ہمارا فلسفہ حیات
بعض لوگ غوروفکر کے بغیر زندگی گزارتے ہیں۔بعض دیگر لوگ سوچتے ہیں، لیکن ان کی سوچ کا ان کی عملی زندگی پر کوئی پرتو نہیں پڑتا،حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ انسان سوچتے ہوئے زندگی گزارے اور زندگی گزارتے ہوئے سوچ کی نئی نئی راہیں دریافت کرے،جس کے نتیجے میں اس پر مختلف افکار کے آفاق کھلیں۔جو لوگ بغیر غوروفکر کے زندگی گزارتے ہیں وہ دوسرے کے فلسفہ حیات کی ترجمانی کرنے والی پُتلیاں ہوتی ہیں۔یہ لوگ باربار شکلیں بدلتے ہیں،لیکن اس سے اکتاتے نہیں ہیں اور جب تک زندہ رہتے ہیں فکری اور شعوری انحراف،شخصیت کی کمزوری اور صورت اور سیرت کے درمیان عدم امتیاز کے اضطراب میں مبتلا رہتے ہیں۔بعض اوقات کچھ عرصے کے لیے معاشرے کی کامیابیوں سے وہ بھی حصہ پاتے ہیں اور کچھ وقت کے لیے حالات کی موافقت سے اس مغالطے میں استفادہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی سوچ،شعور اور ارادے کے مطابق چل رہے ہیں،لیکن وہ اپنی روحوں کو کبھی بھی محاسن اور انتظامی خوبیوں کی وجہ سے راحت پہنچاتے ہیں،نہ انہیں بلندیاں عطا کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں لانہایت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔یہ لوگ بے فائدہ،برکت سے محروم،ٹھہرے ہوئے اور بدبودار تالاب کی مانند ہیں۔ان سے بعید نہیں ہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جراثیم اور کیڑوں کی آماجگاہ بن جائیں،چہ جائیکہ ان سے کسی فعال کردار کی توقع رکھی جائے۔
وہ فکری گہرائی سے محروم اور اس قدرسطحی رائے کے مالک ہوتے ہیں کہ جو کچھ بھی دیکھتے یا سنتے ہیں بچوں کی طرح اس کی تقلید کرتے اور بے وقوفوں کے پیچھے چلتے ہیں۔انہیں اپنی ذات کے احساس،اپنے باطن کی آواز سننے اور اپنی ذاتی اقدار کو پرکھنے کا موقع نہیں ملتا،بلکہ انہیں اپنی مخصوص صلاحیتوں کا شعور تک نہیں ہوتا۔وہ مستقل طور پر اپنی جسمانی اور بدنی خواہشات کے غلام بن کر زندگی گزارتے ہیں۔ہر حاصل شدہ چیز کو تنگ دائرے میں محض جسم کی خدمت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دل، ارادہ،احساس اور شعور وغیرہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی عظیم ترین نعمتوں کو جسمانی لذتوں کے حصول کے معمولی ذرائع کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اپنی ساری زندگی‘‘رِندی’’ (Bohemianism) میں گزارتے ہیں۔ مقام، منصب، شہرت، مفاد اور زندگی کی حرص ان کے افعال و کردار کا تعین کرنے والے اہم ترین عوامل میں سے ہیں۔دانستہ یا نادانستہ وہ ہرروز ان مہلک پھندوں میں سے کسی نہ کسی پھندے میں ضرور پھنستے ہیں اور اپنی روحوں کو ہر روز ذبح کرکے انہیں ذلیل ترین موت دیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کا کوئی ماضی ہے اور نہ مستقبل۔جب تک وہ اپنی حیوانی خواہشات کو پورا کرتے رہیں گے،دنیا کو کھانے پینے کی جگہ اور چراگاہ سمجھتے رہیں گے، اپنے انسانی شعور اور صلاحیتوں کو دبائے رکھیں گے اور عمرخیام کے درج ذیل اشعار گنگناتے رہیں گے اس وقت تک وہ گندگی کے تالاب میں ہاتھ پاؤں مارتے رہیں گے:
لاتشغل البال بماضی الزمان و لابآتی العیش قبل الأوان
