چمکتا ہوا افق
روشنی جب اندھیرے کو پچھاڑ دیتی ہے، تو وہ اس کی حقیقی گہرائی تک پہنچ جاتی ہے، خوبصورتی اس وقت بہترین صورت میں ظاہر ہوتی ہے، جب اس کے گرد بدصورتی پھیلی ہوئی ہو۔۔۔ جیسا کہ نیکوکاروں کی فوقیت اس وقت نمایاں ہوتی ہے، جب وہ برے لوگوں کے درمیان ہوں یا کم از کم ان میں سے بعض لوگ ضرور برے ہوں، معاشرے کو جب امن و سکون کی ضرورت ہو تو وہ اپنی ضرورت کا شدت سے ادراک کر لیتا اور اسی کی خاطر مرتا جیتا ہے، راحت کا ذائقہ وہی شخص جان سکتا ہے، جس نے آلام و مصائب کی مشقت کے ذائقہ کو چکھا ہو، جیسا کہ جنت کی قیمت کو بھی صرف وہی شخص جان سکتا ہے، جس نے پل صراط کے اوپر سے گزرنے کی ہولناکیوں کے ذائقہ کو چکھا ہو، شدید ترین تاریکیوں کا وقت ہی درحقیقت فجر کی روشنیوں کی بشارتوں کا وقت ہوتا ہے، رات دن کی روشنی کے جنین کو اٹھائے ہوئے ہوتی ہے، موسم سرما کی ٹھنڈک موسم بہار کے جنین کو اٹھائے ہوئے ہوتی ہے، جب اسباب ختم ہو جاتے اور ان کی کوئی تاثیر باقی نہیں رہتی، تو دل اس ذات پاک کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جس کی قدرت غیر متناہی ہے۔ ’’مشقت آسانی کو کھینچ لاتی ہے‘‘، کے قاعدہ کے مطابق مشقتیں ہمیشہ آسانی کے دروازے کھول دیتی ہیں۔
ان دنوں میں جب ہم ایک ایسے دائرہ میں ہیں، جو مشکلات، خلفشار اور ابہام سے بھرا ہوا ہے، ہم اطمینان و راحت کی اہمیت کو جانتے ہیں، روشنی کی قدرو قیمت کو قدرے زیادہ پہچانتے ہیں، ایمان اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کے جمال کو زیادہ واضح اور عمیق شکل میں دیکھتے اور اپنے وجدان میں اعتماد اور اس حقیقی اطمینان کو محسوس کرتے ہیں، جس کا سرچشمہ ایمان ہے، ہم نیکی کازیادہ شوق اور برائی سے زیادہ نفرت محسوس کرتے ہیں، زیادہ طہارت حاصل کرنے کے لیے ہم ان چمک دار دنوں کی آبشاروں میں زیادہ غسل کرتے ہیں اورایک بار پھر رمضان کے اشتیاق سے اپنے دلوں کو موجزن پاتے ہیں۔
کون جانتا ہے کہ ہم نے کتنی بار ماہ رمضان کو دیکھا اور اس کے ساتھ زندگی بسر کی ہے، لیکن ان دنوں میں جب مختلف منفی پہلوؤں نے امت کا احاطہ کر رکھا ہے، ہم نے مسافرت، سوزش اور قساوت کی زندگی بسر کرنا شروع کر دی ہے، جو ہمارے عزم و ارادہ کو توڑ دینے والے ہیں، اس سخت فضا میں، جس نے ہمیں اپنے ہی وطن میں غریب الدیار بنا دیا ہے، ہم بکثرت توہین اور ظلم و استبداد کو برداشت کرنے کی وجہ سے ہر روز نئے ظلم و جبر کی توقع کرنے لگے ہیں گویا ہم اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم مظلوموں کی حیثیت سے زندگی بسر کریں، بعض اوقات اس قسم کے حالات کے بیدار ہونے میں ہماری غلامانہ سوچ کا بھی دخل ہوتا ہے ۔ ہم اپنے سینے اپنے رب کے سامنے کرتے ہوئےاخلاص اور گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں:’’ اے ہمارے رب! یا مسبب الاسباب! دشمنوں کی سیاہ کاریوں، دوستوں کے تجاہلِ عارفانہ اور اپنے ضعف و عجز کے باعث اسباب ختم ہو گئے ہیں، حیرت و پریشانی نے ہمارا احاطہ کر لیا ہے جبکہ ہم اس رستے پرآپ کی طرف چل رہے ہیں، جس طرح اس راستے کے تمام سالکین کو یہ صورت حال پیش آتی ہے۔۔۔ ہمیں تنہا نہ چھوڑ، اے رب! ہمیں ان بدنصیبوں کی طرح نہ بنا جو لغزشیں کھانے کے بعد رستے میں تنہا رہ گئے ہوں۔