فکر اور حرکتِ عمل کے پیکر
فکر اور حرکتِ عمل کا حامل شخص متحرک،فعال اورمنصوبہ ساز انسان ہوتا ہے۔ وہ دنیا کو نئے نظام سے متعارف کرانے کے لئے پوری جدوجہد کرتا ہے،روحانیت اور حقیقت پسندی کی عمارت کے ایک عرصے سے زمین بوس ہو جانے کے بعد اس کی تعمیرنو کرتا ہے،اپنی تاریخی اقدار کی نئی توجیہہ پیش کرتا ہے،فکری اور عملی میدان میں ارادے اور منطق کو بڑی مہارت سے استعمال کرتا ہے اور ہماری روح اور حقیقت کے لباس پر ہمارے مناسبِ حال خوبصورت اور نئے نقش ونگار بناتا ہے۔
وہ فکر و شعور سے لے کر عملی زندگی تک زندگی کے ہر مرحلے میں نظم و ضبط کا پابند اور ہمیشہ تعمیری جذبے سے سرشار رہتا ہے۔وہ اُلوہی حق کا ایسا حامی ہوتا ہے،جو ملکوں کو فتح کرنے اور فوجوں کو شکست دینے کے لئے مادی طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے روحانی پیشوا اور فکر و شعور کے معمار تیار کرتا ہے۔وہ بغیر کسی اکتاہٹ کے اپنے اردگرد موجود لوگوں میں تعمیری جذبے کی روح پھونکتا اور اپنے مددگاروں کی بربادی کو آبادی میں تبدیل کرنے کی طرف راہنمائی کرتا رہتا ہے۔وہ حق کا طرفدار اور شوق اور شکر کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔وہ اپنے ارادے کو مشیت الہیہ کے مطابق بنا کر اپنے فقر کو غنا میں اور اپنی کمزوری کو طاقت میں بدل دیتا ہے۔جب تک وہ طاقت کے ان سرچشموں کو کماحقہ اخلاص کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ان کے مالک کا وفادار رہتا ہے اس وقت تک کوئی بھی طاقت اسے مغلوب نہیں کر سکتی،بلکہ جس وقت بظاہر یوں لگتا ہے کہ اسے شکست ہو گئی ہے وہ فتح و نصرت کے لئے برسرپیکار کسی اور فوج کی قیادت کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔
فکری و عملی انسان کا ظہور مختلف صورتوں میں ہوتا ہے مثلاًکبھی وہ وفادار شہری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو کبھی فکری پہلوؤں کے حامل تحریکی انسان کی صورت میں۔کبھی وہ علم میں فنا ہو جاتا ہے تو کبھی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک صاحب فن کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔بعض اوقات وہ سیاست دان کے روپ میں نظر آتا ہے اور کبھی اس کی شخصیت میں اوپر ذکرکردہ تمام اوصاف کی جھلک نظر آتی ہے۔ماضی قریب میں ان میں سے کسی نہ کسی وصف کی حامل بہت سی عملی اور فکری شخصیات کا ظہور ہوا۔کسی کا فکری پہلو اس کے تحریکی پہلو سے زیادہ ممتاز ہوتا ہے تو کوئی فکری اور تحریکی دونوں قسم کے اوصاف کا جامع ہوتا ہے اور بعض کردار کے غازی ہوتے ہیں،لیکن ان کی فکری صلاحیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔
روشنی پھیلانے والی اور پہاڑوں جیسی استقامت کی حامل ان شخصیات میں احمدحلمی فیلیبہ لی، مصطفی صبری،فریدقام،محمد حمدی یازر،بدیع الزمان سعید نورسی،سلیمان افندی،محمدعاکف اور نجیب فاضل جیسی ہستیاں شامل ہیں۔ان ہستیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہاں ان کی ولادت و وفات کی تاریخیں بھی ذکر نہیں کی جا سکتیں۔ لہٰذا یہاں ہم مضمون کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان ہستیوں کے مختصر حالات بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔
احمد حلمی فیلیبہ لی
آپ بلغاریہ کے شہر فیلیبہ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد سفیر تھے۔آپ نے‘‘سلطانیہ غلاطہ سرای’’میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔اس کے بعد ازمیر میں بھی قیام کیا اور بیروت میں ملازمت کی۔وہاں ان کے‘‘نوجوانانِ ترکی‘‘ (Young Turks) کے بعض عناصر کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے،جس کی وجہ سے انہیں ‘‘فیزان’’ کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔ مشروطیہ (دستور) کے بعد انہیں استنبول بلا لیا گیا۔جہاں انہوں نے ‘‘اتحاداسلامی’’کی فکر کا پرچم بلند کیا اور اس جماعت کے افکار کی ترویج کے لئے اسی نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔اس کے بعد آپ نے روزنامہ‘‘الحکمۃ’’جاری کیا اور ‘‘جمعیت اتحاد و ترقی’’ کی مخالفت کی۔آپ نے اور بھی کئی رسالے اور اخبارات جاری کئے۔آپ ایک عرصے تک دارالفنون (یونیورسٹی) میں فلسفے کے پروفیسر رہے۔آپ کو نوجوانی کی عمر میں ہی زہر دے کر قتل کر دیا گیا،جس کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ آپ کے سخت ترین صہیونی دشمنوں کی سازش تھی۔
اوپرہم نے جس فکری و تحریکی انسان کے حالات پر طائرانہ نظر ڈالی ہے،اس کی اکثر کتابیں اور علمی آثار ابھی تک تحقیقی جائزے کےمنتظر ہیں۔
فریدقام
منفرد ذوق اور فصاحت کی مالک اور استنبول کے علمی ماحول میں آنکھ کھولنے والی اس فکری شخصیت کے مختصر حالات زندگی کچھ یوں ہیں:
