اللہ والے حاکمیت کے اہل ہیں
جہاد آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور بعد میں آنے والے انبیاءنے اسے اپنے اپنے عہد میں جاری رکھا تاریخ کے ہر دور میں بڑی تعداد میں اللہ والوں نے اس جہاد کو جاری رکھا جن میں سے بعض کے نام ہم نے سن رکھے ہیں اور بعض کو ہم نہیں جانتے ۔ قرآن کریم اس آیت میں ہمیں یہی حقیقت بتاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ۔
وَ کَاَیِّن مِّن نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہ رِبِّیُّونَ کَثِیر فَمَا وَ ھَنُوا لِمَآ اَصَابَھُم فِی سَبِیلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوا وَ مَا اسَکَانُوا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِینَ o وَ مَا کَانَ قَولَھُم اِلَّآ اَن قَالُوا رَبَّنَا اغفِرلَنَا ذُنُوبَنَا وَ اِسرَافَنَا فِیٓ اَمرِنَا وَ ثَبِّت اَقدَامَنَا وَ انصُرنَا عَلَی القَومِ الکٰفِرِینَo فَاٰتٰھُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنیَا وَ حُسنَ ثَوَابِ الاٰخِرَةِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ المُحسِنِینَ o۔ (آل عمران ۱۴۶۔۱۴۸)
”اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزرچکے ہیں ،جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے،انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی،وہ باطل کے آگے سر نگوں نہیں ہوئے۔ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ان کی دعا بس یہ تھی کہ:”اے ہمارے رب، ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہوگیاہو اسے معاف کر دے،ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔آخر کار اللہ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیااور اس سے بہتر ثواب آخرت بھی عطا کیا۔اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں ۔“
یہ آیات کریمہ ایسے اللہ والوں کا تذکرہ کرتی ہیں جو اس دنیوی زندگی کی فانی لذتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور دن رات اپنے رب کی رضا حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ہر اچھی اور قیمتی چیز اس کے راستے میں خرچ کر دیتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو اور اپنی جانوں کو بھی اللہ کی نذر کردیتے ہیں ۔ ہمیشہ حق کا اظہار کر تے ہیں ، ان کی زبانیں ذکر الٰہی سے تر رہتی ہیں ۔یہی لوگ ہیں جن کا اپنے رب سے گہرا تعلق ہے، پورے قلبی لگاﺅ کے ساتھ جہاد کرتے ہیں ۔اللہ والوں کاجہاد تو ایسے ہوتا ہے کہ جب وہ اللہ کے راستے میں نکلتے ہیں تو موت سے ڈرتے ہیں ، جہاد کی تکالیف ان کے پائے استقامت کو لرزش دے سکتی ہے نہ ہی کمزوری دکھاتے ہیں ۔جہاد کے سوا کسی اور چیز کو ترجیح نہیں دیتے۔اگر آسمان پھٹ جائے یا زمین ان کو نگل جائے یا ان کے سروں پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں ، وہ اپنے راستے پر رواں دواں رہتے ہیں ۔کسی قسم کی آزمائش ان کے عزم، حوصلے اور پیش قدمی کے آگے رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔اس لیے کہ وہ حق پر چلنے کے لئے اپنے قلب و روح کو تیار کر چکے ہیں ۔ایسے ہی لوگ صبر وا ستقامت کے پہاڑ ہوتے ہیں ۔صبر ان کی طبیعت اورفطرت میں نہ صرف راسخ ہو چکا ہوتا ہے بلکہ شوق کی حد تک پایا جاتا ہے۔اسی شوق و جذبہ کے ذریعے اللہ کی رحمت ان پر سایہ فگن ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
دوسری جانب وہ پاکبازی اور طہارت میں فرشتوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ گناہوں سے بچنے کے لئے انبیاءعلیہم السلام کے طور طریقے اپناتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ گناہ اور سنگ دلی ایسی بیماریاں ہیں جو انسان کو ذلت ،کم ہمتی اور عدم استقامت کی طرف لے جاتی ہیں ۔ اس لیے وہ ہمیشہ پورے عزم صمیم اور ثابت قدمی سے زندگی گزارتے ہیں اور ہر لحظہ اپنے رب سے لو لگاتے ہیں ۔ انہیں امید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ کے معاملات میں زیادتی کو معاف فرمائے گا۔بلاشبہ گناہ اللہ کی رحمت کے آگے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔اس لیے گناہ سے فوری طور پر توبہ کرنا ضروری ہے۔شاید اسی لیے درج ذیل آیت کریمہ میں توبہ اور بخشش کی دعا کو نصرت کی دعا سے پہلے ذکر کیا گیا ہے ۔ فرمایا :
