ہم روح کی آبیاری کرتے ہیں
گزشتہ صفحات میں ہم نے ‘‘ورثۃ الأرض’’ (زمین کے وارثوں) کے اوصاف اجمالی طور پر ذکر کیے ہیں۔ذیل میں ہم ان پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
اوّل:زمین کے وارث کا پہلا وصف ایمانِ کامل ہے۔قرآن کریم ‘‘ایمان باللہ’’ کو معرفت کے افق،محبت کی روح،عشق و شوق کے پہلو اور روحانی تحریروں کی رنگینی میں انسانی تخلیق کا مقصدقرار دیتا ہے۔انسان اس بات کا مکلف ہے کہ کبھی تو اپنی ذات سے کائنات کی گہرائیوں کی طرف راستے بنا کر اور کبھی کائنات کے حصوں کی اپنی ذات کی روشنی میں قدرپیمائی کر کے اپنے ایمان کی عمارت تعمیر کرے،جو دوسرے لفظوں میں اس کی روح میں پوشیدہ انسانی حقیقت کے ظہور کا نام ہے۔انسان صرف ایمان کی روشنی میں ہی اپنی ذات،اس کی گہرائیوں اور کائنات کے مقصد و غایت کا اندازہ لگا اور کائنات،واقعات اورچیزوں کے پس پردہ امور کی حقیقت کو جان سکتاہے اور اس معرفت کے بعد ہی اسے کائنات کے ذاتی ابعاد کا پورا فہم حاصل ہو سکتا ہے۔
کفر بند اور گھٹن والا نظام ہے۔کافر کی نظر میں کائنات کا آغاز بدنظمی سے ہوا،مصادفت کی خوفناک جہالتوں میں اس کا ارتقا ہوا اور وہ تیزی سے ایک خوفناک اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔اس تیز بہاؤ میں پاؤں رکھنے کی بھی کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں روح کو فرحت بخشنے والے انفاسِ رحمت ہوں یا انسانی امیدوں کو بر لانے والی امن کی بادِ نسیم چلتی ہو۔
دوسری طرف اپنی زندگی کے سفر کے آغاز و اختتام اورمقصد اور اپنے فرائض و واجبات سے آگاہ صاحب ایمان شخص ہر چیز کو پرنور اور منور دیکھتا ہے،ہر قدم بغیر کسی اضطراب کے اٹھاتاہے،اپنے مقصد کی طرف بلاخوف پراعتماد انداز سے بڑھتا ہے،اس دوران کائنات اور اس کے پس پردہ امور کے بارے میں ہزاروں بارتحقیق و جستجو کرتا ہے،چیزوں کو ہزاروں بار کسوٹی پر پرکھتا ہے،ہردروازہ بالاصرار کھٹکھٹاتاہے، ہر چیز کی مناسبت تلاش کرتا ہے اور جب اس کی معلومات اور نتائج ناکافی پڑ جائیں تو اس وقت تک کی اپنی یا دوسروں کی تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج و حقائق پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھتا ہے۔
اس معیار کی روشنی میں مؤمن سیاح طاقت کے بہت اہم سرچشمے کو دریافت کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ مختلف ابعاد پرمشتمل قوت کا یہ محفوظ ذخیرہ جس کی طرف ‘‘لاحول و لاقوۃ الا باللہ’’ کے الفاظ سے اشارہ کیا جاتاہے اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ جس شخص کے پاس طاقت کا یہ سرچشمہ اور یہ روشنی ہو اسے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی،کیونکہ ایسا شخص صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو دیکھتا اور جانتا ہے،صرف اسی کی طرف بھاگتا ہے اور صرف اسی کی طرف رخ کر کے جیتا ہے،لہٰذا جس قدر اسے معرفت الہٰیہ حاصل ہوتی ہے اورجس قدر اسے اللہ تعالیٰ پراعتماد ہوتا ہے اسی قدر وہ ہر قسم کی دنیوی طاقت کو للکار سکتا ہے،وہ شوق کی کیفیات میں جیتا ہے اور سنگین ترین حالات میں بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا،بلکہ ہر معاملے میں کامیابی کے بارے میں پُرامید رہتا ہے۔
