اولاد کی محبت
سوال: سورۃ الاعراف میں ارشاد خداوندی : ﴿فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ (الاعراف:190) ( پھر جب وہ ان کو صحیح و سالم بچہ دیتا ہے تو اس بچے میں اس (اللہ) ک شریک مقرر کرتے ہیں ۔ سو وہ جو شرک کرتے ہیں اللہ کا مرتبہ اس سے بلند ہے) سے کیا کیا سبق ملتا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ اس سے گزشتہ آیت میں فرماتے ہیں: ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾ (الاعراف:189) (وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا۔ اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب وہ بوجھ محسوس کرتی ہے یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار سے التجا کرتے ہیں اگر تو ہمیں صحیح وسالم بچہ دے گا تو ہم تیرے شکرگزار ہوں گے)۔ اس آیت میں وارد لفظ ’’صالح‘‘کے دو معنی ہیں، اول: وہ تمام عیوب سے محفوظ ایک مکمل انسان ہو اور دوم : اپنے ایمان میں گہرا، عبادت و اطاعت کا باریک بینی سے خیال رکھنے والا اور احسان و مشاہدہ کے احساس میں گندھا ہوا ہو۔
اولاد کے صالح اور پرہیز گار ہونے کی خواہش ، اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان کا ایک تقاضا ہے کیونکہ کوئی بھی مومن جب بھی اولاد کی تمنا کرتا ہے تو وہ یوں دست بدعا ہوتا ہے: اے اللہ مجھے ایک صالح بچہ عطا فرما، جس کا بدن اور سارے اعضاءصحیح وسالم ہوں، جس کا ایمان، اسلام اور اخلاص کامل ہو۔ اے اللہ اس کے بدن کو سلامت رکھ اور اس کے عمل کو درست فرما اور اس کی روحانی اور قلبی زندگی کو درست فرما۔
اس کے باوجود ایسا ہوسکتا ہے کہ بطور آزمائش بچہ معذور پیدا ہوجائے۔ ایسی حالت میں صبر، ثابت قدمی اور مشکلات کو برداشت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہمیں اس کے پیچھے موجود حکمت کا علم نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے والدین کو گناہوں اور خطاؤں سے پاک کرنا اور اس بچے کی پرورش کے دوران تکالیف اٹھانے کی وجہ سے ان کے روحانی درجات بلند کرنا چاہتا ہو۔
نبی کریمﷺ کو خطاب ساری امت کو خطاب ہے
گزشتہ آیت میں مذکور امور کی بنا پر اول و ہلہ میں یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اس خطاب سے مقصود ہمارے باوا آدم اور اماں حواء علیہما لسلام ہیں۔ اگرچہ انہوں نے بھی نیک اولاد مانگی ہوگی لیکن جب ہم انبیاء کرام کی معصوم ہونے کی صفت کو دیکھتے ہیں جو ان کی ذات کا ایک خاصہ ہوتی ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’ جعل لہ شرکاء‘‘ سے مراد بعض بنی آدم ہیں نہ کہ حضرت آدم و حواء علیہمالسلام ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام نفس کے محاسبے کے جس مرتبے پر فائز ہوتے ہیں، وہاں وہ اپنے آپ کو بھی اس ڈراوے سے محفوظ نہیں سمجھتے اور اس خطاب کو اپنی طرف متوجہ سمجھتے ہیں لیکن یہ ایک الگ مسئلہ ہے کیونکہ یہاں تنبیہ انبیائے کرام کی امتوں کو ہے خود ان کی ذات کو نہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ انبیائے کرام کو ان کی قوم بعض خصوصیات سے مخاطب کرنا ایک ایسا اسلوب ہے جو قرآن کریم نے کئی جگہ اختیار کیا ہے۔
مثال کے طورپر سورۃ الزمرمیں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ﴾ (الزمر:65) (اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے) حالانکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ آنحضرت کبھی بھی شرک سے آلودہ نہیں ہوسکتے تھے۔ اس سے اس بات کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ آپ ﷺ کو خطاب پوری انسانیت کو ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں: ’’ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے ‘‘کیونکہ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محفوظ اور معصوم ہیں۔
جی ہاں، فخر انسانیت حضرت محمدﷺ اپنی حیات طیبہ کے ابتدائی دنوں میں بھی شرک کے ایک ذرے سے بھی آلودہ نہیں ہوئے حالانکہ اس وقت ساری انسانیت کانوں کانوں تک گناہوں اور جاہلیت کی گندگیوں سے آلودہ تھی، بلکہ شرک تو کجا،آپ علیہ السلام سے عمومی عادات سے خلاف بھی کوئی کام صادر نہیں ہوا۔ آپ علیہ السلام نے کسی لفظ سے کسی کے جذبات کو مجروح کیا اور نہ دوسروں کے احساسات کو بال برابر تکلیف پہنچائی۔
