انسان گناہ کاارتکاب اپنے جزئی ارادے سے کرتاہے یااللہ تعالیٰ کے کلی ارادے سے؟
اس موضوع کو اختصارکے ساتھ یوں بیان کیاجاسکتاہے کہ انسان ارادے کامالک ہے، خواہ اس ارادے کوجزئی ارادے کانام دیں یااسے انسانی مشیت و کسب سے تعبیرکریں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی صفت خلق پرکلی ارادے، قدرت اورتکوینی ارادے کا اطلاق ہوتاہے۔ جب اس مسئلہ کو حق تعالیٰ کے تناظرمیں دیکھاجائے تو یوں لگتاہے جیسے اللہ تعالیٰ اپنے ارادے کو نافذ کرتے ہوئے حالات کو ایک متعین رخ پرچلنے پرمجبورکرتے ہیں اوریوں جبرکاعمل دخل بڑھ جاتا ہے، لیکن اگراسی مسئلے کوانسانی تناظرمیں دیکھیں تو یوں محسوس ہوتاہے جیسے انسان اپنے کام خود سرانجام دیتاہے،بلکہ معتزلہ کے الفاظ میں‘‘ہرانسان اپنے اعمال کاخالق ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کائنات میں ظہورپذیرہونے والی ہرچیزکے خالق ہیں۔ اوپرسوال میں ذکرکردہ کلی ارادے سے یہی مرادہے۔ارشادخداوندی ﴿وَاللَّہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ﴾ (الصافات :۹۶) ‘‘حالانکہ تم کو اور جو کچھ تم بناتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔’’ کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اورتم سے صادرہونے والے اعمال کوپیدافرمایاہے۔
مثال کے طورپراگرآپ کوئی گاڑی تیارکریں یاگھربنائیں توان کاموں کے خالق حق تعالیٰ ہیں،کیونکہ آپ اورآپ کے اعمال کا سرچشمہ حق تعالیٰ کی ذات ہے ،تاہم ان افعال کا کسب اورانہیں سرانجام دیناانسان کی طرف منسوب ہوتاہے۔یہ کسب عادی شرط اورظاہری سبب ہے اوراس کی مثال بجلی کے اس وسیع نظام کی سی ہے، جو محض آپ کے ایک بٹن دبانے سے بہت بڑے علاقے کوروشن کردیتاہے۔جس طرح یہ نہیں کہاجاسکتاکہ آپ نے کچھ نہیں کیااورجوکچھ ہوا اس میں آپ کاکوئی دخل نہیں ہے،اسی طرح یہ کہنابھی ممکن نہیں کہ یہ روشنی مکمل طور پرآپ کی مرہونِ منت ہے۔عمل کاحقیقی سبب حق تعالیٰ کی ذات ہے، لیکن ان اعمال کی تخلیق کے وقت اللہ تعالیٰ نے انسان کے جزئی ارادے کی مداخلت کوقبول کرتے ہوئے اسے اس کاعادی سبب اور اپنے فعل کواس جزئی مداخلت کانتیجہ قراردیا ہے۔
مثال کے طورپراس جامع مسجدمیں روشن بلب کو اللہ تعالیٰ نے پیداکیااوراسے کام کرنے کے قابل بناکراس میں روشنی کرنے کی صلاحیت رکھی،کیونکہ الیکٹرانز کے بہاؤسے بجلی پیدا کرنااورجامع مسجد کو روشن کرنا ایک ایسا فعل ہے، جس کاحقیقی سبب‘‘نورالنور’’، ‘‘منورالنور’’ اور ‘‘مصورالنور’’ہے،جو حق تعالیٰ کی ذات ہے، لیکن اس مسجد کو روشن کرنے کے عمل میں ایک چیز انسان کی طرف بھی منسوب ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیداکردہ اس آلے میں موجود ایک بٹن کو دباناہے، دوسرے لفظوں میں کام ،آلے، انسانی قدرت سے خارج روشنی کرنے کے عمل اورانسانی طاقت وارادہ کا حقیقی سبب حق تعالیٰ کی ذات ہے۔
