قلب سلیم کیاہے؟
لفظ سلیم کاماخذ فعل سَلِم ہے،جو لفظ اسلام کا ماخذ بھی ہے۔قلب سلیم کا لغوی معنی ہے ایسادل جو ہر قسم کی بیماری اور عارضہ سے محفوظ ہو، تاہم اصطلاح میں اس سے مراد ایسا دل ہے،جو اسلام کے سوا کسی چیز سے آشنا نہ ہو۔
قلب سلیم والا بننے کے لیے قرآنِ کریم میں بیان کردہ مؤمنانہ اخلاق کو اختیار کرنا ضروری ہے۔یہ ایک عمومی تعریف ہے،جس میں بہت سے امور داخل ہیں۔ حضرت سعدبن ہشام بن عامرسے مروی ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کی:‘‘اے ام المؤمنین! مجھے رسول اللہﷺکے اخلاق کے بارے میں بتائیے؟’’انہوں نے فرمایا:‘‘آپﷺ کے اخلاق قرآن (کانمونہ) تھے۔ کیا تم قرآنِ کریم میں ارشادِخداوندی ﴿وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم:۴) ‘‘اور یقیناً تم اخلاق کے اعلی مرتبے پر ہو۔’’نہیں پڑھتے؟’’{qluetip title=[1]}(1) مسندالامام أحمد،۶؍۹۱.{/qluetip} قرآنِ کریم اسی لیے نازل ہوا تاکہ پہلے رسول اللہﷺ اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں اور پھر آپﷺ کی پیروی میں آپ کی امت اپنی زندگی،افکار اور تصورات کو اس کے مطابق سنوارے، نیز ہم دیکھتے ہیں کہ قلبِ سلیم دوسروں کو ایذا پہنچانے سے مکمل اجتناب کرنے والا دل ہوتا ہے،کیونکہ حدیث نبوی میں ہے:‘‘حقیقی مسلمان وہ ہے،جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔’’{qluetip title=[2]}(2) البخاری و مسلم، کتاب الایمان.{/qluetip} اگرچہ یہ مخصوص تعریف ہے،لیکن اسے امتیازی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا مسلمان پر لازم ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو زبان یا ہاتھ سے ایذا نہ پہنچائے۔ قرآن کریم میں قلبِ سلیم کی تعبیر صرف دومقامات پراستعمال ہوئی ہے اور دونوں مقامات پر اس کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے۔حضرت ابراہیم اپنی قوم کی گمراہی اور کجروی خصوصاً اپنے باپ کی حالت زار پر سخت دکھی تھے۔ان کا اپنے والد کے بارے میں اس قدر اہتمام بالکل طبیعی اور فطری تھا۔ہرشخص فطری طور پر اپنے خاندان اور عزیزواقارب سے محبت کرتا اور ان کا خیال رکھتاہے اورجس قدر کوئی شخص قریب ہوتاہے،اسی قدر اس سے محبت زیادہ ہوتی ہے۔کوئی بھی نیک بیٹا اپنے باپ کے گمراہ ہونے کو پسند نہیں کر سکتا،بلکہ اسے اس پر شدید کرب و الم ہو گا، خصوصاً جبکہ اس کی طبیعت میں اولوالعزم نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی پاکیزگی اور حساس مزاجی پائی جاتی ہو،یہی وجہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کی خاطر بہت دردمند تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم اور باپ کو دین توحید کی دعوت دیتے تھے، لیکن ان کی قوم بشمول ان کے باپ کے ہٹ دھرمی کرتی رہی اور اس بنیاد پر انکار کرتی رہی کہ ہم نے اپنے آباء واجداد کو بتوں کی پوجا کرتے دیکھا ہے۔ ہر دور میں جب بھی کوئی قوم حق اور حقیقت سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتی تھی تو وہ یہی عذرِلنگ پیش کرتی تھی۔اس ہٹ دھرمی کو دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پروردگار کے سامنے ہاتھ پھیلا کر یہ دعاکی:﴿رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْماً وَأَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَo وَاجْعَل لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِیْ الْآخِرِیْنَ oوَاجْعَلْنِیْ مِن وَرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِoوَاغْفِرْ لِأَبِیْ إِنَّہُ کَانَ مِنَ الضَّالِّیْنَ oوَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُونَ o یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَoإِلَّا مَنْ أَتَی اللّہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ﴾ (الشعراء: ۸۳۔