و اغنم من الحاضر لذاتہ فلیس فی طبع اللیالی الأمان
’’اپنے دل کو گزرے ہوئے زمانے میں مشغول کرو اور نہ وقت سے پہلے آنے والی زندگی کے بارے میں سوچو۔موجودہ لذتوں سے فائدہ اٹھاؤ،کیونکہ راتوں کی فطرت میں چین نہیں ہے۔‘‘
لیکن جو لوگ غور و فکر کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں وہ اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنی زندگی کے ہر دن اور ہر لمحے کو نئے نئے افکار کے لیے بندرگاہ اور راستہ بناتے ہیں۔وہ زمانے سے بالاتر ہو کر مافوق الفطرت زندگی گزارتے ہیں۔وہ ایک بابرکت چشمے کے پانی کی طرح ماضی کے گھونٹ بھرتے ہیں،خوشبو کی طرح اسے سونگتےہ ہیں،کتاب کی طرح اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس تیاری کے ساتھ مستقبل کی طرف چلتے ہیں۔وہ آنے والے زمانے کو اپنے دل کی حرارت کے ساتھ آغوش میں لیتے ہیں،اپنی امیدوں سے اس میں رنگ بھرتے ہیں اور اپنے عزم و ارادے سے اس کی صورت گری کرتے ہیں۔وہ حال کو اپنے مثالی افکار پر عملدرآمد کرانے کے لیے تزویراتی مرکز،اس مقصد کے لیے ضروری ٹیکنالوجی کی تیاری کے کارخانے اور نظری مرحلے سے عملی مرحلے کی طرف منتقل ہونے کے لیے ایک پل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ہمیشہ زمان و مکان سے بالاتر رہنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
وہ ایک طرف تو اس سطح پر کائنات اور زمانے کا مطالعہ کرتے ہیں،لیکن دوسری طرف جسمانی زندگی کے تنگ دائرے سے نکل کر افکار کی دنیاکی وسعتوں میں پھیل جاتے ہیں اور اس فانی اور عارضی زندگی کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی ابدی بعد کے حامل ایک دوسرے عالم میں لانہایت تک پھیلی ہوئی سرزمین پر گھومتے پھرتے ہیں۔وہ اپنے افکار احساسات اور امیدوں کے ذریعے لانہایت کی گاڑی کو دھکیلتے ہوئے اپنے دلوں کی گہرائیوں اور وسعتوں میں انسانی وجود کی ثروت پر جھانکتے ہیں اور اپنے دلوں میں پھیلائے ہوئے ایسے جالوں کے ذریعے،جنہیں آنکھیں دیکھ سکتی ہیں، نہ کان سن سکتے ہیں اور نہ ہی انسان کے خیال میں ان کا تصور آسکتا ہے،نئے نئے حقائق آشکارکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے علوم و معارف اور عام سطح سے بلندتر اعلیٰ صلاحیتیں بلند سے بلندتر مقامات کی طرف ان کی راہنمائی کرتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک آسمانی عقاب بننے کا خواہش مند ہوتا ہے۔جو لوگ اس طرح کی زندگی گزارتے اور اپنی عمر کو فکر کے پودوں کے لیے بطور کھیت کے استعمال کرتے ہیں آپ انہیں حکماء کا نام دیں یا انہیں فلسفہ کے ہدایت یافتہ ہیرو قرار دیں غرض آپ ان کا تعارف جن الفاظ سے بھی کرائیں،لیکن یاد رکھیں جو نورانی ہستیاں ریشمی کپڑے کی طرح لطافت اور خوش اسلوبی کے ساتھ تاریخ کا تانا بانا بُنتی ہیں وہ قدیم زمانۂ تاریخ سے لے کر آج تک ہمیشہ ایسے ہی بلندحوصلہ لوگوں کے درمیان سے ظاہر ہوتی رہی ہیں حتی کہ مذہب سے زیادہ فلسفیانہ نظاموں کے ساتھ مشابہت رکھنے والے ہندومت، بدھ مت،کنفیوشس ازم،تاؤمت اور زرادشت ازم بھی روحانی ہیرؤں کی طرف سے انسانیت کے لیے تحائف ہیں۔
