فتح اللہ گولن:’’ میں ترکی میں ناکام بغاوت کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘
15جولائی کی رات ترکی فوجی بغاوت کی کوشش کے نتیجے میں حالیہ تاریخ کے سب سے زیادہ تباہ کن سانحے سے گزرا۔ اس رات کے واقعات کو ایک خطرناک دہشت گردی پر مبنی شورش کہا جاسکتا ہے۔
ترکی کے تمام مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں نے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں فوجی بغاوتوں کا دور ختم ہو چکا ہے بغاوت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ ابھی یہ شورش برپا ہو ہی رہی تھی کہ میں نے اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔
اس بغاوت کے سامنے آنے کے صرف 20منٹ کے اندر، جب ابھی اس کے حقیقی کرداروں کا تعین بھی نہیں ہو پایاتھا، صدر اردگان نے جلد بازی میں مجھ پر الزام لگا دیا۔ یہ انتہائی پریشان کن امر تھا کہ حقیقی واقعات کی تفصیل آنے اور اسکے ذمہ داران کے عزائم کا علم ہونے سے پہلے ہی الزام لگا دیا گیا۔ ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جو گذشتہ 50برسوں کے دوران خود چار بغاوتوں کا نشانہ بن چکا ہو، اس پر بغاوت کی کوشش کا الزام لگنا خصوصی طور پر توہین آمیز ہے۔ میں ایسے تمام الزامات کو دو ٹوک انداز میں رد کرتا ہوں۔
میں گذشتہ 17سال سے امریکہ ایک چھوٹے سے قصبے میں خودساختہ جلا وطنی میں الگ تھلگ زندگی گزار رہا ہوں۔یہ الزام کہ میں نے چھ ہزار میل دور بیٹھ کر دنیا کی آٹھویں بڑی فوج کو اپنی ہی حکومت کے خلاف اکسایا ہے، نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ بالکل غلط ہے اور پوری دنیا میں کسی نے بھی اسے قبول نہیں کیا۔
اگر بغاوت کے منصوبہ سازوں میں کوئی ایسے افسران بھی ہیں جو خود کو حذمت تحریک کا ہمدرد سمجھتے ہیں تو میرے نکتہ نظر کے مطابق انہوں نے ایسے واقعات میں حصہ لے کر کہ جہاں ان کے اپنے شہری جان سے گئے، انہوں نے اپنے ملک کے اتحاد کے خلاف بغاوت کی ہے۔ انہوں نے ان تمام اقدار کو بھی پامال کیا ہے جن کی میں عمر بھر تعلیم دیتا رہا ہوں اور وہ ہزار وں معصوم لوگوں کو حکومت کے ہاتھوں ظالمانہ سلوک کا نشانہ بنانے کے ذمہ دار ہیں۔
اگر کوئی ایسے لوگ بھی ہیں جو مداخلت پسندی کے زیر ا ثر ہیں جو کچھ فوجی افسران میں موجود ہوتا ہے اور انہوں نے ان مداخلت پسندی کے نظریات کوحزمت کی اقدار پر مقدم جانا ہے جس کا میرے خیال میں امکان کم ہے، تو پھر چند افراد کے گناہ کے لیے پوری تحریک کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ میں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔
مجھ سمیت کوئی شخص بھی قانون سے ماورا نہیں۔ میں چاہوں گا کہ ایک شفاف مقدمے کے بعد ان تمام لوگوں کو جو اس بغاوت کی کوشش کے ذمہ داران ہیں انھیں سزا دی جائے خواہ ان کی شناخت کچھ بھی ہو۔ ترک عدلیہ2014سے سیاست سے آلودہ ہو چکی ہے اور حکومت کے زیر اثر ہے۔ اس لیے ایک شفاف مقدمے کا امکان بہت ہی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کئی مواقع پر بغاوت کی کوشش کی تحقیقات کے لیے ایک بین الاقوامی کمیشن بنانے کی وکالت کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ میں ایسے کسی بھی کمیشن کی سفارشات کو تسلیم کروں گا۔
