الحاد کو اس قدرفروغ کیوں مل رہاہے؟
چونکہ الحاد سے مرادانکارِ خداہے،اس لیے اس کے فروغ کاروحانی زندگی کی موت و انحطاط کے ساتھ گہراتعلق ہے،تاہم اس کے پھیلنے کے اس کے سوااوربھی اسباب ہیں۔فکری سطح پرالحاد خداکے وجودکے انکاراوراسے قبول نہ کرنے سے عبارت ہے۔نظری طورپریہ مادر پدر آزادی کانام ہے اورعملی طورپریہ اباحیت کاعلمبردارہے۔فکری سطح پرالحاد کے پھیلنے کا سبب نوجوان نسل کی تربیت میں غفلت اورعلمی اداروں میں غلط پالیسیوں کی عملداری ہے، علاوہ ازیں اسے بعض دیگراقدامات سے بھی تیزی اورتقویت ملی ہے، جن کا ذکرآئندہ سطورمیں آئے گا۔
الحاد کو سب سے زیادہ فروغ ایسے معاشرے میں ملتاہے، جہاں جہالت کی حکمرانی ہوتی ہے اورروحانیت نام کی کوئی چیزنہیں ہوتی۔روحانی اورقلبی تربیت سے محروم عوام جلدیابدیر الحاد کا شکارہو جاتے ہیں اورعنایت خداوندی کے بغیر اپنے آپ کوالحاد کے چنگل سے نہیں نکال سکتے۔جب امت مسلمہ بے پروائی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے افرادکی ایمانی ضروریات پوری کرنے کاخصوصی اہتمام نہیں کرتی اورانہیں جہالت کی تاریکی میں بے یار و مددگار چھوڑدیتی ہے تو ایسے افرادکسی بھی قسم کے افکارکوقبول کرنے کے لیے بالقوہ تیارہوتے ہیں۔
شروع شروع میں الحادکااظہارایمان کے بنیادی اصولوں کے بارے میں لاپروائی برتنے اور عدم اہتمام کا اظہار کرنے کی صورت میں ہوتاہے۔آزادئ فکر کالبادہ اوڑھے ہوئے یہ طرزعمل جیسے ہی انکارِخدا اور الحاد کے حق میں کوئی چھوٹی سی نشانی پاتاہے، الحادمیں اضافہ ہوتاہے۔اگرچہ الحادکی کوئی علمی بنیادنہیں ہوتی،لیکن بعض اوقات غفلت ،لاپروائی اورغلط اندازہ الحادکے پیداہونے کاباعث بن جاتاہے۔
دورِحاضرمیں بہت سے لوگ اس قسم کے اسباب کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں،تاہم ہم اس موقع پران میں سے صرف اہم اورزیادہ نقصان دہ اسباب کاتذکرہ کرنے پراکتفا کریں گے۔یہ بات شروع سے ہی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم یہاں الحادکاقلع قمع کرنے والے دلائل ذکر نہیں کریں گے، نیزیہ واضح بات ہے کہ قاری کو اس مختصرکتاب میں ہم سے ایسے موضوع پر گفتگو کرنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، جس کی وضاحت کے لیے کئی جلدوں پر مشتمل کتاب درکار ہے۔کتابوں اوراخبارات کے سوالات وجوابات کے کارنرز اس قسم کے پیچیدہ اورگہرائی کے حامل موضوع کااحاطہ اورحق اداکرنے کے لیے ناکافی ہیں، نیزاس موضوع پرمتعدد گرانقدر اور منفرد کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں۔آئندہ سطورمیں ہماری گفتگوایسی ہی کتابوں کانچوڑ ہوگی۔
