حَرام بن ملحان (رضی اللہ عنہ)
میں نہیں جانتاکہ کوئی ایسا بھی ہے جو بئرمعونہ کی داستان شجاعت سے ناواقف ہو۔ رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے انصار قراءکی ایک جماعت کو قبیلہ عمروبن طفیل کی خواہش پر ان کو دعوت وتبلیغ کے لئے بھیجا۔اس جماعت میں حرامؓ بن ملحان بھی تھے۔ وہ حضرت انسؓ کے ماموں اور ام سلیمؓ کے سگے بھائی تھے۔ان کا شمار بھی ایسے عقیدت مندوں میں ہوتا ہے جو دیوانگی کی حد تک رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) سے محبت کرتے تھے۔جب یہ قافلہ بنو عمرو بن طفیل کے علاقے میں داخل ہوا تو انہوں نے باقی لوگوں سے کہاتم یہاں ٹھہرو میں آگے جاتا ہوں ۔اگر انہوں نے خاموشی سے میری بات سنی توتم لوگ بھی آجانا۔ اگر ان کا ارادہ خطرناک ہو اتو مجھے نقصان پہنچائیں گے لیکن تم بچ کر واپس چلے جاﺅ گے۔تمام قافلے والے اس رائے سے متفق ہو گئے۔ جب حرام بن ملحان قبیلہ والوں کے پاس پہنچے تو تمام لوگوں نے یہ ظاہر کیاکہ وہ خوش ہیں اور باتیں سن رہے ہیں ۔لیکن جب آپ نے دینِ حق کی تبلیغ کی اور دینی امور کی وضاحت کرنے لگے تو ان لوگوں نے حرام بن ملحان کو اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیا۔ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ان کو ایک خون آلودگہرے کھڈ میں پھینک دیا۔حالانکہ شہید ہونے کے بعدوہ تو اللہ کی ابدی نعمتوں میں پہنچ چکے تھے۔جیسا کہ تمام شہداءکو اللہ تعالیٰ اپنے نور میں داخل کر دیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فَکَشَفنَا عَنکَ غِطَآئَکَ فَبَصَرُکَ الیَومَ حَدِید۔ (ق: ۲۲)
”ہم نے وہ پردہ ہٹا دیاجو تیرے آگے پڑا ہوا تھااور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔“
اس لیے ان کی آنکھیں تو جنات نعیم کو دیکھ رہی تھیں ۔انہوں نے شہید ہوتے وقت فرمایا تھا۔اللہ اکبر۔رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ادھر کفار نے نہ صرف انہیں قتل کردیابلکہ تمام ۸۰ صحابہ جو ساتھ تھے سب کو ایک ایک کر کے شہید کر دیا۔اس وقت نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) مسجد میں صحابہ کے درمیان موجود تھے۔تو اس واقعہ پر آنکھیں برس پڑیں ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کو اس طرح بیا ن کرتے ہیں کہ کچھ لوگ نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: ہمارے ساتھ اپنے کچھ ساتھی بھیج دیں تاکہ وہ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیم دیں ۔آپ نے ان کے ساتھ ۷۰ آدمی بھیج دیے جو سب انصار میں سے تھے۔ان کو قاری کہا جاتا تھااور ان مبلغین میں میرے ماموں حرام بھی تھے۔یہ لوگ راتوں کو قرآن کریم پڑھتے پڑھاتے تھے اور دن کو مسجد کے لئے پانی لاتے اور لکڑیا ں اکٹھی کرکے بازار میں فروخت کرتے اور اس رقم سے اہل صفہ کے فقراءکے لئے کھانا خرید لیتے ۔ان لوگوں کو رسول اللہ نے اس ظالم قبیلہ کی طرف دعوت دین کے لئے بھیجا لیکن ان لوگو ں نے اصل جگہ پہنچنے سے پہلے ہی انہیں قتل کردیا۔ان صحابہ کرام نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمارے نبی کے سامنے ہماری حالت بیان کر دینا کہ ہم تجھ سے مل چکے ہیں اور تجھ سے راضی ہو گئے ہیں اور تو بھی ہم سے راضی ہو گیاہے۔ہوا یہ کہ ایک آدمی میرے ماموں کے پیچھے سے چھپ کر آیااور اس نے نیزے سے بھرپور وار کر کے ماموں کو شدید ضرب لگائی۔ماموں نے کہا رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) نے اس موقع پر مدینہ منورہ میں صحابہ کرام کو بتایاکہ تمہارے بھائی قتل کیے جاچکے ہیں ۔اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمارے نبی کے سامنے ہماری حالت بیان کر دے کہ ہم تجھ سے مل چکے ہیں اور تجھ سے راضی ہیں اور تو بھی ہم سے راضی ہے۔اس کے بعد رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے ہر روزنماز میں قنوت نازلہ پڑھنا شروع کر دی اور ان قاتلوں کے خلاف بددعا کرتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے کر بددعا کرنے سے روک دیا کہ:
” لَیسَ لَکَ مِنَ الاَمرِ شَیء ۔ “(آل عمران: ۱۲۸)
”فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے۔“
اس معاملہ سے آپ کا تعلق نہیں ہے۔یعنی ان لوگوں کا معاملہ اللہ کے پاس ہے۔
وہی ہے جس نے تم میں سے بعض کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کیا۔اور انہیں انعام و اکرام سے نوازا۔اور کافروں کو جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رکھے گا۔اللہ تعالیٰ مہلت دیتاہے، لیکن انہیں چھوڑے گا نہیں ۔وہ کافروں کو مہلت دیتا ہے لیکن جب اس کی پکڑ آن پہنچے گی تو یہ کافر بچ نہیں سکیں گے۔کتنے ہی سر کش گزرے ہیں جن کو اللہ نے غارت کیا،کتنے ہی ہیں جن کی شدید پکڑ ہوئی کتنے ہی فرعون گزرے ہیں جنہیں محلوں سے اللہ نے زمین پر دے مارا،کئی ظالم ایسے گزرے ہیں جن کو غرق کر دیا،کئی جابر گزرے ہیں کہ اللہ نے آسمان سے ان پر پتھر برسائے،کتنے ہی نافرمان گزرے ہیں جن کو اللہ نے آگ میں بھسم کر دیا۔اگر ان میں سے کوئی بچا بھی تووہ بھی دنیا والوں کے لئے عبرت بن کر رہ گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ مہلت تو دیتا ہے،لیکن بالکل چھوڑ نہیں دیتا۔اللہ بڑا حلیم اور بردبار ہے لیکن اس کا عذاب بھی شدید ہے۔جن ظالموں نے بئر معونہ میں معصوم مسلمانوں کو تہِ تیغ کیا۔سب کے سب جہنم کا ایندھن بنے سوائے ان کے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا۔البتہ جو لوگ وہا ں ناحق مارے گئے ان کا ٹھکانہ نعمتوں بھری جنت ہے۔اگر یہ عزت واکرام نہیں ہے تو اور کیا ہے۔
- Created on .