(اقرأ)کے حکم سے نزولِ قرآن کے آغاز کی حکمت کیا ہے؟
(اقرأ)کاحکم خداوندی تمام کمالات کی جامع اعلیٰ ترین ہستی کے لیے اوران کے ذریعے سے ساری مخلوق کے لیے ایک حکم، دعوت اورخدائی ذمہ داری ہے۔یہ کائنات جسے ہمارے غوروفکرکے لیے ہماری نگاہوں کے سامنے پھیلایاگیاہے اورجو خالق کائنات کے پیداکردہ نظام، اس کی قدرت،عظمت اورجمال کی گواہ ہے،لوح محفوظ کامحض پرتوہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کے سوا اس کائنات کی ہرزندہ وبے جان چیزکواس کائنات میں ودیعت کردہ تجلیات اورحکمتوں کوبے نقاب کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
ہرزندہ اوربے جان چیزکتاب کی مانندہے،یہی وجہ ہے کہ ‘‘انظر’’(دیکھئے) اور ‘‘شاہد’’ (مشاہدہ کیجئے)کی بجائے (اقرأ)(پڑھئے)کاحکم دیا گیا ہے، کیونکہ صرف کتاب کوہی پڑھا جاسکتاہے۔چونکہ اس کائنات کی ہرزندہ چیزکتاب کی مانندہے، اس لیے یہ کائنات ایک بہت بڑے خدائی کتب خانے کی حیثیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جہاں انسان کے سوادوسری ساری مخلوق کولکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ، وہیں حضرت انسان کولکھنے کے ساتھ ساتھ خصوصی طورپرپڑھنے کاحکم دیاگیاہے۔
علم نظام کائنات کی تجلیات کی معرفت حاصل کرنے، کائنات کی مختلف اشیاء کے درمیان موجودتعلق کو جاننے اوران میں سے ہرایک کواس کے مقام پررکھنے سے عبارت ہے۔ چونکہ اس تمام نظم ونسق اور نظام کائنات میں پائی جانے والی باریک بینی وہم آہنگی کاباعث اتفاق محض کوقرار نہیں جا سکتا، اس لیے اس نظام کے لیے کسی واضع کاہوناضروری ہے، ایک ایساواضع جس کے وجودمیں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔
کسی بھی نظام کووجودمیں لانے سے پہلے اس کا ایسے ہی تصورکیاجاتاہے ،جیسے ایک ماہر تعمیرات نقشے کوکاغذپربنانے سے پہلے اس کا تصورکرتاہے۔اگرہم انسان اوراس کے فکر کی مادی ساخت اوراُس کے اِس کے تصورِوجودپراثراندازہونے کے طریق کارسے صرف نظرکرلیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح لوح محفوظ کائنات میں موجود وسیع نظام سے عبارت ہے، اسی طرح قرآن کریم لوح محفوظ کاپرتواوراس نظام کی تحریری صورت ہے،اس لیے انسان کافرض ہے کہ وہ پڑھے اورجب بھی پڑھے سمجھنے کی کوشش کرے۔بعض اوقات اس سے سمجھنے میں غلطی بھی ہوسکتی ہے اورعلم کے جوہرکے ذریعے اعتمادویقین کے مقام تک پہنچنے کی سعی وکاوش کے دوران وہ صحیح وغلط تجربات سے گزرسکتاہے۔
دیکھنا،مشاہدہ کرنااورسمجھنا ایک دوسرے سے مختلف امورہیں، جبکہ سمجھی یاقبول کی جانے والی بات کاقلب وشعورپرنقش ہونابالکل مختلف چیزہے اوراس کے بعد اسے عملی صورت پہنانا اور دوسروں کواس کی دعوت دینابالکل مختلف بات ہے۔یہ تمام مختلف لیکن فہم وادراک سے پیوستہ امور ہمہ وقت موجودرہتے ہیں،کیونکہ کائنات میں بہت سے قوانین کارفرماہیں،جنہیں وضع کرنے والی ہستی باریک بینی اورہم آہنگی کے ساتھ چلاتی ہے۔ان میں سے بعض قوانین حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ وحدت سے کثرت کی طرف سفر۔
۲۔ اس کثرت کے درمیان مشابہت ،اختلاف اورتضاد کاپایاجانا۔