آپ فرانسیسی زبان کے پروفیسرتھے۔فلسفیانہ افکار نے کچھ عرصے تک آپ کو شکوک و شبہات میں مبتلا رکھا،لیکن پھر تصوف کی طرف رجوع کرکے آپ نے عنایت الہیہ کی آغوش میں پناہ لے لی اور نئے سرے سے اپنے فکروشعور کی درستگی کی۔ آپ نے ‘‘صراط مستقیم’’ اور ‘‘سبیل الرشاد’’ نامی رسائل میں اپنے احساسات کا اظہار کیا۔کچھ عرصہ تک ‘‘دارالفنون’’، ‘‘مدرسہ سلیمانیہ’’ اور دارالحکمۃالاسلامیۃ سے منسلک رہے۔آپ کو متعدد بار عزل و تقرر کا سامنا کرنا پڑا اور آپ باربار تنگدستی اور غربت کا شکار ہوئے،لیکن اس کے باوجود جیسے کہ ایک فکری اور تحریکی انسان کے لائق ہے آپ ہمیشہ اخروی رنگ میں رنگی ہوئی زندگی کے راستے پر چلتے رہے یہاں تک کہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔آپ کی ایسی پُروقار زندگی کے حالات کو ایک کتاب میں قلم بند نہیں کیا جا سکتا۔ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو آپ کی اپنی اور آپ کے بارے میں لکھی گئی تحریروں کو بنیاد بنا کر نئی نسل کو اس دور کی اس عظیم شخصیت کے حالات زندگی سے بالعموم اور ‘‘واردات’’کے سلسلے میں اس کے گہرے تاثرات سے بالخصوص متعارف کرائیں۔
مصطفی صبری بک
آپ اناطولیہ کے شہری اور حقیقی معنوں میں جدوجہد کرنے والے انسان تھے۔ہم شیخ الاسلام مصطفی صبری کو ‘‘مکتبہ سرای’’ کے پروفیسر اور سربراہ،پارلیمنٹ کے رکن،‘‘بیان الحق’’ نامی رسالے کے مدیر اور‘‘حزب الحریۃ والائتلاف’’کے ممبر کی حیثیت سے باب عالی کے معروف چھاپے کے بعد جلاوطنی تک مسلسل جدوجہد اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔جب حالات ناسازگار ہوتے تو کردار کا یہ غازی دوسرے مسلم ممالک میں اسلام کی خدمت کرتا اور جب بھی حالات اجازت دیتے تو اپنے وطن میں جدوجہد جاری رکھنے کے لیے لوٹ آتا اور جب بھی موقع ملتا اپنے سینے کو اپنے وطن کی خدمت کے لئے کھول دیتا،چنانچہ آپ نے ‘‘دارالحکمۃ الاسلامیۃ’’ کی رکنیت اور ‘‘المشیخۃ الاسلامیۃ’’ کو قبول کیا۔آخری مرتبہ 1922ء میں آپ ترکی سے رومانیہ اور اسکچہ(بلغاریہ) روانہ ہوئے اور پھر مصر چلے گئے،جہاں آپ نے 1954ء میں وفات پائی۔آپ نے ساری زندگی سخت جدوجہد کرتے ہوئے گزاری۔ وطن کے اس فرمانبردار سپوت کی تکلیفوں اور نشیب و فراز سے بھری ہوئی مبارک زندگی ڈاکٹریٹ کے متعدد مقالات کا موضوعِ تحقیق بن سکتی ہے۔
احمدنعیم بابان زادہ
آپ بغداد میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد پاشاعثمانی تھے۔آپ نے اپنے ہم عصروں کی طرح استنبول کے تعلیمی اداروں سے استفادہ کیا۔فکروشعور کے وسیع آفاق کے حامل اس انسان کی زندگی کے مختلف مراحل کی تفصیل کچھ یوں ہے: ‘‘مدرسہ سلطانیہ غلاطہ سرای’’ اور ‘‘مدرسہ ملکیہ’’ میں تقرری،وزارت خارجہ میں بحیثیت مترجم تعین، وزارت تعلیم میں نظامت تعلیمات،‘‘دائرۃالترجمۃ’’ کی رکنیت، ‘‘دارالفنون’’ میں ادب کی تدریس اور مختصر وقت کے لئے کالج کی سربراہی۔۔۔
احمدنعیم ایک اہم سرچشمہ ہے،جس نے ترک معاشرے کو فکری اور روحانی لحاظ سے سیراب کیا اور آنے والی نسلوں کے لئے علم و عرفان کا گراں قدر ذخیرہ چھوڑا۔
محمدعاکف
آپ اس وطن کے ایسے مخلص اور فرمانبردار سپوت ہیں،جو محتاجِ تعارف نہیں۔آپ پر متعدد تحقیقی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور خطباء نے آپ کی شخصیت کو موضوعِ سخن بنایا ہے،بلکہ آپ کے ایمان و عشق،وفورِجذبات، تحریکی سرگرمیوں اور فکری سرمائے کے بارے میں ہمیشہ کہا اور لکھا جاتا رہے گا۔آپ اناطولیہ،روم ایلی(یورپ کی عثمانی مقبوضات) اور عرب ممالک میں قیام کرنے والی نابغہ روزگار تعلیم یافتہ ترک شخصیات میں سے تھے۔آپ جہاں بھی ٹھہرتے عوام کے دل کی آواز بن جاتے،تاہم نتائج حوصلہ افزاء نہ ہوتے۔آپ کا دل حسرت اور تنہائی سے لبریز تھا اور آپ اپنے اردگرد کے لوگوں کو ان کی بدحالی کا احساس دلاتے،بہت کم لوگ اس قسم کے طرزِزندگی پر مداومت کر سکتے ہیں۔آپ اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں طبیب، تفتیش کار، ‘‘دارالفنون’’میں ادب کے پروفیسر،‘‘صراط مستقیم’’اور ‘‘دارالحکمۃ الاسلامیۃ’’ میں جدوجہد کرنے والے اورجنگِ آزادی کے دوران خطیب کی حیثیت سے مخلص اور وفادار رہے۔
وطن کا یہ سپوت جلیل القدر صحابی کی طرح تارکِ دنیا لیکن بااثر رہا اور حالت فقر میں ہی آخرت کو سدھار گیا۔وہ آنے والے دنوں میں اہل تحقیق سے اپنے فکر،تحریکی کاموں اور فن کے مختلف پہلوؤں پر بحث وتحقیق کے منتظر اور اب تک اس سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں پر ممنون ہیں۔
محمدحمدی یازر
آپ کی عظیم شخصیت سے ساری دنیا واقف ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اناطولیہ کے ایک چھوٹے سے مضافاتی گاؤں ‘‘المالی’’ میں حاصل کی اور پھر اس وقت کے علمی حلقوں میں معروف اصطلاح کے مطابق ‘‘کتابوں کی تکمیل’’کے لئے دارالخلافہ استنبول گئے۔آپ نے مخصوص صورت میں مشائخ کے سامنے زانوائے تلمذ طے کئے۔ پھر‘‘امتحان الرؤوس’’ میں شرکت کرکے ‘‘مدرسۃ النواب’’ میں داخل ہوئے اور پھر ‘‘مدرسۃ الواعظین’’ میں تعینات ہوئے۔جہاں ترقی کرتے ہوئے‘‘الدرس العام’’ تک پہنچے۔‘‘مشروطیہ’’کے بعد پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔آپ نے اجتہادی غلطی کے نتیجے میں سلطان عبدالحمید کی منصبِ خلافت سے معزولی کے فتوے پر دستخط کئے، ‘‘دارالحکمۃ الاسلامیۃ’’ کی رکنیت اختیار کی اور وزیر اوقاف مقرر ہوئے۔جمہوری دور میں ‘‘عدلیۂ آزادی’’ کے زیرعتاب آئے،تاہم اس آزمائش کے ظلم کا نشانہ بننے سے بال بال بچ گئے اور بقیہ زندگی خلوت میں گزار کر ایک عظیم تفسیر تصنیف کی۔یہ علامہ حمدی یازر کی زندگی کے چند اہم گوشے ہیں۔آپ ان ممتاز شخصیات میں سے ہیں، جن سے فکری اور عملی میدان میں استفادہ کرنے کے لیے ان کے حالات زندگی کو پڑھنا چاہیے۔