فکر کے ان محلات سے آنے والے نغموں کی آواز ماضی کی طرف فکر کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ سنائی دیتی ہے۔زندگی کے مختلف انداز اور نظریات،عالمی تہذیبیں اور قدیم دور سے عصرحاضر تک دنیا میں ہر طرف نظر آنے والی ثقافتی ترقی ایسے ہی بہادروں کے فکری کھلیانوں کی پیداوار ہے۔ہم پورے اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ اس قدیم روح اور حقیقت میں اس قدر تبدیلی اور تحریف ہونے کے باوجود روئے زمین کی اکثر انسانی آبادی اسی کے نشانات پر چل رہی ہے،گو معاصر طرززندگی اور اس بات میں ہم آہنگی ثابت کرنا بہت دشوار ہے۔میرے خیال میں ضرورت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حسنِ ظن اورحسنِ تاویل کے ساتھ ساتھ ایک طبعی حالت کے طور پر غلطی کے استمرار کو قبول کریں،یہاں تک کہ حقیقی نمائندے ان مآخذ کے ان امور کو دریافت کر لیں جو تبدیلی اور تحریف کا شکار نہیں ہوئے۔
اس بنیاد پر آج جب ہم اپنے ذاتی حقائق کی جڑوں سے مضبوط ترین روابط قائم رکھتے ہوئے احیائے نو کی تیاری کر رہے ہیں تو یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایسے ہیرو تیار کریں،جو اپنی روحوں سے حاصل شدہ ویکسین کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں،جن میں جستجو کا جذبہ ہو اور جو ہمارے ماضی کے ترانے بغیر کسی غلطی اور رکاوٹ کے پڑھ سکنے اور ہر بار نیا رنگ اختیار کرنے والے ہمارے دلوں میں موجود جذبے کو محسوس کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔
امرِواقع یہ ہے کہ اس طرح کے ہیرو تیار کرتے وقت ناتجربہ کار اور اجنبی کاریگروں کے ہاتھوں نقصانِ عظیم اٹھانا پڑے گا،نیز اسی عرصے میں ساری انسانیت کائنات کی ان ازلی اقدار کے خلا کو پُر کرنے کے لیے قدیم اساطیر کا سہارا لے گی جنہیں وہ اپنے وجدان کے ذریعے تلاش کرتی ہے،لیکن انہیں اپنی عقل کے ذریعے نہیں پاسکتی۔۔۔جس کے نتیجے میں وہ بحران کے بھنور میں پھنس جاتی ہے اور جب یہاں سے نکلتی ہے تو نئی تخریبات کا نشانہ بن جاتی ہے۔
کئی صدیوں سے ہمارے معاشرے سے ہمارا اپنا فکری نظام اور فلسفہ حیات غائب ہو چکا ہے،جس کی بنیاد ہماری ملی ثقافت کی معنوی جڑوں کو وجود بخشنے والی اسلامی حرکتِ عمل پر ہوتی ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اور ہم سے منسلک وسیع دنیا شدید انتشار کا شکار ہوگئی۔ضروری ہے کہ ہم کندی،فارابی،ابن رشد اور کسی حد تک ابن سینا جیسے ارسطو کے فکری حوض میں جمع یونانی فلسفے کے نمائندوں کے فکری و فلسفیانہ نظام اور اپنے اس فکری نظام اور فلسفہ حیات کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھیں،جس کی جڑیں آسمانوں میں ہیں۔وہ قدیم اتنا ہے جتنی کی خود ازل،لیکن جدید اتنا ہے کہ خود جدت سے بڑھ کر۔وہ ہر زمانے میں کارآمد اور حکمتوں سے بھرپور ہے۔ہمارے فکری نظام کا موضوع لاہوت و جبروت اور ملکوت و ناسوت سے اترنے والی ایسی تفسیر پر قائم ہے، جس کا سرچشمہ معلوم اور منور ہے اور جو تخلیق کی حقیقت پر اعتماد کرتی ہے۔جب ہم اس تاویل و تفسیر کو اس کے ذاتی نکات کے ساتھ سمجھ گئے تو ہم اپنے فکری نظام کو دنیا کے سامنے لانے کے قابل ہو جائیں گے اور عین اسی وقت دنیا بھر کی سطح پر سنجیدہ احیائے نو تک پہنچانے والے وسیع راستے کھول سکیں گے۔