۳۔ اضدادکے درمیان فعال توازن کاپایاجانا۔
۴۔ باری باری ذمہ داری اٹھانا
۵۔ سیکھنا،بھولنااورپھرنئے سرے سے سیکھنا۔
۶۔ جدوجہدکرنا۔
۷۔ تجزیہ وترکیب۔
۸۔ کشف والہام۔
چونکہ یہ تمام قوانین انسان پربھی لاگو ہوتے ہیں، اس لیے فکرونظر، عقیدہ و کردار اور طرزعمل کے لحاظ سے لوگوں میں تنوع،فرق اوراختلاف فطری بات ہے،لیکن یہ فطری امتیازات اورتضادات بے حس وحرکت نہیں ہوتے،بلکہ متوازن انداز میں فعال کردار ادا کرتے ہیں، لہذا یہ فطری بات ہے کہ بعض اوقات ایمان کی طرف کی جانے والی سعی علم سے محروم ہوتی ہے اور بسااوقات علم کی خاطر کی جانے والے سعی نہ صرف ایمان سے خالی ہوتی ہے،بلکہ اسے نظرانداز کر دیتی ہے، اسی لیے علم وعبادت ،اقراروانکار، فضائل و رذائل، انصاف وظلم،محبت ونفرت اور جنگ و امن ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔بعض لوگوں کی زندگی میں سستی ، پژمردگی اور دوسروں پر انحصار کی عادت پائی جاتی ہے،جبکہ بعض دوسرے انسان سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ اکیلے ہی سرانجام دے سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی زندگی میں جلدبازی، انتہاپسندی ،جنون اورخواہش پرستی دیکھنے میں آتی ہے،جوکبھی توتعمیری کرداراداکرتی ہے اورکبھی تخریبی۔
رحمۃ للعالمین کی حیثیت سے مبعوث ہونے والی یکتائے روزگارشخصیت کی تعلیمات کے بارے میں بھی نسیان پیش آسکتاتھا،لیکن اسے ازسرنویادکرنے اورسیکھنے کی ضرورت تھی اوراس قسم کے تجزیہ وتحلیل کے نتیجے میں نئی بحث،نئے فکراورنئی وحی کاظہورہونے والاتھا۔
چنانچہ ایساہی ہوا،ایساہوناناگزیرتھااورآج تک ایسا ہوتاچلاآرہا ہے۔معاشرتی زندگی کی عمارت استوارکرنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر‘‘دس احکام’’ کانزول ہوا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرانسانی تعلقات کے بارے میں بردباری،شفقت ورحمت،محبت اورصبروتحمل کا الہام ہوا اورنبی اکرمﷺکواوپرذکرکردہ امورکے علاوہ علم،ارادہ،حکمت،اعتدال پسندی، افکارکا تجزیہ وتحلیل کرنے کی صلاحیت، فصاحت اورجوامع الکلم عطاکیے گئے،یہی وجہ ہے کہ مسلمان کی ذمہ داریاں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بھی ہیں اورمشکل بھی،لیکن ان میں لطافت اورعظمت بھی اسی تناسب سے زیادہ ہے،کیونکہ ان میں ‘‘دس احکام’’ اور محبت،عفوودرگزر،شفقت وبردباری اور صبروتحمل جیسے معاشرتی اصولوں کے علاوہ علم وحکمت،ارادہ وانکسار اور تالیف قلوب بھی شامل ہیں، جس کالازمی نتیجہ ان کی عظمت کے اثبات کی صورت میں نکلتاہے، لہٰذا طبیعیات،کیمیا اور حیاتیات کے میدان میں ہونے والے نئے نئے انکشافات اورسائنسدانوں کے ہاتھوں حاصل ہونے والی ترقی احترام کی نظرسے دیکھے جانے کی مستحق ہے،کیونکہ ان کی وجہ سے کائنات کی اشیاء کے درمیان موجودتعلق کے بارے میں بہت سے قرآنی حقائق سے پردہ اٹھا ہے،تاہم اس کے ساتھ ساتھ انسانیت کوخالقِ کائنات کے وجوداورالہام و وحی کے انکاراورانسانی ارادے کوحاکمیت اعلیٰ کامقام دے کرالوہیت کادرجہ دینے کی فکری گمراہی سے بچانا بھی ضروری ہے۔