اپنی پچاس سالہ تاریخ میں حزمت تحریک کے اراکین تشدد کے کسی ایک بھی واقعہ میں ملوث نہیں ہوئے۔ وہ ایسے وقت میں بھی ترک سیکورٹی اداروں کے سامنے احتجاج کے لیے سڑکوں پر نہیں آئے جب انہیں تین سال سے جناب اردگان کے اپنے الفاظ کے مطابق حکومتی ’’Witch hunt‘‘کے تحت تکلیفوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
سیاسی کنٹرول کے تابع ترک سیکورٹی اداروں اور عدلیہ کے ہاتھوں بدترین مہم اور تکالیف کا نشانہ بننے کے باوجود حذمت تحریک کے اراکین نے قانون پر عملدارامد کیا ہے، جائز ذرائع سے ناانصافی کی مخالفت کی ہے اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کا دفاع کیا ہے۔
ترکی کی عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے گذشتہ تین برسوں سے اس ’’متوازی حکومت‘‘ کی تحقیقات کررہے ہیں جس کے متعلق الزام لگایا گیا ہے کہ اسے میں چلا رہا ہوں۔
موجودہ انتظامیہ2013 میں بدعنوانی کی تحقیقات کو بیوروکریسی میں موجود حزمت کے ہمدردوں کی جانب سے حکومت گرانے کی ایک منظم کوشش قرار دیتی ہے۔4000لوگوں کی گرفتاری، ہزاروں سرکاری ملازمین کے خلاف ایکشن اور سینکڑوں غیر سرکاری تنظیموں اور ذاتی کاروبار کو غیر قانونی طورپر ضبط کرلینے کے باوجود، انتظامیہ اپنے دعوؤں کے مصدقہ ہونے کے طورپر ایک معمولی سا ثبوت بھی حاصل نہیں کرسکی۔
مئی2013میں وزیر اعظم ترکی نے میرے ساتھ ہونے والی ملاقات کے موقع کو ’’خدا کا تحفہ ‘‘قرار دیا تھا تاہم دسمبر 2013میں سامنے آنے والی بد عنوانی کی تحقیقات کے بعد انہوں نے حزمت تحریک کے ممبران کے متعلق ذکر کرتے ہوئے ’’اجرتی قاتل‘‘ اور ’’خون آشام بلائیں‘‘جیسے نفر ت آمیز الفاظ استعمال کرنا شروع کردیے۔
15جولائی کو بغاوت کی سازش کے بعد یہ جملے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں، ترک حکومت کے ارکان نے بھی میرے اور میرے افکار سے متاثر لوگوں کے لیے ’’وائرس ‘‘اور ایسے ’’کینسر‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے شروع کردئیے ہیں جن کی صفائی اشد ضروری ہے۔ سینکڑ وں ہزاروں ایسے لوگ جو حذمت تحریک سے متعلق ادار وں کی امداد کرنے والے تھے ، انہیں کسی نہ کسی انداز میں تنگ کیا جارہا ہے۔
لوگوں کی ذاتی املاک پر قبضہ کیا جارہا ہے، بینک اکاؤنٹ ضبط اور پاسپورٹ منسوخ کیے جارہے ہیں اور ان کی سفری آزادیوں پر قدغن لگائی جارہی ہے۔ ہزاروں خاندان اس قسم کی زیادتیوں کے ہاتھوں انسانی المیے سے گزر رہے ہیں۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق تقریباً 90 ہزارلوگوں کو برطرف کیا گیا ہے اور 21ہزار اساتذہ کے تدریسی لائسنس منسوخ کردیے گئے ہیں۔
کیا ترک حکومت ان خاندانوں کو کام سے روک کر اور ملک چھوڑنے کی اجازت نہ دے کر بھوکوں مارنا چاہتی ہے؟اس قسم کے سلوک اور یورپی تاریخ میں نسل کشی سے قبل روا رکھے جانے والے طرزِ عمل میں کیا فرق ہے؟