‘‘ ہم کہتے ہوئے آہیں بھرنے لگتے ہیں، انہیں آلام و مصائب کے بقدر جن کا ہم تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں، ہم عجز و ضرورت کے ہاتھ سے اس کی رحمت کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں، ہم صرف اسی کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، اس کے سوا کسی اور کے دروازے پر دستک نہیں دیتے، ہم صرف اسی کی توجہ اور التفات کے منتظر ہیں کیونکہ ہم اس کی توحید کے قائل ہیں، اس پر اعتماد اور توکل کرتے ہیں، مجھے نہیں یاد کہ ہم نے کسی دوسرے رمضان میں بھی اس طرح توجہ کی ہو اور اتنی گہرائی کے ساتھ زندگی بسر کی ہو، جسے ہم اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہیں اور شاید ہم کبھی بھی اس طرح زندگی بسر نہ کرسکیں۔
ہم نے کتنی ہی بار اس ماہ مبارک کو پایا، کتنی ہی بار لطف و کرم کی حامل اس کی باد نسیم سے شاد کام ہوئے، کتنی ہی بار بحیثیت امت ہم نے یہ کوششیں کیں کہ اس ماہ مبارک کی اس کے پرُ عظمت ایام کے مطابق قدر کریں اور اس سے کماحقہ استفادہ کریں۔ ہم ان دنوں کو یاد کرتے ہیں، جن میں جنگ و جدل عام تھا، گرد و غبار اور دھواں ہر چیز پر چھا گیا تھا(8)، ہم رمضان کے ان غم آلود دنوں کو یاد کرتے ہیں، جو محفلوں کے قمقموں کی طرح کبھی جلتے اور کبھی بجھتے تھے۔۔۔ ماہِ رمضان کے ان غم آلود دنوں میں، جن میں مادی و روحانی فقر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط تھے، ہم نے اپنے عزم کو اپنی امیدوں سے مربوط کر لیا اور درج ذیل شعر گنگنانے لگے:
حق تعالیٰ کی تجلی کے وقت ہر چیز سہل و آسان ہوتی ہے
وہ ایک ہی لحظہ میں اسباب تخلیق کرتا اور لطف و احسان کے ساتھ عطا فرما دیتا ہے
ہم مثبت پہلو سے افطار و سحر کے درمیان کسی غیر معمولی دروازے کے کھل جانے کے منتظر تھے۔ ماہ رمضان اس وقت گو فعال اور زندگی بخش تھا لیکن اسی وقت وہ یتیم بھی تھا۔
رمضان کے وہ مہینے کچھ پہلوؤں کے اعتبار سے رمضان کے دیگر مہینوں کے مشابہہ تھے اور بعض کے اعتبار سے ان سے مختلف تھے، اس میں اندیشوں امید کی ناکامی کے کئی ابواب تھے، یہ مہینے طلوع ہوئے اور چمکے اور پھر صبح کے ستاروں کی مانند ہمیں غم ناک الوداعی گیت دے کر غائب اور غروب ہو گئے۔
بے شک رمضان کا ہر مہینہ اپنے خاص ذائقہ کی وجہ سے ہمارے سروں پر فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی طرح ایک باریک آواز ہے، اس نے اپنی روشنیوں میں سے ہمیں ایک ایسی روشنی دی ہے،جسے کبھی ہم محسوس کر سکتے ہیں اور کبھی نہیں اور پھر ہمیں الوداع کہہ کر رخصت ہو گیا۔ وہ بیدار دل جو اپنے وجدان کی گہرائیوں میں اس کی آواز کو سن سکتے ہیں، اس شخص کی طرح ہیں جو خوشی و مسرت کے لمحے کی طرف ہمیشہ جلدی جلدی چلتا ہے ۔گویا وہ اس ماہ رمضان کی طرف متوجہ ہیں اور اس کی اذان پر کان لگائے ہوئے ہیں، جو اپنے ساتھ ابدیت کی ولادت بشارت کو رکھتا ہے۔
ان حالات کے مطابق انسان کبھی کبھی ان دنوں اور راتوں کے الہام کردہ معانی کے ساتھ مربوط ہوتا اور راحت و سکون محسوس کرتا ہے گویا وہ ہم آہنگ اور موزوں زندگی بسر کر رہا ہو اور گویا وہ فتنہ و فساد سے بھری ہوئی اس دنیا سے الگ ہو گیا ہو، ایسا فتنہ و فساد جو نفس میں متلی پیدا کرتا ہے، گویا وہ پوری فرحت کے ساتھ چمکدار اور امید سے بھرپور افق کی طرف چلتا اور اپنے گردو پیش جمال و فرحت ہی کے تحت اور اپنی زندگی کو نظام سے بھرپور دیکھتا ہے، گویا وہو راحت