے والی کلیدی اصطلاحات محبت اور برداشت ہیں ۔ تعلیم کے مقاصد میں درست تربیت کے ساتھ ساتھ ان صفات کا ہونا بھی لازمی ہے ۔
فتح اللہ گولان جو دیگر اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے وہ اکثر ثقافتی اور روایتی اقدار کی بات کرتے ہیں ۔ ان کی جانب سے ثقافتی اور روایتی اقدار پر زوردینے کو ان کے نقاد عثمانی معاشرے کی طرف مراجعت کی کوشش قرار دے رہے ہیں ۔ ان پر رجعت پسند یا بنیاد پرستی کا ا لزام بھی لگایا جاتا رہا ہے ۔ یہ ایک ایسا ا لزام ہے جس کی انہوں نے ہمیشہ تردید کی ہے اپنے دفاع میں وہ کہتے ہیں ” لفظ ارتقاءکا مطلب ماضی کی طرف لوٹنا یا ماضی کو حال کی طرف لانا ہے میں ابدیت کو نہ کے مستقبل کو مقصد کے طور پر دیکھ رہا ہوں میں اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور اس کے لئے جو کچھ کر سکتا ہوں اس کی کوشش میں ہوں ۔ میں نے ز بانی یا عملی طور پر کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے میرا ملک پیچھے کی طرف جائے ثقافتی اور روایتی اقدار کے حوالے سے وہ ترکی کے ماضی کو ایسا دور قرار دیتے ہیں جس کے دوران سمجھ بوجھ اور دانشمندی کا پیمانہ آہستہ آہستہ بھرتا رہا اور جس نے اب بھی ماڈرن لوگوں کو بہت کچھ سکھانا ہے اور آجکل کے معاشرے کے ساتھ روایتی دانشمندی کا بھی گہرا تعلق ہے ماضی سے حاصل شدہ دانشمندی کے زخیرے کی بناء پر ہم ماضی کو رد نہیں کر سکتے دوسری طرف ماضی کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی کوشش کوتاہ نظری ہوگی اور یہ کوشش لازماً ناکامی سے ہمکنار ہوگی ۔ بندہ کہہ سکتا ہے کہ ماضی سے تعلق توڑنے کی کوشش کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ گولان ماضی کے دقیانوسی معاشرے کو پھر سے زندہ کرنے کے بھی مخالف ہیں ۔
جدید دور کے بعض اصلاح پسندوں کی جانب سے ماضی سے ناطہ توڑنے کو وہ ملا جلا تصور قرار دیتے ہیں جس کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی ۔ ماضی کے وہ پہلو جو ظلم وبربریت ، جمود اور بے مقصدیت پر مبنی ہیں انہیں ترک کرنا ضروری ہے لیکن اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کرے تو وہ پہلو جو انسانی آزادی اور انسانیت سے تعلق رکھتے ہیں ان کا احیاء ضروری ہے ۔ یہ امر بالکل واضح ہے کہ ان کی سوچ محض ترکی کی سیاسی سمت کے حوالے سے ہونے والی اندرونی بحث یا ا سلامی معاشروں کے مستقبل تک محدود نہیں ہے ۔ ان کی تعلیمی بصیرت دنیا بھر کے معاشروں کو اپنے اندر سموتی ہے ۔ وہ ایسے اصلاح پسند پیدا کرنا چاہتے ہیں جو اقدار کے ایسے نظام کو تقویت دیں جو انسان کے جسمانی اور روحانی دونوں پہلوﺅں کو مد نظر رکھے ۔ وہ لوگ جو دنیا کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں پہلے اپنی اصلاح کریں ۔ دوسروں کو سیدھی راہ پر لانے سے پہلے اپنے اندر کی دنیا کو نفرت اور حسد سے پاک کرنا ہوگا اور باہر کی دنیا کو ہر طرح کی خوبیوں سے سجانا ہوگا ۔ وہ لوگ جو اپنی ذات پر قابو پانے اور نظم وضبط سے دور ہوں شروع میں جاذب نظر اور صاحب نظر آتے ہیں لیکن زیادہ عرصے وہ اپنا تاثر قائم نہیں رکھ سکتے ہیں ۔
گولان کہتے ہیں کہ وہ شخص جو سیکھتا سکھاتا ہے اور دوسروں کو متاثر کرتا ہے حقیقی طور پر انسان ہوتا ہے لیکن وہ شخص جو سیکھنا نہیں چاہتا ا ور جاہل رہتا ہے اسے مکمل انسان کہنا مشکل ہے اور یہ بات بھی جواب طلب ہے کہ ایک پڑھا لکھا انسان جو اپنی ذات کی اصلاح نہیں کرتا اور دوسروں کے لئے مثال نہیں بنتا کیا مکمل آسان ہے ؟
فتح اللہ گولان بطور دینی معلم :۔