میں نے ترکی میں تمام فوجی بغاوتوں کو دیکھا ہے اور دیگر ترک شہریوں کی طرح ہر مرتبہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ 12مارچ 1971کی بغاوت کے بعد مجھے جنتا انتظامیہ کے حکم پر قید کیا گیا۔ 12 ستمبر1980کی بغاوت کے بعدمیرے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے اور چھ برس تک مجھے مفرور کی طرح زندگی گزارنی پڑی۔
28فروری 1997کی پوسٹ ماڈرن بغاوت کے فوراً بعد میرے خلاف کہ ’’ ایک رکنی غیر مسلح دہشت گرد تنظیم ‘‘ کے الزام کے تحت سزائے موت کے لیے مقدمہ دائر کیا گیا۔
ان تمام ظالمانہ فوجی انتظامیہ کے ادوار میں مجھ پر تین کیس بنائے گئے جن میں مجھ پر ’’دہشت گرد تنظیم کی سرپرستی ‘‘کا الزام لگایا گیا لیکن میں تمام الزامات سے بری ہو گیا۔ اس وقت مجھے فوجی انتظامیہ نے نشانہ بنایا اور اب میں ان تمام الزامات کا سامنا اس سے بھی بڑھ کر غیر قانونی انداز میں سول آمر انتظامیہ کے ہاتھوں کررہا ہوں۔
مختلف جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ میرے تعلقات دوستانہ نوعیت کے رہے ہیں جن میں جناب ترگت اوزال، جناب سلیمان دیمرل اور جناب بلند ایجوت شامل ہیں۔ میں نے ان کی ایسی پالیسوں کی حقیقی معنوں میں حمایت کی جنہیں میں معاشرے کے لیے مفید سمجھتاتھا۔ انہوں نے میرے ساتھ عزت و احترام کا برتاؤ کیا، خصوصاً اس وقت جب انہوں نے سماجی امن اور تعلیم کے لیے حزمت کی سرگرمیوں کو سراہا۔
اگرچہ میں نے خود کو سیاسی اسلام کے نظریے سے دور رکھا تاہم میں نے جناب اردگان اور اے کے پارٹی کے قائدین کی جانب سے پہلے دور حکومت میں کی جانے والی جمہوری اصلاحات کی تعریف کی۔ میں اپنی پوری زندگی کے دوران فوجی بغاوتوں اور حکومتی پالیسیوں میں مداخلت کے خلاف کھڑا رہا۔ جب آج سے 20سال پہلے میں نے اعلان کیا کہ ’’ملک میں جمہوریت اور سیکولرازم سے واپسی کی کوئی راہ نہیں ۔‘‘ تو مجھ پر انہی سیاسی اسلام کے حامیوں نے الزامات لگائے جو آج موجودہ حکومت کے قریب ہیں۔ میں آج بھی اپنے الفاظ پر قائم ہوں۔40برسوں پر محیط میرے خطبات پر مشتمل 70سے زائد کتابیں اور مضامین عمومی طورپر دستیاب ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو فوجی حکمرانی کو جواز فراہم کرتا ہو بلکہ اس کے برعکس ان میں ایسی عالمی انسانی اقدار کا ذکر ہے جو جمہوریت کی بنیاد ہیں۔
ترکی کو آمریت کے منحوس چکر سے نکالنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب جمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے اور انتظامیہ کا چناؤ میرٹ پر ہو۔ اس کا حل نہ تو فوجی بغاوت اور نہ ہی سول مطلق العنانیت میں ہے۔
بدقسمتی سے ایک ایسے ملک میں جہاںآزاد میڈیا ادارے بند کیے جارہے ہوں یا انہیں حکومتی کنٹرول میں لیا جارہا ہو، ترک عوام کی ایک قابل ذکر تعداد کو حکومتی پروپیگنڈہ کے ذریعے یقین دلایا گیا ہے کہ میں ہی 15جولائی کی بغاوت کا اصل ذمہ دار ہوں ۔تاہم عالمی رائے عامہ جس کی بنیاد مکمل معلومات ہوتی ہیں وہ صاف طورپر دیکھ رہی ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اس پکڑ دھکڑ کے پیچھے انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے حصول کا طریقہ ہے۔
یقیناًاہم یہ نہیں کہ اکثریت کیا سوچتی ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ سچ کیا ہے اوراس کا حصول صرف ایک شفاف مقدمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