و سکون کے ساتھ فضا میں اڑنے والا وہ پرندہ ہے، جس کی صفائی کو کوئی مکدر نہیں کر سکتا اور کبھی داخلی شکست و ریخت کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے، گویا وہ امید و رونق کے موسم خزاں کے اختتام تک پہنچ گیا ہو اور اس کا ارادہ ٹوٹ گیا ہو، اس کی امید کا افق تنگ ہو گیا ہو، اس کی روح حیران رہ گئی ہو، داخلی انتشار و خلفشار شروع ہو گیا ہو، گویا وہ روحانی و معنوی طور پر بلندیوں میں اڑنے والا وہ پرندہ ہو جو زمین پر گر گیا ہو۔
اب بہت سی تنگیاں اور مختلف اقسام کی مجبوریاں اور ظلم و استبداد ہے، جس نے ہماری ذات کے اکتشاف کے امکان کو آسان کر دیا ہے، جس طرح وہ شخص جس کے ہر عضو میں زخم یا درد ہو وہ اپنے سارے جسم میں درد محسوس کرتا ہے، ہم لوگوں کا حال بھی اسی طرح ہے کہ ہم کئی سالوں سے ظلم و استبداد اور سرکشی و غداری میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اس نے ایسی بیداری پیدا کر دی ہے، جو اگرچہ خاموش مگر گہری ہے، یہ تدریجی ہے لیکن جاری و ساری، قوی اور اس عزم کے ساتھ متصف ہے کہ ان میں سے کسی کی طرف سے حق نہ بطور تحفہ ملے گا، نہ بطور احسان اور نہ بطور صدقہ لہٰذا ہم ماہِ رمضان کی طرف اپنے ہاتھ روحانی روشنی کی فضا میں پھیلاتے ہیں تاکہ وہ جدید اور روشن مستقبل کے ایام کی طرف ہمارے لیے ایک دروازہ کھول دے اور اس لیے بھی تاکہ ہم اپنی ذات اورشخصیت کی طرف ایسی شکل میں توجہ اور رجوع کر سکیں جو آنکھ اور دل کو سیر کر دے اور جس میں سکون و ہیبت کے ساتھ جاری نہروں کا سکوت ہو اور جس میں ان خوشگوار ہواؤں کی سی نرمی ہو جو بہت آہستگی کے ساتھ چلتی ہیں، جو لوگ اس جذبہ و فکر میں ہمارے ساتھ شریک ہیں، وہ کبھی کبھی مہلت و انتظار کی پالیسی اختیار کرلیتے ہیں، حالانکہ وہ مختلف میدانوں میں بہت سی قابلیتوں اور وسیع امکانات کے اس پرندے کی طرح مالک ہوتے ہیں، جو اپنے پروں کو حرکت دئیے بغیر توازن کے ساتھ ایک ہی جگہ منڈلاتا رہتا ہے، کبھی وہ کسی حکمت کی وجہ سے ان متبادل اشیاء کو بھی اختیار نہیں کرتے، جو انہیں میسر ہوتی ہیں، وہ فعال انتظار کو ترجیح دیتے ہیں، جو انتظار غفلت نہیں ہوتا اور کبھی کبھی ہم انہیں اس طرح دیکھتے ہیں کہ وہ پورے حزم و احتیاط کے ساتھ ہماری توقع سے بھی بڑھ کر اپنے ان اصولوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جن سے انہیں عشق ہوتا اور جن کے ساتھ انہوں نے اپنے دلوں کو باندھ رکھا ہوتا ہے۔
وہ معزز ملائکہ کی طرح روزے، نماز تراویح اور عبادت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔۔۔ وہ کسی توقف کے بغیر پورے اخلاص، شدید مسکنت اور انتہائی رقت کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اشکبار اور ان کے سینے فگار ہوتے ہیں۔ یہ بہادر لوگ جو جلنے والی شمعوں کی طرح صبح تک نور اور روشنی کو پھیلاتے اور ظلمت و تاریکی کے خلاف جہاد و جنگ جاری رکھتے ہیں، جنہوں نے نفس کے عیش و عشرت کو ترک کر دیا ہے اور دوسروں کی ہدایت کے لیے اپنے نفسوں کو قربان کرنے کی نذر مان لی ہے، ان لوگوں کے ہاتھ میں اس امت اور اس کی فکر میں نئی روح پھونکنے کے وسائل و اسباب ہیں اور ایسے دلائل ہیں جو عقل اور ماضی کے تجربے سے حاصل کیے گئے ہیں، وہ کسی ناامیدی و اکتاہٹ میں مبتلا ہوئے بغیر ان پر عظمت دنوں کو واپس لانے کی کوشش سے اکتاتے نہیں، ہم