عالم انفس کی طرف
مختلف اوقات اور ادوار میں زمین کے مختلف حصوں میں مختلف عنوانات کے تحت کیے جانے والے تعمیرنو کے دعوؤں کے بارے میں کئی مرتبہ گفتگو ہو چکی ہے۔ان دعوؤں میں کس قدر سچائی پائی جاتی ہے یہ بات ہمیشہ رد و قبول کا محل اور بحث و تحقیق کا موضوع بنی رہے گی،تاہم ایک جہان ایسا بھی ہے،جو کائنات اور اس کے پسِ پردہ مخفی اسرار اور انسان اور زندگی کوبیک وقت اپنے دائرہ بحث میں لانے کی وجہ سے اس تعمیری مہم کا حق اداکرتا ہے،نیز وہ اوپر ذکرکردہ پابندیوں میں گرفتار نہیں،بلکہ ان سے آزاد ہے۔یہ جہان خصوصاً اپنے طویل عہد کے لحاظ سے ہمارا جہان اور دنیا ہے۔
دنیا طویل بحرانوں سے گزرنے اور شدید جھٹکے سہنے کے باوجود دورحاضر میں تعمیرنو کے مقصد کو پانے اور مردہ انسانیت میں نئی روح پھونکنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ہماری قوم ایسے علمی ورثے سے مالامال ہے،جس کی بدولت وہ اپنے گردوپیش میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال کے بارے میں تحقیق وجستجو کر سکتی ہے،مزیدبرآں زمانہ دراز تک دوسری اقوام کی قیادت کرنے کی وجہ سے ان محکوم اقوام کے تحت الشعور میں اس کی برتری کاخیال بیٹھ چکا ہے۔یہ اس کے حق میں ایک مثبت پہلوہے،جس سے وہ آج بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔بلاشبہ وہ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ وہ ان تاریخی عوامل کو صحیح انداز سے استعمال کرے،جو اس کے درخشاں ماضی کا لازمی حصہ رہے ہیں۔
عالم اسلام ایک عرصے تک دینی اور طبیعی علوم،منطق و تصوف اور جمالیات اور شہروں کی نقشہ سازی غرض ہر میدان میں زمانے بھر سے ممتاز رہا ہے۔اس میں خوارزمی،بیرونی،ابن سینا اور زہراوی ایسے ماہرین طبیعات اور ابوحنیفہ،امام محمد،سرخسی اور مرغینانی ایسے ماہرین قانون پیدا ہوئے۔امام غزالی،امام رازی،مولانا جلال الدین رومی اور شاہ نقشبندی جیسی غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک شخصیات نے قلب اور فراست کی بالادستی قائم کر کے وجدان کے زیراثر زندگی گزاری۔عالم اسلام میں امام ماتریدی، تفتازانی،جرجانی اور دوانی جیسی عبقری شخصیات اور بحث ومباحثہ کے شہسوار اور خیرالدین معمار،سنان معمار،عطری اور دہ دہ آفندی جیسے عظیم اصحاب فن گزرے ہیں۔ ایک عرصہ تک بیکار رہنے کے باوجود عالم اسلام روشن دماغوں اور روحوں میں نئے سرے سے تحریک پیدا کر کے عالمی سطح پر نشاۃ ثانیہ یا ثالثہ لا سکتا ہے۔دنیا ہر جگہ روح اور حقیقت کے پھیلے ہوئے نقش و نگارکے ذریعے حقیقی اور اچھوتے ذوقوں کا ادراک کر کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتی ہے۔جی ہاں! وہ اس نقش و نگار میں لانہایت کی تلاش و جستجو کرنے والے اُخروی،حساس اور مختلف پہلوؤں سے متحد فن،اسلام کی روح اور حقیقت اور کائنات کی نئی توجیہ، تصور کی گہرائی کی حامل لاہوتی فضاؤں، مابعدالطبیعات،اسلامی محاسبہ ومراقبہ، انسان کی قدرومنزلت بڑھانے والی بیدارمغزی اور مہارت،شہروں کی عمدہ نقشہ سازی اورمسلمانوں کی اکثریت کی جمالیاتی اقدار کے ذریعے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتی ہے اور بظاہر ناممکن دکھائی دینے والا یہ کارنامہ سرانجام دے سکتی ہے۔
تاہم روحانی زندگی کو بڑی حد تک کمزور اور پژمردہ کرنے،دینی ماحول کو مکدر بنانے،محبت الہٰیہ کو مکمل طور پر فراموش کر کے ضمیروں کی زبانوں پر تالے لگانے، طلباء،تعلیم یافتہ افراد اور مفکرین کو مادہ پرستی کی کثیف دلدل میں محبوس کرنے،حق پر پختگی اور ثابت قدمی کی بجائے محض بھڑکیں مارنے اور آخرت اور جنت کی جستجو کو بھی عام دنیوی خوشیوں کے دوام کی حیثیت سے دیکھنے وغیرہ جیسے سالہاسال سے وطن عزیز میں رائج غلط افکار و تصورات سے چھٹکارہ حاصل کیے بغیر ہم اس نئے دور کا آغاز کسی صورت نہیں کرسکتے۔
