جہادکے چند ضابطے
ایک مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالی کی قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے ۔اس پر لازم ہے کہ اللہ کی طرف سے بیان کردہ جنگی ضوابط کی پاس داری کرے ۔اس سلسلے میں قرآن پاک اورسنت رسول صلى الله عليه و سلمسے ماخوذ چند اصول پیش کیے جاتے ہیں۔
- مومن تو وہ ہے ،جس کے مال وجان کو اللہ تعالی نے بہشت کے عوض خرید لیا ہے ۔۳ عزت وشہر ت،مال ودولت ،تعصب یااسی قسم کے کسی اور مقصد کی خاطر لڑنے والے شخص کامرتبہ مجاہد کےبرابر نہیں ہوسکتا،جس پر کہ اللہ تعالی راضی ہوچکا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
(بقرہ۲: ۱۹۰)
اور جولوگ تم سے لڑتے ہیں،تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو،مگر زیادتی نہ کروکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کودوست نہیں رکھتا۔
مومنوں کو ان لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے روک دیا گیا ہے، جوراہ حق میں ان کی مخالفت نہ کریں۔انھیں زمانہ جاہلیت کی جنگوں کے سے وحشیانہ قتل اور لوٹ مار سے منع کردیا گیا ہے ۔مذکورہ آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ عورتوں ، بچوںاور ضعیفوں اورزخمیوں کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے جائیں ۔دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی ،کھیتوں کی بربادی ،مویشیوں کی ہلاکت اور اسی طرح ظلم وزیادتی یاسفاکی سے روک دیاگیا ہے ۔اس بات پر بھی زور دیا گیاہے کہ طاقت کااستعمال صرف اسی صورت میں کیا جائے ،جب اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کارنہ رہے اور پھر اس میں توسیع تومحض ناگزیر حالات میں جائز ہے۔
- اوراگر جنگ ناگزی رہوجائے توقرآن مومنوں کو اس سے پہلو تہی کرنے سےمنع کردیتاہے ۔
انھیں ضروری تیاریوں اورپیش بندی کے سلسلے میں کسی کوتاہی کامظاہر ہ نہیں کرناچاہیے۔اخلاقی و روحانی اعتبارسےخودکوتیار رکھناچاہیے، کیوں کہ یہ اسی قوم سے تعلق رکھتےہیں،جن کےبیس افرادنےدوسوکفارپرغلبہ حاصل کرلیاتھا۔
(انفال ۸:۶۵)
اے نبی !مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔اگرتم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تودو سوکافروں پر غالب رہیں گے۔اوراگر سو(ایسے)ہوں گے تو ہزار پرغالب رہیں گے۔اس لیے کہ کافر ایسے لوگ ہیں کہ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے۔
(بقرہ ۲:۲۴۹)
جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ان کو اللہ کی رونہ رو پیش ہونا ہے ،وہ کہنے لگے کہ بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے اللہ کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اوراللہ استقلال رکھنے والوں کے ساتھ ہے۔
گناہوں سے حتی المقدوراجتناب اورایمان ویقین کی پختگی کے بعدہی ایک مسلمان اس مرتبے پرفائزہوسکتاہے۔ایمان اورخوف خداہی مسلمان کے دوناقابل تسخیر ہتھیارہیں اوریہی اس کی لازوال طاقت کے سرچشمے ہیں:
(آل عمران۳: ۱۳۹)
اور(دیکھو )بے دل نہ ہونا اور نہ کسی کاغم کرنا ۔اگر تم مومن (صادق )ہو تو تم ہی غالب رہوگے ۔
(اعراف۷: ۱۲۸)
اورآخر بھلا توڈرنے والوں کا ہے ۔