نجیب فاضل
آپ کے خاندان کا تعلق اناطولیہ کے شہر ‘‘مرعش’’سے تھا،لیکن آپ کی باوقار شخصیت استنبول کی تربیت و آداب سے مزین تھی۔یہیں آپ کی ولادت ہوئی اور آخردم تک آپ نے یہیں قیام کیا۔امریکی کالج اور بحریہ اسکول کی مٹی بڑی زرخیز تھی اور یہاں شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔آپ نے یہیں تعلیم پائی۔جن مقامات پر آپ نے مختصر عرصے کے لئے قیام کیا ان میں ‘‘دارالفنون’’ کا شعبہ فلسفہ اور اہل مغرب سے واقفیت حاصل کرنے کا چھوٹا سا دریچہ پیرس کی سوبورن یونیورسٹی ہے۔بینک میں آڈیٹر کی ملازمت آپ کو راس نہ آئی۔انہیں یوں لگتا جیسے وہ پھیری والے ہوں،چنانچہ آپ نے یہ ملازمت چھوڑ دی۔سب سے پہلے ادارے جن میں رہتے ہوئے آپ نے ہر اہل و نااہل کے دل میں فن کی روح پھونک دی وہ‘‘قومی ادارہ برائے موسیقی’’اور‘‘اکادمی برائے فنونِ لطیفہ’’ تھی۔آپ ‘‘مشرقِ عظیم’’ نامی مکتب فکر کے بانی تھے اور اسی نام سے ایک رسالہ شائع کرتے تھے۔جب بھی آپ اسے شائع کرتے اس پر پابندی لگا دی جاتی۔پابندی کے دوران آپ بڑے حوصلے اور عزم سے اسے دوبارہ شائع کرنے کی تدابیر کرتے رہتے تھے۔آپ اس مکتب فکر کے بانی اور معمار تھے اور اس کی خاطر آپ کو طرح طرح کی تکلیفوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔آپ شعرونثر کے نامی گرامی اساتذہ میں سے تھے۔آپ کا شمار ماضی قریب کے مستقبل کے فکری معماروں میں ہوتا ہے۔صوفیانہ افکار سے شغف، مابعدالطبیعات پر گہری نظر،عمربھر‘‘حقیقتِ مطلقہ’’ کااحترم اور سیدالانامﷺ کی غیرمعمولی عزت و توقیر آپ کی ہمہ جہت شخصیت کے چند گوشے ہیں۔نہ صرف ترکی کی نسلِ نو کو بلکہ ساری دنیا کو اس عظیم انسان اور اس کی شخصیت کے تمام پہلوؤں سے جن میں سے بعض کی طرف ہم نےاشارہ بھی کیا ہے،متعارف کرانا دوسروں سے اپنی عظمت کا اعتراف کرانے کی اہلیت کے معیار کی حیثیت رکھتا ہے،بلکہ میں قدردان حضرات سے امید رکھتا ہوں کہ وہ نجیب فاضل کی شخصیت پر تحقیق کے لیے ایک مستقل ادارہ قائم کریں گے۔
سلیمان آفندی
آپ سلسترہ کے ایک معزز خاندان کے چشم وچراغ اور جلیل القدر باپ کے جلیل القدر فرزند تھے۔آپ استنبول کے عرفانی ماحول میں روحانی تکمیل کے بعد خالص جذبہ وفا کے تحت اپنے آبائی شہر بحیثیت مدرس لوٹ آئے۔آپ کے خاندان کو آپ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔اسے آپ کے گرد حلقہ بنانے والے طلبہ میں اور آپ کے دوستوں اور بھائیوں کے اخلاص و وفا میں بڑی بھلائی کے آثار نظر آ رہے تھے اور آپ کا پیغام اور مستقبل دکھائی دے رہا تھا اور آپ کے بعد اس قافلے میں شامل ہونے والوں کا سوچ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی۔
سلیمان آفندی جیسے مردِمجاہد کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔اپنی تحریکی سرگرمیوں کے دوران ان پر کبھی تھکاوٹ طاری نہ ہوتی۔وہ عمر بھر اہل السنت والجماعت کی فکر کا صدقِ دل سے دفاع کرتے رہے۔جس دور میں دینی فکروشعور سخت صدموں سے دوچار تھا آپ دفاعی حکمت عملی اختیارکرنے کی بجائے ہمہ جہت جدوجہد کے علمبردار بنے ہوئے تھے۔شیخ نے ہمارے دلوں پر دینی فکر اور تاریخی شعور کے امتزاج سے حسین نقش و نگار بنائے،ملک کے کونے کونے میں تعلیمی حلقوں اور طلبہ کے اقامتی اداروں کے ذریعے اپنے وجود کے اصولوں سے ہمارے دلوں کو لبریز کیا اور تادم واپسیں اپنے مقصد اور پیغام سے پیچھے نہ ہٹے۔
میں نہیں سمجھتا کہ چند سطروں یا صفحات کے ذریعے اس عظیم تحریکی انسان کا تعارف کرایا جا سکتا ہے،بلکہ کئی کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں بھی روحانیت اور حقیقت کے اس علمبردار کا حق ادا کرنے کے لیے ناکافی ہیں،جس نے ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود مختصر سے عرصے میں ‘‘ادرنہ’’ سے لے کر‘‘اردھان’’ کے سارے علاقے کو علم و عرفان سے آراستہ کیا۔ہم تو اس امید پر ایک تنگ سی ناؤ بنا رہے ہیں کہ بلندحوصلہ محققین اس دائرے کو وسیع کرتے ہوئے اس نابغہ روزگار شخصیت کے پیغام، تحریکی جدوجہد،فکر اور فلسفۂ خدمت کا گہرائی سے جائزہ لیں گے۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف کی نورانی ہستیوں کے بارے میں سوچتے ہوئے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم عشق اور جذبے سے سرشار تخلیقی ذہن کے مالک اناطولیہ کے سپوت نورالدین طوبچی کو نہ یاد کریں،گو ہمیں ان کی بعض ان آراء پر تحفظات ہیں،جو ہمارے بنیادی معیار پر پوری نہیں اترتیں؟