عمرو بن جموح اور سعد بن حیثمہ (رضی اللہ عنہ)
شہادت ابدی کامیابی کی ضمانت ہے۔ عہد رسالت میں عمرو بن جموح اور سعد بن خیثمہ نے یہ ضمانت حاصل کر لی تھی۔قصہ یہ ہے کہ یہ دونوں بزرگ بہت کمزور اور بوڑھے تھے۔صاحب فراش ہو چکے تھے۔چلنے پھرنے کی سکت بھی نہ تھی۔کبھی کبھار لاٹھی کے سہارے چلتے تھے۔لیکن جیسے ہی ان دونوں نے یہ منادی سنی کہ جہاد کے لیے نکلوتودونوں زخمی شیر کی طرح اٹھے اور جہاد کے لیے تیار ہو کر نکل کھڑے ہوئے۔دونوں الگ الگ گھروں میں رہتے تھے اور اپنے اپنے بچوں اور پوتوں کو مخاطب کرکے کہہ رہے تھے کہ اگر جہاد کے علاوہ کوئی اور کام ہوتا تو میں تم کو ہی کہتا کہ چلے جاﺅ لیکن شہادت اور اللہ سے ملاقات اور ہمیشہ کی جنت مل رہی ہو تو پھر میں کسی اور کو اپنے اوپرترجیح نہیں دے سکتا۔دونوں کے بچوں نے والد اوردادا سے بات کی کہ آپ بزرگ ہیں ، کمزور ہیں ، صاحب فراش ہیں ۔ہمیں جہاد کے لیے جانے دیں ،دونوں بزرگوں کے بچے اپنے اپنے گھروں میں اس موضوع پر بالکل ایک جیسا بحث مباحثہ کر رہے تھے اور ان دونوں کو ایک دوسرے کے بارے میں کوئی علم نہ تھا لیکن دونوں بیک وقت رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کے پاس پہنچ گئے اور اپنے بچوں اور جوانوں کے بارے میں شکایت کی۔ہر ایک الگ الگ کہہ رہا تھا”میرے بچے اور پوتے مجھے جہاد کے لیے نہیں جانے دیتے کہ میں شہادت حاصل کروں اور اپنی جان کو آپ کی خاطر قربان کر دوں ۔“رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے بھی ان کے جذبات کومعمول پر لانے کی کوشش کی لیکن ان کی نظریں صرف اور صرف جنت پر لگی تھیں ۔بالآخر رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے ان کے اصرار پران کی بات مان لی۔اس طرح دونوں بزرگ جہاد میں شریک ہوئے۔اور ابدی جنتوں میں داخل ہوگئے۔رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا۔ میں عمرو بن جموح کو دیکھ رہا ہوں کہ جنت میں کھیل کود رہے ہیں ۔ جنگ کے بعد دونوں بوڑھے بالکل اکٹھے زمین پر پائے گئے۔
ہاں عمرو بن جموح اور سعد بن خیثمہ اللہ کے راستے میں قربان ہو گئے۔ ان کی سچی شہادت پر خود باری تعالیٰ،سیدالمرسلین اور ملائکہ کرام گواہ ہیں کہ ان دونوں کو جنت مل گئی۔ باقی لوگ جو ابھی تک دنیا میں موجود ہیں لیکن بالکل انہیں جیسے جذبات کے ساتھ زندہ ہیں کہ کب اللہ کے راستے میں موت ملے اور کب شہید ہو جائیں ۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں جنت کی رغبت اورموت سے محبت انہی کے اندر پیدا ہوتی ہے جو عرفان کے درجے کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور اہل عرفان کی پیروی کرتے ہیں ۔یہاں کی سسکیاں اور آہیں وہاں کی خوشی اور سرورمیں بدل جاتی ہے۔ یہاں کی بے چینی اور تشویش وہاں کی ابدی لذتوں اور اطمینان میں بدل جاتی ہیں ۔انسان کو یہ شعور بطریق احسن اجاگر کر لینا چاہیے اور اپنے آپ کو ان حقائق پر کاربند کرنا چاہیے۔ماضی میں گزرے ہوئے حقائق کا کھوج لگانا ہمارے لیے مفید رہے گا۔اسلام کی عظیم دعوت اپنے آغاز سے ہمارے اندر اسی شعور کو بیدار کر رہی ہے۔
ہمارے اسلاف بھی تو انسان تھے اور ہماری طرح انہیں بھی اپنی زندگی عزیز تھی لیکن اللہ کے دین کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرنا ان کو گھٹی میں پلادیا گیا تھا۔وہ بڑی رغبت،کشش،جذبے اور شوق سے جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔اس لیے کہ وہ ایک اور حقیقت سے واقف ہو چکے تھے جس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ عرفان کے درجے کو پہنچ چکے تھے۔قرآن کریم ہمارے اندر وہی عرفان پیدا کرنا چاہتا ہے اور ہمیں باور کراتاہے کہ ان مجاہدین کی طرح ثابت قدمی پیدا کرنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ان کی مکمل اقتداءکی جائے۔جیسا انہوں نے جہاد کیا تھا اسی طرح جہاد کیا جائے اور یہ یقین کر لیا جائے کہ وہ مردہ نہیں ہیں بلکہ زندہ ہیں ۔اپنے رب کے ہا ں ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس کا ہم شعور نہیں رکھتے۔بلکہ صرف وہی شخص اس کو سمجھ سکتاہے جو وہ مرتبہ پا گیا۔
- Created on .