سلطان محمدفاتح کے دور سے اب تک اسی طرح کے فکری نظام کو تشکیل دینے کے لیے کئی بار کوششیں کی جا چکی ہیں،لیکن ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔میری اس رائے پربعض پہلوؤں سے بحث کی جاسکتی ہے،لیکن یہ حقیقت ہے کہ عمومی صورتحال ایسی ہی رہی ہے۔خواجہ زادہ،ملازیرک،مصطفی رشیدپاشا اورمشروطیہ (حکم دستوری) لکھنے والے بہت سے لوگوں،نیز دورجدید کے فکری معماروں نے قطع نظر اس سے کہ ان کی نیتوں میں خلوص تھا یا نہیں، معاشرے کے عمومی ضمیر میں اس قسم کی تحقیق اور نگرانی کی ذمہ داری ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی،لیکن ان میں سے بعض تو ٹھوکر کھا کر ابن رشد اور امام غزالی کی تہافت کے پاس رک گئے،بعض انقلاب فرانس اور (Auguste Comte) کے چکروں میں پھنس گئے اور بعض (Emile Durkheim) کی ہفوات میں مشغول رہے۔یہ تحریک کبھی ٹھنڈی نہیں پڑی،لیکن بعض اوقات تو انہوں نے زمانے کا درست اندازہ نہ لگایا اور بعض اوقات محض خوابوں کے پیچھے گھوڑے دوڑاتے رہے یا خدا کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا،جس کے نتیجے میں ملی اقدار کا ہزارسالہ ورثہ ضائع ہوگیا۔کاش! اب تو ہم ان منفی پہلوؤں سے بچ سکتے ۔۔۔ افسوس صد افسوس! ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ ہم اپنی موجودہ صورتحال کے اس پہلو پر خوش ہیں۔ہماری تو یہ شدید خواہش ہے کہ ہم ان تمام منفی پہلوؤں سے بچ جائیں اور ایسے فکری نظام اور ملی فلسفے کو پروان چڑھائیں،جسے ہمارے اپنے مآخذ سے غذا فراہم ہوتی ہو۔
میں یہاں اس طرف اشارہ کرنا مناسب خیال کرتا ہوں کہ جب تک ہم اپنی زندگی کو اس طرح کی مضبوط فکری بنیادوں پر استوار نہیں کریں گے اور جب تک اس قسم کا فلسفیانہ نظام تشکیل نہیں دیں گے اس وقت ہماری آراء مسلسل باہمی تضاد کا شکار رہیں گی اور کائنات اور اس کی توجیہہ کے احساس و شعور کے زاویوں سے اختلاف کے باعث ہم‘‘تعارض و تضاد’’ کے جال میں ایک دوسرے کو نوچتے رہیں گے،لہٰذا ان اصولوں،نظام اور ساری نسلوں کے ہاں مشترکہ انداز کے ذریعے حال کی طرح مستقبل کو بھی ہم نے خود ہی سنوارنا ہے۔جب تک ہمارے احساسات، طرزِزندگی اور سوچ میں وحدت پیدا نہ ہو گی،اس وقت تک ‘‘ملی وحدت’’ اور اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ملی اصول،ملی سوچ،ملی محاکمات اور روحانی واردات کی کسی بھی نظام میں بڑی اہمیت ہوتی ہے۔کوئی بھی فکری نظام اسی قدرشعور،منطق اور محاکمے کی وحدت پیدا کر سکتا ہے اور کسی قوم میں بقائے باہمی کو آسان بناتا ہے،جس قدر وہ قوم کی عقل،وجدان اور جذبات سے ماخوذ ہوتا ہے،اس کے برعکس اگر احساسات،افکار،توجیہات اور اسالیب میں تصادم اور فیصلوں میں تناقض ہو تو ایسے حالات میں حرکت عمل کی تیزی کو کسی بھی صورت برکت کی زیادتی نہیں کہا جا سکتا، بلکہ اکثر اوقات ایسے حالات میں انجام کار زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔فہم اور توجیہہ کی بدنظمی کا شکار ہر معاشرتی جدوجہد اور مہم آپس میں ٹکرانے والی سمندر کی ان موجوں سے مشابہت رکھتی ہے،جو مسلسل ٹوٹ ٹوٹ کر عدم کے حوض میں جا گرتی ہیں اور دور اور تسلسل کے فاسد دائرے (Vicious Circle) میں گھومتی رہتی ہیں۔