میں اس موضوع کے بارے میں یہاں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور قارئین کو اس موضوع سے متعلق علمی ذخیرے خصوصاً کلیات رسائل نور کی طرف مراجعت کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔
دوم:زمین کے وارث کا دوسرا وصف عشق ہے،جو احیائے نو کے سلسلے میں زندگی کے لیے اہم ترین اکسیر ہے۔جو شخص اپنے دل کو اللہ کے ایمان اور معرفت سے آباد اور تیار کرتا ہے وہ اپنے ایمان کے درجے کے مطابق نہ صرف ہر انسان بلکہ ساری کائنات سے گہری محبت اور شدید عشق کرتا ہے۔وہ یوں محسوس کرتا ہے جیسے اس کی پوری زندگی ساری کائنات سے عشق و محبت،اس کی طرف جذب و کشش اور اس سے متعلق روحانی ذوق کے مد و جزر میں گزر رہی ہے۔دوسرے ادوار کی طرح عصر حاضر میں ہمیں عظیم نشاۃثانیہ لانے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک نئے اور تروتازہ فہم کے ساتھ ہمارے دل شوق و عشق کے جذبات سے لبریز ہوں۔ کوئی بھی تحریک یا مہم خصوصاً جس کا تعلق آخرت اور مابعدالطبیعاتی امور سے بھی ہو عشق کے بغیر اپنے اثرات کو باقی نہیں رکھ سکتی۔عشق جسے ہم حاضر،موجود اور پیدا کرنے والے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی حیثیت سے اپنے مقام کی تعیین، اپنے وجود کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نور اور وجود کا پرتو ہونے کی بنا پر خوش نصیبی کے احساس،اس کے کلام کو تخلیق کی غایت ہونے کی حیثیت سے قبول کرنے اور اس کے حصول کے لیے بغیر کسی کمی کوتاہی کے کوشش کرنے میں ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں، طاقت کا پراسرار پوشیدہ سرچشمہ اور کبھی نہ ختم ہونے والا جذبہ ہے۔زمین کے وارثوں کو اس سرچشمے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے،بلکہ اسے ہمیشہ جوش و خروش سے ابلتا رکھیں۔ مغرب نے مادے کے مختلف رنگوں کے پہلوؤں اور دخانی اور کہرآلود فلسفیانہ فضاؤں میں عشق کو جانا اور اس کا ذائقہ چکھا،جس کی بنا پر وہ سارے راستے میں شبہات اور تذبذب کا شکار رہا،لیکن ہم وجود اور سرچشمہ وجود کو کتاب وسنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور جس پروردگار کے شعلے کو ہم اپنے دلوں میں روشن رکھتے ہیں،اسی سے محبت کرتے ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہی کائنات کے ساتھ محبت اورتعلق رکھتے ہیں اور مابعد الطبیعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں سرچشموں کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق،کائنات میں اس کامقام،اس کی تخلیق کا مقصد،جس راستے پر وہ چلتاہے اور اس راستے کا ان دو سرچشموں تک جا کر ختم ہو جانا یہ سب کچھ انسان کی فکر،حس،شعور اور توقعات کے ساتھ اس قدر حیرت انگیز طور پر ہم آہنگ ہے کہ جب ہم اسے محسوس کرتے ہیں تو اس پر حیرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔یہ درخشاں راستے دل والوں کے لیے عشق و محبت کے فوارے اور جذب وکشش کے سرچشمے ہیں۔