اس وجہ سے ہمارا موضوع بحث جو بھی مسئلہ ہو، سب سے پہلے انبیائے کرام کی عصمت، طہارت اور تزکیہ کا اقرار ضروری ہے اور یہ بات جان لیں کہ اس اسلوب اور طریقے سے انبیائے کرام سے جو بھی خطاب ہے، وہ بطریق اولیٰ پوری امت کے لیے رہے۔ ہم اس بات کا خیال رکھیں تو پھر زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم اس مقام پر خطاب کے اسلوب کو درج ذیل انداز سے سمجھیں: ’’خبردار ہوشیار! اگر اللہ کی حفاظت سے معصوم نبی کے بارے میں یہ انتباہ ہے تو پھر جو لوگ محفوظ اور معصوم نہیں، ان کو تو اس ڈراوے کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے‘‘۔
یوں ہم پر لازم ہے کہ اس آیت میں وارد حضرت آدم علیہ السلام کے حصے کو اس دوربین سے دیکھیں تاکہ ہم اس برگزیدہ شخصیات کے بارے میں اپنے خیال سے کوئی نامناسب اور گندی بات منسوب نہ کریں جن کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا اور ساری مخلوق پر فضیلت بخشی۔ ارشاد خداوندی ہے: ﴿إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ (آل عمران:33) (اللہ تعالٰی نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا) اس لیے ہمیں حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں اپنے اذہان، افکار اور خیالات کو پاک کرنا چاہیے۔ اس لیے باردگر اس بات کی یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ اولاد صالح کا سوال حضرت آدم علیہ السلام سے صادر ہوا مگر بچے کی وجہ سے شرک کے صدور کا ان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ خطاب ہم سب سے ہے۔
اولاد کی محبت شرک کا دروازہ کھول سکتی ہے
اولاد کی محبت میں حد اعتدال سے تجاوز شرک کے دائرے میں لے جاسکتا ہے کیونکہ بعض لوگوں کے ہاں یہ احساس اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ: ’’میرا بچہ ہی میری زندگی میں سب کچھ ہے۔‘‘ مثلاً آپ دیکھیں گے جب وہ کسی مجلس میں بیٹھا ہواور اس کے بچے کے نام کا پہلا حرف ذکر کیا جائے تو وہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے فوراً اپنے بچے اوراس کی صفات کے بارے میں بات چیت شروع کردے گا۔جی ہاں، یہ کمزوری بعض لوگوں کے ہاں اس قدر پختہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں بات کرنے کا کوئی بہانہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ’’بچے کی محبت ‘‘ سے ہماری مراد یہی ہے ۔
بچوں کی محبت ان کی ابدی خوشی کا باعث ہونی چاہیے
بچے ’’احسن تقوم‘‘ کا عکس پیش کرنے والے چھوٹے چھوٹے آئینے ہوتے ہیں اور وہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کو گلے سے لگائیں کیونکہ وہ اپنے خالق اور پیدا کرنے والے کے آثار میں سے ایک اثر ہیں۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم ان سے اپنی محبت اور شفقت کو ان کی اسلامی تربیت کے لیے استعمال کریں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ضروری ہے کہ یہ محبت سیدھی راہ پر ان کی تربیت میں ممد و معاون ہو اور وہ اس پر رہتے ہوئے اعلیٰ نمونہ بن جائیں جبکہ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو چومتے ہوئے ،ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اور ان کے کاندھوں پر تھپکی دیتے ہوئے ان کے کانوں میں یہ باتیں ڈالیں تاکہ بچے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں نہ کریں ، الحاد کے جال میں نہ پھنسیں یا ان پر بغاوت اور غرور کے ایسے جذبات کا غلبہ نہ ہوجائے جو ان کے لیے اخروی زندگی میں نقصان کا باعث بن جائیں کیونکہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کے لیے مناسب ماحول تیارکریں اور ہر وہ کام کریں جو ضروری ہے تاکہ ان کی اولاد دنیا سے اسی طرح صاف ستھری رخصت ہو جس طرح اس میں آئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام امور کو پورا کرنا بچوں کی محبت کا ایک اور رخ ہے اور اس میں کوئی نقصان بھی نہیں۔
