کیا سلطنت عثمانیہ کے سقوط میں دینی مدارس اور خانقاہوں کاہاتھ ہے؟
دینی مدارس میں دینی اور عقلی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔جن ادوار میں عقل کی نشوونما اور قلب و ضمیر کی تہذیب پر توجہ دی جاتی تھی،ان میں یہ مدارس اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔باقی خانقاہیں اللہ تعالیٰ کے وہ گھر ہیں جن میں رسول اللہﷺ کی روحانی زندگی کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔ان گھروں میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اور غور و فکر کے دروازے اور خدا تک پہنچانے والے دریچے وا کئے جاتے ہیں۔ ان گھروں میں مادہ پرستانہ طبیعی نقطہ نظر کے بت کو پاش پاش کرکے نورِالٰہی کی ضوافشانیوں سے متعارف کرایا جاتا ہے۔یہ بہت اہم فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور آج بھی بعض مراکز یہ فرائض سرانجام د ے رہے ہیں۔مساجد نے بھی ان میں سے بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس سلسلے میں جلیل القدر اور مختلف الجہات خدمات سرانجام دی ہیں،لہٰذا امت مسلمہ کے لیے ان دو مبارک اداروں کی خدمات کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا پھر یہ ادارے اپنے اوپر منہدم ہونے والی دنیا کے ملبے کے نیچے کام کرتے رہے یا یوں کہیں دنیا ان کی خاکستر میں جیتی رہی۔ہمارا المیہ سلطنت کا زوال نہیں ہے،بلکہ ہمارا اصل المیہ روحانی افلاس ہے۔
یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اربابِ سلطنت یہ بات نہ اس وقت سمجھ سکے اور نہ ہی اب یہ ان کی سمجھ میں آتی ہے، ورنہ ہمارے سقوط اور شکست کا سبب صرف دینی مدارس ہی نہیں ہیں،بلکہ اس کے برعکس جب مدارس زوال پذیر ہوئے تو امت کو بھی تنزل کا سامنا کرنا پڑا،کیونکہ ہماری تاریخ میں دینی مدارس وہی کردار ادا کرتے رہے ہیں،جو کردار آج متوسط اور ثانوی مدارس،جامعات اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ہے۔
خلفائے راشدین رسول اللہﷺ کے مدرسے کے اولین فضلاء میں سے تھے۔ مسجدنبوی ہی وہ مدرسہ تھا جہاں ایسی عظیم ہستیاں پیدا ہوئیں۔اس پہلی مسجد سے اس سنت کا آغاز ہواکہ عبادت گاہوں سے مدارس کا کام لیا جائے۔یہ سنت بعد کے ادوار میں بھی جاری رہی اور مساجد تفسیر،حدیث اور فقہ کی تعلیم کے مراکز بن گئیں، جہاں نہ صرف علم کلام پڑھایا جاتا،بلکہ کائنات سے متعلق تمام علوم و فنون کی تعلیم دی جاتی تھی۔جس طرح یورپ میں عہدِ نشاۃ ثانیہ کو بحث و تحقیق اور روشن خیالی کے دور سے یاد کیا جاتا ہے،اسی طرح مسلمانوں کے ہاں ترقی کا دور حضرت محمدﷺ سے شروع ہوا،خلفائے راشدین کے دور میں اس میں اضافہ ہوا اور چوتھی صدی ہجری میں تیزی سے عمودی ترقی کے مرحلے میں داخل ہوا۔یہ بات توجہ طلب ہے کہ ابن سینا اور البیرونی جیسی شخصیات چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں پیدا ہوئیں۔رسول اللہﷺ کی بعثت کے صرف چار صدیوں بعد اسلام کی عظیم شخصیات نے ایسی ایسی کتابیں لکھیں جو ان کے بعد صدیوں تک یورپ کی جامعات میں پڑھائی جاتی رہیں۔یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور صنعتی انقلاب بڑی حد تک انہی کتابوں کا مرہونِ منت ہے۔یورپ نے انہی کتابوں سے استفادہ کرکے دنیا پر اپنی حکومت،طاقت اور غلبے کی دھاک بٹھائی۔خاص طور پر ابن سینا،رازی اور زہراوی کی طبی کتابوں نے مغرب کی عقلی ساخت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔مغرب کی کسی بھی علمی کتاب کو کئی صدیوں تک متداول رہنا نصیب نہ ہوا،لیکن ابن سیناکی کتابوں کو آٹھ سو سال اور زہراوی کی کتابوں کو ایک ہزار سال تک یورپ میں علم طب کے میدان میں سند کی حیثیت حاصل رہی۔