کیا یہ ممکن ہے کہ ہم غیرمعمولی ذہن اور گہری فکر کے مالک سزائی قارہ قوج کی طرف متوجہ نہ ہوں،جو انتہائی صبر کے ساتھ اپنے افکار کے نتائج کے ظہور کے منتظر اور مسلسل سفر کے دوران لگنے والے خون آلود زخموں کی تکلیف کے باوجود پُرسکون تھے؟وہ اپنے دور کے عظیم شاعر اورنثرنگار تھے، جنہیں آئندہ نسلیں بھی ذوق و شوق سے پڑھتی رہیں گی۔کیا ہم ممنونیت اور احسان مندی کے جذبات کے ساتھ اسعدافندی کی طرف متوجہ نہ ہوں؟کیا ہم سامی افندی کی باوقار شخصیت کا اعتراف نہ کریں؟کیا ہم حضرت ارواسی،علی حیدر افندی،محمدزاہد قوطقو،امام الوار،شیخ سیدا ‘‘سردھل’’اور محمدراشد افندی کے اعلیٰ مسلک خدمت،عشق، جذب اور عملیت کی جھلک محسوس نہ کریں؟نیز کیا یہ بات قابل فہم ہے کہ ہم خاص طور پر شیخ بدیع الزمان نورسی کا تذکرہ نہ کریں،جنہوں نے اپنے ایمان،فکر اور حیرت انگیز تحریکی جدوجہد کے ذریعے کفریہ اور الحادی قوتوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔آپ کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ساری دنیا ان کے بارے میں گفتگو کرتی ہے اور ان کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے،جنہیں متعدد زبانوں میں کثیر تعداد میں قارئین میسر آئے۔اس لیے ہم ان کے تعارف کی ضرورت محسوس نہیں کرتے،بلکہ ان کی ایک کتاب کے مقدمے میں مذکور حالات کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔{qluetip title=[(1)]}(۱) دیکھئے:مقدمہ کتاب،‘‘المثنوی العربی النوری’’،بدیع الزمان سعید نورسی{/qluetip}
بدیع الزمان سعید نورسی
آپ ایک ایسی عظیم ہستی ہیں،جن کے بارے میں نہ صرف اہتمام کے ساتھ غوروفکر کیا جانا چاہیے،بلکہ انسانیت کو ان سے متعارف کرانے کے لیے وسیع پیمانے پر تحقیقات کرنی چاہئیں۔وہ اس دورکے پہلے شخص ہیں،جنہوں نے عالم اسلام کے ایمان،اس کے معنوی حقائق اور اس کی وجدانی گہرائی و گیرائی کو واضح اور مؤثر انداز میں اجاگر کیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی شخصیت اور افکار کو سمجھنے کا جذباتی انداز درست نہیں،کیونکہ جذبات ان سنجیدہ اور اہم مسائل سے میل نہیں کھاتے جن کا انہوں نے ہر دور میں دلیرانہ اظہار کیا ہے۔انہوں نے اپنی ساری زندگی کتاب و سنت کی روشنی میں منطقی و عقلی طرز تفکیر کے ساتھ تجربہ ومنطق کے معیاروں کے مطابق عشق و جذبے سے سرشار ہو کر گزاری۔
بدیع الزمان سعید نورسی کے عالی افکار،انسان دوستی،جذبہ وفا،دوستوں کے ساتھ خلوص، پاکیزگی،تواضع،بے نفسی اور استغناء کی حقیقت کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی اور بہت سے خطبات دیئے جا چکے ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اوصاف جن سے نہ صرف وہ خود متصف تھے،بلکہ انہوں نے اپنے رسائل میں بھی ان پر باربار گفتگو کی ہے،اس بات کے مستحق ہیں کہ ان میں سے ہر ایک پر ایک مستقل کتاب لکھی جائے۔آپ کے ان حالات کے بارے میں بہت سے سچے گواہوں کی گواہیاں موجود ہیں،جنہیں ان سے قریب رہنے کی سعادت نصیب ہوئی اور وہ آج بھی چلتی پھرتی کتاب کی مانند ہمارے درمیان موجود ہیں۔
بدیع الزمان پہلی نظر میں بظاہر ایک عام اور سادہ سے انسان دکھائی دیتے ہیں،لیکن فکری اور عملی لحاظ سے وہ ایسی مضبوط شخصیت کے مالک ہیں جو کسی اور میں کم ہی پائی جاتی ہے،نیز وہ ہر دور میں پائی بھی نہیں جاتی۔انسانیت کے حیات بخش معاملات میں ساری انسانیت کو شامل کرنا،کفر،ظلم اور گمراہی سے شدید نفرت اور بغض رکھنا اور جہاں بھی ظلم و استبداد ہو اس کے خلاف اس حد تک برسرپیکار ہونا کہ اس مقصد کی خاطر جذبہ وفا اور مروت سے موت کو خوشی سے گلے لگا کے زندگی کو ہیچ سمجھا جائے آپ کی فطرت ثانیہ تھی۔آپ نے اپنے پیغام اور دعوت کے سلسلے میں کتاب و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے وسیع شعور اور منطقی انداز فکر کے ساتھ زندگی بسر کی۔آپ کی زندگی میں دو صفات ہر دور میں نمایاں رہیں:پہلی یہ کہ آپ وسیع وجدان کے حامل،پُرخلوص عشق و جذبے کا نمونہ اور خودداری و مروت کے مالک انسان تھے۔ دوسری یہ کہ آپ کی فکر میں بہت توازن تھا۔رائے اور بصیرت میں اپنے ہم عصروں سے بہت آگے تھے اور جامع منصوبے اور پروگرام تشکیل دینے کی اہل عقل سلیم کے مالک تھے۔عظیم علمائے اسلام کے سلسلے کا تسلسل ہونے کی حیثیت سے ہمارے اس دور کے لئے شیخ بدیع الزمان کے پیغام کو سمجھنے کے لیے اس پہلو سے ان کا اور ان کی دعوت کا جائزہ بہت اہم اقدام ہے۔