اس کے برعکس اگر انسان ان سب باتوں کی پروا نہ کرے اور بچے سے بندگی کی حد تک صرف اس لیے محبت کرے کہ وہ اس کا بچہ ہے، ہر شے کو اس کے ساتھ جوڑ دے اور ہر وقت اس کے بارے میں بولنا چاہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے لاشعوری طورپر شرک کے ایک دروازے پر دستک دے دی ہے اگرچہ وہ اللہ اور اس کے رسول پرایمان کا دعویٰ کیوں نہ کرتا ہو۔ یہاں ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے کہ جو شخص کلمہ شہادت پڑھ لے وہ مشرک نہیں ہے لیکن اپنے بچے سے انتہائی تعلق کی وجہ سے شرک کی صفات میں سے ایک صفت اس کے اندر آگئی ہے۔ نبی کریم ﷺ اس مفہوم کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں: إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ؟ قَالَ: “الرِّيَاءُ“ (مجھے جس چیز کا تم پر سب سے زیادہ خوف ہے، وہ چھوٹا شرک ہے۔ سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ: چھوٹا شرک کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ریاکاری۔‘‘(1)
اگر ہم اس بات کو محسوس مثالوں سے واضح کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات بھی ریاکاری ہے کہ انسان اپنے چہرے کے خدوخال کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار کرے اور دوسر وں کے سامنے عبادت کرتے ہوئے انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرے جبکہ وہ اکیلے میں ایسا نہیں کرتا یادوسروں کے سامنے اپنی خصوصی صلاحیتوں جیسے اچھی تالیف، مصوری اور خطابت کا ذکر ے اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی خواہش کو اپنی بات کے آغاز میں ’’یہ فقیر اور عاجز ‘‘ جیسے الفاظ کے غلاف میں لپیٹنے کی کوشش کرے۔ یہ بات دکھلاوے کی خطرناک ترین شکل ہے۔ اس طرح انسان کا اپنے بچے کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار بھی مذکورہ بالابات سے مختلف نہیں۔ پس ایسا انسان اپنے بچے سے محبت کو شرک کی صفات میں سے ایک صفت سے آلودہ کردیتا ہے جبکہ بندہ مومن پر لازم ہے کہ وہ ایمان کی صفات کی حفاظت کے لیے بھی ایسی ہی باریک بینی سے کام لے جتنی اپنی عزت اور شرافت کی حفاظت کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے افکار اور احساسات کو بھی شرک خفی یعنی ریا کاری ، خود پسندی ،یا شہرت، فخر اور تکبر، سے بچائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک شرک کی صفت ہے اور انسان کے اندر اس کا وجود ایک وائرس کی طرح ہے جبکہ کسی وائرس کی وجہ سے آدمی کو نزلہ زکام ہوجاتا ہے، کسی سے سرطان اور اللہ معاف کرے کسی سے ایڈز کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ شرک اور کفر کی صفات میں سے کسی بھی صفت کو معمولی نہ سمجھے اور ان کو اپنے دل اور روح میں پنپنے کی اجازت نہ دے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اپنے بچے اور خاندان سے شدید محبت کا اظہار کرنے والا آدمی مشرک نہیں ہے اگرچہ اس میں شرک کی ایک صفت آگئی ہے۔ اس لیے اگر ایمان پر مرے گا تو جنت میں چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ (جو سب سے زیادہ جانتا ہے) اس سے مشر کوں والا معاملہ نہیں کرے گا لیکن ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس مشکل کا کوئی حل تلاش کریں اور اس بارے میں نہایت باریک بینی سے کام لیں کیونکہ شرک کی یہ صفت ایک وائرس کی طرح ہے جبکہ وائرس کو جسم میں فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ اس کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔مثلاً اگر نزلے کے وائرس کا کامیاب علاج نہ کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے انسان کو دورے پڑنے لگ جائیں یا وہ موت کے منہ میں چلا جائے۔اس وجہ سے انسان کسی بھی ایسے وائرس کو اپنے جسم میں قرار نہ پکڑنے دے جو اس کی اصل فطرت اور ’’احسن تقویم‘‘ کی اس صورت کے خلاف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا فرمایا ہے۔ اگر یہ وائرس اس کا درووازہ کھٹکٹانا چاہیں تو اسے یہ کہتے ہوئے بند کردے کہ ’’اپنے آپ کو فضول مت تھکاؤ کیونکہ سارے دروازے بند ہیں۔‘‘