مجھ سمیت ہزاروں لاکھوں لوگ جنہیں ایسے شدید الزامات کا سامنا ہے، یہی چاہتے ہیں کہ ایک شفاف عدالتی طریقہ سے ان الزامات سے بری الذمہ ہوں۔ ہم ان شکوک کے ساتھ جینا نہیں چاہتے جو ہماری ذات سے متعلق پیدا کردئیے گئے ہیں۔ بدقسمتی سے 2014سے عدلیہ پر حکومتی اثر و رسوخ قائم ہو چکا ہے جس کے باعث حزمت کے ہمدردوں کے لیے ان الزامات سے بری ہونے کا موقع ختم ہوگیا ہے۔
میں ترک حکومت سے کھل کر کہتا ہوں کہ وہ بغاوت کی کوشش کی تحقیقات کے لیے بین الااقوامی کمیشن کی اجازت دے۔ میں اس معاملے میں اپنے بھرپور تعاون کا وعدہ کرتا ہوں۔ اگر کمیشن میرے خلاف لگائے گئے الزامات کا دسواں حصہ بھی درست ثابت کرد ے تو میں ترکی واپسی اور سخت ترین سزا کا سامنا کرنے کو تیار ہوں۔
حزمت تحریک کے اراکین کو سینکڑوں حکومتیں، خفیہ ادارے،تحقیقات کرنے والے، اور آزاد سول سوسائٹی پچھلے 25برسوں سے دیکھ رہے ہیں اور وہ انہیں کبھی بھی کسی غیر قانونی سرگرمی میں شامل نہ ملے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک نے ترک حکومت کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
حزمت تحریک کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ سیاسی طاقت کا حصول نہیں چاہتی بلکہ وہ معاشروں کے مستقبل کو لاحق مسائل کا طویل المعیاد حل چاہتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلم اکثریتی معاشروں کا ذکر خبروں میں دہشت گردی، کشت و خون اور غربت کے باعث آتا ہے، حذمت کے اراکین ایسی تعلیم یافتہ نسلوں کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں جو مکالمہ کے لیے تیار ہوں اور اپنے معاشروں کے لیے مفید ہوں۔
میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشروں کو لاحق مسائل میں سب سے بڑے مسئلے جہالت ، عدم برداشت پر مبنی تنازعات اور غربت ہیں۔ میں نے اپنے سامعین کی حوصلہ افزائی کی کہ مسجدیں یا قرآن پڑھانے کے مراکز بنانے کی بجائے اسکول قائم کریں۔
حزمت کے اراکین تعلیم ،صحت اور انسانی امداد کے کاموں میں نہ صرف ترکی بلکہ دنیا کے 160سے زائد ممالک میں سرگرم عمل ہیں۔ان سرگرمیوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب اور نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ہیں۔
حزمت تحریک کے ممبران نے پاکستان کے مشکل ترین علاقوں میں لڑکیوں کے لیے اسکول قائم کیے ہیں اور سنٹرل افریقن ریپبلک میں خانہ جنگی کے دنوں میں بھی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ جس دوران بوکرحرام نے نائیجریا میں لڑکیوں کو اغواء کیا حذمت کے ممبران نے اسکول کھولے جہاں لڑکیوں اور عورتوں کو تعلیم فراہم کی گئی۔ فرانس میں اور فرانسیسی بولنے والے ملکوں میں، میں نے اپنے افکار اور اقدار کے ماننے والوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ایسے گروہوں کے خلاف جنگ کریں جو بنیاد پرست اسلامی فکرسے متاثر ہیں اور یہ بھی کہ اس جدوجہد میں حکومت کا ساتھ دیں۔ ان ممالک میں، میں نے کوشش کی کہ مسلمانوں کو معاشرے کے آزاد اور فعال اراکین کے طورپر جانا جائے اور ان پر زور دیا کہ وہ مسائل کا حصہ بننے کی بجائے ان کے حل کا حصہ بنیں۔
