جہاد کے مراحل
جب آپ صلى الله عليه و سلم پرپہلی وحی نازل ہوئی تو آپ صلى الله عليه و سلم پر لرزہ طاری ہوگیا اورآپ صلى الله عليه و سلم ایک چادر لپیٹ کر لیٹ گئے ۔ارشاد ہوا:
(مزمل۷۳:۱تا۵)
اے (محمد !)جوکپڑے میں لیڑ رہے ہو،رات کو قیام کیا کرو، مگر تھوڑی سی رات،یعنی نصف رات یااس سے کم یا کچھ زیادہ۔اور قرآن کوٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ ہم عن قریب تم پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گے۔
اولین وحی اور ابتدائے تبلیغ میں مختصر دورانیہ تھا،جس کی طرف مذکورہ آیات میں اشارہ کردیا گیا تھا۔ اب آپ صلى الله عليه و سلم کوپیغام بری کے لیے تیار ہوناتھا ۔آپ صلى الله عليه و سلم راتوں کو اٹھتے اور تلاوت فرماتے ، کیوں کہ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں ،جب دعاؤں میں تاثیر اورتلاوت میں سوز ہوتاہے ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکاہے کہ تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ جہاد مومن کی اس جدوجہد کے ساتھ مشروط ہے ،جو وہ ایمان کے غلبے اور عشق کی تپش کے تحت اپنے نفس پر قابو پانے کے لیے کرتاہے ۔مومن کاجہاد ،اپنی دونوں صورتوں میں ۔اس کی موت یاروز قیامت تک جاری رہتاہے ،لہذا کچھ عرصے بعد رسول اکرم صلى الله عليه و سلم کو شب بیداری کاحکم ملا ۔ارشاد ہوتاہے :
(مدثر ۷۴:۱تا۷)
اے (محمد!)جو کپڑا لپیٹیے پڑے ہو،اٹھو اورہدایت کرواوراپنے پرورگار کی بڑائی کرواوراپنے کپڑوں کو پاک رکھواو رناپاکی سے دور رہو اور (اس نیب سے )احسان نہ کرو کہ اس سے زیادہ کے طالب ہو اور اپنے پرورگار کے لیے صبر کرو۔
ان آیات میں آپ صلى الله عليه و سلم کے لیے تبلیغ دین کا حکم موجود تھا ۔آپ صلى الله عليه و سلم نے تبلیغ کا آغازاپنے کنبے سے کیا۔اس کے بعد حکم ملا کہ اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سناؤ۔۱ اس کے بعد آپ صلى الله عليه و سلم نے اپنے قبیلے کوقبول حق کی دعوت دی اور پھر عام لوگوں میں اسلام کی اشاعت شروع کردی گئی ۔نتیجے کے طور پر وہی ردعمل ظاہر ہوا، جس کا خدشہ تھا ۔یعنی تمسخر ،دھمکیاں ،تشدد،ترغیبات اورمقاطع۔
قیام مکہ کے دوران نہ تو آپ صلى الله عليه و سلم نے کسی سے بدلہ لیااور نہ کسی کو اس کی اجازت دی ۔اسلام لوگوں کے مابین فتنہ پھیلانے یاانصافی کے فروغ کے لیے نہیں آیا تھا۔اسلام کے آنے کا مقصد عامر بن ربیعہ نے بیان کیاہے ، جو عہد عمر میں قادسیہ کی جنگ میں مسلمانوں کے ایلچی تھے ۔عامر کہتے ہیں کہ اسلام انسان کو جہالت کے اندھیاروں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لانے ،غلامی کی زنجیروں کوکاٹ کر اللہ کی بندگی کی طرف بلانےاورانتہائی پستیوں سے نکال کربام عروج پرپہنچانے کے لیےآیاہے
جیساکہ بیان کیا جا چکاہے کہ اسلام کے لغوی معنی سلامتی، تسلیم اور نجات کے ہیں۔لہذا اسلام انسانی باطن ،اس کے بعد سماج اورپھرپوری کائنات میں امن و سلامتی کاعکم برداربن کر آیا ہے ۔ درحقیقت اسلام ہمہ وقت امن وسلامتی کے لیے کوشاں رہتاہے اور ممکن حد تک طاقت کے استعمال سے احتراز کرتاہے ۔اسلام ناانصافی کی بہر طور تائید نہیں کرتا اورخوں ریزی کی سختی سے ممانعت کرتاہے۔قرآن کہتاہے:
(مائدہ ۵: ۳۲)
جو شخص کسی کو (ناحق )قتل کرے گا (یعنی ) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا
جائے یاملک میں خرابی کرنے کی سزادی جائے ، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اورجو اس کی زندگانی کا موجب ہواتو گویاتمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔
اسلام روئے زمین سے ناانصافی اورفساد کا قلع قمع کرنے اور اسے امن وامان کا گہوارہ بنانے کے لیے آیا ہے ۔اس کے لیے وہ لوگوں کوحکمت ودانائی اور نیکی کی طرف بلاتاہے ۔اسلام طاقت کے استعمال کی اُس وقت تک اجازت نہیں دیتا، جب تک ناانصافی ،ظلم وتعدی ،خود غرضی ،استحصال ،حق تلفی کے مرتکب حق کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کردیں ۔
