ہمیں مسلمان نوجوانوں کو دہشت گردوں کے جال میں پھنسنے سے بچانے کے لیے ان کی مدافعت کو مضبوط کرنا ہوگا
لندن اور مانچسٹر میں ہونے والے دہشتگردی کے حملے کی ذمہ داری پھر داعش نامی گروہ نے لے لی۔ اس سے قبل بھی معصوم لوگوں پر حملہ کروانے والایہ گروہ اپنے آپ کو کوئی بھی نام دے لیکن ان کا نام انسانیت سے دور مجرم گروہ کا ہی بنتا ہے۔
پوری دنیا کے مسلمانوں کو مستقبل میں اس قسم کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے انٹیلی جنس اور محافظوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اس بلا کی شہہ رگ کو کاٹنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ عراق میں القاعدہ کی باقیات سے وجود میں آنے والے اس گروہ کی جھوٹی شروعات ہی خون خوار قتل عام سے ہوئی۔ اپنے نام کے ساتھ اسلام کا لفظ استعمال کرکے اسلام کے روشن چہرے کو داغدار بنانے والا یہ گروہ چاہے جو بھی دعویٰ کرے دین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے گمراہ گروہ کا نمائندہ ہی کہلائے گا۔ ان کے لباس، جھنڈے، اور نعرے اسلامی روح کے ساتھ کی جانے والی خیانت کو چھپانے کے لیے کافی نہ ہوں گے۔
یہ خونخوار گروہ جس پروپیگنڈہ کے ذریعے نوجوان کے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کررہا ہے اس کا ایک اہم عنصر جو کہ ریاست بننا ہے اس کی بنیاد سے انہیں محر وم کرنا ایک ایسا ہدف ہوگا جس سے پوری دنیا کے مسلمان متفق ہوں گے۔ فقط اس مسئلے کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جنھیں فوج کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا۔ داعش کے ساتھ دکھایا جانے والا یہ مسئلہ اور اس سے ملتے جلتے گروہوں کا اپنے آپ کو معاشرے سے تنہا محسوس کرنے والے نوجوانوں کے جذبات سے مخاطب ہوکر انہیں بظاہر باوقار ہدف اور تعلقی احساسات کے وعدوں کے ساتھ آمرانہ نظریے کے جانثاروں کی شکل دینا۔ دینی، سیاسی، سائیکوسوشل، اور معاشیاتی پہلوؤں پر مبنی اس مسئلے کا حل بھی بہت ہمہ جہت ہونا چاہیے۔ گروہ پرستی اور معاشرتی تنہائی جیسے مسائل کو حکومتی اور عوامی سطح پر حل کرنا ضروری ہے۔ اپنی عوام پر ظلم کرنے والے شامی ادوار کے معاملے میں بین الاقوامی تنظیموں کو حتمی مداخلت کرنی چاہیے۔ مغربی ممالک سے زیادہ اخلاقی اور منطقی خارجہ پالیسی بنانے کی امید کی جاتی ہے۔مسلمان ان وسیع اقدامات کا حصہ ہوسکتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے لیکن ان پر ایک خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
فی الفور مسلمان ہونے کے ناطے جو کام اشد ضروری ہے وہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف اپنے معاشرے خاص طورپر نوجوانوں کی قوت مدافعت کو مضبوط کرنا ہے۔ کیا کبھی ہم نے اپنے آپ سے یہ پوچھا ہے کہ ہمارے معاشرے دہشت گردوں کے لیے افراد کار مہیا کرنے والی زمین میں کیوں بدل گئے؟
ان مسائل کے حل کے لیے یقیناًخارجی عناصر کو بھی حل کرنا ہوگا لیکن مسلمان ہونے کے ناطے سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرکے اس کام کا آغاز کرنا ہوگا۔ کیونکہ محاسبئہ نفس ایک دینی فرض ہے۔ علاوہ ازیں والدین، اساتذہ، مدارس ، اور صاحبان رائے کا اس معاملے میں بہت بڑا ہاتھ ہوسکتا ہے۔
ان میں سے اہم ترین انتہا پسندی کو جائز کہنے والے اور کرنے والے انتہا پسندوں کو خیالی جنگ میں مات دینا ہے۔ انتہا پسند گروہوں کی جو مشترکہ غلطی یا چال ہے وہ قرآن کریم اور نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کی صورت میں تشریح کرنا ہے۔ ان گروہوں کے پیچھے کہ نظریہ پرست نبی اکرم ﷺ کی یا صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں سے ایک تصویر اٹھا کر پہلے سے نیت کردہ عمل کو جائز بنانے کے لیے ایک شرعی تعلق بتاتے ہیں۔
اس چال کا جواب دینی تصورات کو مکمل طور پر، ہر روایت اور سیاق وسباق کے ساتھ سکھانے والا ایک تعلیمی پروگرام ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو یہ سکھائیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک قوم کو وحشیانہ خیالات سے نکال کر ابراہیم کے دین کی پیروی کرنے والے اور اخلاقی اصولوں کو اپنانے والی عوام میں کیسےبدل دیا۔ انہیں قرآن کریم کی روح اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور فلسفے کو سمجھنا ہوگا تاکہ وہ انتہا پسندوں کے دھوکے سے بچ سکیں۔ جن جگہوں پر مسلمان رہتے ہیں وہاں کی حکومتیں بھی ان کو دینی آزادی فراہم کرکے اس معاملے میں مدد گار بن سکتی ہیں۔ تعلیمِ کلیت کے اقتباس کا ایک اہم نقطہ ہر انسان کو اللہ کی ایک خاص مخلوق کے طورپر عزیز رکھنا ہے قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو نظر انداز کرتے ہوئے انسانیت سے مخاطب ہوئے ہیں۔