اولو العزم لوگوں کی کوششوں سے بھی ان لوگوں کی کوششوں کو زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں، ان لوگوں کی مبارک کوششوں ہی سے وقت اور زمانہ بلند پایہ ہو جاتا ہے، وہ زمانے کی مختصر اور محدود ٹیپ کی طرح نہیں ہوتا، اپنی ماہیت، لب، جوہر اور ان پر برسنے والے الٰہی الطاف و عنایات کی وجہ سے یہ زمانہ ایک طرف تو قدیم ترین اور سنہری و پر عظمت ماضی سے جاملتا ہے اور دوسری طرف یہ ابدیت تک پھیلا ہوا ہوتا ہے حتیٰ کہ اگر ہم اس کی طرف روح کی اس نظر کے ساتھ دیکھیں، جو زمان و مکان سے بلند ہوتی ہے اور روح کی گھات کے ساتھ اس کی نگہبانی کریں، تو ہم پوری رونق و شادابی کے ساتھ دیکھیں گے کہ ایمان کی برکت سے بہت سے محال کام بھی مکمل ہو جاتے ہیں۔
کون جانتا ہے کہ کتنے ہی ایسے مخفی و سری امور ہیں، جن کے بارے میں روزانہ اس طرح کے خواب اکتشاف کرتے ہیں اور جو حقائق کی طرف جھانکنے والے دروازے ان لوگوں کے سامنے کھول دیتے ہیں، جو اس طرح کے اسباب کے مالک ہیں اور وہ ہمیں یہ عطیہ کرتے ہیں اور ہمارے غمزدہ دلوں میں انبساط و انشراح کوپیدا کر دیتے ہیں، ہمیں اپنے ہی نفسوں اور اپنے ہی حالات میں جکڑے رہنے سے نجات دلاتے ہیں اور ہمیں ایمان و امید کی فضا کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔
ماہ رمضان دعا، مناجات اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کے لیے سب سے زیادہ موزوں مہینہ اور افکار و جذبات کی طرف بلانے کے لیے سب سے افضل چشمہ ہے۔ اس کی خوب صورت اور قوس قزح کے رنگوں سے مزین فضا میں دل اس طرح مہک اٹھتے ہیں، جس طرح انگیٹھیوں سے نجور کی مہک اٹھتی ہے، ہر دن کے سحر میں روحیں شاد کام ہو جاتی ہیں، اس کے چمن زاروں اور مرغزاروں میں سینکڑوں بلبلیں گانے لگتی ہیں،اگرچہ ماہ رمضان کی روشن فضا میں ہم ہر حال، ہر طور، ہر جذبے اور ہر عبادت میں بعض آوازوں، بعض الفاظ اور پر عظمت ماضی سے متعلق بعض افکار و ملاحظات کو نہیں سن سکتے،لیکن افق کے پس پردہ سے آنے والی کتنی ہی آوازیں ہیں، جنہیں ہم محسوس کرتے اور سنتے ہیں، خصوصاً جب کہ ماہ رمضان ہمارے اس سال کے ماہ رمضان کی طرح ہو، جو ایک طویل عرصہ کے بعد آیا ہے اور جس نے صدیوں سے ہمارے اوپر چھائے ہوئے سکون کو چیر دیا ہے، ہمارا ایمان ہے کہ ماہِ رمضان اسی طرح کے نور کا منبع ہے، ہم اس طرح ہم آہنگی کی طرف اپنی گمشدگیوں اور قلت قیمت کی بقدر نہیں، بلکہ رمضان کی عظمت و برکت اور اپنے رب تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کی بقدر پہنچتے ہیں، ہر چیز اپنے فطری مقام و مرتبہ کو حاصل کر لیتی ہے حتیٰ کہ ہم افقی گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں اور ہمارے دل حق تعالیٰ سے قرب کے شعور کی سعادت تک پہنچ جاتے ہیں، اس کی رحمت کی تجلیات کے سامنے ہمارے دل لرز اٹھتے ہیں اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ انس و محبت کی باد نسیم نے ہر طرف سے ہمارا احاطہ کرلیا ہے، چنانچہ ہم بقول شاعر یوں کہتے ہیں:
یارب! آپ کی عدم معرفت حسرت ہے
اور آپ سے قرب آگ کا انگارہ
یہ انگارہ ہمارے سینوں میں ہے
یہ چولہوں کی آگ کے شعلوں سے بڑھ کر ہے
آپ کا عشق۔۔۔ آہ آپ کا عشق
یہی حقیقی جنت ہے
کیا ہی خوب ہو گا اگر آپ مجھے اپنے عشق کے ساتھ زندہ رکھیں اسر سکی کے ساتھ مجھے دوبارہ اٹھائیں
یا رب!