کوئی کتنی ہی آنکھیں موندے یا تجاہل عارفانہ سے کام لے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بدیع الزمان نورسی کو نہ صرف اپنے معاصرین کے مقابلے میں مفکر اور مصنف ہونے کی حیثیت سے بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی،بلکہ وہ سوادِاعظم کے پیشوا اور ترجمان بھی بن گئے،لیکن اس کے باوجود خودپسندی کا شکار ہوئے اور نہ ہی انہوں نے تکبر کو اپنے قریب پھٹکنے دیا۔آپ کے زریں اقوال میں ہے: ‘‘شہرت بعینہ ریا اور دل کو مردہ کردینے والا زہرآلود شہد ہے۔’’ آپ نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کی نمایاں شخصیت کی حیثیت سے ان اونچے درجے کے مشہور مصنفین میں داخل ہو چکے ہیں جن کی کتابیں ہر دور میں ہر قسم کے لوگوں میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں،لیکن ان کی تروتازگی اورشگفتگی میں کمی نہیں آتی۔
بدیع الزمان کی تمام تصنیفات معاصر فکرونظر کو درپیش مسائل کی تشریح و توضیح کے سلسلے میں سنجیدہ اور پیہم کوشش کا ثمرہ ہیں۔ان کے بین السطور سے نہ صرف اناطولیہ بلکہ سارے عالم اسلام کی کبھی غم و الم میں ڈوبی ہوئی اور کبھی امید اور شوق و مسرت سے سرشار آواز سنائی دیتی ہے۔اگرچہ شیخ نورسی مشرقی علاقے کے ایک دور دراز دیہات میں پیدا ہوئے تھے،لیکن ان کے دل میں ہمیشہ اناطولیہ اور استنبول کے شرفاء جیسے جذبات اور احساسات موجزن رہے اور انہوں نے انتہائی شفقت اور خلوص کے ساتھ ہمیشہ سارے اہل وطن کو اپنے دامن میں سمیٹے رکھا۔
بدیع الزمان نے مسلسل اضطراب میں لڑکھڑاتے انسان کو ‘‘چشمہ آب حیوان’’ کا راستہ دکھایا اور آپ جہاں کہیں بھی گئے یا ٹھہرے وہاں آپ نے اپنی تصنیفات سے پھوٹنے والی مہک کے ذریعے انسانی گروہوں میں زندگی کی نئی روح پھونکی۔یہ ایک ایسا نامبارک دور تھا،جس میں مادہ پرستانہ فکر نے ہماری فکری زندگی کو بدامنی و اضطراب کے گرداب میں پھنسا دیا تھا،کمیونزم کا دوردورہ تھا اور دنیا پر تاریکی اور فتنوں کے سیاہ بادل منڈلا رہے تھے۔آپ نے سب سے پہلے نہ صرف ہماری بیماری کو بھانپ کر اس کی تشخیص کی،بلکہ اس کاعلاج بھی کیا۔یہ بیماری کفروالحاد کی پیداکردہ بدامنی ہے۔آپ نے عمربھر دورحاضر کے انسان کو اس دور کی وبا پر قابو پانے کی ضرورت کا احساس دلایا اور اس مقصد کی خاطر انسانی طاقت سے بڑھ کر سعی و کاوش کی۔جب بدیع الزمان نے بخار کے شدید حملے کے نتیجے میں کراہتے ہوئے عالم کا سامنا کیا اس وقت انہیں اپنے کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داریوں کا بخوبی اندازہ تھا، چنانچہ جب انہوں نے کوہِ قاف جیسے بھاری بوجھ کو اٹھایا تو انہوں نے بے پناہ تواضع، بے نفسی اور حیا سے اپنی کمر جھکا لی،لیکن دوسری طرف انہیں حق تعالیٰ کی قدرت مطلقہ اور لامحدود غنا پر بھی پورا بھروسا تھا۔
بدیع الزمان نے ایک ماہر طبیب کی طرح ہم سب کو اپنے باطن میں موجود قیدخانوں،اپنی روح کی محکومیت،اپنے ذاتی جرائم اور اپنی شخصیت کے نفس کے ساتھ بندھن کا احساس دلایا، بالائی حقائق کے مشتاق ہمارے دلوں میں ہماری روحانی اور وجدانی زندگی کے خوابیدہ انسانی پہلوؤں میں تحریک پیدا کر کے مسلسل نئی روح پھونکی، اخروی پہلوؤں کے حامل ہمارے مضبوط تعلقات کو منظرعام پر لائے اور ہمیں خانقاہوں اور مدارس کی تمام برکات سے ایک ایسے نامبارک دور میں سرفراز کیا،جس میں فنون اور فلسفہ کا غلط استعمال کرکے انسانیت کو الحاد کی طرف دھکیل دیاگیا،اشتراکیت کے ذریعے اس کی ‘‘برین واشنگ’’کی گئی،ملک میں ان منفی باتوں کے خلاف آوازاٹھانے والوں کو جلاوطنی کی سزائیں سنائی گئیں اور ملک کے طول و عرض میں بدنام زمانہ انتخابات رائج کیے گئے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ تمدن اور جدّت پسندی کے نام پر کیا گیا یہاں تک کہ بدامنی (Nihilism) جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والا زمانے بھر کا طلسم بن گئی۔
نورسی ایک مفکر،حل تلاش کرنے والے دانش ور اور فتنوں کے دور میں بیماریوں کی تشخیص کرکے ان کا علاج بتانے والے طبیب تھے۔اس دور میں قوم فکری اضمحلال اور معاشرتی پریشانیوں کا شکار تھی،ملک کے طول و عرض میں اسے سینکڑوں قسم کے ہولناک حوادث کا سامنا تھا اور وہ منہدم قومی اور اسلامی اقدار کے ڈھیر تلے سسکیاں لے رہی تھی۔آپ شروع سے ہی ہمیشہ پابند،غوروفکر کرنے والے،ریاست اور معاشرے کے لیے متبادل حل پیش کرنے والے اور عظیم مگر بدقسمت قوم اور پرشکوہ مگر زوال پذیر ریاست کو اس کے طویل اور زرخیز ماضی سے سبق سیکھنے کی ترغیب دینے والے انسان تھے،کیونکہ وہ سالہاسال پرمشتمل تاریک ادوار سے پیدا ہونے والے مصائب و آلام کی شکار بیچاری پریشان حال نسلوں کی بدحالی دیکھ رہے تھے۔یہ نسلیں ضعف،گمراہی اور تردد کی وادیوں میں سرگرداں پھر رہی تھیں اور جب بھی ان سے چھٹکارہ پانا چاہتیں تو پہلے سے بھی زیادہ سنگین بحران کا شکار ہو جاتیں۔آپ ان کی سرگردانی کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے اس کی آواز کو غور سے سن رہے تھے۔