دست قدرت الٰہیہ سے ظہورمیں آنے والے واقعات میں سے ہرایک خدائی پیغام ہے۔ان واقعات کوقوانین فطرت بھی کہاجاسکتاہے۔ایسے قوانین نوجوان نسلوں کوگمراہ کرنے اور ان کے دلوں میں الحادکابیج بونے کااہم ذریعہ بن چکے ہیں۔اگرچہ مشرق ومغرب میں تحریر کی جانے والی ہزاروں کتابوں میں یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ ان قوانین فطرت کی حیثیت محض یکسانیت اور عرق ریزی سے کام کرنے اوربہت بڑے پیمانے پرپیداوار دینے والے کارخانے کی سی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں یہ پیداواری صلاحیت اورنظم ونسق کہاں سے آیا؟ کیا شاعری اور موسیقی کے نغمات کی طرح دلوں کواپنے سحرمیں گرفتار کرلینے والی یہ حسین فطرت بے ہنگم اتقافات کا نتیجہ ہوسکتی ہے؟
اگرجیساکہ اُن کادعوی ہے فطرت پیداکرنے اورتخلیق کی صلاحیت کی مالک ہے تو کیا اس بات کی وضاحت پیش کی جاسکتی ہے کہ فطرت نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی؟کیایہ کہا جا سکتا ہے کہ فطرت نے اپنے آپ کو پیداکیاہے؟ایسے مغالطے کی تصدیق ممکن نہیں۔اس خلاف حقیقت دعوے کاحقیقی چہرہ یہ ہے‘‘درخت نے درخت کو،پہاڑنے پہاڑکواورآسمان نے آسمان کوپیداکیا۔’’ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایک شخص بھی اس قدر نامعقول مغالطے کوتسلیم کرنے کے لیے تیارہوگا۔
اگران لوگوں کامقصد‘‘فطرت’’سے ‘‘قوانین فطرت’’کی طرف اشارہ کرناہے تویہ ایک دوسرا فریب ہے،کیونکہ قدماء کی اصطلاح میں قانون ایک عرض ہے، جواپنے وجودکے لیے کسی جوہر کا محتاج ہوتاہے، یعنی جب تک کسی مرکب یامشین کوتشکیل دینے والے تمام اعضاء اور ٹکڑوں کاتصورنہ کیاجائے اس وقت تک اس مشین سے متعلق قانون کے مفہوم کا تصور ممکن نہیں۔ دوسرے لفظوں میں قوانین کاوجود موجودات پرمنحصرہوتاہے۔قانونِ نمو کا ظہور بیج میں اور قانونِ جاذبیت کا ظہور بلاک اور مکان میں ہوتاہے، لہٰذا موجودات کے تصورسے پہلے قوانین کا تصور کرنااور ان قوانین کو وجود کاسبب سمجھنا سوائے فریب کے کچھ نہیں۔
اسباب کو وجودکی اساس سمجھنابھی کچھ کم گمراہ کن دھوکا نہیں ہے۔ ہزاروں حکمتوں اور پیچیدہ نظاموں پرمشتمل اس جہاں کی توجیہہ اسباب سے کرنے کی کاوش کسی بھی قسم کی علمی قدر و قیمت سے عاری مضحکہ خیز کاوش ہے، بلکہ علمی حقائق کے منافی ہونے کی وجہ سے تضادات کا شاہکار اوربے سروپا بات ہے۔
ملرکے تجربات کے اسباب واتفاقات کے عجز و کوتاہی کو طشت ازبام کرنے کے بعد مختلف علوم نے اس موضوع پربحث کی ہے، چنانچہ سویت یونین میں‘‘ادارۂ کیمیا’’ نے ‘‘اوپرین’’ کی سربراہی میں بائیس سال کی تحقیق کے بعد اعلان کیاہے کہ کیمیا کے قوانین اورکیمیائی تعاملات وجودکی حقیقت پرروشنی ڈالنے سے قاصرہیں۔یہ سائنس اورسائنسدانوں کی گواہی ہے۔
جو نظریہ ارتقا سالہاسال تک ہمارے اسکولوں میں ایک ثابت شدہ علمی حقیقت کے طور پر پڑھایاجاتارہاہے، جدید سائنسی اکتشافات اورعلم جینیات کی ترقی کے بعد محض ایک علمی خیال اور قصۂ پارینہ بن چکاہے۔آج اس کی کوئی علمی قدر و قیمت باقی نہیں رہی،لیکن یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ اس قسم کی بے سروپا باتیں آج بھی فکری لحاظ سے ہوا میں معلق اور مضبوط ثقافتی پس منظر سے محروم ہماری نوجوان نسل کوالحاد کی طرف لے جانے کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