مختلف دھمکیوں کے باوجود میں نے القائدہ اور داعش جیسے ان دہشت گرد گروہوں کی متعدد مواقع پر مذمت کی جو اسلام کے روشن چہرے پر دھبے کی طرح ہیں۔ تاہم ترک حکومت دنیا کی مختلف حکومتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ ان اسکولوں کے خلاف ایکشن لیں جنہیں کھولنے والوں کا کسی طرح بھی 15جولائی کی بغاوت کی کوشش سے کوئی تعلق نہیں اور جنہوں نے کھلے الفاظ میں تشدد کو رد کیا ہے۔ دنیا کی مختلف حکومتوں سے میری اپیل یہ ہے کہ وہ ترک حکومت کے دعوؤں کو نظرانداز کردیں اور ان کے غیر معقول مطالبات کو رد کردیں۔
درحقیقت ترک حکومت کی جانب سے حزمت تحریک کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے سیاسی فیصلے کے نتیجے میں اسکولوں، ہسپتالوں اور امدادی تنظیموں کی بندش عمل میں آئی ہے۔ جیل بھیجے جانے والے لوگوں میں اساتذہ، کاروباری افراد، ڈاکٹر، ماہرین تعلیم اور صحافی شامل ہیں، حکومت نے اس امر کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ اس پکڑ دھکڑ کے نتیجے میں گرفتار شدہ سینکڑوں افراد نے بغاوت کی حمایت کی یا پھروہ کسی بھی قسم کے تشدد کا حصہ ہیں۔
پیرس کے کسی ثقافتی مرکز کو جلا دینے ، کسی بھی مطلوب شخص کے اہل خانہ کو حراست میں لینے، گرفتار صحافیوں کو طبی امداد سے محروم کرنے، 35ہسپتالوں اور انسانی امداد کے ادارے ’’کم سے یوک مو ‘‘کو بند کردینے، یا 1500یونیورسٹی ڈینز کواستعفیٰ دینے پر مجبور کرنے جیسے ان تمام اقدامات کی توجیح پیش کرنا ناممکن ہے جو بغاوت کے بعد تحقیقات کے نام پر کیے جارہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ حالیہ گرفتاریاں جہاں صرف حزمت کے اراکین کو حراست میں لیا گیا ہے ان کے ذریعے ترک حکومت دراصل بیوروکریسی میں ہر اس شخص کو نکال دینا چاہتی ہے جو حکمران جماعت کا وفادار نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سول سوسائٹی کے اداروں کو بھی ہراساں کرنا چاہتی ہے۔
ترکی میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں خوفناک منظر پیش کررہی ہیں جن میں کچھ کا تذکرہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹوں میں بھی کیا ہے۔ یہ حقیقت میں ایک بڑا انسانی المیہ ہے۔
یہ حقیقت کہ 15جولائی کی بغاوت کی کوشش ، جو ایک منتخب حکومت کے خلاف غیر جمہوری مداخلت تھی، اس کا سد باب ترک عوام کی مدد سے ہوا، تاریخی طورپر اہمیت کی حامل ہے۔ تاہم بغاوت کی ناکامی کا مطلب جمہوریت کی کامیابی نہیں ہے۔ نہ تو کسی اقلیت کاطاقت میں آنا اور نہ ہی کسی اکثریت کا غلبہ جو کسی اقلیت پر مظالم کا سبب بنے اور نہ ہی کسی منتخب شدہ مطلق العنان شخص کی حکمرانی حقیقی جمہوریت ہے۔
قانون کی حکمرانی، طاقت کے غیر مرتکز ہونے اور ضروری حقوق انسانی اور آزادیوں خصوصاً اظہار رائے کی آزادی کے بغیر جمہوریت کے متعلق بات نہیں کی جاسکتی۔ ترکی میں جمہوریت کی حقیقی فتح صرف ان بنیادی اقدار کو زندہ کرنے سے ہی ہو سکتی ہے۔
)یہ آرٹیکل فرانسیسی جریدے Le Monde میں 11اگست 2016کو شائع ہوا۔(
- Created on .