جہاددنیا پر حکمرانی کا ذریعہ
مومن کے ہاتھ میں ایسا دستور دے دیا گیا ہے جس کے آگے سے باطل آسکتا ہے نہ پیچھے سے اور یہ دستور اسے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔یہی عزت و شرف اور سرداری کا سرچشمہ ہے۔اس کے علاوہ مومن کے پاس بہترین نمونہ زندگی سید المرسلین (صلى الله عليه و سلم) کی سیرت کی صورت میں موجود ہے۔مومن اس دستوری کتاب اور رسول کریم کی وجہ سے پوری سر زمین میں وہ واحد ذات ہے جس کو بہت بڑی خیر مل گئی ہے اور مومن ہی اس سر زمین پر حکمرانی کا سب سے پہلا امیدوار ہے۔قرآن کریم خود مومن کو یہ سکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس نتیجہ کا منتظر ہے۔
مسلمان ہمیشہ کہتا ہے” اللہ میرا رب ہے ،محمد (صلى الله عليه و سلم)یرا رسول ہے ،قرآن میری کتاب ہے،جہاد فی سبیل اللہ میری سب سے بڑی خواہش ہے۔“ اس عبارت کو بار بار دہرانے سے مومن کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ مجھے چاہیے کہ امت مسلمہ کے ذریعہ اس دنیا میں ایک توازن اور اعتدال پیدا کروں ۔اگر دنیا کی قوموں کے فیصلے کرتے ہوئے میری بات نہ سنی گئی تو اس دنیا میں بد ترین مظالم ہوں گے۔عزت داروں کو ذلیل کیا جائے گا۔کمینوں کو عزت دار بنایا جائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ فیصلہ میری طرف سے صادر ہو اور میں عنصر توازن بن سکوں ۔ دیگر اقوام کو چاہیے کہ اپنی کانفرسوں میں میری انگلی کے اشارے کاانتظار کریں ،میری بات کو ادھر ادھر سے آنیوالی باتوں پر ترجیح دی جائے۔
کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے میری رائے ضرور لی جائے۔ اگر مومن کی سوچ میں یہ فکر اور شعور پیدا ہوجائے تو استعماری طاقتیں ناکام ہو جائیں اور کوئی مسلمانوں کے خلاف پابندیوں کا سوچ بھی نہ سکے۔اللہ تعالیٰ درج ذیل آیت کریمہ میں مومن سے اسی بات کا تقاضا کرتا ہے:
وَ لَقَد کَتَبنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ اَنَّ الاَرضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُونَ ۔ (الانبیاء: ۱۰۵)
”اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔“
ذکر سے مراد نصیحت ہے لیکن یہاں ذکر بمعنی تورات یا لوحِ محفوظ ہے۔اس معنی کی مناسبت سے اس آیت کی تشریح اس طرح ہو گی: اللہ نے لوح محفوظ میں جو لکھا تھا اس کے بعد لوح محفوظ سے انبیاءپر بھیجی جانے والی کتابوں میں یہی لکھا کہ اللہ کے نیک بندے ہی زمین کے حقیقی وارث ہیں ۔اور وہی ہمیشہ اس زمین پر وراثت کا حق رکھتے ہیں جبکہ دیگر لوگوں کی حکمرانی تو محض عارضی اور جز وقتی ہے۔دائمی حکومت کی تجدید مسلسل ہوتی رہتی ہے اور یہی صالحین کی حاکمیت ہے۔جو صالح لوگوں ، نیک معاشروں اور بہترافراد سے تشکیل پاتی ہے۔لوح محفوظ میں یہ قانون لکھ دیا گیا پھر وہاں سے زبور میں نقل ہوا۔یعنی اس زبور میں جو داﺅد (علیہ سلام) پر نازل ہوئی اوروہ تحریف شدہ نہیں تھی۔
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے نظام رائج ہیں جو اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں ۔کبھی فرعون کی حکومت ہوتی ہے کبھی جابر بادشاہوں کی ،لیکن یہ حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں کچھ عرصہ کے بعد ختم ہوجاتی ہیں ۔
لوح محفوظ یا تو رات و زبور میں موجود قانون کی مخالفت اس سے بالکل نہیں ہوتی کیونکہ آسمانی کتابوں میں موجود وراثت دائمی اور مسلسل ہے۔یہ حکومت طویل مدت کے لیے مومنین کی میراث ہے۔جہاں تک غیر اسلامی حکومتوں اور طاغوتی حکمرانوں کا ظہور ہے تو یہ وقفہ وقفہ سے ہوتارہتا ہے۔اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ سوئے ہوئے مسلمان کو جگایا جائے اور انہیں یاددہانی کروائی جائے تاکہ وہ تفرقہ بازی ختم کر کے آپس میں شیر و شکر ہو جائیں ۔قرآن و زبور میں موجود قانون الٰہی تو اللہ نے بنایا ہے۔اس میں تبدیلی کی جرات کوئی نہیں کر سکتا۔