لیکن دوسری طرف خوش قسمتی سے مارکیٹ میں بعض ایسی کتابیں آچکی ہیں،جو ہمارے فکر و احساس کومجروح کرنے والے اس قسم کے سوالات کاجواب دے کرہماری روحانی بیماریوں کاعلاج کرتی ہیں۔ آج مشرق ومغرب میں مختلف زبانوں میں فطرت اوراسباب کے حقیقی چہرے سے پردہ اٹھانے والی سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
جہاں ہمیں اپنے ہاں بعض مغرب زدہ لوگوں کی لکھی ہوئی گمراہ کن کتابوں پر تعجب ہوتا ہے، وہیں یہ بات باعث اطمینان بھی ہے کہ مغرب میں ‘‘ہم خداپرایمان کیوں رکھتے ہیں؟’’جس کی تصنیف میں متعدد مغربی سائنسدانوں نے حصہ لیاہے، ایسی متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیں جو اِن مغرب زدہ لوگوں کے اعتراضات کاجواب فراہم کرتی ہیں۔
علمی حلقوں میں اس موضوع پراس قدروضاحت کے پائے جانے کے بعد اب الحاد کو محض نفسیاتی بگاڑ، ہٹ دھرمی، بغیردلائل کے تسلیم کیا جانے والا فکر اور بچگانہ خیال سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے بعض نوجوان زمانے بھرسے مستردشدہ بعض افکار کے منفی اثرات سے پوری طرح محفوظ نہیں ہیں، بلکہ انہیں علمی حقائق سمجھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صحیح علمی اورروحانی تربیت نہیں پائی۔
یہی وجہ ہے کہ صحیح علوم کی اشاعت کے لیے علمی اورتربیتی تیاری وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس مقدس فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی معاشرے کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گی۔شایدسالہاسال سے معاشرہ جن مصائب کاشکار ہے، ان کی بنیادی وجہ یہی غفلت و کوتاہی ہے،کیونکہ ہم تعلیم کے عشق سے سرشار، علم وروح اوردل و دماغ کے جامع اور دونوں اعتبار سے ممتاز مرشدوں سے محروم ہیں۔ہم حقیقی مرشدوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس اہم ترین بنیادی انسانی فریضے کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائیں گے اورہمیں ان مصائب سے نجات دلائیں گے، جن میں ہم ایک زمانے سے مبتلاہیں، تب جدیدنسل کے افکار و خیالات اوراحساسات میں ٹھہراؤپیداہوگا،وہ غلط افکارکے سیلاب میں بہنے اورتذبذب کا شکار ہونے سے محفوظ رہے گی اور الحادکے خلاف اس کے ہاتھ میں ہتھیارآئے گا۔
حاصل یہ کہ فکری الحاد جہالت،تجزیہ وتحلیل کی صلاحیت سے محرومی اورروحانی وقلبی تربیت کے فقدان کانتیجہ ہے،کیونکہ انسان جس چیزسے آشنا ہوتاہے اس سے محبت کرتاہے اور جس چیزسے ناواقف ہوتاہے اس سے عداوت رکھتاہے۔