صحیح ذوق کے ساتھ ضرورت مند بن کر جو بھی ان کی طرف رجوع کرتا ہے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا اور ان کی پناہ لینے والا کبھی ہلاک نہیں ہوتا،تاہم پناہ لینے والوں کو امام غزالی،امام ربانی سرہندی،شاہ ولی اللہ دہلوی اور بدیع الزمان نورسی کے اخلاص و گہرائی کے ساتھ پناہ لینی چاہیے،مولاناجلال الدین رومی،شیخ غالب اور محمدعاکف کے جوش و خروش سے قرب حاصل کرنا چاہیے اور خالد، عقبہ،صلاح الدین ، محمدفاتح اور یاووزسلیم کی حرکت وعمل سے متوجہ ہونا چاہیے۔ہمارا دوسرا اقدام یہ ہونا چاہیے کہ ہم زمان و مکان کی حدود سے ماورا ان کے عشق و محبت کو اپنے دور کے اصولوں،اسالیب اور وسائل کے ساتھ ہم آہنگ کریں،تاکہ ہم زمانے کی قید سے آزاداورکبھی بوسیدہ نہ ہونے والے قرآنِ کریم کی روح کو پا کر کائنات کی مابعد الطبیعاتی حقیقت کو پا لیں۔
سوم: زمین کے وارث کا تیسرا وصف یہ ہے کہ وہ عقل،فراست اور شعور کو معیار بنا کر علم کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔اس قسم کی توجہ کسی مخصوص دور میں غلط مفروضات کو تسلیم کرنے یا ان سے اجتناب کرنے کے بارے میں انسانی رویے کا جواب بھی فراہم کرتی ہے۔انسان کی نجات کے سلسلے میں یہ بہت اہم اقدام ہے۔ بدیع الزمان نورسی نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ آخری دور میں انسانیت علم و فن کی تحصیل میں اپنی پوری طاقت استعمال کر دے گی اور پھر اپنی ساری قوت علم سے ہی حاصل کرے گی،گویا علم ایک بار پھر حکومت اور طاقت کا سرچشمہ بن جائے گا اور فصاحت و بلاغت اور قوت ابلاغ لوگوں کی اکثریت کے علم کو قبول کرنے کا ایک ذریعہ اور سب کی توجہ کا مرکز بن جائے گی،جس کے نتیجے میں علم اور قوت ابلاغ کا احیائے نو ہو گا۔(۱۰) ہمارے سامنے اس کے علاوہ کوئی ایسا راستہ نہیں جو ہمیں اوہام کی دخانی فضاؤں اور ہمارے ماحول پر چھائی ہوئی کہر سے نکال کر نہ صرف حقیقت بلکہ حقائق کی حقیقت تک پہنچائے۔صدیوں کے خلا کو پر کرنے،تحصیل علم سے سیر ہونے اور باطنی شعور کے مرضِ کہن کی وجہ سے پیدا ہونے والی ذوق کی خرابی کو دور کر کے اپنی شخصیت اور خوداعتمادی کو ثابت کرنے کے لیے علم کو اسلامی فکر کے منشور (Prims) سے گزارنا ناگزیر ہے۔ ماضی قریب میں بعض اوقات اہداف و مقاصد کے اختلاف اور کبھی علم اور معلومات یا علم اور فلسفے میں خلط مبحث کی وجہ سے علمی فکر میں واضح خلل اور ناقابل تلافی حد تک اہل علم کے عدم احترام کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے اور ہمارے وطن میں آباد غیرملکیوں نے اس خلا سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے وطن عزیز کے کونے کونے میں اپنے اسکولز کھول دیئے اور علمی مراکز کے ذریعے ہماری نسل کے ذہنوں میں بدیسی افکار ڈال دیئے۔ہم میں سے بعضوں نے وطن عزیز کے قابل ترین دماغوں کو ان اسکولوں میں نہ صرف داخل کرایا،بلکہ ان کی انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں بھی چومے تاکہ وہ مغربی افکار کو مزید تیزی سے پھیلائیں۔اس کانتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصے کے بعد اس فریب خوردہ نسل کا دین اور ایمان برباد ہو گیا اور ہم بحیثیت قوم فکر، تصور،فن اور زندگی میں ذلت کا شکار ہو گئے۔