لیکن اس سے یہ مقصود ہرگز نہیں کہ گزشتہ چند صدیوں سے ہماری روحوں کو لگنے والی آلودگیوں کو دور کرنا ممکن نہیں،بلکہ ہمارا مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ جب تک ہم بحیثیت قوم اپنے زوال اور پستی کے حقیقی اسباب مثلاً لالچ،کاہلی،شہرت پسندی، اقتدار کی ہوس،اناپرستی اور دنیا کی محبت ایسے جذبات اور احساسات سے چھٹکارہ نہیں پائیں گے اور اسلام کی روح اور حقیقت مثلاً استغناء، شجاعت،بے نفسی، آخرت، روحانیت اور ربانیت کے اہتمام کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور اپنے احساسات کو پاکیزہ بنا کر انہیں حق کے سانچوں میں نہیں ڈھالیں گے اس وقت تک گوہر مقصود کو پانا انتہائی مشکل ہے۔گو یہ کام مشکل ضرور ہے،لیکن محال نہیں۔اگر حق اور اپنی ذات سے مخلص، احیائے نو کے لیے پرعزم اور زمانے کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھنے والے بہادرانِ قوم میدان میں موجود ہیں اور واقعی موجود ہیں تو احیائے نو اور تبدیلی ہو کر رہے گی۔ یہ احیائے نو اور تبدیلی قرآنی اور فطری اصولوں پر قائم ہو گی اور ایسے طور پر رونما ہو گی کہ اس فہم کے متعارف ہونے کے اندیشے سے اپنے آپ کو محبوس کرنے والے اس رجحان کو روک نہ سکیں گے۔
آج تک عالمی سطح پر اٹھنے والی جتنی بھی تحریکوں کا ہمیں علم ہے وہ شخصی عبقریت اور جدوجہد کانتیجہ تھیں نہ کہ گروہوں کی تحریکوں اور مہمات کا ثمرہ۔ظہوراسلام کے بعد جو بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ اموی اور عباسی ادوار میں پیدا ہونے والی غیرمعمولی ذہانت اور ممتاز افکار کی حامل چند بے مثال روحانی شخصیات کے اثرات تھے،نیز ایلخانی،قرہ خانی، سلجوقی اور عثمانی ادوار کی مرکزیت کے استحکام کے پیچھے گہری فکر اور روشن فطرت کارفرما تھی۔اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں اعلیٰ درجے کے جذبات کا مظاہرہ کرنے والے ان راہنماؤں نے جس راستے کو کھولا وہ کچھ ہی عرصے کے بعد انسانوں کے بڑے بڑے گروہوں میں تعمیرنو کی روح پھونکنے والے مکاتب فکر اور رجحانات میں تبدیل ہو گئے،بہت سے لوگ ان روحانی راہنماؤں کے راستے پر ان کے افکار کی پیروی کرتے ہوئے چلنے اور ان کی نورانی سلطنت کی پناہ میں آنے لگے۔ یہ روحانی پیشوا عوام کے دلوں میں بستے تھے،لیکن جب یہ عظیم دماغ دنیا سے رخصت ہو گئے اور ان کے بعد ان کے خلا کو پورا کرنے والے لوگ بھی باقی نہ رہے تو معاشرے کے تمام طبقات پر غفلت، تجدیدی بانجھ پن اور فکری جمود طاری ہو گیا۔
آج جبکہ موسم بہار کی آمد آمد ہے اور صبح طلوع ہونے کو ہے،ہمیں اپنی امیدیں پوری ہوتی نظر آرہی ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ ہمیں اپنی مشیت سے ایسا عزم عطا فرمائیں،جس کی مدد سے ہم اپنی شخصیت کی تعمیر کر سکیں،اپنے دلوں کی کھیتیوں کو جنت کے باغات کی طرح ہرا کر سکیں اور اپنے ذہنوں کے ذریعے حرم الوہیت کے اسرار کا سراغ لگا سکیں اور ہماری قوم کو حضرت محمدﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے احیائے نو کا راستہ الہام کیجئے۔