نظام الملک کے مدارس مساجد سے منسلک اہم ترین علمی مراکز تصور کئے جاتے تھے۔ایک طرف وہ غزالی کی متعارف کردہ روحانیت کا نمونہ پیش کرتے تھے تو دوسری طرف ان میں عصری علوم کی تعلیم دی جاتی تھی،یعنی ذہنوں کو خالص علوم سے جلا ملتی تو دلوں کو دینی علوم سے روشنی حاصل ہوتی اور ذہن اور دل کے اس حسین امتزاج سے ابن سینا، رازی، البیرونی، بطانی اور زہراوی جیسی عظیم ہستیاں پیدا ہوتیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے میدان کا شہسوار تھا۔کسی نے علم فلکیات پرخصوصی توجہ دی تو کسی نے علم فلکیات اور طبیعااتی قوانین کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔بعض نے ‘‘علم مثلثات‘‘ (Trignometry)، ’’جیب‘‘ (sin) اور ‘‘جیب تمام‘‘(cos) کو اس دور کے غیرترقی یافتہ آلات کے ساتھ استعمال کرکے زمین کے محیط کی پیمائش کرنے کی کوشش کی،نیز کوپرنیکس اور گلیلیو سے سات آٹھ سو سال پہلے وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔جب مغرب جہالت اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت ہم ہیڈرولک نظام (Hydraulic System) سے چلنے والے آلات اور گھڑیاں بنا رہے تھے۔قرہ آمدی جزری نے آٹھ سو سال پیشتر ہیڈرولیک توانائی اور نظام سے چلنے والے بہت سے خودکار آلات ایجاد کئے تھے،بلکہ اتنے قدیم دور میں ہم حرکت کرنے والے مصنوعی گھوڑے بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ اس وقت اہل مغرب کے لیے گھڑی کا طریقِ کار ناقابل فہم تھا۔وہ گھڑی کو دیکھ کر حیرت سے پوچھتے:‘‘کیا اس میں کوئی جن ہے؟’’اس دور میں سائنسی ترقی کی قیادت دینی مدارس کے ہاتھ میں تھی۔
ان دینی مدارس کے پہلو بہ پہلو خانقاہیں تھیں،جو انسان کے سامنے عالم آخرت کا دریچہ کھولتیں اور دلوں کو نور سے منور کرتیں۔اس دور میں بڑے بڑے صوفیائے کرام پیدا ہوئے،جن میں سے کسی کا یہ کہنا تھا کہ اگر میں ایک لمحے کے لیے بھی رسول اللہﷺسے محروم رہوں تو میں مر جاؤں۔یہ صوفیائے کرام اور اولیائے عظام انسانیت کے لیے روشنی کے منارے تھے۔جس طرح دریائے نیل نے اپنے اردگرد کی زمین کو سرسبزوشاداب اور پھلوں سے لدے باغات میں تبدیل کیا،اسی طرح ان عظیم ہستیوں نے دلوں کو محبت الٰہیہ کے جام پلا کر ان کی تربیت کی۔
خانقاہوں اور مدارس کا آپس میں حسین امتزاج تھا اور انہوں نے انسان کو انسان کامل کے مقام پر پہنچانے کے لیے اس کی روح،دل،ذہن اور دیگر تمام لطائف کی ترقی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں مدارس اور خانقاہیں اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے ادا کر رہی تھیں،لیکن پھر زمانے نے پلٹا کھایا،وہ سنہری دور ختم ہو گیا اور مدارس نئے حقائق کی دریافت کی بجائے پہلے لوگوں کی تحریروں کے نقل کرنے پر اکتفا کرنے لگے،مثلاً ابن سینا،بطائی اور غزالی وغیرہ کی تحقیقات کی تشریحات پر اکتفا کیا جانے لگا،جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ غزالی اور بطائی جیسی شخصیات پیدا ہونا بند ہو گئیں،ہر کوئی پہلے لوگوں کی تحقیقات کو طوطے کی طرح دہرانے لگا،حقیقی علماء کے پیدا نہ ہونے کی وجہ سے ہماری سوچ کے دائرے تنگ ہو گئے اور ہمارے سامنے راستے بند ہو گئے اور ہر طرف بلیک ہولز (Black Holes) پیدا ہو کر امت کو نگلنے لگے۔