” رَبَّنَا اغفِرلَنَا ذُنُوبَنَا وَ اِسرَافَنَا فِیٓ اَمرِنَا وَ ثَبِّت اَقدَامَنَا وَ انصُرنَا عَلَی القَومِ الکٰفِرِینَo فَاٰتٰھُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنیَا وَ حُسنَ ثَوَابِ الاٰخِرَةِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ المُحسِنِینo“
(آل عمران :۱۴۷۔۱۴۸)
” اے ہمارے رب ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما ، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہو گیا ہے اسے معاف کردے ، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر آخر کار اللہ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثواب آخرت میں بھی عطا کیا ۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں ۔ “
قرآن کریم اللہ کی محبت اور رضا حاصل کرنے کا سیدھا اور آسان راستہ ہمیں بتاتا ہے۔ ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو تو سیدھا راستہ موجود ہے، اللہ والے بن جاﺅ ۔ اسی لیے ہر نبی اپنی امت میں سے خدا ترس لوگوں کی بھر پور تربیت کرتا رہا جو بعد میں اس نبی کی دعوت کے روح رواں بنے اور نبی نے ان کے ہاتھوں میں جہاد کاعَلم تھما دیا۔ پس ہر نبی کے ساتھ خدا ترس لوگ ہوتے ہیں چاہے و ہ کم ہو ں یا زیادہ۔
یہ سنت الہی چلتی رہی یہاں تک کہ ہمارے نبی محترم (صلى الله عليه و سلم) کا زمانہ آیا۔ آپ نے بھی اپنی براہ راست تربیت سے پاک طینت لوگوں کا ایک گروہ تیار کیا ۔ وہ صحابہ کرام تھے اور وہی اللہ والے اور خدا ترس تھے جن کے ہاتھ میں آپ نے عَلم جہاد تھمایا۔ ہر صحابی جہاد، بہادری اور جرات و استقامت میں اپنی مثال آپ تھا ۔ گویا کہ ہر صحابی حوا ری تھا ۔ راتوں کو زہد و عبادات میں حد کر دیتا ، اور دن کی روشنی میں دشمن کے دل میں ان کے رعب کی وجہ سے حرکت ہی بند ہو جاتی ۔ صحابہ کے سامنے وقت کی سپر طاقتیں زیر ہو جاتیں ، دشمن ان سے اس طرح بھاگ جاتے جیسے بچے بڑوں سے بھاگ جاتے ہیں ۔ یہ سب اس لیے تھا کہ وہ لوگ موت سے عشق کرتے تھے جبکہ ان کے دشمن موت کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوتے ، خیر القرون کے زمانے سے بہادری کی چند مثالیں ایما ن کو تازہ کرنے کے لیے ذکر کی جاتی ہیں ۔
ا۔ انس بن نضر رضی اللہ عنہ
انس بن نضر رضی اللہ عنہ وہ غزوہ بدر میں شرکت نہ کر سکے حالانکہ آپ اورآپ کا پورا خاندان نورحق قبول کر چکا تھا اور انہوں نے اپنے دلوں میں اللہ کے نورکو بسا لیاتھا ، اس طرح اس نور پر خود عمل کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اس کی حقیقت کو پہنچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ لیکن سب کچھ کے باوجود بعض بیرونی اسباب کی بنا پر انس بن نضر غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے ۔ اس بات پر انہیں بے حد افسوس تھا اور ہمیشہ اس پر پشیمان رہتے تھے خاص طور پر جب بدر کے مجاہدین واپس مدینہ منورہ آئے تو انہیں دیکھ کر اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر روتے اور کہتے : اے اللہ کے رسول میں اس حق و باطل کے پہلے معرکہ میں شریک نہ ہو سکا جو آپ نے مشرکوں کے خلاف برپاکیا ۔ اگر اللہ نے مجھے ان مشرکوں سے کسی اور موقع پر لڑنے کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں ۔
