حکمت کی نگاہ میں جھوٹ
جھوٹ ایک کافرانہ لفظ ہے۔ یہ انسان کو اس دنیا میں جلدی یا بدیر وجدانِ عمومی کے مطلع کرنے پرناقدری کا محکوم بنا دیتا ہے اور اگلے جہان میں جہنم کا۔
* * * * *
جھوٹ خوشامدی ہوتا ہے‘ حقیقت سنجیدہ اور مستغنی ہوتی ہے۔ جھوٹ باتونی اور تیز زبان ہوتا ہے‘ حقیقت باوقار اورمحتشم ہوتی ہے۔
* * * * *
جن ممالک میں جھوٹ‘حیلہ گری ‘چوری‘اِفتراپردازی عام ہو جائے وہ برباد ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ممالک کے باشندے غریب اور ان کے فوجی سپاہی انقلاب پسند ہوتے ہیں ۔
* * * * *
دروغ گوئی خواہ جو لباس چاہے پہن لے مگر اپنے آپ کو اجتماعی وجدان سے نہیں چھپا سکتی۔ خاص کر نورِ حق سے دیکھنے والے اربابِ فراست کی نظروں سے تو اپنے آپ کو ہرگز نہیں چھپاسکتی!
* * * * *
جب جھوٹ کا رواج پھیل جائے اور تمام حلقے اسی کے باعث کراہتے رہیں تو سمجھئے کہ حقیقت کی زبان جڑ سے کھینچ لی گئی ہے۔
* * * * *
وجدانِ عمومی ایک سمندر کی طرح ہے۔اگر جھوٹ سرک کر اس کے درمیان تک پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جائےں تو پھر بھی سمندر اُنہیں اکٹھا کر کے ساحل پر اٹھا پھینکتا ہے۔
* * * * *
اگر کوئی جھوٹ‘ انکار‘جھوٹی تاویلوں اور رٍیاکاری کے منہ پر تھوک کر اُنہیں ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھنے والاہے تو وہ وجدان ہے۔
جھوٹ اور دکھاوا شور اورواویلا کرتے ہیں جبکہ حقیقت اور صمیمیت کا کام خاموشی ہے۔بجلیاں آسمان سے ا ٓنے والی گڑگڑاہٹ سے پہلے ہی اپنے نشانوں پر وار کر چکی ہوتی ہیں ۔
- Created on .