عثمانیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ترکوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟
گزشتہ چند سالوں سے عثمانیوں پر عجیب و غریب اور ناقابل تصور الزامات لگائے اور افتراءات باندھے جا رہے ہیں۔دولت عثمانیہ کے آخری شیخ الاسلام علامہ مصطفی صبری آفندی اپنی کتاب ‘‘موقف العقل’’ میں اس اہم موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:‘‘انسانی تاریخ میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری،جسے اپنے آباءو اجداد سے ہماری قوم کی بہ نسبت زیادہ عداوت ہو۔‘‘
ہر قوم کے لوگ خواہ وہ سائنس دان ہوں،ماہرین عمرانیات ہوں،اولیائے کرام ہوں یا ادباء ہوں اپنے اسلاف کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں،مثلاً بطلیموس نے جغرافیہ اور کوسموگرافیCosmography{qluetip title=[1]}(1) اس علم میں علم فلکیات، جغرافیہ اور علم طبقات الارض شامل ہیں۔ (عربی مترجم){/qluetip} کے موضوع پر کتابیں لکھیں،اس کے بعد کوپرنیکس نے بطلیموس کی بعض تحریروں کا غلط ہونا ثابت کیا،لیکن اس کے باوجود اس نے ادب کا خاص خیال رکھا۔وہ لکھتا ہے:’’اے بطلیموس! تمہاری روح خوش و خرم رہے! اگرچہ تمہاری تحریروں میں بعض باتیں غلط بھی ہیں،لیکن تمہارے سامنے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ تھا،کیونکہ تمہارے دور تک علوم و فنون نے اسی قدر ترقی کی تھی اور تمہارے لیے اس حد سے آگے بڑھنا ممکن نہ تھا۔‘‘
کوپرنیکس کے بعد گلیلیو اور پھر آئن اسٹائن آیا۔آئن اسٹائن نے کوپرنیکس اور گلیلیو کی بعض غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے باوجود ان کی تعریف و توصیف کی اور انہیں علم فلکیات کے بانیوں میں شمار کیا۔
صفر کا ہندسہ ہندوستان سے اناطولیہ منتقل ہوا اور یہاں سے مسلمانوں کے ذریعے یورپ پہنچا،جہاں اس وقت تک رومن اعداد مروج تھے۔یہ حقیقت ہے کہ ان کے ہاں مروجہ اعداد کے ذریعے علم ہندسہ اور علم ریاضی کے مباحث کو حل کرنا ممکن نہ تھا۔جونہی صفر کا عدد یورپ پہنچا وہاں رائج اعداد میں جان پڑ گئی۔اگرچہ اکثر اہل یورپ مسلمان سائنسدانوں کے کارناموں کے اعتراف میں قدرے بخل سے کام لیتے ہیں،تاہم انہوں نے صفر اور ریاضیات کے ضمن میں نئے متعارف ہونے والے اصول و مبادی کی قدر و منزلت کا اندازہ لگا کر ان سے خوب استفادہ کیا۔اگر صفر نہ ہوتا تو یورپ کوئی سائنسی عقدہ حل کر سکتا اور نہ ہی خلا کی تسخیر کے لیے نکلتا۔ اگرچہ انہیں دی جانے والی چیز ‘‘صفر’’ تھی،لیکن اس کے نتائج بہت اہمیت کے حامل تھے۔ امت مسلم میں بھی اس قسم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں،مثلا امام غزالی اس دنیا میں آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے۱۰۵۸ ہجری میں آئے،لیکن وہ اپنے دور کی ثقافت اور علوم پر سبقت لے گئے اور فلکیات،طب اور ہندسہ کے علوم میں بہت سے اہم اضافے کیے حتی کہ گِب ان کے بارے میں لکھتا ہے:‘‘انسانی تاریخ میں مجھے ان جیسا کوئی ایسا شخص نہیں ملا،جس نے اپنے دور کے علوم کو سمیٹ کر انہیں آئندہ آنے والی نسلوں تک پہنچایا ہو۔’’گویا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ غزالی جیسی کسی اور شخصیت سے نا واقف ہے۔
اگر ہم امام فخرالدین رازی کی کتابوں کو جمع کر کے ایک دوسرے پر رکھنا شروع کریں تو وہ ہماری قامت کی اونچائی سے بلند تر ہو جائیں گی۔ان کی صرف تفسیری تحریریں چھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہیں۔لوگوں نے ان کے ہاتھ سے لکھے گئے صفحات کو شمار کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بشمول ایام طفولت کے روزانہ پندرہ سے بیس صفحات لکھے ہیں۔شاید آپ کو یہ معمولی سی بات لگے،لیکن اگر آپ ایک صفحہ لکھنے بیٹھیں گے تو آپ کو پتا چلے گا کہ ایک صفحہ لکھنے میں آپ کے تیس سے چالیس منٹ صرف ہوئے ہیں،خصوصاً اگر موضوع سنجیدہ اور علمی ہو اور بحث و تحقیق کا متقاضی ہو تو اس میں اور بھی زیادہ وقت لگے گا۔