ایک سال کے بعد قریش معرکہ بدر کا بدلہ لینے کے لیے ایک بہت پڑے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کے لیے بالکل مدینہ شہر کے دروازے پر احد پہاڑ کے دامن میں خیمہ زن ہو گئے ۔ جبل احد مدینہ منورہ سے صرف پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ادھر انس بن نضر رضی اللہ عنہ جو معرکہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے کہ اب مشرکین سے انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ انہوں نے پوری طاقت اور ہمت کے ساتھ معرکہ میں کودنے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ جب جنگ کی آگ خوب بھڑک رہی تھی تو انس پورے جوش اور ولولے سے سامنے آنے والے ہر کافر کو تہ و تیغ کر رہے تھے اور چومکھی لڑائی میں بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے ۔اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے ہر لحظہ جان کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے رہے۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس بے جگری سے لڑنے والا بہادر چشم فلک نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ۔
جنگ ٹھنڈی ہو چکی تھی انس انتہائی مغموم اور حزین تھے کہ انہیں شہادت کا رتبہ کیوں نہیں ملا ۔ اسی اثناءمیں خالد بن ولید ( جو اس وقت تک مشرک تھے ) نے پلٹ کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا ، اس اچانک حملہ سے مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ مجاہدین جو مال غنیمت سمیٹنے میں مصروف تھے سنبھل نہ سکے یہ خبر مشہور ہو گئی کہ رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) شہید ہو چکے ہیں ۔ یہ سنتے ہی مسلمانوں کی پریشانی میں او ر اضافہ ہو گیا، انس ان سر بکف مجاہدین میں شامل تھے جو ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے ۔ انس جان بوجھ کر اپنے آپ کو دشمنوں کی صفوں میں لے جاتے ہوئے کہتے کہ اگر یہ واقعی سچ ہے کہ محمد (صلى الله عليه و سلم) شہید ہو چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انس بن نضر موت سے محبت کرتے تھے۔ جام شہادت کے پیاسے تھے۔ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہنے لگے : اے اللہ جو کچھ یہ لوگ یعنی مسلمان کر رہے ہیں میں ان کی طرف سے معذرت پیش کرتا ہوں اور جو کچھ و ہ لوگ یعنی مشرکین کر رہے ہیں ، میں ان سے بری الذمہ ہو ں ۔
انس بن نضر نے مشرکین کے جرائم اور مذموم افعال سے براءت کااعلان کیا، کفار سے لا تعلقی اور اللہ سے اپنے تعلق کا برملا اظہار کرتے ہوئے ایک مضطرب نظر مسلمانوں کی صفوں پر ڈالی تو ان کی آنکھیں چھلک پڑیں ۔ انہیں انتہائی دکھ اور تکلیف ہوئی ۔ یہ بات درست ہے کہ دشمن نے مسلمانوں کا کوئی خاص نقصان نہیں کیا تھا لیکن مسلمانوں کی صفوں میں بھگدڑ کو وہ برداشت نہ کر سکے گویا ان کے سینے میں کسی نے زہر آلود نشتر پیوست کر دیا ہو ۔ دلبرداشتہ ہو کر پلٹے اور کہا :اے اللہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں ان کی طرف سے میں معافی کا طلبگار ہوں پھر دشمن کی صفوں میں کود پڑے اور واپس نہیں لوٹے ۔ ان کی گھٹی میں خوف کی گنجائش ہی نہ تھی ان کی لغت میں خوف کا لفظ نہ تھا۔ وہ تو موت کو زندگی سے زیادہ پسند کرتے تھے ۔ چنانچہ جنگ ایک بار پھر خوب بھڑک اٹھی۔ اگرچہ دوسری مرتبہ جنگ کرنے کا نتیجہ بھی مسلمانوں کے مجموعی مفاد میں رہا لیکن نقصان کا تناسب بڑ ھ گیا تھا۔ دشمن نے میدان میں مال و انفاس چھوڑے اور انہیں نقصان ذلت اور جانوں کے ضیاع کا تحفہ ملا۔ دشمن خود ہی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا ، اور اس مرتبہ انہیں پلٹ کر حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی لیکن اس کے باوجود نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) نے مسلمانوں کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر دور تک ان کا پیچھا کیا ۔
جب شہداءاحد کی گنتی کی گئی تو تعداد ستر تھی جن میں ایک شخص انس بن نضر بھی تھا۔ ان کے جسم میں تلوار، نیزے اور تیرو نشتر کے اسی سے لے کر نوے تک زخم تھے۔ ان کی ہمشیرہ کہتی ہیں کہ زخموں کی اس قدر کثرت کی وجہ سے و ہ پہچانے نہ جارہے تھے میں نے ان کو انگلی کے پور سے پہچانا۔
بالآخر انس نے دوسرے صحابہ کی طرح جام شہادت نوش کر لیا قرآن کریم ان پر اور ان کے دوسرے ساتھیوں پر اس طرح تبصرہ کرتا ہے:
” مِنَ المُومِنِینَ رِجَال صَدَقُوا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیہِ فَمِنھُم مَّن قَضٰی نَحبَہ وَ مِنھُم مَّن یَّنتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوا تَبدِیلًا ۔“(الاحزاب :۲۳)
” ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔“
بلا شبہ انس بن نضر ان خوش بختوں میں شامل تھے جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا ۔
ب۔ براءبن مالک رضی اللہ عنہ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت براءبن مالک کو ان کے ان گنت کارناموں اور شجاعت بھری داستانوں کے باوجود کبھی لشکر کا سپہ سالار نہ بنایا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ان کو لشکر کا سپہ سالار کیوں نہیں بناتے تو فرمایا : ان کی حد سے زیادہ بہادری اور جرات کی وجہ سے ۔
و ہ اس قدر دلیر اور نڈر تھے کہ یہ خطرہ لگا رہتا تھا کہ کہیں ان کی بہادری کی وجہ سے ساری فوج کسی مشکل میں نہ پھنس جائے ۔ اسی لیے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ شدید محبت اور اہلیت کے باوجود کبھی لشکر کا سربراہ نہیں بنایا ،انہیں ڈر تھا کہ ان کی حدسے زیادہ بہادری کہیں احتیاط کے پہلو کو نظر انداز نہ کر جائے ۔
براءبن مالک رضی اللہ عنہ خوف نام کی کسی چیز سے واقف نہ تھے۔ تمام غزوات میں شریک رہے کثیر تعداد میں کافروں کی گردنیں اڑائیں ۔ ہر معرکہ میں موت کے پیچھے بھاگتے رہے اور جب موت ان سے دور بھاگ جاتی تو بہت افسردہ اور پریشان ہوتے اور میدان جنگ سے غمگین ہو کر لوٹتے۔
یمامہ میں شہادت کی منز ل قریب تر تھی ۔ قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا وہ ستونوں سے اوپر چڑھے اور اوپر سے اپنے آپ کو اندر کی طرف گرا دیا دشمن نے گرتے ہی تیروں کی بارش کردی بہت زیادہ زخمی ہوئے لیکن پھر بھی انہیں شہادت کا مرتبہ نصیب نہ ہوا ۔
آپ مستجاب الدعوات تھے ، رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے خود صحابہ کرام کی موجودگی میں ان کی یہ صفت بیان کی کہ آپکی دعا کبھی رد نہیں ہو گی۔ فرمایا:
”کَم مِن اَشعَثَ اَغبَرَ ذِی طِمرَینِ لاَیُو بَہُ لَہُ لَو اَقسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہُ مِنھُمُ البَرَائُ بنُ مَالِکٍ“
کتنے ہی بکھرے بالوں والے، غبارسے اٹے ہوئے، دو کپڑوں میں ملبوس لوگ ہیں ، جن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اگر وہ کسی بات پر اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالی ان کی قسم کو سچ کر دکھاتا ہے ۔ انہی لوگوں میں براءبن مالک بھی شامل ہیں ۔
صحابہ کرام جب کسی مشکل میں پھنس جاتے تو براءبن مالک کے پاس جاتے اور ان سے دعا کی درخواست کرتے ، اہواز کے معرکہ میں بھی ایسے ہی ہوا جو مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان ہو ا تھا ۔ یعنی جب مسلمانوں کی صفوں میں بھگدڑ مچ جاتی تو لوگ حضرت براءبن مالک کے پاس جاتے اور جا کر دعا کی درخواست کرتے اور اللہ کی مدد آجاتی ۔ انہوں نے اہواز کے موقع پر بھی ہاتھ اٹھائے اور کہا : اے اللہ دشمن کو شکست دے اور ہماری مدد فرما ،اور مجھے اپنے نبی سے ملا دے ، ہزاروں مسلمانوں نے کہا آمین آمین ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے دینی بھائیوں کو الوداعی نظروں سے دیکھا ان کی آنکھیں بجلی کی طرح خوشی سے چمک رہی تھیں ۔ زرہ پھینک دی اور بے جگری سے دشمن کی صفوں کو چیرنے لگے ۔ ان کی تلوار چاروں طرف چل رہی تھی ۔ کفار کو شکست ہوئی۔ وہ بھاگ گئے۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح نصیب کی ۔ جب لوگوں میں فتح کی خبر تیزی سے پھیل گئی تو میدان کارزار مین ایک شیر خون میں لت پت پڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں کی ہلکی مسکراہٹ نے اس منظر کو بڑا دلکش بنا دیا تھا۔ بلا شبہ یہ دنیا سے الوداع ہونے کا منظر تھا مسلمانوں کی فتح کا منظر تھا۔ جس کی خوشی شہید کے ہونٹوں سے ظاہر ہو رہی تھی ۔ اور اب یہ شیر خدا براءبن مالک زخموں سے چور اپنی دعاکے دوسرے حصے کی قبولیت کا منتظر تھا یعنی ” رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم)سے ملنا “ اور پھر آپ کی ملاقات اس رسول (صلى الله عليه و سلم)سے ہو گئی جس سے وہ اپنی ذات سے زیادہ محبت کرتے تھے ۔
- Created on .