اب ہمیں کتب خانوں کی الماریوں میں رکھی کتابوں پرایک نظرڈالنی چاہیے اوران افکار و شخصیات کاجائزہ لیناچاہیے، جنہیں یہ کتابیں پیش کرتی ہیں، تب ہمیں پتا چلے گا کہ گلیوں میں پھرتے بچے اپنے لباس میں‘‘ریڈانڈینز’’اور‘‘زورو‘‘(Zorro)سے اورنوجوان ‘‘ڈان جان’’ (Don Juon)سے کیوں مشابہت اختیارکرتے ہیں۔جس حقیقت کی ہم وضاحت کرناچاہتے ہیں یہ اس کی صرف دوایک مثالیں ہیں۔اگرہم اپنے معاشرے کومعاشرتی اوراقتصادی لحاط سے تباہ کرنے والے دیگر عناصر کا جائزہ لیں توصورتحال کی ہولناکی سے ساراجسم کانپ اٹھتاہے۔ ہمارے ہم وطن ایک عرصے سے ان لوگوں کے پیچھے چل رہے ہیں، جن سے انہیں محبت ہے اورجنہیں ان کے سامنے آئیڈیل کی حیثیت سے پیش کیاگیاہے، لیکن جنہیں وہ نہیں جانتے ان سے نہ صرف وہ نامانوس ہیں، بلکہ وہ ان کے بارے میں معاندانہ جذبات رکھتے ہیں۔ آج ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان امورکے بارے میں سوچیں ،جنہیں ہمیں ان کے سامنے پیش کرناچاہیے۔ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں فارغ اوربے مہار نہ چھوڑیں،بلکہ ان کی روشنی کے راستے کی طرف راہنمائی کریں۔
نوجوان نسل کے الحادکی طرف مائل ہونے اورانکارِخداکے فروغ پانے کادوسراسبب نوجوانوں کی فطرت ہے۔ {qluetip title=[(1)]}(1)یہ بات تیس چالیس سال پہلے کے ترکی کے لحاظ سے درست ہے، کیونکہ اس دورمیں نوجوان نسل دینی تعلیم کے بغیرپر وان چڑھی تھی۔{/qluetip}ان نوجوانوں کی لامتناہی خواہشات مادرپدرآزادی چاہتی ہیں۔اس قسم کے غیرمعتدل رجحانات الحادسے بہت قریب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کہتے ہیں:‘‘ہم معمولی سی فوری لذت کی خاطرمستقبل میں آنے والی بہت سی تکالیف کوبرداشت کرنے کے لیے تیارہیں۔’’اس طرح وہ اپنے لیے دردناک انجام کا سامان فراہم کرتے ہیں اورشیطان کی پیش کردہ موہومہ لذات سے دھوکاکھاکرالحادکے جال میں ایسے پھنستے ہیں ،جیسے آگ کے گردگردش کرتے پتنگے اس میں جاگرتے ہیں۔
جس قدرجہالت اورروحانی وقلبی انحطاط بڑھتاہے، اسی قدرجسمانی لذتیں آسانی سے روحانی جذبات پرقابو پالیتی ہیں اور جس طرح ڈاکٹر ‘‘فوسٹس‘‘ (Dr Faustus) نے اپنی روح شیطان کے سپرد کر دی تھی، اسی طرح نوجوان اپنے دل شیطان کو دے بیٹھتے ہیں۔ جب روح مردہ،دل تہی دامن اور عقل پراگندہ ہوجاتی ہے توالحاد کی راہ ہموار ہوجاتی ہے، جبکہ دوسری طرف عقیدہ ،احساسِ ذمہ داری اورتہذیب و تربیت سے آراستہ دل وجان نوجوانوں کی بیداری کی ضمانت فراہم کرتے ہیں، بصورتِ دیگرجس معاشرے میں شیطان کودلوں پرکنٹرول حاصل ہوجائے، وہ معاشرہ ایک بے بنیاد بات سے دوسری بے بنیاد بات کی طرف منتقل ہوتارہتاہے، اپنے ہی منبرومحراب کو تنقید کا نشانہ بناتاہے، ہرنئے فلسفے کونجات دہندہ سمجھ کر اس کے پیچھے چل پڑتاہے اوراس سے فکری غذا حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس کی آغوش میں ڈال دیتاہے۔ جب وہ صبح بیدار ہوتا ہے تو بدامنی اورافراتفری پھیلا دیتاہے، دوپہرکے وقت سوشلزم کے سامنے مؤدبانہ کھڑا ہو جاتا ہے، شام ڈھلے‘‘فلسفہ وجودیت’’کا احیا کرتاہے اور رات کو ہٹلر کے گن گاتاہے، لیکن اسے اپنی روح کے سوتوں، اپنی قوم کے برگ و بار، تہذیب و ثقافت اور روح کی طرف دیکھنانصیب نہیں ہوتا۔