خلافت عثمانیہ کے دور سے ہی بدیع الزمان ملک کے طول وعرض میں پھرے اور بڑے بڑے شہروں اور دوردراز کے دیہاتوں میں اور گنجان آباد اور کم آبادی والے علاقوں میں گئے۔آپ جہاں بھی گئے وہاں آپ نے لوگوں کو جہالت میں ڈوبے ہوئے،فقروفاقہ میں تڑپتے ہوئے اور ضرورتوں میں گھرے ہوئے دیکھا۔وہ طرح طرح کے اختلافات میں مبتلا ہو کر ایک دوسرے کو نوچنے اور فناکرنے پر تلے ہوئے تھے۔یہ منظر دیکھ کر آپ کانپ اٹھے اور آپ نے ایک مفکر اور حالات زمانہ کا ادراک رکھنے والے انسان کی حیثیت سے ان بدقسمت لوگوں میں علم کی روح پھونکنے کا عزم کیا اور غربت،ضرورت اور معیشت کے مسائل پر توجہ دی۔آپ نے فرقہ واریت کا حل تلاش کیا اور ہر دور میں بغیر کسی اکتاہٹ کے وحدت امت کے علمبردار بنے رہے۔ اس مشکل ترین دور میں انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی قوم کو تنہا نہیں چھوڑا۔ وہ جہاں بھی جاتے اعلان کرتے: ‘‘اگر ہم نے اپنی بیماریوں کا جلد علاج نہ کرایا اور اپنے زخموں پر ماہر طبیبوں کے ذریعے مرہم نہ رکھوایا تو ہماری بیماریاں جڑ پکڑ جائیں گی اور ہمارے زخم ناقابل علاج ہو جائیں گے،لہٰذا ہمیں اپنی علمی،معاشرتی اور انتظامی بیماریوں کی تشخیص کرکے اپنی تمام مادی اور روحانی مشکلات کو حل کرنا چاہیے، تاکہ ہم ایسی مشکلات میں مبتلا نہ ہوں،جو ہمیں آئے روز خطرناک کھائیوں میں گرا دیں، ہمارے وجود کو پیس دیں اور ہماری عمارت کی بنیاد کو متزلزل کر دیں۔‘‘
نورسی کل کی طرح آج بھی تمام مفاسد کا سرچشمہ جہالت،غربت اور فرقہ بازی کو قرار دیتے ہیں۔جہالت ہمارے معاشرتی المیوں کا پہلا سبب اور ہم پر چھائی ہوئی بدحالی کا پیش خیمہ ہے۔بلاشبہ کل کی طرح آج بھی ہمارا سب سے بڑا المیہ اللہ تعالیٰ سے ناواقفیت،نبی اکرمﷺ کو فراموش کرنا،دین سے تعلق توڑنا اور اپنی تاریخ کے مادی اور روحانی عوامل کو نظرانداز کرنا ہے۔بدیع الزمان نے ان مہلک جراثیم کے خلاف جہادکے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ان کی رائے میں جب تک لوگوں کی اکثریت کو علم و عرفان کی روشنی سے منور نہ کیا جائے،جب تک معاشرہ منظم انداز میں سوچنے کا عادی نہ ہو اور جب تک غلط اور منحرف فکری رجحانات کا سدِّباب نہ کیا جائے اس وقت تک قوم کی خلاصی کا انتظار فضول ہے۔کیا جہالت نے ہی کائنات کا قرآن سے اور قرآن کا کائنات سے رشتہ نہیں توڑا؟جہالت نے ان دونوں کا رشتہ توڑ کر ان میں سے ایک کو متعصب،اسرارِکائنات سے ناواقف اور اشیاء و واقعات میں محبوس نفوس کے خیالات کی کوٹھڑیوں میں قید کر دیا اور دوسرے کو ایسے جاہلینِ مرکب کے ہاتھوں میں بے مقصد کھلونا بنا دیا جو روحانیات کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے ہر چیز کو مادے میں تلاش کرتے ہیں۔کیا جہالت نے ہی اس مبارک سرزمین کو غربت اور بدحالی میں مبتلا کر کے اپنے در کے خادموں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر خیرات مانگنے پر مجبور نہیں کیا،حالانکہ اس کی زرخیز زمینیں اور کوثری نہریں آج بھی موجود ہیں؟
کیا یہ جہالت اور غربت کا نتیجہ نہیں کہ ہم بدحالی اور انتشار کا شکار اور خوفناک قرضوں کے جال میں گرفتار ہیں،ہماری کمر جھکی ہوئی ہے،ہماری بے پناہ معدنیات مٹی کے نیچے خوابیدہ ہیں اور ہماری لامحدود دولت کے سرچشموں سے اغیار کے خزانے بھر رہے ہیں؟
اس مصیبت نے سالہاسال سے ہماری قوم کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مزدور اور کسان انتھک محنت کرتا ہے،یہاں تک کہ اس کی جان پر آ بنتی ہے،لیکن وہ اپنی محنت اور مشقت کا پھل نہیں کھا سکتا اور اگر اسے کچھ ثمرہ مل بھی جائے تو اس میں برکت ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے،بلکہ بتدریج وہ ظلم اور بدبختی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔
جہالت اور اس سے پیدا ہونے والی فرقہ واریت کے نتیجے میں عالم اسلام ہر جگہ مظلومیت،قید،ذلت،محکومی اور طرح طرح کی بیماریوں اور مصیبتوں میں گرفتار اور خوف کی ندیوں میں غرق ہے۔اس میں عزتیں لوٹی اور شرافتیں پامال کی جاتی ہیں۔وہ فرقہ واریت کے جن کو قابو کرنے اور توازن اور معیار سے محرومی کے جال میں لڑکھڑاتے عالم اسلام میں جا بجا پیش آنے والے رسواکن واقعات و حالات کے پہیے کو روکنے سے عاجز ہے،بلکہ ہمیں عالم اسلام کو روزبروز خوفناک گڑھوں کی طرف لڑھکنے سے بچانے کا کوئی راستہ نہیں سجائی دے رہا۔ہم اپنے آپ میں اتحاد کا جذبہ پاتے ہیں اور نہ ہی ہم زمانے کے ساتھ اپنا حساب بے باک کرسکتے ہیں۔
جس دور میں ہم اپنی قوم پر مسلط مصائب کے جال میں گرفتار ہو کرتکلیفیں سہہ رہے تھے اس دور میں کچھ ایسے لوگ باہم متفق ہو گئے جن کی آنکھوں کو مغرب کی ظاہری اور مادی ترقی نے خیرہ کر دیا تھا،جس کے نتیجے میں ان کی بصیرت میں گدلاہٹ آگئی اور ان کے دماغ پھر گئے ،چنانچہ انہوں نے مادی اور روحانی ترقی حاصل کرنے کے لیے دماغوں کو تجریبی علوم سے لیس کرنے اور دلوں کو دینی حقائق سے روشناس کرانے کی بجائے اندھی تقلید اور پرفریب نعروں کے پیچھے دوڑتے ہوئے بے بنیاد اور جذبے سے خالی اقدامات اٹھا کر عوام کو ملی اقدار،تاریخی شعور،اخلاق اور باعث فضیلت امور سے محروم کر دیا۔میرے نزدیک جس پہلے راستے کو انہوں نے قوم کی نجات کے نام پر اختیار کیا ہے وہ اور بھی بڑے نقصان کا باعث بنا ہے اور اس نے معاشرے کی روح پر نہ مندمل ہونے والا زخم لگایا ہے۔