سائنسی تجربات اورنئے دریافت ہونے والے قوانین کی روشنی میں اگرطبیعیات،کیمیا اور حیاتیات کے علوم کونئی راہیں نہ دی گئیں تواس معاشرے کوشدید خطرہ لاحق ہوجائے گا،جس میں نئی ایجادات سے دھوکے میں مبتلاانسان سرکشی پراترآیاہے،وہ تمام انسانی پابندیوں سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنے لگاہے اورزیادہ بے باک ہوکراحساسِ ذمہ داری سے محروم ہونے لگا ہے۔ آج انسان انسانی اقدار سے دور ہو کران جانوروں کی مانندہو گیاہے، جن پرتجربہ گاہوں میں تجربات کیے جاتے ہیں، لہٰذا انسان پرلازم ہے کہ وہ اس شعورکوبیدارکرے کہ وہ انسان ہے اوریہ کہ معاشرہ اس پرتجربات کرنے کے لیے تجربہ گاہ نہیں ہے۔
غرض عصری علوم کوجمودوخمود اوربے فائدہ امورسے پاک کرناضروری ہے۔اس سے ایک توموضوع کے مسئلے کو اچھی طرح سمجھنے میں مددملتی ہے، جس سے علوم خصوصی طورپربحث کرتے ہیں،دوسرے اس کے ذریعے انسان اپنے ارادے اورذہنی صلاحیتوں کے مطابق اپنی ذمہ داری کواداکرنے کے قابل بنتاہے اورباطنی طورپراپنے احساسات اوردل کی کیفیات کامشاہدہ کر سکتاہے،جس کے نتیجے میں تعلیم یافتہ انسان فصیح زبان اورایسے دل کی مانند ہوجاتاہے،جواپنے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود کائنات کوایک ایک سطرکرکے پڑھ سکتاہے۔اس بات کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں کہ کائنات خصوصاً اس کے تکوینی امورکتاب سے مختلف نہیں،چونکہ قلم کوسب سے پہلے پیداکیاگیاہے،اس لئے قرآن کریم میں سب سے پہلے نازل ہونے والاحکم (اقرأ) (پڑھیے)ہے۔
لیکن یہ مسئلہ اتنا سہل نہیں جتناکہ پہلی نظرمیں دکھائی دیتاہے۔اس نظریے کے باوجود کہ ظاہری وباطنی قوتِ احساس کی بقدراحساس وشعور قوی ہوتاہے،کسی بھی حاسہ کوپیش آنے والے عارض کے دوسرے حواس پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اعجاز کے حامل قرآن کریم میں بہرے پن،اندھے پن اورگونگے پن کوایک ساتھ ذکرکیاجاتاہے،کیونکہ اگرچہ آنکھ کے ذریعے بھی تکوینی امورکو پڑھناممکن ہے،لیکن تنزیلی امورکے پرتو کو محفوظ کرنے والے اسرار سے سب سے پہلے قوتِ سماع ہی محظوظ ہوتی ہے۔زبان کاکام تواس مشاہدے اورسماع کی ترجمانی کرناہے،لہٰذا جو انسان انفس وآفاق میں پائی جانے والی نشانیوں کونہیں دیکھ سکتاوہ اپنے کانوں تک پہنچنے والے اسرارکوبھی نہیں سن سکتااوراگرسن بھی لے توسمجھ نہیں سکتا، اسی طرح جس دل کا خدائی احکام سے رشتہ ٹوٹ جائے وہ اپنے کانوں میں پڑنے والی آواز کونہیں سمجھ سکتا،بلکہ فطری شریعت پرغورو فکرکرنے کوبے فائدہ کام سمجھتا ہے۔
لہٰذا(اقرأ)کاحکم وحدت، تعامل اورتکمیل کی علامت ہے، نیزیہ مشاہدے، قدرپیمائی اور ذکاوت کے پہلوکی طرف اشارہ اور اس روحانی معرفت کی لفظی تعبیرہے۔چونکہ یہ ہمیں ملنے والاپہلاحکم ہے، اس لیے اس میں ہمارے لیے غوروفکرکے بہت سے پہلوہیں۔
اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظرہم نے اس کی کچھ زیادہ وضاحت کی ہے۔ممکن ہے بعض اوقات ہم اپنے موضوع سے ہٹ بھی گئے ہوں، لیکن ہمیں امیدہے کہ اگراس موضوع کا بار بارمطالعہ وتجزیہ اوراس پرغوروفکرکیاجائے گا توہمیں اس طوالت کے سلسلے میں معذور سمجھاجائے گا۔
- Created on .