جب تک یہ اسکول جن میں ہم نے اپنے تروتازہ اذہان کو بغیر کسی کھکا اور قلق کے داخل کیا ہے بغیر کسی استثناء کے ہمہ وقت امریکی ثقافت،فرانسیسی اخلاق اور انگریزی عادات و رسوم کو علم اور علمی فکر پر مقدم رکھنے کی پالیسی پر کاربند رہیں گے اس وقت تک ہمیں اس قسم کے نتائج پر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے علم،فن اور ٹیکنالوجی کے ذریعے زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کی بجائے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو کر مارکس ازم،ڈرکیمین فکر (Durkheimian thought)،لینن ازم اور ماؤازم کے کرتبوں سے دل بہلانے لگے۔کسی نے اشتراکیت،ڈکٹیٹرشپ اور پرولیٹریٹ سے اپنے آپ کو تسلی دی تو کوئی فرائیڈ کے مسائل میں الجھ کر رہ گیا۔بعض نے سارتر کے فلسفہ وجودیت میں اپنی عقل برباد کی تو بعض کی مارکوس کو دیکھ کر رال ٹپکنے لگی اور بعض نے البیغ کامو (Albert Camus) کے ہذیان و خرافات کے پیچھے اپنی عمر گراں مایہ ضائع کردی۔وطن عزیز میں ہمیں یہ سب کچھ پیش آیا ہے۔اس بحران کے دوران سیاہی اور تاریکی کی نمائندہ آوازوں اور زبانوں نے دین اور اہل دین کو بدنام کرنے اور مغربی جنون کی عوام میں تشہیر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔اس دور اور اس میں خونِ مسلم کی ارزانی کو ہم کبھی فراموش نہ کر پائیں گے۔ وطن عزیز اور ہمارے خلاف اس قسم کے حالات پیداکرنے والوں کو تاریخ کے صفحات اور خلق خدا کے ضمیر میں ہمیشہ مجرم قرار دیا جاتا رہے گا۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس تاریک دور کے معماروں کو ان کے برے کارناموں سمیت ماضی کے قبرستان میں دفن کر دیں۔ہم ان سے آزردہ خاطر اور دکھی ہیں۔اب ہم اپنے مستقبل کی تعمیر میں مصروف مفکرین کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں۔
شخصیت کی تجدید اس علمی فکر کی روشنی میں ہونی چاہیے،جس سے ہم اپنے نوجوانوں کو آراستہ کرتے ہیں،نیز ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو مکمل طور پر علم اور فکر سے ہم آہنگ کریں۔اہل مغرب سے صدیوں پیشتر ہم یہ کارنامہ سرانجام دے بھی چکے ہیں۔ہماری نامحمود روش کی وجہ سے عام لوگوں کے دلوں میں پیداہونے والے اضطراب،سالہاسال سے دوسروں کے زیرنگیں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے دلوں کی دھڑکن اور صدیوں سے ہماری قوم کے کیے جانے والے استحصال کے ردعمل نے ہمیں حضرت آدم علیہ السلام جیسی جزع و فزع کرنے، حضرت یونس علیہ السلام جیسی آہ و بکا کرنے اور حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح کراہنے پر مجبور کر دیا ہے،تاہم اس احساس اور سوچ کے نتیجے اور تاریخ کے تجربات کی راہنمائی میں ہمیں فاصلے سمٹتے ہوئے اور منزل قریب آتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
چہارم:زمین کے وارث کا چوتھا وصف کائنات،انسان اور زندگی کے بارے میں اپنے نظریات پر نظرثانی کرتے رہنا اور انہیں سخت معیاروں پر جانچ کر ان میں سے صحیح اور غلط میں امتیاز کرتے رہنا ہے۔اس بارے میں کچھ تفصیل حسبِ ذیل ہے:
۱۔ کائنات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے باربار مشاہدہ کیے جانے کے لیے آنکھوں کے سامنے پھیلایا ہے۔انسان کائنات کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کرسکنے کی اہلیت کا حامل شفاف منشور (Prims) اور دنیاکی تمام چیزوں کی واضح فہرست ہے، جبکہ زندگی اس کتاب اور فہرست کانچوڑ اور خدائی بیان کی بازگشت میں منعکس ہونے والے حقائق کی مظہر ہے۔چونکہ کائنات،انسان اور زندگی ایک ہی حقیقت کے مختلف رنگ اور پہلو ہیں،اس لیے حقیقت کی وحدت میں خلل پیدا کر کے انہیں ایک دوسرے سے جداکرنا کائنات اورانسان دونوں پر ظلم ہوگا۔
جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جلیل القدر صفتِ کلام کے الفاظ کو پڑھنا،سمجھنا اور ان کی اطاعت بجا لانا واجب ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ کے علم،قدرت اور مشیت سے پیدا ہونے والی تمام اشیاء اور واقعات کی دلالت کے ذریعے حق تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے،نیز ان دونوں کے درمیان ہم آہنگی کی صورتوں کی تلاش بھی ناگزیر اساس ہے،کیونکہ فرقانِ حمید جو اللہ تعالیٰ کی صفت کلام ہے،ساری کائنات کی روح اور دنیا و آخرت کی سعادت کا واحد سرچشمہ ہے،جبکہ دوسری طرف کتاب فطرت بھی اسی حقیقت کی مظہر اور دنیوی زندگی پربراہ راست اور آخروی زندگی پر علم کی مختلف فروع پرمشتمل ہونے کی وجہ سے بالواسطہ اثرانداز ہونے والا ایک اہم عامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کتابوں کو سمجھ کر ان کے فہم کو عملی صورت حال پر منطبق کرنے اورپوری زندگی کو ان دونوں کے فہم کے مطابق ڈھالنے پر اچھا بدلہ اور انہیں نظرانداز کرنے،ان کی نامناسب توجیہ کرنے یا انہیں عملی زندگی کے ساتھ مربوط کرنے میں غفلت برتنے پر برا بدلہ ملتا ہے۔
۲۔ انسان کی قدرومنزلت کا اندازہ اس کے شعور، فکر اورشخصیت میں حقیقی انسانیت کی گہرائیوں کو تلاش کر کے لگانا چاہیے،نیز حق تعالیٰ اور لوگوں کی نظروں میں انسان کی قدر و منزلت کا مدار بھی انہی خصوصیات پر ہوتا ہے۔اعلیٰ انسانی اقدار، احساسات و افکار کی گہرائی اور شخصیت کی پاکیزگی‘‘سندِحسنِ سیرت’’ کی طرح ہر وقت اور ہر جگہ مطلوب ہوتی ہے۔جو شخص کفریہ اوصاف و افکار کے ذریعے اپنے ایمان و یقین کو گدلا کرتا ہے اور اپنی شخصیت کے ذریعے اپنے دل میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے،وہ حق تعالیٰ کی تائید و عنایت کی تجلی کا مرکز بن سکتاہے اور نہ ہی لوگوں کی نظروں میں اپنے احترام اور اعتماد کو بحال رکھ سکتا ہے،کیونکہ حق تعالیٰ اور لوگ انسانی اقدار اور شخصیت کی بلندی کی بنیاد پر انسان کی قدر و منزلت کا تعین کرتے اور اسے بدلہ دیتے ہیں،لہٰذا انسانی اقدار سے تہی دامن اور کمزور شخصیت کے مالک لوگ گو دیکھنے میں اچھے خاصے نیک ہی کیوں نہ لگتے ہوں کوئی بڑی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی پہلے سے حاصل شدہ کامیابی کو برقرار رکھ سکتے ہیں،اسی طرح شخصیت کی پاکیزگی اور اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل لوگوں پر گو صالح اہل ایمان کی علامات دکھائی نہ دے رہی ہوں، وہ کسی بڑی ناکامی سے دوچار نہیں ہو سکتے،کیونکہ اللہ تعالیٰ اقدار اور اوصاف کی بنیاد پر نوازتے ہیں اور اسی طرح لوگوں کے ہاں مقبولیت بھی بڑی حد تک اسی معیار کے مطابق ملتی ہے۔