اوپر ذکرکردہ دوسری صورت میں ممکن ہے مسلمان سالہاسال تک مصائب میں گرفتار رہیں،لیکن پہلی صورت کو اختیار کرنے سے تو ہمارے ملی افتخار،روحانی نجابت اور عالمگیر تحریکی جدوجہد کی عمارت زمین بوس ہوگئی۔
بدیع الزمان نے دونوں صورتوں کے لئے تجویز کردہ معالجات کا سامنا کیا، ان معالجات کی غلطیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرتی پیچیدگیوں کا سدِّباب کیا،اپنے نشتر کے ذریعے ایک صدی کے پھوڑوں کو چھیدا اور پیپ کے جمع ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے زخموں پر مرہم رکھا۔وطن عزیز کا یہ فرمانبردار سپوت مسلسل محکم گفتگو کرتا رہا اور ہمیشہ ہماری بیماریوں پر بغیر کسی اکتاہٹ کے تنقید کرتا رہا اور وطن کی حفاظت اور ہم وطنوں کو زوال اور ضائع ہونے سے بچانے کے لیے کامیاب علاج تجویزکرتا رہا۔وہ عمربھر اس فریضے کو آغاز سے لے کر ‘‘اورفہ’’ میں اپنے رب جلیل سے ملاقات کے وقت تک صدق واخلاص کے ساتھ بآوازِبلندمضبوط دلائل کی روشنی میں سرانجام دیتے رہے۔
نئے افکار کے مطابق معاشرے کی ذہن سازی اتنا ہی مشکل کام ہے جتنا مشکل کام ماضی کی موروثی کمی،اچھی یا بری عادات و روایات اور پختہ مفاہیم و تصورات کو معاشرے کے ذہن سے کھرچنا ہے۔عوام میں ہمیشہ سے یہ میلان پایا جاتا رہا ہے کہ وہ اس قسم کے اچھے یا برے موروثی عوامل کے زیراثر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ڈھال لیتے ہیں،معمول سے ہٹ کر عمومی فضا کے خلاف پیش آنے والے امور پر بدکتے ہیں اور خلاف مزاج باتوں سے گریز کرتے ہیں۔بعض اوقات شعور،احساس اور قبولیت غلط بھی ہوتی ہے۔اگر اس قسم کے غلط افکار اور مسلمات عوام اور اکثریت کے ہاں مقبولیت حاصل کر لیں،معاشرہ ایک طویل عرصے تک انہیں اپنائے رکھے اور ان کی جڑیں اور شاخیں زندگی کے مختلف شعبوں میں پھیل جائیں تو قوم کی مستقبل کی طرف پیش رفت کے لیے ضروری ہے کہ غلط اعتقادات کا خاتمہ کیا جائے،معاشرتی انحرافات کا سدِّباب کیا جائے اور متفقہ نظریات کو عمومی فکر اور انسانی ضمیر کے فلٹرسے گزار کر نہ صرف صاف کیا جائے،بلکہ خوب سے خوب تر بنایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں انہیں ہر فساد سے پاک کرکے ہر خوبی سے مزین کیا جائے۔
بدیع الزمان زمانہ شباب سے ہی اس قسم کے جذبات اور افکار کے حامل تھے۔وہ اس بارے میں حقیقت کے کسی ادنیٰ سے گوشے کو بھی چھپانے کو ملک وملّت سے غداری سمجھتے تھے۔وہ قوم کو ہلاکت کے گڑھوں میں گرانے والے غلط افکار اور فیصلوں کے خلاف سداسکندری بن گئے اور انہیں للکار کر کہا: ‘‘ٹھہرجاؤ! تمہارے لیے یہ راستہ بند ہے۔’’ان کی طبیعت ہر غلط اور دینی اقدار کے منافی بات کی سخت مخالف تھی۔وہ وسیع ذہنی افق اور بلند حوصلے کے مالک تھے۔عظیم قوم کے زوال اور فنا سے چشم پوشی یا اس سے غفلت برتنا اس شیردل انسان کے مزاج کے منافی تھا،چنانچہ انہوں نے ہماری مخفی اور باریک ترین کمزوریوں اور عیوب اور ہماری مصیبتوں اور پریشانیوں کے اسباب کی نشاندہی کرکے قوم کی خوداحتسابی کی طرف توجہ دلائی اور اسے اس کے زوال کے اسباب بتا کر ان سے نجات کا راستہ بھی بتایا۔انہوں نے تلخ حقائق کا بلاجھجک اظہار کیا،غلط مسلمات، بدبودار افکار اور کفروالحاد پر سخت تنقید کی اور وہ کسی قسم کی سستی کا مظاہرہ کیے بغیر عمربھر حقیقت کی روشنی کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے رہے۔
شیخ نورسی اس تاریک ترین دور میں سامنے آئے جب لوگ خوف اور اندیشے سے دینی حقائق کے اظہار سے رکے ہوئے تھے،لیکن جب دوسرے لوگ انسانیت کو نظرانداز کئے ہوئے تھے آپ اس میں بیداری کی لہر پیدا کر رہے تھے۔ آپ نے جہالت،غربت اور فرقہ واریت کے خلاف علم جہاد بلند کیا،معاشرے کے ذہنوں پر سوار طرح طرح کے اوہام کی بنیادوں کو متزلزل کیا۔آپ نے ملک کے طول و عرض میں چکر لگا کر بے دینی اور انکارِخدا کے خلاف جدوجہد کی،خرافات اورباطل کی مختلف صورتوں کا سدِّباب کیا اور ہمارے کہنہ امراض اور ان کے علاج کے اظہار میں ہمیشہ حیرت انگیز پُرامن جرأت کا مظاہرہ کیا۔جیسا کہ مشہور ہے: ‘‘آخری علاج داغنا ہے۔’’انہوں نے پچھلی ایک دو صدیوں سے مسلم معاشرے میں موجود دکھلاوے، نمایاں ہونے کی خواہش اور تکبر کے خلاف سخت رویہ اختیار کر کے انہیں داغا،لیکن گفتگو اتنے نرم انداز سے کی کہ وہ ہر انسان خواہ وہ مسافر خانے میں ٹھہرا ہوا ہو یا مشرقی ترکی کے کسی قبیلے کا سردار ہو،شیخ الاسلام ہو یا فوجی افسر کے دل میں اتر گئی۔جب آپ گفتگو کرتے تو لوگوں کی نگاہیں آپ کی طرف اٹھ جاتیں۔ اگرچہ طبعی طور پر آپ کو یہ بات ناگوار گزرتی،لیکن آپ کے کردار اور خدمات کو دیکھ کر لوگ خود ہی آپ کی طرف متوجہ ہو جاتے۔
