سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ)
ہر صاحبِ عقل مسلمان ایسی شہادت کی تمنا کرتا ہے جو کافروں کے ساتھ جنگ اورقتال میں حاصل ہو۔حضرت عمر بھی انہی مجاہدین میں شامل تھے۔حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کے بعد مسلسل دس سال تک منبرِرسول پر نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے رہے۔نبی کریم کے سامنے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ حضرت عمر کی نظر میں فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں چلے گئے تھے۔ یعنی حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہ) کے کمرہ سے انہیں زمین کے نیچے نور کے باغات میں رکھ دیا گیا۔اور عالم برزخ سے عالم مثال میں وہ دیکھ رہے ہیں ۔
حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے جنت عدن کا تذکرہ کیا۔آپ اس جنت کی صفات،وسعت اور دروازے وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اس میں انبیاءعلیھم السلام داخل ہوں گے۔پھر لطیف سی نظر روضہ رسول کی طرف دوڑائی اور ہلکا سا جھکتے ہوئے بڑے عقیدت اور احترام سے کہا۔اے قبر والے آپ کو مبارک ہو۔پھر جنت عدن میں داخل ہونے والوں کا ذکر جاری رہا۔اور پھر فرمایا کہ نبیوں کے بعد صدیقین اس جنت میں داخل ہوں گے۔اور اس مرتبہ منبر سے ہلکے سے جھکاﺅ کے ساتھ بڑی عقیدت و احترام سے حضرت ابو بکرصدیق کی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔اے قبر والے مبارک ہو۔پھر فرمایا صدیقین کے بعد شہداءجنت میں جائیں گے۔شاید آپ کورسول اللہ کی وہ بشارت یاد آگئی۔جس میں آپ نے آپ کی شہادت کی پیشین گوئی کی تھی۔آپ اپنے صحابہ کرام حضرت ابوبکر،عمر اورعثمان کے ساتھ احد پہاڑ پر بیٹھے تھے کہ پہاڑ نے ہلنا شروع کردیا۔آپ نے فرمایا :
”اُثبُت اُحُدُ فَمَا عَلَیکَ اِلاَّ نَبِیّ اَو صِدِّ یِق اَو شَھِیدَانِ“
ٹھہر جااے احد !تیرے اوپراس وقت ایک نبی،ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔
شاید حضرت عمر کو وہی بات یاد آگئی اور کچھ دیر کے لیے خاموش کھڑے رہے۔تمام لوگ اس انتظار میں تھے کہ اب عمر کے ہونٹ ہلیں گے تو کیا کہیں گے۔جو ہونٹ ہلے تو فرمایا۔عمر تیرے نصیب میں شہادت کہاں ؟یعنی پتہ نہیں میں شہادت حاصل کر سکوں گا یا نہیں ۔یا اسی قسم کی کوئی بات کہی اور پھر خاموش ہوگئے۔اورتھوڑی دیر بعد انتہائی بلیغ انداز میں اپنے آپ سے کہا:
”جس اللہ نے تجھے اسلام پر چلنے کا راستہ دکھایا،تجھے ہجرت نصیب کی،تجھے اپنے پیارے نبی کے صحابہ میں سے بنایا،مدینہ میں بہترین زندگی دی،وہ تیرے نصیب میں شہادت بھی لکھے گا۔“
یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بردباری اور دانائی تھی کہ بات بھی کہہ ڈالی اور دعا بھی کی کہ اللہ شہادت نصیب کرے۔حضرت عمر تو وہ واحد صحابی ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتا۔“
آپ وہ شخصیت ہیں جن کو نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) کے بعدسب سے زیادہ فہم و فراست کی دولت عطا ہوئی۔پوری امت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ۔اس کے باوجود آپ کی ہمیشہ تمنا رہی کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے جان دے دیں اور اس مقصد کو ہمیشہ ترجیح میں رکھا۔