ایمان کی پختگی اور خوف خدا سے منسوب اخلاقی قوت کے ساتھ مومنوں کو جدید ترین ہتھیاروں سے خود کو لیس کرنا چاہیے ۔مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے طاقت کی بڑی اہمیت ہے،لہذا مومن اس سے مستثنی نہیں ہوسکتے ، بلکہ کفارکے مقابلے میں انھیں سائنس اورٹیکنالوجی میں زیادہ پیش رفت کرنی چاہیے ،تاکہ وہ کفارکو قوت کے استعمال سے روک سکیں ۔از روئے اسلام بھی مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہونا چاہیے ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
(انفال ۸: ۶۰)
اورجہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے )زور اورگھوڑوں کے تیاررکھنے سے ان کے (مقابلے کے )لیے مستعد رہوکہ اس سے اللہ کے دشمنوں اورتمھارے دشمنوں اوران کے سوااورلوگوں پر ،جن کو تم نہیں جانتے اوراللہ جانتا ہے ،ہیبت بیٹھی رہے گی اورتم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کروگے،اس کاثواب تم کوپورا پورادیاجائے گا اورتمھارا ذرا نقصان نہ کیاجائے گا۔
ایک اسلامی ریاست کا طاقت ور ہونا ضروری ہے ،تاکہ وہ کافروں اور ظالموں کی جارحیت کامقابلہ کرسکے اور یوں ظالم قوتیں کم زور ریاستوں پرقبضے کی جرات نہ کرسکیں ۔ اسے اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ دنیا میں امن وسلامتی اورعدل وانصاف کی فضابرقرار رکھ سکے اور کسی حکم ران کو جرات نہ ہوکہ وہ زمین کے کسی خطے پر فساد پھیلائے ۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے ،جب مسلمان ایمان کی پختگی اور معلامات کی درستی کو اپنا شعار بنالینے کے ساتھ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں ۔ان پر لازم ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو ایمان و اخلاق سے منسلک کریں اوراسے بنی نوع انسان کی بہبود کے لیے استعمال کریں ۔جیسا کہ اس باب کےآغازمیں بتایا گیا ہے کہ اللہ پرایمان انسانوں سے محبت کاتقاضاکرتاہے اللہ پر پختہ ایمان ، مخلوق سے گہری محبت سے ہی عیاں ہوگا۔جب مومن اس مرتبے پر پہنچ جائے گا ، اللہ کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔۴ بہ صورت دیگر وہی ہوگا،جس کے متعلق حضور صلى الله عليه و سلم نے فرمادیا ہے ۔'(باطل قوتیں ) تم پر حملہ کرلیے متحد ہوجائیں گی ۔وہ تمھارے منہ سے نوالے تک چھین لیں گی اورتمھارے دسترخوان الٹ دیں گی ۔'
جب جنگ ناگزیر ہوجائے تو مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانے اوردشمن کا سامنا کرنے سے اجتناب نہیں کرنا چاہیے۔ایسی صورت میں قرآن جنگ کی اجازت دیتا ہے اور ان لوگوں کی شدید مذمب کرتاہے ، جو راہ خدامیں جنگی تیاریوں سےکتراتے ہیں:
(توبہ ۹: ۳۸تا۳۹)
مومنو!تمھیں کیاہواہے کہ جب تم سے کہاجاتاہے کہ اللہ کی راہ میآں (جہاد کے لیے )نکلوتوتم (کاہلی کے سبب سے ) زمین پر گرے جاتے ہو(یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے)۔کیا تم آخرت (کی نعمتوں )کو چھوڑ کردنیا کی زندگی پرخوش ہو بیٹھے ہو؟دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں ۔اگر تم نہ نکلو گے تواللہ تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گااورتمھاری جگہ اور لوگ پیداکردے گا (جو اللہ کے پورے فرماں بردار ہوں گے)اورتم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکوگے ۔اوراللہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔
(صف ۶۱:۴)
جولوگ اللہ کی راہ میں (ایسے طورپر)پیر جماکرلڑے ہیں کہ گویاسیسہ پلائی ہوئی دیوار ہی، وہ بے شک محبوب کردگارہیں ۔
(صف۶۱: ۱۰تا۱۳)
مومنو!میں تم کوایسی تجارت بتاؤں،جوتمھیں عذاب الیم سے مخلصی دے،(وہ یہ کہ) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اوراللہ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے جہاد کرو۔ اگرسمجھو تویہ تمھارے حق میں بہتر ہے ۔وہ تمھارے گناہ بخش دے گا اور تم کو باغ ہائے جنت میں،جن میں نہریں بہ رہی ہیں اورپاکیزہ مکانات ہیں،جوبہشت ہائے جاودانی میں (تیار) ہیں،داخل کرے گا۔یہ بڑی کامیابی ہے اورایک چیز،جس کو تم بہت چاہتے ہو (یعنی تمھیں ) اللہ کی طرف سے مدد(نصیب ہوگی)اورفتح (عن) قریب (ہوگی)اورمومنوں کو (اس کی ) خوش خبری سنادو۔
کوئی گروہ اپنی ساخت اورافعال کی روسے جسم سے مشابہ ہوتاہے اور جسم ہی کی طرح ایک دماغ یعنی صاحب فراست سربراہ کا مطالعہ کرتاہے،اسی لیے امیرکی اطاعت کسی گروہ کی اقبال مندی کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
جب رسول اکرم صلى الله عليه و سلم صحرائے عرب میں مبعوث ہوئے، اس دورکے انسان معاشرتی طرز حیات سے نا آشنا تھے ۔وہ اطاعت الہی اورسماجی زندگی کے تقاضوں سے نابلد تھے ۔نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے ان میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور امیر کی فرماں برداری کا احساس اجاگر کیا اوراسلام کے ذریعے ان میں ایک ایسا رشتہ اُستوار کردیا، جو ان میں اتحاد ویک جہتی کاضامن ہے:
(نسا۴: ۵۹)
مومنو!اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرواورجوتم میں سے صاحب حکومت ہیں، ان کی بھی اوراگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تواگر اللہ اورروز آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم ) کی طرف رجوع کرو۔یہ بہت اچھی بات ہے اوراس مال بھی اچھاہے ۔
(انفال۸: ۴۵تا۴۶)
مومنو!جب (کفارکی )کسی جماعت سے تمھار ا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہواوراللہ کوبہت یادکرو،تاکہ مراد حاصل کرو۔اوراللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اورآپس میں جھگڑا نہ کرناکہ (ایساکروگے تو)تم بز دل ہوجاؤگے اورتمھارا اقبال جاتا رہے گااورصبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کا مددگار ہے۔
اطاعت کے اسی احساس کے باعث ،جو نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے اپنے صحابہ کے دلوں میں راسخ کردیا تھا،بہ طورسپہ سالار اسامہ کی تقرری پر کسی نے اعتراض نہ کیا، حالاں کہ وہ حضور صلى الله عليه و سلم کے آزادکردہ غلام زید بن حارثہ کے بیٹے تھے ۔یہ وہ لشکر تھا، جس میں جید صحابہ یعنی ابو بکر، عمر اور عثمان بھی شامل تھے ۶۔ایک جنگی مہم میں سپہ سالارنے سپاہیوں کواپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں کود گئے ۔اس حکم پر عمل درآمدنہ کرنے والے صحابہ نے اس معاملے کوحضور صلى الله عليه و سلم کی خدمت میں پیش کرنے کافیصلہ کیا،تاکہ حضور صلى الله عليه و سلم سے دریافت کیاجائے کہ سپہ سالار کے بہ ظاہر خلاف شریعت حکم کی کیاحیثیت ہے؟۷ اگرچہ ایسے احکامات شرعی اعتبار سے جائز نہیں،تاہم کسی گروہ کی اجتماعی زندگی اور خصوصا جنگ میں فتح مندی کے لیے اطاعت کوبہ طور خاص اہمیت حاصل ہے۔