شاید سمندر کی موجوں کے آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جانے میں ہمیں کوئی حکمت مل جائے،لیکن معاشرے میں اس قسم کے تصادموں کا نتیجہ سوائے تعفن،بدنظمی اور جانوں کے ضیاع کے اور کچھ نہیں نکلتا۔ایسے معاشرے میں ہر فرد خونخوار بھیڑیا اور ہر فکر موت کا پیغام ہوتی ہے۔ایسی دنیا پر اگرچہ آسمان رحمت کی بارش برساتاہے،لیکن اس کا معاشرتی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کے خطرے سے دوچار رہتا ہے،اس کی تاریخی اقدار پامال اور مقدسات تباہی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس معاشرے کے ادھیڑ عمروں میں وفا ہوتی ہے اور نہ نوجوانوں میں جوانمردی۔قوم کا فعال اور جوان حصہ جس سے یہ توقع تھی کہ وہ اپنے سروں پر بلند فلیگ پول کی طرح مستقبل کو بلند کرے گا،وہی حصہ ایک طرف پرچم کی توہین کرتا اور ماضی کوبرابھلا کہتا ہے اور دوسری طرف اپنے رذائل پر عملدرآمد کے لیے مستقبل کو اپنے جنون کی جولان گاہ سمجھتا ہے۔پختہ عمر اور پڑھالکھا طبقہ،جس نے اپنے آپ کو خوفناک حد تک لاپروائی کے سپرد کر رکھا ہے اس گندی فکر کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔وہ روحوں میں ‘‘رِندی’’ (Bohemianism) کو فروغ دیتا ہے اور اپنی تحریروتقریر،رواجوں اور ذرائع ابلاغ کے پروگراموں کے ذریعے لوگوں کی بصیرت پر پردے ڈالتا ہے۔
ایسے مرحلے میں دانش گاہیں روحوں میں علم کا عشق اور اس کی فکر پیدا نہیں کرتیں، مخصوص نظریات کے حامل لوگ اصحاب اقتدار کو پُتلیوں کی طرح اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں، لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور فراست،قوتِ فیصلہ اور الہام رموزواشارات کی تنگ راہداریوں میں سے گزرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ تناقضات وتضادات کے مجموعے اور فکر پر خواہشات کو ترجیح دینے والے ایسے معاشرے میں خود زندگی ہی زندگی کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔
حالانکہ ہمارے فکری نظام اور فلسفہ حیات میں بہت وسعت پائی جاتی ہے۔ وہ وجود، غیروجود اور ماقبل الوجود سے بحث کرتے ہوئے اشیاء اور غیراشیاء کی قدروقیمت کا تعین کرکے جامعیت اور یکجہتی کے ساتھ طرزِزندگی کے نشانات راہ متعین کرتے ہیں۔وہ ایسا نظام ہے،جو اخلاقی طرزعمل کو معاشرے اور اس کے افراد میں جاری و ساری حالت میں تبدیل کرے گا اور ساری روئے زمین پر رائج ہونے والا متوقع تکوینی عدل و انصاف قائم کرکے انسانی ضرورتوں کو پورا کرے گا،جس کے نتیجے میں معاشرہ روح،اخلاقِ حسنہ اور فکر کی تربیت کرکے خود اپنی ذات کی تجدید کرنے پر قادر ہو جائے گا۔اس طرح ہماری تہذیبی فکر اور ثقافتی ثروت کا سکہ دنیا کے کونے کونے میں چلنے لگے گا اور ہم بخوشی اپنی انسانی فکر،اخلاقی فلسفے،فضائل کے فہم اور عدل و انصاف کے تصورات کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں گے۔اس صورتحال کے نتیجے میں انتظامی معاملات اور معاشی و معاشرتی اصول ہرقسم کی قیدوں سے آزاد ہو جائیں گے اور امت کے ذاتی جذبے سے پھوٹنے لگیں گے۔ہماری کمزوریوں اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہونے کی وجہ سے بیلوں کے جُوے کی طرح ہماری گردنوں پر ڈالی گئی ظاہروپوشیدہ پابندیوں نے ہمارے انتظامی اداروں اور ہمارے معاشی،سیاسی اور عدالتی نظاموں کو بے کار اور ناکام بنا کر مفلوج کر دیاہے۔