اللہ ’’اور بے شک ہم نے ا ولاد آدم کو عزت دی۔‘‘(70/17) کہتے ہوئے ساری انسانیت کو بخشتا ہے۔ قرآن کریم ایک معصوم کی جان لینے کی ساری انسانیت اور حیات کی قیمت کے خلاف ایک جرم ہونے کو بیان کرتا ہے۔(32/5) دفاعی مقاصد کے لیے جائز کی گئی جنگ میں بھی نبی اکرم ﷺ کسی نہتے کو خاص طورپر عورتوں، بچوں اور دینی لوگوں کے خلاف تشدد سے منع فرماتے ہیں۔ جیسا کہ عبدالرحمن اعظم جیسے تاریخ دان جن کے نقطہ نظر سے میں بھی متفق ہوں کا کہنا ہے کہ ان کی تمام تر جنگیں دفاعی تھیں۔ دوسر وں کو مار کر جنت میں جانے پر یقین رکھنا ایک وحشیانہ دھوکہ ہے۔
انتہا پسندی کو وسیلہ بنانے والے انتہا پسندوں کی ایک اور بڑی غلطی سیاسی مخالفت ہے جب اکثر دینی امتیازات سے ٹکراتی ہے توازمنہ وسطیٰ کی دینی حکومت کو 21ویں صدی میں ویسے ہی چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج مسلمان سیکولر اور جمہوری ممالک میں اپنے دین کو آسانی سے جی پارہے ہیں۔ عوامی انصاف ، قانون کی بالاتری، مل کر فیصلہ کرنا، اور برابری جیسی اسلام کی بنیادی روایات شرکتی حکومت کی شکل میں زیادہ منطقی ہیں۔ مسلمان جمہوری ملکوں کے لوگوں میں فائدہ مند عوام کے طورپر رہ سکتے ہیں اور رہ بھی رہے ہیں۔ مستقبل میں لی جانے والی تدابیر کے حوالے سے نوجوانوں کی معاشرتی ضروریات کو مثبت طریقے سے پورا کرکے ان کی توانائیوں کوتعمیری شکل میں استعمال کرنے کی سہولیات مہیا کرنا ہوں گی۔ نوجوانوں کے گروہوں کو جنگ یا آفات کے متاثرین کی مدد کے لیے انسانی امداد کے پروجیکٹس میں رضا کار بننے کی طرف ابھارا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے پروجیکٹس جہاں ایک طرف متاثرین کے درد کو ختم کریں گے وہیں خدمت کرنے والوں کو مثبت اور معنی دار پروجیکٹس کے ذریعے کام کرنے کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت کریں گے اور سمجھیں گے۔ اس طرح سے جاری مکالمات کے ذریعے ہمارے نوجوان اپنے دینی گروہوں کوہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ انسانی خاندان کے افراد ہونے کی حقیقت کو سمجھ پائیں گے۔ اس طرح کی تمام مثبت گروہی سرگرمیاں نوجوانوں کی مثبت شناخت اور مثبت تعلقی احساسات کو بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔ 1970سے لے کر حذمت موومنٹ کے افراد نے جن کے درمیان ہونے پر میں بھی فخر کرتا ہوں 150سے زائد ملکوں میں 1000سے زائد جدید سیکولر اسکول، مفت تعلیمی مراکز، یونیورسٹیاں، ہسپتال اور امدادی تنظیمات بنائیں۔ یہ ادارے اور ان کے گرد بننے والے رضا کارانہ دائرے میں نوجوانوں کو پیشہ ورانہ خدمت کرنے والے رہبر، استاداور معاونتی کردار دے کر ان کو مضبوط شناخت اور مثبت تعلقی کے احساسات کے ساتھ بامقصدزندگی گزارنے کا وسیلہ بنے ہیں۔ ان کے پروجیکٹس میں شامل نوجوانوں کو انتہا پسند گروہ اپنی طرف مائل کرکے انتہا پسندی میں شامل نہیں کرسکے۔ چند زبانیں سکھانے والے اور ثقافتی سیاحتیں کروانے والے ان اداروں نے دوسروں کو صحیح سمجھنے ، وسیع اور تنقیدی سوچنے کی قابلیت کو بڑھایا۔ انتہا پسندوں کے ذریعےہمارے نوجوانوں کو بیمار نظریات پیش کرنے کے رد عمل میں ان کی قوت مدافعت کو مضبوط کرنے کا سب سے خوبصورت طریقہ تعلیمی راستوں اور اس کی سرگرمیوں میں مثبت نعم البدل دکھانا ہے۔ مسلمان اپنی نمازوں اور دعاؤں میں ہر روز بہت دفعہ ’’اے میرے رب تو ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے اور وہاں ثابت قدم رکھ۔‘‘ کہہ کر دعا کرتے ہیں۔ آج کل صراط مستقیم پر رہنے کی شرائط میں سے چند اہم ایمان کی بنیادی روایات کو اچھی طرح سمجھنے کے بارے میں اپنے آپ سے پوچھنا اپنی زندگی میں ان روایات کا کس قدر عمل دخل ہے دیکھنا اور ان روایات کے مخالف سرگرمیوں کے خلاف اپنے نوجوانوں کی قوت مدافعت کو مضبوط کرنا ہے۔
آج لندن اور مانچسٹر میں ہونے والے وحشیانہ حملوں کو دوبارہ ہونے سے بچانے کے لیے دین کی آڑ میں خونخواری کرنے والے گروہوں کے خلاف عالمی سطح پر کی جانے والی مشقت کا حصہ بنناانسانی اور مذہبی ذمہ داری ہے۔
- Created on .