اسلام صرف درج ذیل اسباب کی بنا پر ہی قوت کے استعمال کی اجازت دیتاہے:
v اگر کافر ،مشرک یا فسادی دعوت حق کی راہ روکتے ہیں اور لوگوں کے دل و دماغ کوبہکانے کی کوشش کرتے ہیں۔اسلام کا تو مقصد ہی فلاح دارین ہےاور اسی لیے لوگوں میں آزادنہ دعوت و تبلیغ اس کا حق ہے۔ایسی صورت میں ، جب اس کی راہیں مسدور کردی جائیں ،اسلام اپنے مخالفین کوتین باتوں کی پیش کش کرتاہے ، یعنی وہ اسلام قبول کرلیں،تبلیغ کرنے دیں یا ان کے حکم رانی تسلیم کرلیں ۔
ان تینوں کے مسترد ہونے کی صورت میں اسلام طاقت مے استعمال کی اجازت دے دیتاہے ۔
v اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلى الله عليه و سلم کو ہجرت مدینہ اور وہاں ایک آزاد ریاست کے قیام کے بعد ہی تلوار اٹھانے کی اجازت دی ۔یہ اجازت اس لیے دی گئی، کیوں کہ اس پر ظلم ہورہاتھا ۔۲ ذیل میں اس اجازت کی حامل وہ آیات درج کی جاتی ہیں، جن کے مطالعے سے اسلام کے اصول جنگ کوسمجھنے میں مدد مل سکتی ہے:
(حج۲۲: ۳۹تا۴۱)
جن مسلمانو ں سے (خواہ مخواہ )لڑائی کی جاتی ہے،ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں)کیوں کہ ان پرظلم ہورہاہے اوراللہ (ان کی مددکرے گا، وہ)یقینا ان کی مددپر قادر ہے یہ وہ لوگ ہیں،کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیےگئے ۔(انھو ں نے کچھ قصورنہیں کیا،) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اوراگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو(راہبوں کے )صعومعے اور (عیسائیوں کے )گرجے اور (یہودیوں کے )عبادت خانے اور (مسلمانوں کی )مسجدیں ،جن میں اللہ کا بہت سا ذکر کیاجاتاہے،گرائی جاچکی ہوتیں ،اورجو شخص اللہ کی مددکرتا ہے،اللہ کی ضرور مددکرتاہے ۔بے شک اللہ توانا(اور )غالب ہے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ اگرہم ان کو ملک میں دست رس دیں تو نماز پڑھیں اورزکوۃ اداکریں اورنیک کام کرنے کاحکم دیں اوربرے کاموں سے منع کریں ۔اور سب کاموں کاانجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
مذکورہ آیات سے واضح ہوجاتاہے اور اس سلسلے میں تاریخی شواہد بھی موجود ہیں کہ اسلام نے طاقت کا استعمال صرف اپنے وفاع اورعقائد کےتحفظ کی خاطر ہی کیا، لہذا اسلامی ریاست میں یہود ونصاری کواپنے مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی تھی ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے،جسے یورپی ادیبوں نے بھی تسلیم کیاہے کہ یہود اورعیسائی اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے زندگی کی مسرتوں سے پوری طرح فیض یاب ہوتے رہے ہیں ۔
v اسلام اللہ کی طرف سے دین بر حق ہے ۔اللہ مالک کون و مکان اور عادل و رحمن ہونے کے ناتے دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی نوع کی ظلم وزیادتی کی اجازت نہیں دیتا،جیساکہ ارشاد ہوتاہے :
(انبیا۲۱:۱۰۵)
اورہم نے نصیحت (کی کتاب یعنی توراۃ )کے بعدزبورمیں لکھ دیاتھا کہ میرے نیکوکار بندے ملک کے وارث ہوں گے ۔
زمین پر اللہ کی حکم رانی قائم کرنے کی ذمہ داری اس کے نیک بندوں کو تفویض کی جاتی ہے،جس کا انحصار عدل وانصاف اورعبادت پر ہوتاہے ۔جب تک ظلم و جبر اورغیر اللہ کی عبادت و اطاعت کاخاتمہ نہ ہوئے ،وہ اس ذمہ داری کے سزا وار رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو دنیا بھرکے کم زور اورپسے ہوئے طبقوں کی نجات کے لیے جنگ کا حکم دیتاہے:
(نسا۴:۷۵)
اورتم کو کیا ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں اوران بے بس مردوں ،عورتوں اور بچوں کی خاطرنہیں لڑتے ،جو دعا ئیں کرتے ہیں کہ اے پروردگار!ہم کو اس شہر سے ،جس کےرہنے والے ظالم ہیں، نکال کرکہیں اور لے جا اوراپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنااور اپنی ہی طرف سے کسی کوہمارا مددگار مقررفرما۔
- Created on .