زمین میں حکمران نامزد کرنے اور بنانے والے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے زمانے کے بہترین اخلاق کے مالک ہوتے ہیں ۔یہاں اخلاق سے مراد یہ نہیں کہ ایسے لوگ ہوں کہ جو دن میں چار پانچ مرتبہ مسجد آئیں جائیں وغیرہ وغیرہ۔بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں وہ صفات و خصوصیات ہوں جو نبی اکرم (صلى الله عليه و سلم) کے اندرتھیں ۔اور زندگی کے تمام پہلوﺅں میں اسلام کونافذ کرنا چاہتے ہوں ۔ نبوی اخلاق سے انسان کے اندر اشیاءحوادث کو پہنچاننے کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ انسان اور کائنات کے تعلق کو سمجھ سکتا ہے۔اور پھر انہی اخلاق فاضلہ میں انفس وآفاق میں اعتدال وتوازن کی ضمانت بھی ہے۔یعنی یہ کہ زمین کی تہہ پر موجود صالح انسان ہی دائمی زندگی کا ادراک کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔
حاکمیت یا حکمرانی کا یہ وسیع مفہوم وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جو دنیا میں انارکی و انتہا پسندی کو رواج دے رہے ہیں ۔اور ایک کے بعد دوسرا جرم ثواب سمجھ کر کرتے ہیں ۔امت کے سادہ لوح انسانوں اور خاص طور پر نوجوانوں کو غلط راہ پر لگاتے ہیں ۔رائے عامہ کو اپنے حق میں لانے کے لیے سیاسی مسائل،سیاسی نعرہ بازی اور شدت پسندی پر عمل کرتے ہیں ۔لوگوں کے اذہان اور قلوب کے ساتھ کھیلتے ہوئے مشاورت کی صفت سے انہیں بہت دور لے جاتے ہیں ۔اس قسم کے لوگ اللہ کومطلوب حکمرانی قائم نہیں کر سکتے۔اور جب اسلام کا حقیقی سورج طلوع ہو گاتو یہ لوگ اپنی غفلت سے بیدار ہوں گے۔اور اپنے کیے پر خود ہی نادم ہوں گے کہ ہم کونسی شیطانی چال میں پھنس چکے تھے۔تب ان کو اپنی غلطی کا پتہ چلے گا۔
جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے با عزت پیداکیا ہے ایک نہ ایک دن سیدھا راستہ پا لے گا۔اگر یہ بات درست نہیں ہے تو نعوذباللہ قانون ِخداوندی غلط ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ قانون خداوندی تبدیل نہیں ہو تا۔
” لَا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّٰہِ۔“ (الروم: ۳۰)
”اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی۔“
ہاں یہ بات درست ہے کہ اللہ کا ایک اور قانون بھی ہے وہ یہ کہ
” اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَومٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنفُسِھِم “ (الرعد:۱۱)
”بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ خود اپنی حالت بدل لے۔“
یعنی اللہ تعالیٰ کسی باعزت قوم کو جس کے سر پر تاج ہو کبھی ذلت و رسوائی میں نہیں ڈالتا۔ ہاں اگر قوم نے خود اپنے آپ کو ذلت میں ڈال دیا تو یہ اس کا قصور ہے۔یہ قانون الٰہی مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں نافذ ہوتا ہے۔اس لیے اپنے آپ کو درست کرنا اپنے نفس کی حفاظت اور اس کو پہچاننا اور اپنے باطن کو درست کرنا ضروری ہے۔یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسے فاتح کہا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ پہلے اپنے نفس کے قلعہ کو فتح کرے اور جو اپنے نفس کے قلعہ کو فتح کرنے سے قاصر ہواس کے لیے بیرونی قلعہ فتح کرنا ممکن نہیں ہے۔