اس امید کو بر لانے کے لیے سعی و کاوش کرنا اور اس کے لیے منتظر رہنا نہ صرف ہمارا حق اور ذمہ داری ہے،بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضا بھی ہے،تاہم اپنے حق کو استعمال اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی کا مسلسل جائزہ لیتے رہیں اور جن اقدار نے ہمارے ماضی کو عظمت عطا کی تھی انہیں مضبوطی سے تھامے رکھیں۔جب مغرب نے موجودہ تہذیب و تمدن کی طرف سفر کرتے ہوئے ایسی ہی نشاۃ ثانیہ کو حاصل کیا تو اس نے مسیحیت کی پناہ لی،یونانی تہذیب کو اپنا اسوہ بنایا اور رومی تمدن سے ہم آہنگی پیدا کی۔اس قسم کے اصول ہر دور میں تہذیبوں میں مقبولِ عام رہے ہیں،لہٰذا ہم بھی اپنے ماضی اور اپنے حقائق کے سرچشموں کی پناہ لیں گے اور اپنی ان مثالی اور روحانی شخصیات سے روشنی حاصل کریں گے،جن کی پاکیزگی میں مرورِزمانہ سے میلاپن نہیں آیا۔ہم فلسفیانہ افکار،صوفیانہ حقائق، دین کے مستحکم تصورات اور اخلاقیات کے میدانوں میں اپنے ان درخشاں ادوار کے کارناموں سے استفادہ کریں گے،جنہیں ہم اپنی تاریخ کا سنہری دور اور ابدی سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں،بلکہ ہم مستقبل کے لیے تیار کیے گئے لباس پر مزید نقش و نگار بھی بنائیں گے۔ان نقش و نگار میں ‘‘مولانا جلال الدین رومی’’ ‘‘تفتازانی’’ کے ساتھ کھڑے ہوئے،‘‘یونس’’ ‘‘مخدوم قولی’’کے ساتھ سجدہ کرتے ہوئے، ‘‘فضولی’’ ‘‘عاکف’’سے بغلگیر ہوتے ہوئے،‘‘امیراولوغ’’ ‘‘ابوحنیفہ’’کو سلام پیش کرتے ہوئے،‘‘خواجہ دھانی’’ ‘‘امام غزالی’’کے سامنے بیٹھے ہوئے،’’ابن عربی’’ ‘‘ابن سینا’’پر پھول نچھاور کرتے ہوئے اور ‘‘امام ربانی سرہندی’’ ‘‘بدیع الزمان نورسی’’کی خوشخبری دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے عظیم اور بلند ماضی کی عظیم فکری شخصیات باہم متحد ہو کر ہمارے کانوں میں نجات اور بیداری کے طلسم کی سرگوشیاں کر رہی ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ان تمام امور پر حاوی شعور،فکر، منہج اور فلسفے کو دریافت کریں اور اپنے آسمانی اور ابدی اسلوب کو پا لیں۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے ان راستوں پر نظرثانی اور ان کی تجدید کرنی چاہیے،جن پر ہم چلتے ہیں۔عشق و شوق کا الہام اور برکت،عقل و دانش کا الہام کرنے والی متانت اور پختگی،استقامت، انسانی آزادی،خود اعتمادی، باریک بینی،آسانی،فراست اور فن و فلسفے کی وحی کی روح سے ہم آہنگی ہماری نشاۃ ثانیہ کی اہم بنیادیں ہیں،لیکن احیائے نو کے صحیح منہج پر ثابت قدم رہنے کے لیے ضروری ہے کہ رضائے الٰہی کو اپنی سب سے بڑی امید،روح کو احساسِ ذمہ داری کی کوششوں کی بنیاد، انسان اور وطنِ عزیز سے محبت کو ناقابل استغناء خواہش،اخلاقیات کو راستے کا ناگزیر اور حیات بخش توشہ، کائنات، انسان اور زندگی کو ایسی پراسرار کتاب جس کے رازوں سے قرآنِ کریم کے شفاف منشور (Prims) کے ذریعے ہمیشہ یکے بعد دیگرے پردہ اٹھایا جاتا رہے گا اور انسان کی شخصیت اور اس کی حقیقی بشری اقدار کا اہم سرچشمہ اور قرآن و سنت کو ہدف کی حقانیت،غایت اور تقدس کے مطابق ہدف و مقصد تک پہنچانے والے راستے کا محور قرار دیا جائے۔
ہم مذکورہ بالاامور کا خلاصہ طبی نسخے کے انداز میں یوں بیان کر سکتے ہیں: ‘‘ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے وطن اور ہم وطنوں کو اپنا مقصود سمجھیں،اپنے بگڑتے ہوئے انجام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں،اپنے معاشرے کے خمیر سے تشکیل پانے والی روح کے ذریعے اپنے جسموں کو زندگی بخشیں اور اپنی قوم کے شایانِ شان تاریخ کے ایک پاکیزہ دور کا آغاز کریں۔’’ یہ ایک ایسی تہذیب کے اصول ہیں جسے مثالی شہروں اور تجدید کے خوابوں پر برتری حاصل ہے۔ آئندہ مضمون میں ہم ان اصولوں پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
- Created on .