یہ لوگ اپنے زمانے کے علوم و ثقافت سے سینکڑوں سال آگے نکل گئے تھے اور ان کی نظریں نہ صرف آفاق پر مرکوز تھیں،بلکہ وہ آفاق سے بھی پرے جھانکتے تھے، لیکن ان کے بعد آنے والے کاہل ان کی چھوڑی ہوئی عظیم میراث پر ہی جیتے رہے اور کسی نئی چیز کا اضافہ نہ کر سکے۔
مثلاً بنوموسی نے بغداد میں اپنے وقت کی سب سے بڑی رصدگاہ بنائی۔جب ان کے معاصر اہل مغرب یہ سمجھتے تھے کہ شیاطین چاند اور ستاروں سے خبریں لاتے ہیں وہ علم فلکیات میں نئی نئی دریافتیں کر رہے تھے۔جب مسلمان اندلس گئے تو انہوں نے وہاں سائنس کے میدان میں بہت سے اضافے کیے،لیکن بعد کے ادوار میں یورپ نے ہمارے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز کر کے ہمیں ایسا مصروف کیاکہ ہمیں غوروفکر اور ترقی کرنے کی فرصت ہی نہ مل سکی اور مغرب سے مرعوب لوگ یہ سمجھنے لگے کہ ہر (نئی) چیز مغرب نے ہمیں دی ہے، جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی بنیادوں، تہذیب، ماضی اور کتاب سے رشتہ توڑ کر اس سے دوری اختیار کر لی۔
ہر تہذیب اپنے سے پہلی تہذیب کی مرہونِ منت ہوتی ہے،کیونکہ وہ اس سے استفادہ کرتی ہے،نیز وہ اپنے بعد آنی والی تہذیب کو بہت کچھ دے کر جاتی ہے۔ تہذیبوں کا پے درپے آنا کسی عمارت کے تعمیری مراحل کے مشابہ ہے۔پہلے آپ آتے ہیں اور اس میں ایک اینٹ لگاتے ہیں آپ کے بعد کوئی اور آئے گا اور ایک اینٹ کا اضافہ کرے گا۔یہ سلسلہ جاری رہے گا اور عمارت بلند ہوتی رہے گی۔ سائنس اور فلسفے نے کوپرنیکس سے لے کر گلیلیو،نیوٹن اور آئن اسٹائن تک اسی انداز سے ترقی کی ہے۔
اس طویل تمہید کے بعد اب میں عثمانیوں سے عداوت کے موضوع پر گفتگو کرناچاہوں گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عثمانیوں نے مسجدوں کے میناروں کی بجائے کارخانوں کی چمنیاں کیوں نہیں بنائیں؟
اس احمقانہ سوال پر ہنسی روکے نہیں رکتی،کیونکہ کارخانوں کی چمنیاں تو اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔اس دور میں جامع مسجدوں اور میناروں کی تعمیر ہی سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا،اس لیے انہوں نے یہی چیزیں تعمیر کیں۔ نیز اپنے پرائے سب اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر انکشاری{qluetip title=[2]}(2) انکشاری: یہ ایک عسکری ادارہ تھا،جسے اورخان نے دولت عثمانیہ کی پیادہ فوج کے لیے قائم کیا تھا۔اپنے ابتدائی ادوار میں اس ادارے نے دولت عثمانیہ کے لئے جلیل القدر خدمات سرانجام دیں۔ یہ اٹھان،وسعت اور ترقی کے دورتھا،لیکن پھر اس ادارے میں خرابیاں در آئیں اور وہ دولت عثمانیہ کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن گیا،کیونکہ اس کے کمانڈر اور سربراہان دولت عثمانیہ کی سیاست اور سلاطین کے عزل و تقرر میں کھلم کھلا مداخلت کرنے لگے اور ان کی وجہ سے بہت سی قتل و غارت ہوئی، لیکن آخرکار سلطان محمود ثانی اس ادارے کو تحلیل کرکے اس کی جگہ ایک نئے عسکری ادارے ‘‘النظام الجدید’’ کو متعارف کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ (عربی مترجم){/qluetip} اُس قوت کو جو امت نے انہیں دی تھی،اسی امت کے خلاف استعمال نہ کرتے تو ہم کبھی بھی مغرب سے پیچھے نہ رہتے،بلکہ آج بھی ہم ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔{qluetip title=[3]}(3) مصنف کا اشارہ ۱۹۲۰سے ۱۹۸۲ تک ترکی میں آنے والے تین فوجی انقلابات کی طرف ہے، جن میں سے ہر ایک نے ملکی ترقی کو روک دیا،بے چینی اور بے یقینی کی صورتحال پیدا کی اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا۔