روس کے ایک جنونی متعصب مفکر نے اہل روس کے لیے ایک مثالی منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبہ کو آنے والے سربراہان نے بڑی اہمیت بھی دی۔اسکی اس منصوبہ بندی کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بلقان کی حدود سے بھی آگے نکل جاﺅ،عثمانیوں کی پیش قدمی کو روک دو اور ان کے راستے کاٹ دو۔ان کی صفوں میں تفرقہ ،فتنہ اور دشمنی ڈال دو۔گرم پانیوں تک پہنچو،افریقہ اور خلیج بصرہ کے ممالک پر قبضہ کر لو۔عالم اسلام میں یورپ کو گھسنے کا موقع نہ دو کہ وہ وہاں سے تمہارے خلاف کارروائی کر سکیں ۔بات چیت میں بھی ان کو اس طرف نہ آنے دو۔
اس وصیت پر مسلسل عمل ہو رہا ہے بلکہ دور حاضرمیں روس نے اس وصیت پر زیادہ سختی سے عمل شروع کر دیا ہے۔ کیمونسٹوں اور اشتراکیوں نے اپنی حکومت کا مقصد ہی اسی منصوبہ کو قرار دے دیا ہے۔
نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) نے مومنین کو وصیت کی تھی کہ دین اسلام کی دعوت کوچہار دانگ عالم میں پھیلا دو۔یہی سب سے بڑا ہدف ہے تاکہ انسان کی ساری زندگی میں اسلام کی سیادت قائم ہو سکے۔اس عظیم امانت کی پاسداری کرنا، خود بھی اس پر عمل کرنا اوردنیا میں اس دعوت کو عام کرنا،ہمارے اوپر قرض ہے۔ہمیں اس قرض کی ادائیگی کر نا ہے۔
اس لیے مومن تو اپنے ہی مقصد کے لیے زندگی گزارتا ہے۔اس کی زندگی کا مقصد دعوت دین ہے۔اس دعوت کو پہنچانے کے لیے وہ گرم سمندروں تک بھی جاتا ہے اور سرد سمندروں تک بھی۔ اپنی دینی قوت وحمیت اور اسلام کی حاکمیت کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں جاتا ہے چاہے اسے سائبیریا کے جمے ہوئے سمندروں میں جانا پڑے یا جنوبی امریکہ کے غیر معروف علاقوں میں یا شمالی امریکہ کے صحراﺅں میں ۔اس دین کے غلبہ اور پھیلاﺅ کے لیے اس کو حرکت میں رہنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ مسلمان کافروں کی غلامی میں زندگی بسر کریں ۔
”وَ لَن یَّجعَلَ اللّٰہُ لِلکٰفِرِینَ عَلَی المُومِنِینَ سَبِیلًا۔“(النساء: ۱۴۱)
”اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے مومنوں پر غالب آنے کی ہر گز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔“
اگرمسلمان کافروں کے غلبہ میں بخوشی زندگی گزارتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام اور ایمان کی روح اس کے اندر سے نکل گئی ہے۔اس طرح تو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں رہتا۔یعنی ذلت، اہانت،بدبختی اور پستی کی زندگی گزارے گا۔ پھر آخرت میں بھی رسوائی اور ذلت کا سامنا کرے گا۔مومن کے شعور میں یہ بات راسخ ہونی چاہیے اور اسے ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے کہ پوری دنیا پر اس کی حکمرانی قائم ہو۔
ایک زمانہ تھا کہ ہم پوری دنیا پر حکمرانی کرتے تھے۔اس لیے اگر ماضی میں ایسا ہوا تو مستقبل میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم پیہم و مسلسل جدوجہد کریں اور پوری طاقت مجتمع کر کے اس کام پر لگا دیں ۔کم ازکم با ہمت اور دلیر لوگوں کو اس کام پر ابھاریں تاکہ حکمرانی کا منصب حاصل کرنے کے لیے ضروری اہداف طے کر لیں ۔
ا۔ موسیٰ علیہ السلام او ر ان سے پہلے لوگوں کی حکمرانی
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے حاکمیت کا ہدف حاصل کر لیا تھا اور بنی اسرائیل میں سے جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے انہیں فرعون سے بچا لیا تھا۔آپ خو د ان کی تعلیم و تربیت کرتے رہے لیکن حکومت حاصل کرنے کے باوجود وہ طبقہ حکمرانی کا اہل ثابت نہ ہواکیونکہ ان کی آنکھیں تھیں مگر دیکھتے نہ تھے۔ انکے کان تھے مگرقوت سماعت سے خالی تھے حالانکہ رسول اللہ موسیٰ علیہ السلام وہ عظیم پیغمبر تھے جنہوں نے طور سینا میں خود اپنے رب کی تجلیات کا مظاہرہ دیکھا۔قرآن کریم اس نااہل طبقہ پر یوں تبصرہ کرتا ہے۔