۸۹) ‘‘اے پروردگار! مجھے علم و دانش عطا فرما اور نیکوکاروں میں شامل فرما اور بعد والے لوگوں میں میرا ذکر نیک باقی رکھیو اور مجھے نعمت کی بہشت کے وارثوں میں شامل کیجیواور میرے باپ کو بخش دے کہ وہ گمراہوں میں سے ہے اور جس دن لوگ اٹھا کھڑے کیے جائیں گے مجھے رسوا نہ کیجیو،جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا اور نہ بیٹے، ہاں جو شخص اللہ کے پاس بے روگ دل لے کر آیا وہ بچ جائے گا۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام قلب سلیم کے مالک تھے اور آیت مبارکہ ﴿وَإِنَّ مِن شِیْعَتِہِ لَإِبْرَاھِیْمَoإِذْ جَاء رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾(الصفات:۸۳۔۸۴)‘‘اور انہی کے پیروؤں میں ابراہیم تھے، جب وہ اپنے پروردگار کے پاس عیب سے پاک دل لے کر آئے۔’’سے اس کی تائید ہوتی ہے۔جیساکہ گزشتہ آیت مبارکہ سے معلوم ہوتاہے حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بات پر زور دیتے تھے کہ قیامت کے دن صرف قلب سلیم والے لوگ ہی فائدے میں رہیں گے،جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس دن کافر دل والا کبھی بھی امن و سلامتی کے کنارے نہیں پہنچ سکے گا۔اگر کسی کافر کا بیٹا حضرت ابراہیم جیسا بلندرتبہ نبی بھی ہوا تب بھی اسے اس کا کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل اور بہت سے انبیائے کرام کے باپ ہیں حتی کہ سیدالرسل حضرت محمدﷺ کو ان کے ساتھ مشابہت پر فخر تھا،لیکن اس قدر جلیل القدر نبی کے لیے بھی اپنے کافر باپ کو نفع پہنچانا ممکن نہ تھا۔
اگر ہم اس پہلو سے قلب سلیم کے موضوع پر سوچیں تواس کا مفہوم اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔قلب سلیم کاکفروشرک ،شکوک و شبہات اور تذبذب سے پاک ہونا ناگزیر ہے۔کافر شخص کا رویہ کتنا ہی انسان دوست کیوں نہ ہو اس کا دل قلب سلیم نہیں ہو سکتا۔آج بہت سے لوگ کہتے ہیں:’’میرا دل صاف ہے،کیونکہ میں انسانوں سے بہت محبت کرتا ہوں اور ان کی مدد کے لیے تگ و دو کرتا ہوں۔‘‘لیکن یہ دعوی بالکل بے بنیاد ہے،کیونکہ ایک دل میں کفر و الحاد ہو تو وہ کبھی بھی قلب سلیم نہیں ہو سکتا،اس لیے کہ وہ اپنے اور کائنات کے مالک کا منکر ہے اور اس کا دل اس انکار سے لبریز ہے۔انسانیت سے محبت یقیناًاچھی اور قابل اہمیت چیزہے،لیکن ایسااحساس ایمان سے مربوط ہونا چاہیے،ایمان کے بغیر بھلائی،حسن اور فضیلت کی ہر صورت یا تو جھوٹی ہو گی یا عارضی ہو گی،لہٰذا اس کی کوئی قدروقیمت نہیں۔
اگر کوئی شخص نہ صرف اپنے وطن بلکہ انسانیت کے لیے جلیل القدر خدمات پیش کرے،لیکن ساتھ ہی یہ دعوی بھی کرے کہ وہ ملکی قوانین اورنظم و ضبط کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کی سابقہ خدمات کے علی الرغم اسے فوراً سزا کا مستحق قرار دیا جائے گا،اسی طرح جو شخص کائنات کے مالک کا انکار کرتا ہے اور اس کا اعتراف نہیں کرتا اسے پیشانی اور قدموں سے پکڑ کر سزا دی جائے گی اور اسے اس کے کسی بھی عمل یا خدمت کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔
ابوطالب نے تقریباً اڑتالیس سال رسول اللہﷺ کی نگہداشت اور حفاظت کی، لیکن اس کے باوجود چونکہ وہ ایمان نہیں لائے،اس لیے انہیں خدائی امن کا پروانہ نہ مل سکا حتی کہ جب فتح مکہ کے بعد حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اپنے سفیدریش باپ ابوقحافہ کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے کر آئے تو رونے لگے۔آپﷺنے ان سے پوچھا کہ اپنے باپ کے اسلام لانے اور ہدایت پانے کے بعد بھی تم کیوں رو رہے ہو؟ انہوں نے عرض کی: ‘‘اگر ابوطالب ایمان لے آتے تو مجھے اس پر زیادہ خوشی ہوتی۔’’کیونکہ انہیں اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کی رغبت کا اندازہ تھا اور ابوطالب نے جس طرح رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا تھا اور مشرکین سے آپ ﷺ کی حفاظت فرمائی تھی وہ بھی انہیں نہیں بھولی تھی۔ابوطالب نے آپ ﷺ سے کہا تھا:‘‘اے بھتیجے! جاؤ اور جو چاہو کہو۔بخدا میں تمہیں کسی قیمت پر مشرکین کے حوالے نہ کروں گا۔’’{qluetip title=[3]}(3) البدایۃ والنھایۃ، ابن کثیر،۳/ ۴۶.{/qluetip} مزید برآں انہوں نے حضرت علی کرار کرم اللہ وجہہ اور جنگ موتہ کے ہیرو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کیا،دوسرے لفظوں میں انہیں سب سے بہتر اور محفوظ ترین ہاتھوں کے سپرد کیا،لیکن کیا ان خدمات نے ابوطالب کو کچھ فائدہ دیا۔اگر ایمان کی حالت میں ان کا انتقال ہوتا تو اس کا فائدہ انہیں پہنچتا۔