جہادکےمتعلق یہ نکتہ ذہن نشین رہناچاہیےکہ مومن میدان جنگ میں راہ
فرار اختیار نہیں سکتا۔اسے بہر صورت ثابت رہنا ہوتاہے اورمیدان جنگ میں دشمن کوپیٹھ دکھا کر بھاگنے کاحق بھی اسے حاصل نہیں ہوتا۔اس سلسلے میں ارشاد باری تعالی ہے:
(انفال۸: ۱۵تا۱۶)
اے اہل ایمان !جب میدان جنگ میں کفار سے تمھارا مقابلہ ہوتوان سے پیٹھ نی پھیرنا۔اور جو شخص جنگ کے روز اس صورت کے سوا کہ لڑائی کے لیے کنارے کنارے چلے (یعنی حکمت عملی سے دشمن کو مارے )یا اپنی فوج سے جاملنا چاہے،ان سے پیٹھ پھیر ے گاتو(سمجھوکہ)وہ اللہ کے غضب میں گرفتارہوگیااوراس کاٹھکا نا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بر ی جگہ ہے۔
جنگ سےبھاگنے کاعمل گناہ کبیر ہ میں شمار ہوتاہے، کیوں کہ اس جرم کا مرتکب شخص اسلامی لشکر میں حکم عدولی او رانتشار کاموجب بنتاہے ۔ایساعمل وہی کرسکتاہے ، جس کا اللہ او رروز آخرت پر ایمان پختہ نہ ہو اورجو دُنیاوی زندگی کو اُخروی زندگی پر ترجیح دیتاہو۔ایک مومن اگر میدان جنگ چھوڑتا ہے تو محض جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لیے ایک حربے کے طور پر یا پھراپنی فوج کے کسی ایک حصے میں شمولیت کی خاطر، جہاں لڑائی زیادہ سودمند ہوسکتی ہے ۔
عہدصدیقی لڑی جانے والی جنگ یرموک کے دوران بیس ہزار مجاہدین نے دو لاکھ رومیوں کا مقابلہ کیااور فتح سے ہم کنار ہوئے ۔اس جنگ میں قباص نے جرات و شجاعت کے شان دار جوہر دکھائے ۔دوپہر کے وقت ان کی ایک ٹانگ کٹ گئی، لیکن انھیں نے اس بات کا احساس تب ہوا، جب بہ وقت شام وہ گھوڑے سے اترے ۔ مدتوں بعد ان کے پوتے نے عمر بن عبد الغریز کواپنا تعارف کراتے ہوئے کہاتھاکہ میں اس شخص کا بیٹا ہوں ، جس کی ٹانگ تودوپہر کے وقت شہید ہوئی تھی ، لیکن اسے اس کی خبر شام کوہوئی ۔
جنگ موتہ میں تین ہزارجاں نثاروں پرمشتمل اسلامی لشکرنے دشمن کی ایک لاکھ فوج کامردانہ وار مقابلہ کیا ۔اگرچہ دونوں لشکر پسپائی پر مجبورہوئے ،تاہم مجاہدین ندامت کے مارے بارگاہ رسالت صلى الله عليه و سلم میں حاضر ہونے کی ہمت نہیں پارہے تھے ۔ حضور صلى الله عليه و سلم نے خودان کا استقبال کیااور یہ فرماکر ان کی ہمت بندھائی کہ تم بھاگے ہوئے نہیں ہو،بلکہ تم مجھے ساتھ ملانے کے لیے لوٹے ہو۔تم کمک لینے اور اس کے ساتھ دوبارہ حملہ آور ہونے کی غرض سے پلٹے ہو۔۸
الغرض بعد کے حالات و واقعات آپ صلى الله عليه و سلم کے ارشاد کے عین مطابق رونماہوئے ، یعنی مسلمانوں نے خود کو ازسر نو منظم کرلیا۔آپ صلى الله عليه و سلم کی علالت کے دوران مدینہ سے روانہ ہونے والا یہ لشکر آپ صلى الله عليه و سلم کے وصال کے بعد جب شام کے جنوبی علاقوں پرحملہ آور ہواتو جنگ موتہ کے محض دوسال بعد جنگ یرموک میں رومیوں کو شکست فاش سے دوچار کردیا۔
- Created on .