دین
اِبن آدم کو پیدائش سے اب تک حقیقی امن دین کی خوشگوار فضاءمیں ہی ملا ہے اور وہ محض دین کے بل بوتے پر ہی خوش رہ سکا ہے۔جہاں دین نہ ہو وہاں بلند اخلاق اور فضیلت کے متعلق بحث کرنا ممکن نہیں ہوتا۔اسی طرح خوشی کے بارے میں بات کرنا بھی خاصہ مشکل ہو جاتا ہے۔کیونکہ اخلاق اور فضیلت کا سرچشمہ ضمیر ہے۔ اورضمیر پر حکم چلانے والا واحد عنصر دین ہے جو اللہ اور انسان کے درمیان رابطے پر مشتمل ہے۔
* * * * *
دین ایک بے حد فیض پہنچانے والا نہایت بابرکت مکتب ہے جو عمدہ عادتوں اور خصلتوں کے نام پر کھولا گیا ہے۔ اِس بلند پایہ مکتب کے طلباءسات سے ستر سال کی عمر کے(یعنی تمام) انسانوں پر مشتمل ہیں ۔اس مکتب سے منسلک ہر شخص اِس انتساب کے باعث جلد یا بدیر امن‘ حفاظت اور اطمینان پا لیتا ہے۔ اس مکتب سے باہر رہنے والے لوگ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اصلیت سمیت ہر شے کھو بیٹھتے ہیں ۔
* * * * *
دین‘ الٰہی اصولوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو انسانوں کو ان کی آزادانہ رضامندی سے نیکیوں کی طرف جانے کی رغبت دلاتا ہے۔انسان ہر وقت دین کے اصولوں میں وہ سارے بنیادی عناصر پا سکتا ہے جو اُس کی مادی اور معنوی ترقی کے لیے اوراسی وسیلے سے اس کی دنیاوی اور اُخروی فلاح کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔
* * * * *
دین کا مطلب ہے اللہ کواور اُس کی وحد ت کو جاننا‘ اُس کی راہ میں حرکت کرتے کرتے اپنی روح کی پاکیزگی کی حد تک پہنچ جانا‘ دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات اس طریقے سے سنوارنا کہ وہ اللہ کے نام پر اور اُسی کے احکام پر مبنی ہوں ‘ یہاں تک کہ اُسی کے نام پر اپنے دل میں ساری مخلوقات کے لیے گہری دلچسپی اور محبت کا احساس پیدا کرنا۔
* * * * *
دین کو قبول نہ کرنے والے لوگ وقت کے ساتھ عزتِ نفس‘ وطن اور قوم جیسے بلند مفہوموں سے بھی نازیبا سلوک کرنے لگ جاتے ہیں ۔
* * * * *
بداخلاقی ایک تاریک گندگی ہے جو تقریباَ ساری کی ساری لادینی کے سرچشموں سے پھوٹ کر نکلتی ہے۔ ہر طرح کے جھگڑے فساد اور لاقانونیت بھی لادینی کی وادیوں میں اگنے والی ایک قسم کی مکروہ زقوم ہیں ۔
* * * * *
اپنی زندگی کو دین کی دشمنی کے لیے وقف کر دینے والے ایک طرح کے منکر لوگوں کے لیے کیا یہ لازم نہ تھا کہ وہ لادینیت کے اگر کوئی میوے ہیں تو اُن کی مدد سے کم از کم یہ ثابت کر سکتے کہ لا دینی کس کام آتی ہے؟
* * * * *
دین اورسائنس ایک ہی حقیقت کے دوپہلوﺅں کی طرح ہیں ۔ دین انسان کو صحیح راہوں پرچلاتا ہے اور اُسے خوش کن نتیجوں سے ہمکنار کراتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں ‘اگر سائینس کا مقصد اور صحیح استعمال ٹھیک طرح سمجھ لیا جائے تو وہ ایک مشعل کی طرح انہی راہوں پر اور اپنے دائرہ عمل کے اندر انسان کے آگے آگے روشنی بکھیرتی ہے۔
* * * * *
تمام خوبصورت پھول دین ہی کے باغوں اور باغیچوں میں اُگتے ہیں ۔ تو گویا دین کے اصولوں پر چلنے والے انبیائ‘ اولیاءاور صوفیائے کرام کی طرح چم چم چمکتے لوگ دین ہی کے پھل ہیں ۔۔۔! منکر لوگ گرچہ جان بوجھ کر ان پھلوں کو نظرانداز کردیتے ہیں پھر بھی ان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ انہیں کتابوں کے صفحات سے اور انسانوں کے سینوں سے مٹا سکیں ۔
* * * * *
انسانوں کے درمیان پیغمبروں کی حیثیت پہاڑوں جیسی ہوتی ہے۔جس طرح پہاڑ زمین کے استقرار اور ہوا کی صفائی کویقینی بنا کر حفظ و امان کے عنصر کا کام کرتے ہیں ‘ پیغمبر بھی انسانوں کے درمیان یہی کام سرانجام دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کا(یعنی پیغمبروں اور پہاڑوں کا)ذکر جگہ جگہ ایک ساتھ آیا ہے۔ مثلاَ حضرت نوح اور جُودی‘ حضرت موسیٰ اور طور‘ حضرت محمد اورحرا‘ اس معمے پر سے بھید کا پردہ اٹھانے کے لئے ایک اشارہ ہیں ۔
* * * * *
دےن چونکہ صحت مند خےالات‘ عقلِ سلیم اور سائینس پر مبنی ہے اس لحاظ سے بھی کسی دینی مسئلے پر تنقید کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ جو لو گ دین کو جان بوجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں یا توان کی سوچ کے سسٹم میں کوئی خرابی ہوتی ہے‘ یاسائینس کے بارے میں ان کادراک صحیح نہیں ہوتا ‘یا پھر اُن کا سارا حساب کتاب ہی نا کافی ہوتا ہے۔
* * * * *
دین‘ مدنیت کے حقیقی اصولوں پر مشتمل ایک بابرکت سرچشمہ ہے ۔ اس کی برکت سے انسان قلبی اور جذباتی دنیامیں بلند مقام حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا دماغ ما بعدالطبیعات عالموں میں پہنچ جاتا ہے‘ اور وہ ایک ایسے افق تک رسائی پا لیتا ہے۔جہاں سے وہ تمام نیکیوں ‘ عمدگیوں ‘ اور فضیلتوں کے حقیقی چشمے سے جی بھر کر اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔
اگر فضیلت کی تلاش ہو تواُسے دین میں ہی تلاش کرنا چاہیے۔کسی لا دین کا صاحبِ فضیلت ہونا او رکسی حقیقی صاحبِ دین کا بے فضیلت ہوناایسے واقعات میں سے ہیں جوشاذوناد ر ہی سامنے آتے ہیں ۔
* * * * *
دین کے ذریعے انسان‘ انسانیت کے صحیح معنوں کو سمجھتا ہے اور یوں دوسری جاندار چیزوں سے الگ نوعیت کی تخلیق شمار ہو تا ہے۔کسی بے دین کی نظر میں انسانوں اورحیوانوں کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں ہوتا۔
* * * * *
دین اللہ کی راہ ہے اور لادینیت شیطان کا راستہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ دین اور لادینی کی جنگ حضرت آد م کے زمانے سے ہمارے موجودہ زمانے تک لڑی جا رہی ہے اور یہ جنگ اسی طرح قیامت تک جاری رہے گی۔
- Created on .