جس نسل کا فکری بگاڑاس حدتک پہنچ چکاہو، اس کے لیے خواہشات و لذات کے چنگل سے آزاد ہونا مشکل ہوتاہے اور اس کے ذہن اور فکر کو صحیح رخ پرڈالنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے، لہٰذا نئی نسل میں درست اندازسے سوچنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے آج تک ہماری بقا اور معاشرے کے لیے بنیادی حیثیت رکھنے والے افکار کی اصطلاحات کو منظم اندازمیں اس تک پہنچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، بصورت دیگرہم جسمانی لذتوں میں ڈوبے رہیں گے اور ہماری حالت وہی ہوگی، جوشاعرمحمدعاکف نے بیان کی ہے:
’’اگروہ یہ کہیں کہ معاشرہ مردہ جذبات کے ساتھ اپنے وجود کو برقراررکھ سکتاہے توان کی تصدیق نہ کرنا۔مجھے کوئی ایک ایسامعاشرہ تودکھاؤ جو مردہ جذبات کے ساتھ قائم رہ سکا ہوا۔‘‘
الحادکے فروغ کاایک اورسبب اباحی فکر ہے، جس میں ہرچیزکو مباح اورقابل استفادہ سمجھاجاتاہے۔یہ فکرموقع و لذت پرستی پر مبنی ہے۔ آج اس فکر کو ایک منظم فکری اورفلسفیانہ قالب میں ڈھالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ہمارے ہاں یہ فکرسب سے پہلے فرائیڈ کے ’’نظریہ لبیڈو‘‘ (Libido) کالبادہ اوڑھ کرآئی اورمسلمانوں کی شرم وحیاکے مفہوم کو بگاڑ دیا۔اس کے بعد جان پال سارتراورابسیخ کامو (Albert Camus) کامٹ کے وجودی فلسفے نے ہمارے ہاں زور پکڑا اورشرم و حیاکی عمارت کو مسمارکرکے رہے سہے اثرات کو بھی مٹادیا۔
انسانیت کے لیے باعث ننگ و عاراس فلسفے میں انسانیت کی حیثیت ردی کی سی ہے، لیکن اس کے باوجوداسے انسان کاحقیقی رُخ ظاہرکرنے والے فلسفے کی حیثیت سے نئی نسل کے سامنے پیش کیاگیاہے۔یورپ اوراس کی تقلید کرنے والے ممالک کے نوجوان اس فلسفے کی طرف ایسے دوڑے جیسے انہیں ہپناٹائیزڈ(Hypnotized) کردیاگیاہو۔انسانیت یہ سمجھے بیٹھی تھی کہ اشتراکی فلسفے کے نتیجے میں فردکی جوقدرومنزلت کم ہوئی ہے،وجودی فلسفہ اسے اس کی کھوئی ہوئی قدرومنزلت واپس دلائے گا، جس کے نتیجے میں انسانیت کادرخت ازسرنوپھلنے پھولنے لگے گا، لیکن ہائے افسوس! انسانیت نہ جان سکی کہ وہ ایک بار پھردھوکے کا شکار ہو گئی ہے۔
چونکہ ایمان باللہ اورحلال و حرام کے مفاہیم اس قدربگڑی ہوئی نسل کے لذت پرستانہ فلسفے کے ساتھ میل نہیں کھاتے،اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حشاشین کے سربراہ حسن الصباح کی پرفریب جنت میں رہنے کی خواہش مند یہ نسل اپنے آپ کوالحاد کی آغوش میں دے دیتی ہے۔ ہم نے یہ بعض ملاحظات مستقبل کے صاحب بصیرت منتظمین،مرشدین اوراساتذہ کے غوروفکر کے لیے ذکرکیے ہیں،تاکہ وہ الحادکے سیلاب پر بند باندھ سکیں، تاہم ہمارایہ مقصدہرگز نہیں کہ بے راہ روی اورگمراہی کے صرف یہی اسباب ہیں، نیزالحادکی روک تھام کے لیے اختیارکی جانے والی تدابیربھی ان میں محصورنہیں۔ہماری آرزوہے کہ امت مسلمہ دورحاضرمیں خوابِ غفلت سے بیدار ہوکررشدوہدایت کی طرف لوٹ آئے۔
- Created on .