یہ باتیں کہنا اور تاریخی اعتبار سے ہر چیز کو اس کا حق دینا ناگزیر ہے۔
خانقاہوں نے دس بارہ صدیوں تک اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دیں، اناطولیہ کے کونے کونے میں ہدایت کی روشنی پھیلائی اور لوگوں کے دلوں کو آتشِ شوق و وجد سے گرمایا۔یہ ایک سنہری دور تھا۔میں نہیں جانتا کیا دینی مدارس اور خانقاہوں کا ایک ہی معیار تھا؟کیا ان میں عظیم لوگ موجود تھے؟یا وہ پہلوں کی باتوں کو دہرانے پر اکتفا کئے بیٹھے تھے اور ان کی کرامات کے ذکر سے اپنے دل کو تسلی دیتے تھے؟اگر دینی زندگی ایک قسم کی لوک کہانی (Folklore) میں،مدارس قیل و قال کے مراکز میں اور خانقاہیں رسم و رواج کی جگہوں میں تبدیل ہو گئی تھیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ یہ ادارے اپنی افادیت کھو چکے تھے۔
ہم پورے اطمینان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ دینی مدارس نے ایک مخصوص دور کے بعد اپنی افادیت کھوئی۔ایک عرصے تک وہ اپنی ذمہ داریاں اور فرائض اسی طرح ادا کرتے رہے جیسے بکری چارہ کھا کر اسے لوگوں کے پینے کے لئے دودھ میں تبدیل کر دیتی ہے۔مدارس ایک لمبے عرصے تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، تاہم جن ادوار میں یہ اپنا کردار اور ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوگئے تو دوسری ہر چیز کی طرح امت،سلطنت اور حکام کے لیے ایک آزمائش بن گئے۔
جو مدارس اور خانقاہیں دین اور دینی ریاست کے ساتھ ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکتیں وہ حقیقت میں مدارس اور خانقاہیں کہلانے کی مستحق ہی نہیں ہیں۔جو ادارے علم کو پس پشت ڈال کر اپنے دین اور ریاست سے دشمنی کرنے لگتے ہیں وہ کسی بھی نام سے موسوم ہوں ان میں خرابی درآتی ہے اور جب تک ان کی تجدید کر کے انہیں پہلی حالت پر نہ لایا جائے ان کی خرابی نہ صرف یہ کہ برقرار رہتی ہے،بلکہ مزید پھیلتی ہے اور بنیادوں سے دیواروں اور چھت میں منتقل ہو جاتی ہے۔مدارس معاشرتی زندگی کی بنیاد ہوتے ہیں۔اگر بنیاد ہی مضبوط نہ ہو تو ریاست اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔سلطنت عثمانیہ کے ساتھ بھی یہی المیہ پیش آیا۔دینی مدارس اور خانقاہوں نے اسے نہیں گرایا،بلکہ وہ تو ان عوامل میں سے تھے،جنہوں نے اس کی حفاظت کی اور اسے سہارا دیا،لیکن جب یہ مدارس خود شکست و ریخت کا شکار ہو گئے تو ان پر قائم سلطنت کی عمارت بھی زمین بوس ہو گئی۔یہ ایک المناک مگر فطری انجام ہے،جسے قرآن کریم نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے: ﴿إِنَّ اللّہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ﴾(الرعد: ۱۱)‘‘اللہ اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے۔‘‘
- Created on .