ہمارے سنہری ادوار کے ان سپوتوں نے جنہوں نے اناطولیہ کو دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک بنا دیا تھا،اپنے سیاسی،انتظامی اور عدالتی نظاموں کو اپنے جوہر کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا تھا۔ انہوں نے کسی بھی فکر،ادارے یاتصور کو اس وقت تک امت کے حرم سمجھے جانے والے ان اداروں کے دروازوں کو عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جب تک انہیں ذاتی معیاروں پر پرکھ نہ لیا۔وہ اس کی اجازت تو کیا دیتے وہ تو ایسی حالت میں بھی مایوس نہ ہوئے،جب وہ ساری دنیا سے خونریز ٹکراؤ کے بعد ایک مدت تک مغلوبیت کی حالت میں زخموں سے چور ہو کر ایک طرف ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔شکست خوردگی کی ایسی حالت میں بھی ان کے دلوں میں ایمان اور امید کی شمع روشن رہی۔انہوں نے اپنی زندگی کے سرچشمے کی حفاظت کی خاطر اپنی جان تک کی قربانی سے دریغ نہ کیا،وہ تاریخی شعور سے بہرہ مند رہے اور حدیث نبوی کے تقاضے کے مطابق انہوں نے ان اعمال کو مضبوطی سے تھامے رکھا جن پر ان کا وجود موقوف تھا،اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کی گردنیں بلند رہتیں،دنیاوآخرت کے بارے میں ان کے تصورات متعدل ہوتے اور احیائے نو کی طرف پیش رفت کرتے ہوئے ان کے حوصلے سب سے بلند ہوتے۔ اگر ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اپنی ذاتی حکمت کے افق کے پہلو سے اس کا صحیح مقام متعین کریں،اشیاء اور واقعات کی صحیح توجیہہ کریں،معاصر انسان کی شخصیت سازی کی بنیادی ضرورتوں کا تعین کریں اور تواجد و حضور کی فکر کے ذریعے دوام کے مشتاق رہیں تو ہم اس دور میں کہ جس میں ہم پے درپے صبحوں کے طلوع ہونے کی امید رکھتے ہیں،نہ صرف ان جیسے ہوسکتے ہیں،بلکہ ان سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔اگر بصیرت کی حامل نسلیں ماضی،حال اورمستقبل کی ایک ہی سطح پر قدرپیمائی کریں،معاشرے کی عادات و روایات اور اس کی تاریخ کی حرکتِ عمل کی حفاظت کریں اور تجدیدشخصیت کے ذریعے تاریخ کے دہرائے جانے کی ماہرانہ توجیہہ پیش کرتی رہیں تو کوئی بھی طاقت انہیں ترقی کے زینے طے کرنے سے نہیں روک سکتی۔
ہم یہ بات دوبارہ کہنا چاہتے ہیں کہ آج ہماری سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی نسلوں کے تاریخی شعور کو مہمیز دے کر انہیں صدیوں سے کی جانے والی جدوجہد کے اثرات،دلوں میں جاگزیں ایمانی عقائد اور گہری جڑوں کی حامل ثقافتوں کا احساس دلائیں۔اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہوگئے تو دو یا تین نسلوں کے بعد اس ملک کے رہنے والے شخص کے دل میں اپنے مختلف قومی اداروں کے لیے اپنی روح اور جوہر سے غیرمانوس سرچشموں سے کوئی چیز مستعار لینے کا خیال بھی پیدا نہ ہوگا۔ بلاشبہ ہم اپنے مستقبل کی زندگی کے عناصر کو اپنی ماضی سے اخذ کرتے ہیں۔اگر ہم دین کے نور اور علم کی روشنی میں انہیں اپنی ثقافت کے برتن میں گوندھنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اپنے دوام کا خمیر تیار کر لیا ہے۔
- Created on .