انسان کے لیے شرک کے بارے میں اس قدر احتیاط کیوں ضروری ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات شرک اس قدر خفی اور معمولی ہوتا ہے کہ انسان اس کو محسوس کرتا ہے اور نہ اس کی پروا لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ چھوٹے گناہ جن کو ہم معمولی سمجھتے ہوئے ان کی پروا نہیں کرتے، وہ بار بار تکرار کی وجہ سے بعض اوقات بڑے گناہوں سے بھی بڑے ہوجاتے ہیں بلکہ ان سے زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں اور مقولہ ہے کہ:’’اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں اور استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں۔‘‘ علاوہ ازیں جب بندے کو اپنے بڑے گناہوں کا پتہ چل جاتا ہے اوران کی قباحت معلوم ہوتی ہے اور ان کو یہ سنجیدگی سے لیتا ہے تو فوراً عاجزی اور انکساری کے ساتھ توجہ اور انابت کے ذریعے اپنے رب سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد گناہ کا یہ احساس اس کے اندر گناہوں کو ختم کرنے کا شعور پیدا کردیتا ہے ار آخر کار وہ ہمیشہ کے لیے ان سے چوکنا اور ہوشیار رہتا ہے۔
یوں اگر والدین اپنے بچوں سے محبت میں اعتدال کا خیال نہ رکھیں تو ابتداء میں وہ معمولی ہو گی مگر بعد میں ایک مشکل بن جائے گی جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
اس موضوع کو زیادہ اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہم اس غلطی کی مثال دے سکتے ہیں جس کا ارتکاب حضرت نوع علیہ السلام کی قوم کے پہلے لوگوں نے کیا تھا جبکہ آپ جانتے ہیں کہ (ایک روایت کے مطابق )’’ود، صواع، یغوث، یعوق اور نسر‘‘ اچھے اور نیک لوگ تھے۔ لوگوں میں ان کے پیروکار تھے۔ چنانچہ جب وہ دنیا سے گزر گئے تو ان کے پیر وکاروں نے کہا کہ : ’’اگر ہم ان کی تصویریں بنا لیں توجب بھی ہم ان کو یاد کریں گے عبادت کے شوق میں اضافہ ہوجائے گا۔‘‘ چنانچہ انہوں نے تصویریں بنالیں۔ پھر جب یہ لوگ مر گئے تو ابلیس نے مداخلت کی اور کہا: ’’ وہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کی وجہ سے بارش ہوتی تھی۔‘‘چنانچہ انہوں نے ان کی عبادت شروع کردی۔(2)شروع میں اس سوچ میں کوئی گناہ نہ تھا مگر رفتہ رفتہ ان صالح لوگوں کو معبود بنانے کا سبب بن گئی۔ابتداء میں یہ ایک سادہ سی سوچ تھی مگر انجام کار ایک عظیم مصیبت بن گئی۔
جی ہاں، انسان کو چاہیے کہ کسی کی محبت میں زیادہ تعریف کرے اور نہ حد سے آگے بڑھے، خواہ وہ اس کی اولاد ہو یا کوئی اور۔ معقول حد سے تجاوز نہ کرے۔ پس خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے اپنی حد کو پہچانا اوراسی پر رک گیا۔
اولاد کی محبت میں توازن
ہمارے زمانے میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بچہ وہ بنیادی اکائی ہے جس پر خاندان کی بنیاد کھڑی ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ: کیا آج کے خاندان میں مرکزی نقطہ بچہ ہے یا خواہشات نفس یا انانیت ؟! ان سب باتوں پر ہم کوئی قطعی حکم نہیں لگا سکتے مگر جو بات یقین ہے وہ یہ کہ جب انسان اپنے لیے ایسا طرز زندگی اختیار کرلیتا ہے جو ان اوامر و نواہی کا ساتھ نہیں دیتا جودین نے وضع کئے ہیں تو اس کے ہاں منفی نقاط بہت زیادہ ہوجاتے ہیں اوران کے سامنے توحید کے منافی شرک کے مختلف قسم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں ایمانی اخلاق کے مطابق یہ بات درست نہیں کہ خاندان کی خوشی اور بدبختی کی بنیاد بچے پیدا کرنے کے لیے مسئلے پر رکھ دی جائے یا اس کی وجہ سے اختلافات اور نزاع پیدا کرلیا جائے کیونکہ اس قسم کا رویہ (اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے) اللہ تعالیٰ کی قضا پر عدم رضا مندی، اس کی تقدیر پر اعتراض اوراس کے خلاف بغاوت ہے۔
جی ہاں، بچے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات (باوجود اس کے کہ یہ تقدیر کا مسئلہ ہے) کوحق تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے اور کھبی نہیں بھولنا چاہیے کہ بچے کا وجود اور عدم وجود ، بذات خود ایک امتحان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ﴾ (الانفال:28)(اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور اللہ کے پاس نیکیوں کا بڑا ثواب ہے)۔