”قَالُوا یٰمُوسٰی اِنَّا لَن نَّدخُلَھَآ اَبَدًا مَّا دَامُوا فِیھَا فَاذھَب اَنتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُونَ۔“(المائدہ:۲۴)
لیکن انہوں نے پھر یہی کہاکہ:”اے موسٰی(علیہ سلام) ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں ۔بس تم اور تمہارارب، دونوں جاﺅاور لڑو،ہم یہیں بیٹھے ہیں ۔“
اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ اولوالعزم رسول کو اسکی قوم کس انداز میں مخاطب کر رہی ہے۔بنی اسرائیل نے تو اسی زمین پر پرورش پائی اور وہیں پروان چڑھے جس پر حکومت کا ان سے وعدہ بھی کیا گیالیکن جب عین حکومت کا وقت آیا تو انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی،کسی قربانی کے لئے تیار نہ ہوئے۔اگر جہاد کرتے تو ان کو ہدف حاصل ہو جاتا لیکن وہ زمین سے چمٹے رہے۔آرام و سکوں کو ترجیح دی۔وہ تو اپنے گھروں سے باہر نکلنے تک کا ارادہ نہ رکھتے تھے۔ہر قسم کے جہاداور جدوجہد سے دور بھاگتے تھے،پیسہ نکالناانکے لیے ناممکن تھا۔نہ تو جان سے جہاد کرتے تھے نہ مال سے۔اس حال میں موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی نا اہلی کی وجہ سے اپنے رب جلیل کے سامنے عاجزی بھرے انداز میں التماس کیاکرتے تھے۔
” قَالَ رَبِّ اِنِّّی لَآ اَملِکُ اِلَّا نَفسِی وَ اَخِی فَافرُق بَینَنَا وَ بَینَ القَومِ الفٰسِقِینَ۔“(المائدہ: ۲۵)
اس پر موسیٰ علیہ السلام نے کہا:”اے میرے رب،میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر یا میری اپنی ذات یا میرابھائی،پس تو ہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کر دے۔“
گویا وہ کہہ رہے ہیں میں تنگ آ گیا ہوں ، مایوس ہوگیا ہوں ،یہ لوگ مردہ دل ہیں ان میں جہاد نام کی کوئی چیز نہیں ،یہ تو آرام کرنے اور گھر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔عزت اورغیرت نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ۔ اے اللہ میں تیری ہی بارگاہ میں التجا کرتا ہوں ۔ہمارے اور ان فاسقوں کے درمیان دوری پیداکر دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحرائے تیہ میں ڈال دیا۔جہاں وہ چالیس برس تک ذلت و خواری میں پڑے رہے۔
موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی جو نبی آئے ان کے ساتھ بھی بنی اسرائیل نے ایسے ہی کیا۔مثلاً یوشع بن نون اور داﺅد (علیہ سلام) کے ساتھ بھی حالا ت ایسے ہی رہے۔
داﺅد علیہ السلام طالوت کی فوج میں جالوت کے ساتھ جنگ میں بطور سپاہی شریک تھے۔ان کا جالوت سے مقابلہ ہوااور انہوں نے جالوت کو میدانِ جنگ میں قتل کر دیا۔اس طرح کے مثبت نتائج کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ طالوت کی فوج کے بہت بڑے حصے نے میدان جنگ میں جانے کی بجائے پسپائی اختیار کر لی۔اللہ تعالیٰ نے ان کی حکایت اس طرح بیان کی ہے:
قَالُوا لَا طَاقۃَ لَنَا الیَومَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِہ ۔ (البقرہ :۲۴۹)
” کہنے لگے آج ہم جالوت اور اسکی فوج کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔“
بہت کم تعداد ایسے ایمان والوں کی تھی جو حق پر ڈٹے ہوئے کہہ رہے تھے:
کَم مِّن فِئَۃٍ قَلِیلَۃٍ غَلَبَت فِئَۃً کَثِیرَةً بِاِذنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِینَ ۔ (البقرہ: ۲۴۹)
”بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیاہے۔اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔“