۳۔ جائز اور حق اہداف کو حاصل کرنے کے لیے وسائل بھی جائز اور حق ہونے چاہئیں۔ اسلام کے صراطِ مستقیم پر چلنے والے اپنے تمام اہداف و مقاصد میں مشروعیت اور ان کے حق ہونے کا بہت خیال رکھتے ہیں،نیز اس حق کے حصول کے لیے جائز وسائل کا التزام بھی ان پر ضروری ہوتا ہے،لہٰذا صدق و اخلاص کے بغیر رضائے حق کا حصول ممکن ہے اور نہ ہی شیطانی وسائل کے ذریعے اسلام کی خدمت اور مسلمانوں کے حقیقی اہداف کی تکمیل ہو سکتی ہے۔شاید بسااوقات ایسا ہوتا ہوا ممکن دکھائی دے، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اپنے اعتماد و احترام کے سرمائے کو غلط راستوں میں خرچ کرنے والے اور حق تعالیٰ کی عنایت اور لوگوں کی توجہ سے محروم شخص کی کامیابی زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہ سکتی۔
پنجم: زمین کے وارث کا پانچواں وصف یہ ہے کہ وہ فکری طور پر آزاد ہوتا ہے اور دوسروں کی فکری آزادی کے حق کا احترام کرتا ہے۔آزادی اور آزادی کے شعور کا احساس انسانی عزم کا بہت اہم پہلو اور اسرارِخودی معلوم کرنے کا طلسماتی دروازہ ہے۔جو شخص اس پہلو سے تہی دامن ہو اور اس دروازے میں داخل نہ ہوا ہو اسے انسان سمجھنا بھی دشوار ہے۔سالہاسال سے ہم داخلی اور خارجی طور پر خوفناک پھندوں میں پھنسے ہوئے درد سے تڑپ رہے ہیں۔انہوں نے ہم پر زمین تنگ کر دی اور ابھی قید کے پھندے میں ہمارا دم گھٹ رہا تھا کہ انہوں نے ہمارے احساسات اور افکار پر طرح طرح کی بھاری پابندیاں عائد کر دیں۔پڑھنے،سوچنے،احساس اور زندگی پر اس قسم کی پابندیوں کے ہوتے ہوئے تجدید اور ترقی تو دور کی بات ہے انسان اپنی پہلے سے موجود صلاحیتوں اور خوبیوں کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ایسے حالات میں تو سادہ اور خام درجے کی انسانی اقدار کی حفاظت بھی مشکل ہے چہ جائیکہ ایسے انسان تیار کئے جائیں جو تجدیدی جذبے سے سرشارہو کر بلندیوں کو چھوئیں اور لانہایات کی طرف نظر اٹھائیں۔ایسے حالات میں تو ہمیں صرف کمزور شخصیات کے حامل لوگ،ضعیف و ناتواں روحیں اور مفلوج احساسات ہی دکھائی دے سکتے ہیں۔ہم اپنے ماضی قریب میں دیکھتے ہیں کہ خاندان،شاہراہ،تعلیمی اور فنی اداروں نے ہماری روحوں میں بدیسی افکار اور غلط معیارات منتقل کر کے مادے سے لے کر روح تک اور طبیعیات سے لے کر مابعدالطبیعات تک ہر چیز کی حقیقت کو بدل دیا ہے۔اس دورمیں جب ہم سوچتے تو غلط سوچتے،ہر چیز کا خاکہ اناپرستی کے محور پر بناتے،اپنے معتقدات اور خیالات کے سوا دوسروں کے معتقدات و خیالات کو کسی کھاتے میں نہ لاتے اور جب بھی موقع ملتا طاقت کا سہارا لیتے،حق،ارادے اور فکر کی آزادی کا گلا گھونٹتے اور دوسروں کے سینوں پر چڑھ دوڑتے۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال ابھی ختم نہیں ہوئی اور مستقبل میں بھی اس کے ختم ہونے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا،لیکن چونکہ ہم بحیثیت قوم تجدید کے راستے پر چل رہے ہیں،اس لیے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم گزشتہ ہزار سال سے کارفرما تاریخی عوامل پر نظر ڈالیں اور گزشتہ ڈیڑھ سوسال میں پیش آنے والی تبدیلیوں اور واقعات کا گہرائی سے جائزہ لیں۔