(عربی مترجم){/qluetip} عثمانی اپنے دور کے عظیم لوگ تھے۔انہوں نے بین الاقوامی توازن کی حفاظت کی اور عالمی امن قائم کیا۔اگر کوئی اس حقیقت کا انکار کرنا چاہے تو بھلے کرے،لیکن مغرب کے منصف مزاج لوگ اب اِس حقیقت کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔
عثمانیوں سے عداوت اہل مغرب کے ہماری اور ہمارے ہاں مغرب کی اندھی تقلید کرنے والوں کی غفلت سے فائدہ اٹھانے کا نتیجہ ہے،مثلاً ایک دور میں فرانسیسیوں نے سلطان عبدالحمید ثانی کوLe sultan ruj ’’’’(خونی بادشاہ) کا لقب دیاتھا۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمارے صحافیوں نے بھی اس لقب کو اپنے اخبارات میں جلی حروف کے ساتھ شائع کیا۔یہ حقیقت ہے کہ ہمارے آباء واجداد کے بارے میں تمام ناپسندیدہ القاب مغرب سے درآمد کردہ ہیں،یہی وجہ ہے ہمارے عظیم ہیرؤں کے لئے استعمال ہونے والے کسی بھی برے لقب کا ہماری زبان سے تعلق نہیں،بلکہ سب کی کڑیاں یورپ سے جاملتی ہیں۔کاش! امت مسلمہ اپنے اسلاف کی اتنی قدر تو کرتی جتنی قدر اہل یورپ اپنے اسلاف کی کرتے ہیں۔یہ کہنا ہر گز درست نہیں کہ عثمانیوں نے اسلام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا،کیونکہ عثمانیوں نے اپنے عروج و زوال کے ہر دور میں اسلام کے دامن کو تھامے رکھا۔
نہ صرف عثمانی بلکہ الپ ارسلان کے چچا طغرل بیگ بھی عباسی خلیفہ قائم باللہ کے دربار میں انتہائی ادب کے ساتھ حاضر ہوتے تھے،حالانکہ اس وقت خلیفہ بہت کمزور ہو چکے تھے اور ان کے لئے خلافت کی نمائندگی اور اس کا دفاع کرنا ممکن نہ رہا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ طغرل بیگ کو ایسے خلیفہ کا اس قدر ادب و احترام کرنے کی ضرورت نہ تھی،لیکن وہ انہیں نبی اکرم ﷺ کا خلیفہ سمجھ کر ان کا احترام کرتے اور ان سے کہتے کہ وہ ان کی پناہ میں آکر اسلام اور نبوت کے دفاع سے متعلق ہر حکم کے منتظر ہیں،بلکہ انہوں نے عملی طور پر اپنے تمام وسائل اور صلاحیتیں خلیفہ کی خدمت میں پیش کردیں۔
کہنے کو قائم باللہ خلیفہ تھے، لیکن خلافت کی حفاظت کی ذمہ داری طغرل بیگ سرانجام دے رہے تھے۔اس دور میں ترکوں کے ایک ہزار خاندان دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کی قیادت طغرل بیگ کے ہاتھ میں تھی۔میں نے یہ معلومات مشہور مؤرخ اسماعیل جامی دانشمند سے الفاظ کے تھوڑے سے تغیر و تبدل کے ساتھ نقل کی ہیں۔اسلام کے بارے میں ہماری قوم کے طرز عمل کے اظہار کے سلسلے میں ان معلومات کی بڑی اہمیت ہے۔میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ طغرل بیگ کے اس طرز عمل کا اسلام کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ایسے عمدہ طرز عمل کا تعلق استحصال کے ساتھ جوڑنا ترک قوم کی عظمت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
یہی جذبہ دولت عثمانیہ کی تاسیس میں کارفرما تھا۔جب غازی ارطغرل نے سارے اناطولیہ کو اپنے زیرنگین کر کے ’’سوکت‘‘ کے قریب سکونت اختیار کی تو وہ اسلام کے علمبردار تھے۔وہ خلیفہ کا انتہائی ادب و احترام کرتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ جب انہوں نے‘‘سوکت’’ کے قریب ‘‘قای بویو’’ کو پائے تخت بنایا تو اس وقت اناطولیہ میں متعدد ریاستیں تھیں،جو ہمیشہ آپس میں برسریپکار رہتیں،لیکن ارطغرل اور ان کے بعد غازی عثمان نے ان سے الجھنے کے بجائے اپنی سوچ اور جدوجہد کو ہمیشہ باز نطینیوں پر مرکوز رکھا۔