شیخ نورسی نے ہر طبقے کو تاکید کی کہ اگر ہم مسلسل جہاد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں تلواریں بے نیام کرنے سے پہلے اپنے افکار اور روحوں پر پڑی ہوئی بیڑیوں کو توڑنا ہو گا۔انہوں نے احیائے نو کی خوشخبری سنا کر نسلِ نو کی اسلامی فکر تک پہنچانے والے راستوں کی طرف راہنمائی کی۔وہ جغرافیائی لحاظ سے وطن کی تقسیم اور توڑپھوڑ سے بہت ڈرتے اور اس اندیشے کا سوچ کر کانپ اٹھتے،لیکن اس سے بھی زیادہ اندیشہ انہیں تنگ نظری،روحانی افلاس،مغرب کی نقالی اور ظاہرپرستی جیسے رویّوں کو جنم دینے والے امور کے بارے میں رہتا تھا۔
شیخ نورسی کو پڑھنے،غوروفکرکرنے اور کام میں لگے رہنے سے اکتاہٹ نہ ہوتی تھی۔انہوں نے قوم کو رائج الوقت انفرادیت پسندی سے بچانے اور پررونق قوم اور مثالی معاشرہ تشکیل دینے کے لیے انتھک محنت کی۔وہ علوم و فنون اور تعلیم و تربیت کی ضرورت پربہت زیادہ زور دیتے تھے۔وہ ہر جگہ اور ہر ذریعے سے علوم و فنون اور تعلیم و تربیت کی ترویج کی ترغیب دیتے تھے۔ان کے نزدیک نہ صرف مساجد، مدارس،چھاؤنیوں،راستوں اور تفریح گاہوں کو بلکہ قیدخانوں کو بھی تعلیم کی عمومی فضا کا حصہ بنانا چاہیے۔صرف علوم کے ذریعے ہی ذہنی اور منطقی وحدت پیدا ہو سکتی ہے۔ جو لوگ ذہنی طور پر متفق نہیں ہوتے و ہ کسی ایک راستے پر زیادہ عرصہ تک اکھٹے چل سکتے ہیں اور نہ ہی باہمی تعاون کے رشتے کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔دلوں اور ہاتھوں میں اتفاق پیدا کرنے کے لیے پہلے وجدان کی سطح پر اتحاد پیدا کرنا ضروری ہے۔اس قسم کی وحدت پیداکرنے کا ذریعہ زندگی کو دین کے حکموں کے مطابق ڈھالنا اور عصری معاملات کی کتاب و سنت اور سلف صالح کے پاکیزہ اجتہادات کے دائرے میں رہتے ہوئے زمانے کے عقل و شعور کے مطابق توجیہہ کرنا ہے۔
آج کے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دور کے مسائل،حقائق اور توجیہات کو کامیابی کے ساتھ سمجھے اور ان کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے۔ہماری تباہی کا سبب ہمارا اپنے داخلی حصار میں بند ہونا اور مبالغہ انگیز حد تک کنارہ کشی میں ہے، جبکہ دنیا بے لگام چلی جا رہی ہے،لہٰذا جو لوگ دورِحاضر میں نشاۃ ثانیہ کے متمنی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ زندگی کے سرچشموں اور اپنے عزم اور جدوجہد کے درمیان ہم آہنگی،موافقت اور تعاون کا رشتہ قائم کریں، بصورت دیگر کائنات کے عمومی رجحان کے مقابلے میں پسپائی سے مفر ممکن نہیں۔
جب بدیع الزمان اپنا پیغام پھیلانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں جذبے اور جانفشانی کے ساتھ چل پھر رہے تھے اگر اس وقت چند سو تعلیم یافتہ حضرات ان کا پیغام سمجھ کر ان سے تعاون کرتے تو شاید ہم دنیا کی امیرترین ریاست ہوتے، تہذیب و تمدن میں ساری اقوام سے آگے ہوتے،اس قدر طاقت کے مالک ہوتے کہ بعد میں اپنے راستے میں پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کو عبور کر سکتے،ہم روشنی کے اس راستے پر بیسویں صدی کے آغاز سے ہی گامزن ہو چکے ہوتے جس پر بظاہر ہم اب گامزن ہو رہے ہیں اور موجودہ بہت سی مشکلات ہمیں درپیش نہ ہوئی ہوتیں،تاہم اب بھی ہم پُرامید ہیں اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری قوم کے جذبے کے سوتے خشک ہو چکے ہیں وہ غفلت اور بھول کا شکار ہیں۔یقیناًدوسری اقوام کی طرح ہم بھی زوال کا شکار ہوئے ہیں۔یہ ایک واضح حقیقت ہے،جسے چھپایا نہیں جاسکتا،لیکن دوبارہ ہوش میں آکر سربلندی پانے کی ہماری اہلیت بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔آج ہم آرام پرستی کے پرانے رجحان کی جگہ لینے والی بیداری کی کرنوں کو دیکھ رہے ہیں۔کاہلی اور آرام طلبی کی عادی ہماری روحوں میں نئے جذبے اور بیداری کی حرارت پیدا ہو رہی ہے۔ان تبدیلیوں کے نتیجے میں یقینافصل بہار آئے گی،لیکن ہمیں ایسے لوگوں کا انتظار ہے جو اگر چلیں تو حضرت خضرعلیہ السلام کی طرح وادیوں میں قالین بچھا دیں اور حضرت الیاس علیہ السلام کی طرح بلاخوف و خطر میدانوں میں بادبان لہرا دیں۔بدیع الزمان اسی راستے کے ایک اہم سنگ میل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ عبقری انسان انتخاب نہیں کرتا،یعنی وہ یہ نہیں کہتاکہ وہ یہ کام کرے گا اوریہ نہیں کرے گا یا یہ کام مفید ہے اور یہ نقصان دہ،کیونکہ وہ غیرمعمولی فطرت کا حامل اور ایسی روحانی قوتوں کا مالک ہوتا ہے کہ وہ خداداد صلاحیت اور خدائی محرک کی مدد سے اپنے کندھوں پر بہت سی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا لیتا ہے اور اپنے ماحول کی ظاہری و باطنی اور معاشرتی ضروریات کو مؤثرترین طریقے سے پورا کرتا ہے۔ نورسی کی شخصیت اور تالیفات کا گہرائی سے جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ وہ عبقریت کے مختلف پہلوؤں کے حامل تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے اعلیٰ ترین مقام کی حفاظت کی اور اپنے شباب کے ابتدائی دور کی تصنیفات سے لے کر کہ جن کے ذریعے آپ نے اپنے گردوپیش کے لوگوں میں سب سے پہلے عبقریت کی روح پھونکی،عدالتوں،قیدخانوں اور جلاوطنی کے تکلیف دہ حالات سے گزر کر پختہ عمر کی تالیفات تک ہر دور میں انتہائی فراست سے گفتگو فرمائی۔
- Created on .