دوسری جانب بچے کو ہرشے سمجھنے ، اس سے شدید محبت کرنے اور اس کو خاندان کی بنیاد سمجھنے کا نقصان یہ ہے کہ اس کے منفی رویوں سے چشم پوشی کی جائے گی اور مشکلات کا کوئی درست حل تلاش نہیں کیا جائے گا۔ اس قسم کا سلوک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا سبب بن جائے گا کہ اولاد کی درست تربیت نہ کی جائے حالانکہ اس بارے میں بنیادی ہدف یہ ہے کہ ایسا بچہ پیدا ہو جو نیک، صالح، درست ، پاکیزہ اور اعلیٰ اخلاق کا مالک ہو۔ اس لیے والدین کا فرض ہے کہ وہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہر کوشش کرڈالیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج بچوں کی بڑی تعداد ضائع ہوگئی ہے او ر خاندان میں جہالت ، گلی محلے میں وحشت اور عبادتگاہوں میں شعور کی کمی اور تعلیم کامعیار نہ ہونے کی وجہ سے گمراہ ہوچکی ہے۔
ماں باپ کی تربیت نیک اوالد کی تربیت کی ابتداء ہے
اگر ہم اچھی اولاد چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں اس کے والدین کی اچھی تربیت کرنا ہوگی کیونکہ پہلے والدین کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے اچھا نمونہ کس طرح بنیں گے ، ان سے کیا رویہ رکھیں گے بلکہ شادی کی تیاری کرنے والوں کی شادی سے قبل اس قسم کے کورس کرنے چاہئیں کہ اگر سرٹیفکیٹ مل جائے تو شادی کرلیں ورنہ نہ کریں۔ اس کورس کے دوران یہ نوجوان شادی کے اصل مقصد کے بارے میں تعلیم حاصل کریں، یہ جانیں کہ میاں بیوی میں صحت مندتعلق کس طرح قائم کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے رویہ کیا ہوگا، یہ اور ان جیسے دیگر موضوعات کی ایک پختہ بنیاد ہونی چاہیے کیونکہ شادی کرنے والا (خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی) اگر اس بارے میں درست ہتھیار وں سے لیس ہوگا تو وہ مقدس ادارہ جس کو وہ ا پنے شریک حیات کے ساتھ مل کر بنائے گا، وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگا اوراس میں کوئی شک نہیں کہ جو بچے اس خاندان کی گود میں تربیت پائیں گے وہ نیک اور درست ہوں گے لیکن اگر ماں باپ کے پاس مادری اور پدری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو اولادمیں بھی تذبذب ہوگا کہ وہ نہ ادھر کے ہوں گے اور نہ ادھرکے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کی اکثر نسلوں کی تربیت اسی انداز سے ہوتی ہے اگرچہ بعض لوگوں کی تربیت پاکیزہ ماحول میں ہوئی ہے اور وہ اپنی اصل تک پہنچ گئے ہیں مگر اکثریت ایسا نہیں کرسکی۔
چونکہ اپنے مقصد کے خلاف ناجائزمحبت کرنے والے، ان لوگوں سے تھپڑ کھا چکے ہیں جن سے وہ محبت کرتے تھے خواہ وہ کوئی بھی ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین نے بچے کو اپنے پاس اللہ کی امانت نہیں سمجھا بلکہ اس کو صرف اس نظر سے دیکھا کہ وہ ان کے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جس کی وجہ سے اس سے شدید محبت کی اور وہ بھی انانیت کے جذبے سے۔ اس لیے ایسا بچہ مستقبل میں ان کے لیے آزمائش بن جائے گا کیونکہ جس طرح ایک شے میں اضافے سے دوسری میں کمی ہوتی ہے، اسی طرح ایک میں کمی سے دوسرے میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر جس طرح یہ بات والدین اور بچے کے تعلقات میں در آتی ہے، اسی طرح یہ محب اور محبوب کے تعلق میں بھی پید اہوجاتی ے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ: اگر انسان کسی کو(خواہ وہ کوئی بھی ہو) اس کی قدر سے اونچے اور بڑے مقام پر رکھے گا اور اس کے حدسے زیادہ محبت کرے گا، تو اس سے اپنی توقع اور مقصد کے برعکس تھپڑ کھائے گا اور اس کے بعد وہ دن بھی آجائے گا جب ان دونوں میں سے ہر ایک وہ کچھ سنے گا جس کو وہ دوسری جانب سے پسند نہیں کرتا تھا۔
1۔ مسند امام احمد:39/93،الطبرانی، المعجم الکبیر:9/253
2۔ تفسیر الطبری:23/639
- Created on .