معلوم نہیں کہ اس خطبہ کے کتنے عرصے بعد آپ کو شہید کر دیا گیا۔آپ مسجد میں امامت کرا رہے تھے کہ آپ کے جسم اطہر پرخنجر کے وار کر کے آپ کو زمین پر گرادیا گیااور آپ خون میں لت پت ہوگئے۔شاید آپ نے اس خطبہ کے کچھ ہی عرصہ بعد شہادت کا مرتبہ حاصل کر لیا۔اس لیے کہ آپ کو نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) اور حضرت ابوبکرسے بچھڑے ہوئے لمبا عرصہ بیت چکا تھا۔موت کی تمنا تو تھی لیکن شہادت کی موت اور وہ بھی مدینہ کے اندر۔آپ بار بار بڑے خشوع وخضوع سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگا کرتے تھے: ”اے اللہ مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما اور مجھے اپنے رسول کے شہر میں موت دے۔“
آپ دعا مانگتے اور اس قدر روتے کہ لوگ بھی رونا شروع کر دیتے۔چنانچہ کسی ایک نماز کی دعا قبولیت حاصل کر گئی اور آپ کو مسجد رسول میں دوران نماز شہید کر دیاگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ان دو آنسوﺅں اور دو قطروں کی اہمیت کو سمجھ سکیں جو اللہ کے راستے میں اس مقتدر اعظم کے حضورحاضری کے شوق کے لیے نکلتے ہیں تو ہم بھی ہزارہاشوق و جستجو سے یہ کا م کریں ۔اور ہماری روحوں کے پر بھی اس طرح پھڑپھڑائیں جس طرح فاختہ کے پر پھڑپھڑاتے ہیں ۔رقت اورخشوع و خضوع بھی اس قدر بڑھتا ہے جس قدر ایمان بڑھتا ہے۔رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا:
”عَینَا نِ لاَ تَمَسُّھُمَا النَّارُ عَین بَکَت مِن خَشیَۃِ اللّٰہِ وَعَین بَاتَت تَحرُسُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ“
”دو آنکھیں ایسی ہیں جن کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی،ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے آنسو بہائے اور دوسری وہ آنکھ جو رات بھر اللہ کے راستے میں پہرہ دے۔“
اللہ تبارک و تعالیٰ ان دو قسم کے قطروں کو کس قدر پسند کرتا ہے۔اب جو شخص اپنے آپ کو اللہ کی محبت کے ساتھ ملانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ راستہ اختیار کرے جس کے ذریعے اللہ کی رضا اور محبت نصیب ہوتی ہے۔ اور دنیا کی ظاہری چکاچونداور چٹ پٹے ذائقوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔دنیا کی کشش میں خود نہ کھو جائے بلکہ اپنے آپ کو مکمل طور پر آخرت کی کامیابی کے لیے وقف کر دے اور یہ شعور اس وقت اجاگر ہوتا ہے جب انسان عرفان کے درجے پر پہنچ جائے۔اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ دنیا کا سب سے مشکل کام یہی ہے۔
ہمارے نزدیک عرفان یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ایمان کی مشعل کو اس قدرروشن کر دے کہ اس کو اس کی روشنی میں دنیا میں رہتے ہوئے آخرت اس طرح نظر آئے جیسے دنیا نظر آتی ہے اوروہ آخرت کو بالکل اسی طرح اپنی نظروں کے سامنے پائے جس طرح دنیا اسے نظر آتی ہے۔تب اس کے اندر آخرت کی کشش اور شوق اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کوئی عقل مند پھر اس دنیا کی فانی لذتوں میں نہیں کھو سکتا۔پھر جب انسان ہمیشہ رہنے والی ابدی نعمتیں ،مناظر اور رعنائیاں دیکھ لے تو اس دنیا کی فانی بے فائدہ اور گندی چیزوں کی طرف کیسے مائل ہو سکتا ہے۔
- Created on .