اسے ایک اورمثال سے سمجھئے،فرض کریں ایک مشین کام کرنے کے لیے تیارہے اور آپ کا کام صرف اس میں موجودایک بٹن کودباناہے۔ اس مشین کے چلنے کاحقیقی سبب اسے بنانے اور تخلیق کرنے والاہے،یہی وجہ ہے کہ ہم انسان کی معمولی سی مداخلت کو کسب اورجزئی ارادے کا نام دیتے ہیں اورحق تعالیٰ شانہ کے عمل پرصفت ’’خلق‘‘ کااطلاق کرتے ہیں۔اس تفصیل سے ہمارے سامنے ارادے کی دوقسمیں آتی ہیں:
۱۔ کلی ارادہ
۲۔ جزئی ارادہ
ارادے کا مطلب متوجہ ہونااورچاہناہے،جس کا حقیقی سبب حق تعالیٰ کی ذات ہے: ﴿وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّہُ﴾(الانسان: ۳۰)’’اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظورہو۔‘‘اس بارے میں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے ،کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بندہ معمولی سے ارادے کامالک ہے، جس کاظہورانگلی دبانے کی صورت میں ہوتاہے توہم جبرمحض کے قائلین سے جداہو جاتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کوافعال کاخالق تسلیم کرکے اپنی راہ عقل پرستوں (Rationalists)سے علیحدہ کرلیتے ہیں، لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کی ربوبیت والوہیت میں کسی کو شریک بناتے ہیں اورنہ ہی کسی کوحق تعالیٰ شانہ کا مثل ٹھہراتے ہیں۔جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں ایک اوریکتا ہیں، اسی طرح وہ اپنے افعال اوراقدامات میں بھی کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہرچیزکے خالق ہیں، لیکن انہوں نے امتحان و آزمائش اور دیگربہت سے اسرار اور حکمتوں کے تحت انسانی عمل دخل اور کسب کو ایک عادی شرط کے طورپر قبول فرمایا ہے۔ اس موضوع کی مزید وضاحت کے لیے میں ایک جلیل القدر عالم {qluetip title=[(1)]}(1) بدیع الزمان سعیدنورسی مرادہیں۔ (عربی مترجم){/qluetip} کی پیش کردہ مثال ذکرکرنامناسب خیال کرتاہوں۔ وہ لکھتے ہیں:
فرض کریں کسی بچے نے آپ سے مطالبہ کیاکہ آپ اسے گودمیں اٹھاکرفلاں جگہ لے جائیں،چنانچہ آپ نے اس کی خواہش پوری کردی، لیکن وہاں وہ سردی لگنے کی وجہ سے بیمار ہو گیا۔ کیا وہ آپ کویہ کہہ کرملامت کرسکتاہے کہ آپ اسے وہاں کیوں لے کرگئے۔اس کا جواب یقینانفی میں ہے،کیونکہ اس نے خود اس کامطالبہ کیاتھا، بلکہ اگر وہ آپ کو ملامت کرے تو آپ اسے ڈانٹ سکتے ہیں۔کیا آپ بچے کے ارادے کی نفی کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے، لیکن اس کے باوجود آپ ہی اسے اس جگہ لے کر گئے ہیں، نیزبیماری بچے کا فعل نہیں ہے،کیونکہ اس سے تو صرف مطالبہ سرزدہواتھا، لہٰذا یہاں بیمارکرنے والے، بچے کووہاں لے جانے والے اور وہاں جانے کا مطالبہ کرنے والے کے درمیان امتیاز کرناضروری ہے۔ہم تقدیر اور انسانی ارادے کوبھی اسی تناظرمیں دیکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہرچیزکافیصلہ فرمانے والے ہیں۔واللہ اعلم
- Created on .