یہ وقت کی ضرورت ہے،کیونکہ دورِحاضر میں احکام اور فیصلے من گھڑت مقدمات کے مطابق جاری کیے جا رہے ہیں۔موجودہ رائج فہم کے تحت کئے جانے والے فیصلے غلط، غیرمقبول اور مطلوبہ روشن دور کی تیاری کی اہلیت سے واضح طور پر عاری ہیں۔اگر ان سے کوئی مقصد حاصل ہوتا ہے تو مہلک حرص و ہوس کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کے درمیان جھگڑوں،گروہوں کے درمیان لڑائی،قوموں کے درمیان معرکہ آرائی اور مختلف قوتوں کے درمیان ٹکراؤ کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔آج یہی فیصلے ایک گروہ کے دوسرے گروہ کے ساتھ دست بگریباں ہونے اور تنوع کے جھگڑوں اور وحشیانہ پن میں تبدیل ہونے کا سبب ہیں۔اگر لوگ اس قدر خودسر، خواہشات کے غلام اور سنگدل نہ ہوتے تو شاید دنیاکی حالت موجودہ صورت حال سے بہت مختلف ہوتی۔
لہٰذا ہمیں زندگی کے مختلف شعبوں مثلاً دوسروں کے ساتھ برتاؤ،اپنے ذاتی معاملات اور اپنی خواہشات کے حوالے سے پہلے سے زیادہ فکری و ارادی آزادی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔آج فکری آزادی کے حامل،علم وتحقیق کے جویاں اور کائنات سے لے کر زندگی تک پھیلے ہوئے خط پر قرآنِ حمید اور سنت اللہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے والے کشادہ دل لوگوں کی شدید ضرورت ہے،لیکن آج کے دور میں یہ ذمہ داری دعوت کی علمبردار اور عبقریت کی حامل جماعت ہی سرانجام دے سکتی ہے۔ ماضی میں بھی یہ عظیم ذمہ داری عبقری شخصیات نے ہی سرانجام دی ہیں،تاہم آج ہر شعبے میں اس قدرت وسعت و تنوع پیدا ہو چکا ہے کہ تنہا شخص اس ذمہ داری کے بوجھ کو نہیں اٹھا سکتا،لہٰذا روحانی شخصیت،باہمی مشاورت اور اجتماعی شعور نے عبقریت کی جگہ لے لی ہے۔یہ زمین کے وارثوں کے چھٹے اقدام کا خلاصہ ہے۔
ماضی قریب میں ہم اسلامی معاشرے پر اس مفہوم کو صادق آتا ہوا نہیں دیکھ سکتے،کیونکہ روایتی تعلیم پہلے سے ثابت شدہ مسلمات کو دہرانے سے آگے نہ بڑھی۔ روایتی مکتب فکر نے زندگی کو اس کے اطراف و اکناف سے دیکھنے پر اکتفا کیا،خانقاہ نے اپنے آپ کو مکمل طور پر مابعدالطبیعات میں دفن کر دیا،فوج صرف طاقت کے بل بوتے پرسخت اقدامات اٹھاتی اور چنگھاڑتی رہی،لہٰذا اس دور میں ان اداروں پر طرزِزندگی کو سنوارنے کی ذمہ داری ڈالنا مبنی برانصاف بات نہ ہو گی۔
اس دور میں روایتی تعلیم پر مدرسی فکر (Scholastic Thought) حاوی تھی اور اسے صرف اسی کی ہوا میسر تھی۔روایتی مکتب فکر علم و فکر کے لیے اپنے دروازے بند کرنے اور ابداع و ایجاد کی صلاحیتوں سے محروم ہونے کی وجہ سے مفلوج ہو چکا تھا۔خانقاہ والے اپنے اندر عشق و محبت پیداکرنے کی بجائے محض فضائل پڑھنے پر اکتفا کیے بیٹھے تھے۔اصحاب اقتدار اس خیال سے کہ انہیں نظرانداز کیا جا رہا ہے خودپسندی اور مختلف طریقوں سے باربار اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کے مرض میں مبتلا تھے۔