ہم اس طرح کے اشعار بار بار پڑھتے، اپنے افق اور اپنے مبدأ کے ساتھ اپنی وحدت اور تکامل پر نظرثانی کرتے اور اس فضا کے ساتھ اس حد تک ہم آہنگ ہو جاتے ہیں کہ ایک طرف ہم معصوم بچوں کی طرح خوش ہوتے ہیں اور دوسری طرف ہماری حساس روح قطبین والی دنیا کے مرکز میں ہزاروں مصائب کو سن رہی ہوتی ہے اور زندگی ایسے دوراہے میں ہے، جس میں ہماری روحوں کے آلام ان کی خوشبوؤں اوران کا قلق و اضطراب اور ان کی شادمانیوں کے برابر ہے اور ان کی امیدیں مضبوط و قوی ہیں اور ان کے اندیشے امید کے ہاتھ میں ہیں، لیکن ہم ہمیشہ ایسے گہرے جذبات کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں، جن کا ہدف ایک افق سے لے کر دوسرے افق تک کانپتی ہوئی روح کے ساتھ توحید ہوتی ہے، قریب ہے کہ اس کا گنبد اس کے جذبات کے اٹھانے کی وجہ سے پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائے۔
کبھی کبھی ان گھڑیوں اور لمحات میں، جن میں ان مبارک دنوں میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں، آنکھ آنسو بہا کر ہماری اندرونی دنیا کے رازوں کو افشا کر دیتی ہے اور ایسے افکار کو بیان کر دیتی ہے، جن کو ہم مکمل وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کر سکتے تھے، ہم اس صورت حال پر خوش ہوتے ہیں، لیکن اسی وقت ہم اپنی ذات کی طرف رجوع کرتے ہیں، جب ہم دیکھتے ہیں کہ آنکھ اپنے آنسوؤں کے ساتھ کان اور دل پر سبقت لے سکتی ہے، جس سے ہمارے سامنے یہ وسوسہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید یہ آنسو خالص نہ ہوں۔
کبھی کبھی ماہ رمضان کے جھونکے نرمی اور محبت کے اعتبار سے ہر توقع سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارے دل ایسے احساسات سے لبریز ہو جاتے ہیں، جنہیں بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا، ہم یوں خیال کرتے ہیں گویا ہم نے ایک مخفی لہر کو قبول کرلیا ہے یا ہم ایک ایسے پل پر ہیں، جو ہمیں جنت میں پہنچا دے گا لیکن جب یہ بہاؤ اور ہماری یہ سیاحت ختم ہوتی ہے، جس نے ہمیں بندرگاہ کے ساحل کے کنارے پر پہنچا دیا ہوتا ہے اور ہمیں علم بھی نہیں ہوتا، تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں اس راہ سے ہٹا کر جنت سے محروم کر دیا جائے گا، تو ہم اپنے جوڑ جوڑ میں لرزہ کی سی کیفیت محسوس کرتے ہیں لیکن جلد ہی غیر متوقع طور پر بہت گہری آوازیں اور دوسری بہت بڑی اور قوی موجیں ہمیں ڈھانپ لیتی ہیں تو ہم اپنے آپ کو اس طرح پاتے ہیں گویا ہم اپنی حدود سے تجاوز کر چکے ہیں اور اس کے لطف و کرم کے ذریعے اس کی آبشاروں میں داخل ہو گئے ہیں اور ہم اس نفسیاتی سیاحت میں یوں خیال کرتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