اس پہلو سے قلب سلیم کی بہت اہمیت ہے۔بسااوقات انسان بہت سے نیک اعمال سرانجام دیتا ہے،شریفانہ طرز عمل اختیار کرتا ہے اور فیاضی سے خرچ کرتا ہے،لیکن سب سے پہلے یہ یقین کر لینا چاہیے کہ قلب سلیم ہو اور کفر و شرک سے پاک ہو،نیز یہ بھی ضروری ہے کہ دل اسلام سے آباد اور قرآنی اخلاق سے مزین ہو، کیونکہ اگر دل قرآنی اخلاق سے مزین نہ ہوا تو وہ قلب سلیم نہ کہلائے گا۔انسانی دل اسی قدر سلیم ہوتا ہے،جس قدر وہ اخلاقِ نبوی کی پیروی کرتا ہے،کیونکہ رسول اللہ ﷺ میں قرآنی اخلاق جلوہ گر تھے اور آپ ﷺقلب سلیم کی تمام تجلیات کا مرکز تھے۔اگر کسی انسان میں یہ بات نہ ہو تو اسے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاقِ نبوی کی پیروی کرنے اور ‘‘تخلق باخلاق اللہ’’پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسلام کے لیے خدمات پیش کرنے والے اہل ایمان سے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ صرف طاعت و عبادت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے دلوں کو صرف انہی سے منور نہیں کریں گے،بلکہ دوسروں کی دنیوی و اخروی سعادت کے لیے اپنے مادی مفادات اور روحانی فیوضات کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گے اور دوسروں کو خوشی پہنچانے اور ان کی عاقبت سنوارنے کے لیے اپنی آسودہ حالی کو قربان کر دیں گے۔ اگر وہ کسی جگہ جمع ہوں گے تو صرف اس لیے تاکہ بہتر سے بہتر خدمات پیش کرنے کے لیے اپنے عزم کی تجدید کریں۔اگر آپ ان کی گفتگو سنیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ ان کی صرف ایک ہی خواہش ‘‘اعلائے کلمۃ اللہ’’ہے۔یہ دیکھ کر آپ کو یقین ہو جانا چاہیے کہ انہی لوگوں کے بارے میں بشارتیں آئی ہیں،یہی حقیقی مؤمن مستقبل میں مسلمانوں کی نشاۃِثانیہ کے ضامن اور صحیح اور سلیم دل کے مالک ہیں۔
قلبِ سلیم کا موضوع بڑی اہمیت کا حامل ہے،کیونکہ بہت سی قرآنی آیات میں قلبِ سلیم کو مال و اولاد کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے: ﴿یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ o إِلَّا مَنْ أَتَی اللّہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ﴾(الشعراء:۸۸۔۸۹) ‘‘جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا اور نہ بیٹے،ہاں جو شخص اللہ کے پاس بے روگ دل لے کر آیا وہ بچ جائے گا’’آخرت میں آپ کی صورتحال بہت سے سوالات کی جوابدہی پر موقوف ہوگی۔ان میں سے چند سوالات حسبِ ذیل ہیں:
کیا آپ نے پسندیدہ طریقے سے زندگی گزاری؟ کیا آپ کی وفات پسندیدہ انداز سے ہوئی؟ کیا آپ کو اچھے انداز سے دوبارہ اٹھایا جائے گا؟ کیا آپ لواء الحمد تک کا راستہ پا سکتے ہیں؟ کیا آپ حوضِ کوثر تک پہنچ سکتے ہیں؟ کیا رسول اللہ ﷺ آپ کو دور سے ہی دیکھ کر پہچان سکیں گے؟کیونکہ آپ ﷺ نے واضح لفظوں میں بتایا ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنی امت کو دوسری امتوں کے درمیان پہچان لیں گے اور جب آپ ﷺسے پوچھا گیا کہ ایسا کیسے ممکن ہوگا؟ تو آپ ﷺ نے جواب ارشاد فرمایا: ‘‘تم میں ایک ایسی نشانی ہوگی جو کسی اور میں نہ ہوگی۔وضو کے اثر سے تمہاری پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں منور ہوں گے۔’’ رسول اللہ ﷺ ان لوگوں کو پہچانتے ہیں، جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ﴾(الفتح:۲۹) ‘‘کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔’’نعیم بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا۔انہوں نے اپنا منہ دھویا اور اپنے بازؤں کو کندھوں کے قریب تک اور اپنے پاؤں کو پنڈلیوں تک دھویااور پھر فرمایا: ‘‘میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ‘‘میری امت قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گی کہ وضو کے اثر سے ان کی پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں روشن ہوں گے۔’’ لہذا تم میں سے جو اپنی روشنی کو دراز کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایسا کرے بھی سہی۔’’{qluetip title=[4]}(4) البخاری، الوضوء ۳؛ مسلم، الطہارۃ،۳۵.{/qluetip} یہ قلبِ سلیم رکھنے والوں کے مظاہر اور تجلیات ہیں۔
- Created on .