اس عرصے میں ہر چیز کی کایا پلٹ گئی اور امت کا درخت جڑ سے اکھڑ کر زمین پر آ گرا۔یوں لگتا ہے جیسے یہ زلزلے اس وقت تک نہیں تھمیں گے جب تک وہ خوش نصیب لوگ تیار نہیں ہو جاتے،جن کے لیے قدرت اس لیے راہ ہموار کر رہی ہے کہ وہ ان امکانات سے مثالی انداز سے فائدہ اٹھائیں،قلب و عقل کے باہمی رابطے میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دور کریں اور انسان کی نفسیاتی گہرائیوں تک الہام و فکر کی رسائی کے لیے راستے بنائیں۔
ہفتم: زمین کے وارث کا ساتواں وصف ریاضیاتی فکر ہے۔ماضی میں پہلے ایشیا کے باشندوں نے اور پھر اہل مغرب نے قوانین ریاضی پرمشتمل فکر کے ذریعے ترقی کی۔انسان نے تاریخ میں بہت سے معموں اور مشکلات کو ریاضیات کی پراسرار دنیا کی مدد سے حل کیا۔اگر ہم حروف سے متعلق غلو پر مبنی طرزِعمل سے صرف نظر کر لیں تو ریاضیات کے بغیر انسان اور اشیاء کے درمیان تعلقات کی حقیقت واضح نہ ہوتی۔وہ نور کے سرچشمے کی مانند کائنات سے زندگی تک پھیلے ہوئے خط پر ہمارے راستے کو روشن کرتی ہے اور ہمیں نہ صرف انسانی افق سے ماورا چیزیں دکھاتی ہے،بلکہ عالم امکان کی ان گہرائیوں تک لے جاتی ہے جہاں تک سوچ کی رسائی بھی مشکل ہے۔
تاہم ریاضیاتی اشیاء کا علم ہونے سے ریاضی دان ہونا لازم نہیں آتا۔ ریاضی دان ریاضیاتی امور اور ان کے فکری قوانین دونوں کا علم رکھتا ہے۔وہ انہیں انسانی فکر سے وجود کی گہرائیوں تک،طبیعیات سے مابعدالطبیعات تک،مادے سے توانائی تک،جسم سے روح تک اور شریعت سے تصوف تک ہر جگہ اور ہمہ وقت ساتھ رکھتا ہے۔ہم کائنات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے دو اسالیب تصوفی فکر اور علمی بحث و تحقیق کے امتزاج کو قبول کرنے پر مجبور ہیں۔مغرب نے اس جوہر کے خلا کو پورا کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں خرچ کرڈالیں،جسے اس نے سرے سے سمجھا ہی نہیں اور کسی حد تک ضرورت کو پورا کرنے کے لیے روحانیت (Mysticism) کا سہارا لیا ہے،لیکن ہمیں طویل عرصے سے روحِ اسلام سے ہم آہنگ عالم اسلام کو سمجھنے کے لیے کسی بدیسی فکر کو تلاش کرنے یا کسی اور چیز کا سہارا لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہماری طاقت کے سوتے ہمارے فکری اور ایمانی نظام سے پھوٹتے ہیں۔ہمارے لیے یہ بات مفید ہے کہ ہم اس فہم کے مطابق سرچشمے اور روح کا ان کی اصل حالت میں احاطہ کریں،جس کے نتیجے میں ہمیں کائنات میں مخفی مناسبات اور ان مناسبات سے ہم آہنگ عوامل کا مشاہدہ ہو گا اور ہمیں ہر چیز میں ایک مختلف بات اور ایک نیا ذوق ملے گا۔
ریاضیاتی فکر سے متعلق مختصر خلاصے کے بعد جو بسااوقات ناقابل فہم اوربے فائدہ دکھائی دیتا ہے،لیکن مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں اس کی بازگشت سنائی دے گی، میں آٹھویں وصف جو فنی فکر سے متعلق ہے،کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں،تاہم میں بعض مخصوص تاثرات کی بنا پر صرف گولفر کے درج ذیل مقولے پر اکتفا کرتا ہوں: ‘‘ہمارے معیار کے مطابق بعض حلقے ابھی تک اس راستے پر چلنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔‘‘
- Created on .