یہ حکمت عملی جہاں مسلمانوں کی توجہ کو اپنے اصل مقصد پر مرکوز رکھنے کی ضامن تھی، وہیں اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں سے ترکوں کا خوف اور ان کے بارے میں شکوک و شبہات بھی زائل ہوئے۔ غازی عثمان سب سے پہلے مسلمانوں کو یکجا کرنے کی کوشش کر سکتے تھے،لیکن وہ ہر اقدام اپنے والد اور اپنے خسر شیخ ادب عالی کی وصیت کی روشنی میں اپنی خداداد دانائی اور حکمت سے کرتے،اسی لیے وہ کہا کرتے تھے:‘‘جب مسلمانوں کو یقین ہو جائے گا کہ اب ان کے پاس کفر کے سوا کوئی متبادل نہیں رہا تو وہ میرے ساتھ آملیں گے،جس کے نتیجے میں ہمیں کفار و فجار پر غلبہ حاصل ہو سکتاہے۔‘‘
یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنا اصل ہدف بازنطینیوں کو قرار دیا۔انہوں نے کبھی مسلمانوں کو چھیڑا اور نہ ہی ان کے داخلی جھگڑوں میں مداخلت کی۔وہ کہا کرتے تھے:‘‘میرا ہدف بازنطینی ہیں اور ہم جلد یا بدیر قسطنطنیہ کو فتح کر لیں گے۔’’ اسلامی جذبے سے سرشار ایسے انسان کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا اسلامی جذبہ جیوپولیٹیکل Geopolitical{qluetip title=[4]}(4) جیو پولیٹیکس: یہ ایک ایسا علم ہے،جس میں ریاست کی خارجہ پالیسی پر طبیعی مثلاً جغرافیائی، آبادیاتی اور اقتصادی عوامل کے اثرات سے بحث کی جاتی ہے۔(عربی مترجم ){/qluetip} ضرورت تھی ناواقفیت یا بدنیتی پر مبنی ہے۔دولت عثمانیہ خدائی فضل کا ایک ایسا مظہر تھا جو کسی اور خاندان کے حصے میں نہ آیا۔اس نے چھ صدیوں تک پورے اخلاص کے ساتھ قرآن کا علم اٹھائے رکھا۔اس خاندان نے سب سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کی،بلکہ اگر ڈیڑھ صدی قبل اندورنی غدار اس کی پیٹھ میں چھرا نہ گھو پنتے تو شاید دنیا کے کئی اور ممالک بھی اس کے زیرنگیں آچکے ہوتے۔ عثمانیوں نے اپنے زوال کے بدترین ادوار میں بھی دین کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔فرانسیسی ادیب والٹیر نے رسول اللہﷺ کے بارے میں ایک گستاخانہ ڈرامہ لکھا۔ حکومت فرانس اس دور میں اس ڈرامے کو اسٹیج پر دکھانا چاہتی تھی،جب ترکی کو ‘‘مردِبیمار’’کہا جاتا تھا،لیکن جب سلطان عبدالحمید جس پرLe Sultan Ruj ’’’’ (خونی بادشاہ) ہونے کا الزام لگایاجاتاہے کو اپنے سردار اور نورِ چشم کی شخصیت پر اس حملے کی اطلاع ملی تو اس زخمی شیر نے حکومت فرانس کو ٹیلی گرام بھیجوایاکہ اگر تم نے میرے اور تمام مسلمانوں کے رسولﷺ کی شخصیت کو نشانہ بنانے والے ڈرامے کو اسٹیج پر دکھایا تومیں تمام عربوں اور مسلمانوں کو تمہارے خلاف کھڑا کر دوں گا۔
کاش!آج بھی عالم اسلام ایسے جذبے اور احساس سے سرشار ہوتا۔اس ٹیلی گرام سے فرانس میں خوف کی لہر درڑ گئی اور حکومت فرانس اس ڈرامے کو اسٹیج پر دکھانے کی ہمت نہ کر سکی،اس کے بعد برطانیہ نے بھی اس ڈرامے کو اسٹیج پر دکھاناچاہا تو اس زخمی شیر نے اسے بھی ایک دھمکی آمیز ٹیلی گرام بھیجوایا،جس کی وجہ سے حکومت برطانیہ بھی اپنے ارادے سے باز رہی۔ہمارے اسلاف اس قدر عظیم لوگ تھے۔
رسول اللہﷺ کی داڑھی مبارک پر مٹی کا ایک ذرہ بھی پڑنے پر کانپ اٹھنے والی دولت عثمانیہ کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ضروری ہے۔صحابہ کرام کے عہد کے بعد دولت عثمانیہ اسلامی تاریخ کا سنہری ترین دور ہے۔وہ چھ صدیوں تک رسول اللہﷺ اور قرآن کا علم اٹھائے کفارسے برسرپیکار رہی۔ان پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں۔
- Created on .