اس مضمون میں جس موضوع پر بنیادی طور پر بات کی گئی ہے وہ ہے جناب فتح اللہ گولان بطور معلم ۔ ایک مذہبی سکالراور استاد کے طور پر ان کا کردار محتاط مشاہدے کا متقاضی ہے ۔اسی طرح جس طرح اسلام کے بارے میں ایک جدید مفسر کے طور پر ان کی سوچ ۔ ان کی تعلیمی بصیرت کا مطالعہ ا سلام کے حوالے سے ان کی تحریروں پر نظر ڈالے بغیر ممکن نہیں جناب گولان کی تنصیف کردہ30کتابوں میں چند کتابیں طلباءکے ساتھ ہونے والی گفتگو اور عبادت گزاروں کو دیئے جانے والے خطبات پر مشتمل ہیں ۔ باقی ماندہ کتابوں میں نبی پاک کی اسوة حسنہ ، صوفی ازم کا بنیادی تعارف اور وہ موضوعات شامل ہیں جس میں دین اسلام کی روح کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔ ان کی یہ تحریریں علمی ماہرین کے لئے نہیں بلکہ عام پڑھے لکھے مسلمانوں کے لئے ہیں ۔
اسلامی روایات اور اس کے ذرائع کے حوالے سے محترم فتح اللہ گولان کی سوچ کے بارے میںکیا کہا جاسکتا ہے ؟ وہ پہلی چیز جو پڑھنے والے کو فوری طور پر محسوس ہوتی ہے وہ ہے اخلاقیات اور اخلاقی اقدار پر ان کا زور دینا ۔ اور جن اخلاقی اقدار کا وہ ذکر کرتے ہیں ان کا ماخذ قرآن ہے ۔ گولان عبادات کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ اخلاقی مضبوطی کو مذہب میں مرکزی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اخلاقیات مذہب کا نچوڑ اور آسمانی پیغام کا اہم جزو ہے وہ کہتے ہیں کہ نیک بننا اور اچھے اخلاق کا مالک ہونا آپکو بہتر انسان بناتا ہے اور بہترین انسان انبیاءہوتے ہیں اور ان کے بعد ان کے پیرو کار جو خلوص دل کے ساتھ ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ ایک سچا مسلمان آفاقی اخلاقیات پر عمل پیرا ہوتا ہے ۔ وہ نبی پاک کی اعلیٰ اخلاقی صفات اور اسوة حسنیٰ کا پیرو کار ہوتا ہے اور آپ کی سیرت کو سامنے رکھتا ہے ۔
اسلامی طرز زندگی کے مختلف پہلو ایک انسان کو محترم اور سچا انسان بناتے ہیں ۔ اسلام کے اس وسیع تر مفہوم کے مد نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ محترم فتح اللہ گولان کی ذات کے ساتھ وابستہ سکول کی جڑیں اسلام کے اخلاقی تصور میں پیوست ہیں لیکن یہ صرف ” امہ “ کے ممبران تک محدود نہیں ہیں ۔ جب محترم گولان ایسے طلباء تیار کرنے کی بات کرتے ہیں جو انسانی اقدار اور اخلاقی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے والے ہوں جن کی ظاہر ی زندگی میں تمام خوبیاں نمایاں ہوں تو اس سے مراد آفاقی اخلاقی اقدار ہوتی ہیں جو انہیں اسلام نے سکھائی ہیں ۔ اور وہ یہ خوبیاں اور اخلاقی صفات صرف مسلمانوں کی ملکیت نہیں سمجھتے کیونکہ ان سکولوں میں غیر مسلم طلباءکو بھی خوش آمدید کہا جاتا ہے ۔
اس طرح دین اسلام کو تکمیل ذات تک لے جانے والا راستہ سمجھا جاتا ہے ۔ جناب گولان صوفی ازم کو تمام برائیوں سے پاک کرنے اور اچھی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں وہ اسلامی تاریخ کے صوفیا اکرام کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ایسے انسان قرار دیتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو تکمیل ذات کی راہ دکھائی ۔
صوفی ازم کے حوالے سے ان کے ان مثبت مشاہدات کی بناءپر ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ صوفی طریقت کی ایک نئی تحریک شروع کررہے ہیں وہ اس سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انکا ایک اپنا نیم ۔ صوفی آرڈر ہے گولان کہتے ہیں کہ صوفی ازم کو ر د کرنا جو کہ اسلام کا ایک روحانی پہلو ہے دین اسلام کی مخالفت کے برابر ہے ۔ وہ کہتے
ہیں ۔ میں کسی مذہبی آرڈر کا رکن نہیں ہوں ۔ مذہب اسلام از خود روحانی پہلو پر زور دیتا ہے ۔ یہ نفس کی تربیت کو ایک بنیادی اصول قرار دیتا ہے ۔
تقویٰ پرہیز گاری اور خدا ترسی اس کے لازمی جزو ہیں اسلام کی تاریخ میں صوفی ازم وہ ڈسپلن تھا جو ان خوبیوں پر قائم تھا ۔ اس کی مخالفت اسلام کی روح کی مخالفت ہے لیکن میں کہتا چلوں کہ میں نے کوئی صوفی سلسلہ اختیارنہیں کیا اس لئے ان میں سے کسی کے ساتھ میراتعلق نہیں رہا۔
- Created on .