قلیل گروہ زندگی کی عارضی لذتوں کو حقیر جانتے ہوئے موت کی طرف بڑھے تواللہ تعالیٰ نے ان کے دعویٰ کو سچ کر دکھایا۔اور جالوت کے گروہ کو شکست سے دوچار کر دیا۔عمالقہ کو انہوں نے پیچھے دھکیل دیا اور بنی اسرائیل کی بیت المقدس میں داخل ہونے کی تمنا پوری ہوئی۔
ب۔امت محمدی میں زمین پرحکمرانی کا مفہوم اور اس کا حدود اربعہ
اگر ہم سیرت مصطفی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو تا ہے کہ آپ (صلى الله عليه و سلم) نے صحابہ کرام کے اندراس ہدف کو حاصل کرنے کی تڑپ پیدا کر دی تھی اور وہ ہدف اور مقصد حاکمیت الٰہی تھا۔اس کی مثالیں ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں اس کے ذریعے انسان کی ذاتی زندگی دینی زندگی سے پہلے تربیت پاتی ہے اور پورا معاشرہ ایک رنگ میں رنگا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ہدف کے لئے عمل کرنے کی وجہ سے صحابہ کرام کے سامنے ساری دنیا کے دروازے کھول دیے اور عزت و غلبہ عطا فرمایا۔رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم)کا پیغام رسالت ہی یہی ہے اور اللہ نے آپ (صلى الله عليه و سلم) کو قرآن دے کر اسی لیے بھیجا تاکہ اس نظام زندگی کو تمام نظاموں پر غالب کر دے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ہُوَ الَّذِیٓ اَرسَلَ رَسُولَہ بِالہُدٰی وَدِینِ الحَقِّ لِیُظہِرَہ عَلَی الدِّینِ کُلِّہ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیدًا ۔
(الفتح:۲۸)
”وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے آپ سے فتح مکہ کا وعدہ کیااور اللہ تعالیٰ اپنے وعد ہ کے خلاف نہیں کرتااور مکہ فتح ہو گیا۔اسی طرح اس آیت کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلى الله عليه و سلم)کے لیے ساری دنیا کو زیر کر دے گا لیکن جب اس کا وقت آئے گا۔یہ اللہ کا وعدہ ہے۔اس دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ دلوں پر اسلام کی حکومت ہو گی۔اللہ کا کلمہ سر بلند ہو گا۔یہ نظام پوری انسانیت کو امن سکون اور استحکام سے بھر دے گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ دین دے کر بھیجا ہے۔اس کے نور سے پوری دنیا روشن ہو گی۔اور اس کی ہدایت سے تمام خرابیوں کی اصلاح ہو گی۔ ایک شاعر یحییٰ کمال اس احساس کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ۔
الاجل لم یمھل السلطان العظیم
”موت نے سلطان عظیم کو مہلت نہ دی۔“
لکان فتح العالم للمجدوالشان المحمدی
”ورنہ وہ دنیا میں عزت اور شان محمدی کے دروازے کھول دیتا ۔“
تغرق الارض فی انوار الوف المنائر
”زمین ہزاروں میناروں کی روشنیوں میں ڈوب جاتی۔“
کلما فتح جناحاہ بالروح و الریحان المحمدی
”جب بھی روحِ محمدی کی حَسین مہک سے اس کے پر کھلتے۔“
اب وہ شخص جو اپنے اندر اس شوق و جہد کی آگ بھڑکا لے اس کی زندگی کا اہم مقصد اور اصل ہدف بھی جہاد فی سبیل اللہ بن جائے گا۔بلکہ وہ اللہ کے راستے میں موت کو ایک عظیم نعمت تصور کرے گا۔یعنی اگر فنا نہ ہو تو بقا بھی نہیں ہے کیونکہ بقا کی جانب جانے والا راستہ فنا سے ہی گزرتا ہے۔رات کے بعد دن اور سرما کے بعد بہار آتی ہے۔جس کی زندگی میں رات اور سرمانہ ہو اس کے لئے دن اور بہار کا آنا بھی محال ہے۔
