حیات اور روح

حیات ایک خدائی بھید ہے۔ اِس کی ماہیت صرف وہی جانتے ہیں جو حق تعالیٰ کے بھیدوں سے آشنا ہیں ۔

* * * * *

حیاتِ مطلق ایک جسمانی زندگی ہے۔جسم کی حرارت اور دَم خَم سب فطری ہیں اور یہ پیٹ میں جانے والی غذا کے خون اور انرجی میں تبدیل ہونے کے عمل سے حاصل ہوتے ہیں ۔

* * * * *

مادی حیات کا مقصد‘حرکت اور طاقت جیسے بعض جسمانی فرائض انجام دیناہے۔اس قسم کی زندگی کے لحاظ سے انسان اور حیوان میں بالکل کوئی فرق نہیں ہے۔لیکن حقیقی انسانی زندگی وہ زندگی ہے جس میں شعور‘اِدراک‘ اور مابعدالحیات کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ اور اصلی حیات بھی یہی ہے۔

* * * * *

حیات کا مطلب روح نہیں ہے۔ یہ تو ایک جسمانی زندگی ہے۔جہاں تک روح کا تعلق ہے تو وہ ایک ایسی لطیف ہستی ہے جس کی نہ تحلیل ممکن ہے نہ تقسیم۔جو مادی خصوصیات سے مختلف ہے‘ جو با شعور”قانونِ امری“ہے۔

* * * * *

روح کا جسم کے ساتھ تعلق زندگی کے ساتھ ہی قائم رہتاہے۔زندگی کے جسم سے جدا ہوتے ہی روح بھی جدا ہو کرچلی جاتی ہے۔زندگی محو ہو کر بجھ جاتی ہے‘ مگر روح اللہ جلِّ جلالہ‘ کے زندہ رکھنے سے ابد تک زندہ رہتی ہے۔

* * * * *

حیات کا سرچشمہ فطرت ہے اور اس کے اسباب قدرت مہیا کرتی ہے جبکہ روح ایک خدائی تحفہ ہے جو فطرت اور قدرت سے مبّرا اپنی ذاتی پہچان کی مالک ہے۔حیات فانی ہے‘ موت کی طابع ہے ‘ مگر روح غیرفانی ہے اور اس میں ابدیت کی ادا پائی جاتی ہے۔

* * * * *

روح ‘ ذہنی نظام سے بالا تر ہو کر بذاتِ خود اِدراک کرنے والا‘ محسوس کرنے والا اوراپنی مرضی کی خواہش یا آرزوکرنے والا ایک وجودہے۔اس کا جسم سے تعلق وقتی طور پر رہائش پذیر ایک ہمسایہ ہونے اور ایک ہی تقدیر کے تابع ہونے پر مشتمل ہے۔

* * * * *

روح ایک لایموت ہستی ہے جو موت سے متاثر ہوئے بغیر‘با آسانی قبر کے گڑھے کو عبور کر جاتی ہے‘ جو برزخ اور محشر کی اونچ نیچ میں پھنسے بغیر جہنم اور جنت کی ابدیت تک پہنچ جاتی ہے۔

 

روح بعض اوقات انسانی شکل میں ‘ بعض اوقات ایک ہلکی سی دھند کی شکل میں ‘ اور بعض اوقات کسی دوسری قسم کی خصوصیت کے ساتھ خودکو دھندلے آئینوں میں ‘خوابوں میں ‘یا خیالی پیکروں میں منعکس کرتی ہے اور فرشتوں کی طرح خیر اور فلاح کی برکتوں کے ساتھ‘ یا شیطانوں کی طرح شرّ کے ساتھ‘بدیوں کے ہمراہ گڈمڈہوتی دکھائی دیتی ہے۔

* * * * *

حقیقی حیات وہ ہے جس میں روحانی اور جسمانی حیات ایک دوسری کے شانہ بشانہ اور معمولی سے فرق کے ساتھ برابربرابرچل رہی ہوں ۔اس قسم کی زندگی بیک وقت اس دنیا میں حقیقی انسانی حیات کے لیے سنبل کے بیج کا کام کرتی ہے اور اگلی دنیامیں ایسی جنتی زندگی بن جاتی ہے جس میں یہ گچھوں کے گچھے پھل دینے والے پودوں کی طرح نشوونما پاتی ہے۔

* * * * *

شعور اور پاکیزگی قلبی حیات کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔

* * * * *

و لوگ اپنی زندگی کو سنجیدگی سے نہیں گزارتے اُن کی قلبی حیات نہیں ہو سکتی ۔ ۔ ۔ اُن کاپریشانی کے آنسو بہانا ایک الگ جھو ٹ ہوتا ہے۔

ہر انسان کے اس دنیا میں آنے کی گھڑی کے ساتھ ہی اُسے حقیقی حیات اور حیوانی حیات امانت کے طور پر ایک دوسری سے لپٹی ہوئی شکل میں اس مقصد کے لئے ملتی ہیں کہ وہ ان کے مختلف پہلوﺅں کا انکشاف کرے۔ جب تک روح اور بدن کا تعلق بگڑ نہیں جاتا یہ کام ہر انسان کی ذمہ داری رہتا ہے۔

* * * * *

انسان حیوانی حیات کے اعتبار سے حیوانوں کے ساتھ اور روحانی حیات کے لحاظ سے ملائکہ کے ساتھ یک جان اور دکھ درد کا ساتھی ہوتاہے۔ جو لوگ اپنی ذاتی استعداد اور قوتِ متحرکہ کا جائزہ لے سکتے ہیں ‘ ان کی قسمت میں لکھا ہوتاہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ فرشتہ بن جائیں گے۔ اسی طرح جو لوگ اپنی ان خصلتوں کو کند کر دیتے ہیں یہاں تک کہ بدی کے کثرتِ استعمال سے اُسے یک تخریبی عنصر بنا ڈالتے ہیں اُن کا جلدی یا بدیر حیوانوں سے بھی زیادہ گہری پستی میں گِر جانا‘ بلکہ شیاطین میں تبدیل ہو جانا بھی ناگزیر ہے۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