رمضان کی راتوں میں سے ہر رات ہم اپنے بستر سے یوں اٹھتے ہیں، جیسے ہم کسی بہت دور کے سفر پر جانے والے ہوں، ہم جسمانی رکاوٹوں کے آگے بند باندھ دیتے ہیں، مخفی اور دنیا کیلئے بند اور ’’حبیب‘‘ کے لیے کھلے ہوئے جذبات کے ساتھ ہم صرف اسی وحدہ لا شریک لہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور قریب ہے کہ ہم اپنی وارفتگی اور فرحت و شوق کے باعث دوڑنے لگیں اور اس باد سحر کے باعث جو ارد گرد سے ہم پر چل رہی ہوتی ہے اور ہمارے وجود کو اپنے دامن میں سموئے ہوتی ہے، ہم روز مرہ کی مصروفیات سے دور ہو کر آخرت کی فضا میں داخل ہو جاتے ہیں، اس طرح کے حالات میں اشراق کی گھڑیاں اپنی سحر کو ہماری روحوں میں پھونک دیتی ہیں، ہماے دلوں میں خلود و ابدیت کے شرارے کو روشن کر دیتی ہیں، یہ لمحات انس، لطف، حلاوت اور صدق کے اس طرح حامل ہوتے ہیں کہ ان کا ہر منٹ بلکہ سیکنڈ جب بھی تقسیم ہو کر پھیل جاتا ہے اور ہماری پسلیوں میں گہرائی تک پہنچ جاتا ہے تو ہم یوں محسوس کرتے ہیں جیسے ہم عالم وصال میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں، جس میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے وجود کا گنبد پھٹ جائے گا اور ہم دنیا کے دوسرے کنارے تک پہنچ جائیں گے ، یہ بالکل طبعی بات ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
اے دل! جان کے مالک نے ہی اسے مانگا ہے
تو پھر غم کیوں؟ یہ نہ میرے لیے ہے، نہ تیرے لیے۔
ان لدنی جذبات کی وجہ سے عمر کے یہ لمحات کس قدر شیریں ہوتے ہیں حتیٰ کہ ان کے جلد گزر جانے کی وجہ سے ہم ناراضی محسوس کرتے ہیں اور تمنا کرتے ہیں کہ اے کاش! یہ ہمیشہ رہیں، ہم کہتے ہیں کاش زمانے کی آبشار کے یہ شیریں لمحے اس قدر تیزی کے ساتھ نہ بہہ جائیں، اے کاش! ہمیں ان کے ایک ایک منٹ اور سیکنڈ کے گزرنے کا احساس ہو، جس طرح انسان کو ٹھنڈے مشروب کی حلاوت کا ایک ایک لمحے میں احساس ہوتا ہے۔
ہمارے ان جذبات پر سورج روزانہ طلوع ہوتا ہے، جب بوقتِ ظہر میناروں سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے، تو یہ جذبات ایک بار پھر پکارتے ہیں اور ہر غروب ہماری روحوں کے لیے فرحت و غم کے پیالے لے کر آتا ہے، ہر رات خلوت کے سحر کے ساتھ ہمیں ڈھانپ لیتی ہے، ہماری زبان کی گرہوں کو کھول دیتی ہے تاکہ ہم محبت کی دل سوزیوں کو پھیلا سکیں، ہم میں سے ہر شخص جلدی سے جائے نماز کی طرف لپکتا ہے تاکہ اپنی حسرت، دل سوزی اور فرحت کو دور کر سکے، کبھی وہ روتا ہے اور کبھی فرحت و مسرت کے باعث چیخنے لگتا ہے۔
اس طرح یہ سارا مہینہ ہمارے فکر کے افق سے اسی طرح کے جذبے اور مفاہیم کے ساتھ گزر جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ سے ربط کے طریقوں کے متلاشی ہوتے ہیں۔۔۔ یہ ماہ مبارک گزر جاتا ہے حالانکہ ہم وسیلے اختیار کرتے اور الحاح و زاری کرتے ہیں کہ وہ ہمیں چھوڑ کر نہ جائے، لیکن جیسے ہی اس کا چاند غائب ہوتا ہے، عید کے وہ آفتاب طلوع ہو جاتے ہیں، جو ہمارے آفاق کو منور کرتے اور انہیں نور اور روشنی سے بھر دیتے ہیں۔
- Created on .