ہم اس انتظار میں ہیں کہ ہماری امت کے لیے بھی دن کی روشنی پھوٹے۔تم راتوں کو قیام کرو مشکل حالات سے مقابلے کی تیاری کرو۔خون کے دریا کو عبور کرو۔اپنی پشت پر احد پہاڑ جیسا (ترکی کایک قصبہ)دفاعی حصارقائم کرو۔پھر تمہیں فتح مکہ کی طرح اور چالدران(ترکی کاایک قصبہ) کی فتح کی نوید بھی سنائی دے گی۔گھمبیر سرما کی سیاہ راتیں ختم ہوں گی۔ہزاروں قسم کی تکالیف برداشت کرنے اور ہزاروں زخم سہہ جانے کے بعدظلم کی سیا ہ رات ختم ہو گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی خوشی تکلیف کے بعد ہی آتی ہے۔جسے بچہ حاصل کرنے کا شوق ہوتا ہے درد زہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔اس لیے جو بچوں کے لیے دل میں محبت اور کشش رکھتے ہیں درد زہ جیسی سخت تکلیف کو بخوشی برداشت کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے دین کی سر بلند ی کا وعدہ فرمایا ہے۔اس دین پر چلنے والے بالآخر غالب آئیں گے۔شرط یہ ہے کہ انہوں نے دین پر مکمل عمل کیا ہو۔اللہ کا دین غالب آکر رہے گا۔اگر اس ملک میں نہ آیا تو کسی دوسر ے ملک میں اللہ تعالیٰ اسے غالب کر ے گا۔اس لیے کہ اللہ کاوعدہ پکا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ پورے عزم و استقامت اور اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے جہاد کریں اور اس دنیا کو فتنوں اور فسادوں سے پاک کردیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
” وَقٰتِلُوھُم حَتّٰی لَا تَکُونَ فِتنَۃ وَّ یَکُونَ الدِّینُ لِلّٰہِ ۔ “(البقرہ:۱۹۳)
”اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔“
یعنی اس وقت تک جہاد وقتال کرتے رہو جب تک کہ زمین سے فتنہ وفساد،مشکلات و مسائل اور بدامنی ختم نہ ہو جائے۔اور انسان دنیوی و اُخروی سکون و خوش بختی حاصل نہ کر لے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک فتنہ ختم نہیں ہو گا جب تک کہ ساری دنیا میں اسلام اور سلامتی قائم نہ ہو جائے اور بنی نوع انسان پر سکون زندگی نہ گزارنے لگ جائے۔
رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے صحابہ کرام کے دلوں میں یہ نورانی احساس پیدا کر دیا تھا۔ہم ذرا اس سر زمین پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جو رسول اللہ اور صحابہ کرام کی نورانی مشعلوں سے روشن ہوئی تھی۔
خلافت عثمانی کو ابھی پانچ برس نہ گزرے تھے کہ مسلمان شمالی افریقہ کے اکثر علاقے پر اسلامی علم لہرا چکے تھے۔ادھر اسلامی لشکروں نے بحرِ خزر اور طبرستان تک فتح کر لیا تھا۔اس کے علاوہ ماوراءالنہر یعنی دیوار چین تک کا علاقہ اسلامی خلافت میں داخل ہو چکا تھا۔
یعنی اتنے کم عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کوہمارے ترکی جیسے پچاس ممالک کے برابر سر زمین کا مالک بنا دیاتھا۔
اگر تم لوگ بھی صحابہ کی طرح موت کو ہنس کر گلے سے لگانے کا جذبہ پیداکرو، اس فانی دنیا کے پیچھے نہ پڑو، اس کو حقیر سمجھو، اپنی راحت و آرام کو دینی خدمت پر قربان کرو، زندگی اسی کو سمجھو جسے دین زندگی سمجھتا ہے اور ہر شخص تہیہ کر لے کہ جب تک اسلام غالب نہیں آجاتااس وقت تک میں جدوجہد کرتا رہوں گااور اس راستے میں موت کو ترجیح دوں گا بجائے اس کے کہ میں زندہ رہوں اور دین کی حفاظت نہ کروں ، تب اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر بھی اسی طرح فضل کرے گااور تمہیں بھی اپنی زمین کا مالک اور حکمران بنائے گا۔
جو گروہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں پر اسلامی پرچم لہرانے کا بیڑا اٹھاتاہے اور ہر مشکل گھڑی میں اس کی خاطر صبر کرتا ہے، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام غالب کرنے کی سعی کرتا ہے، ایک روز وہ آسمان پر بھی پرچم الٰہی لہرانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوگا۔تب اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں اور کرم کی بارش کرے گااور اللہ اسے جہانوں کی حکمرانی نصیب کرے گا۔ان پاکیزہ روحوں کو تیا رکرنے سے ہی دنیا میں اسلام کی حاکمیت قائم ہوگی۔
- Created on .