کیاروحوں کے غیر متغیرہونے سے ان کا غیرحادث ہونالازم نہیں آتا؟
اس سوال کاتعلق علم الکلام کے مشکل ترین مباحث سے ہے۔اس کاپس منظریہ ہے کہ چونکہ کائنات ہر لمحہ تغیرپذیرہے،اس لیے ہم کہتے ہیں کہ وہ حادث ہے،یعنی عدم سے وجودمیں آئی ہے اور عدم کی طرف ہی محو سفرہے۔وہ مسلسل حرکت میں ہے اورتحلیل ہو رہی ہے۔دوسری طرف اس تغیرپذیرکائنات کو وجود بخشنے اوراس کا نظام چلانے والی ذات ہرقسم کے تغیروتبدل سے پاک ہے،گویا ہرتغیرپذیرچیزتغیروتبدل سے پاک ذات کی طرف مشیرہے اوروہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذاتِ واجب الوجود ہے، جو تمام کونی اور بشری عوارض سے ماورا ہے۔خدائی صفات کے تذکرے کے ضمن میں اوپر ذکرکردہ سوال ذہن میں پیداہوتاہے،جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
اللہ تعالیٰ تغیروتبدل سے پاک ہیں۔وہ کھانے پینے کے محتاج نہیں۔وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے اور اپنے وجود کے لیے کسی کے محتاج نہیں،لیکن ایک پہلو سے روح بھی بسیط ہے،یعنی وہ مادے سے مرکب نہیں،قرآنی اصطلاح میں اس کا تعلق عالم خلق کی بجائے عالم امرسے ہے،جس کامطلب یہ ہے کہ وہ ذرات کی ترکیب کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئی،بلکہ اس کاتعلق ملائکہ کرام کی طرح کے ان باشعور نورانی قوانین سے ہے،جو امرخداوندی سے وجود میں آتے ہیں،دوسرے لفظوں میں روح نیوکلیس اور الیکٹرانز میں موجود قانونِ کشش اور بیج میں موجود قانونِ نمو کی طرح کا ایک قانون ہے، فرق صرف اتناہے کہ دوسرے قوانین میں زندگی اور شعور نہیں ہوتا اور اس میں شعورہے۔
روح بسیط اس لیے ہے کہ یہ مادے سے مرکب ہوتی ہے اور نہ ہی اینات (Ions) کی صورت میں تحلیل ہوتی ہے،بلکہ اس کا وجود ہردم برقرار رہتاہے،یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہونے لگتاہے کہ نعوذباللہ وہ اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے مشابہ ہیں،یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ تغیرسے پاک ہیں،اسی طرح ان کی روح میں بھی تغیرنہیں ہوتا۔سوال یہ ہے کہ آخرخدا اور روح میں کیافرق ہے؟
اس کاجواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تغیروتبدل اورالوان و اشکال سے منزہ و مبریٰ ذات ہیں،جبکہ روح کو اللہ تعالیٰ نے بسیط بنایاہے۔اللہ تعالیٰ خالق اورروح مخلوق ہے۔اللہ تعالیٰ خودسے قائم اور موجود بذاتہ ہیں،جبکہ روح سمیت ساری مخلوقات کی بقا اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ہرچیزاللہ تعالیٰ کے سامنے دستِ استعانت پھیلائے کھڑی ہے اوراللہ تعالیٰ‘‘ایاک نستعین’’کے صدقے ساری مخلوق کی اعانت و مدد فرماتے ہیں۔دوسری مخلوقات کی طرح روح بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے دست حاجت پھیلائے ہوئے ہے۔ اس کاوجود اللہ تعالیٰ کے سہارے کھڑاہے۔جب تک اسے یہ سہارا ملا رہے گا اس کا وجود برقرار رہے گا،بصورت دیگر فنا اس کا مقدر ہے۔اللہ تعالیٰ نے روح کو ایک ایسے ذی شعور قانون کے طور پر پیدافرمایاہے،جو اس کی قدرت و ارادے کا محتاج ہے۔اس کے وجود کو صرف اسی صورت میں استمرار و دوام حاصل رہے گا۔
بات سمجھانے کے لیے ہم یہ مثال دے سکتے ہیں کہ سورج میں روشنی، کرنیں اور رنگ ہیں،یہی صورتِ حال چاند کی بھی ہے،لیکن اگر بالفرض سورج فنا ہو جائے تو چاند میں کسی قسم کی روشنی اورچمک باقی نہ رہے گی،اس سے ثابت ہواکہ چاند کی روشنی سورج میں موجود اصل روشنی کا پرتو اور جھلک ہے۔سورج کے فناہونے کی صورت میں چاند کی ضیا پاشی برقرار نہیں رہ سکتی، کیاایسی صورت میں چاند اور سورج کو ایک ہی پلڑے میں رکھاجاسکتاہے؟اس کا جواب یقینانفی میں ہے۔قرآن کریم چاندکو‘‘منیر’’ (الفرقان:۱) اوراس کی روشنی کو نور جبکہ سورج کو﴿سراج وہاج﴾(النبأ: ۱۳)‘‘روشن چراغ’’قراردیتاہے۔اگرچہ یہ مثال اورتشبیہ مقام الوہیت کی عظمت کے شایاں نہیں، لیکن اس بات کوسمجھانے کے لیے ایک مادی تشبیہ کی ضرورت تھی۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ روحوں کے ساتھ ساتھ جسموں کو بھی بقا اور خلود عطا فرمائیں گے۔اللہ بھی باقی ہیں اور وہ بھی باقی رہیں گے،لیکن ان کی بقا اللہ تعالیٰ کی مشیت کی مرہونِ منت ہوگی۔اگراللہ چاہیں گے توسب کو فنا فرما دیں گے،لیکن اللہ تعالیٰ کاوجودقائم بذاتہ ہے۔ہرچیزفناہوسکتی ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس تمام عوارض سے پاک ہیں۔
- Created on .