فتح اللہ گولن کا NPRکو انٹرویو: ’’میں ہر قسم کی بغاوت کے خلاف کھڑا ہوا ہوںـ‘‘
گذشتہ برس 15 جولائی کو ترک فوج کے ایک حصے نے بغاوت کی کوشش کے دوران سرکاری عمارات پر بمباری کی اور سڑکوں اور پلوں کو بند کیا تاکہ صدر رجب طیب اردگان کو عہدے سے برطرف کردیا جائے۔اگرچہ اس کوشش کو اگلے ہی دن کچل دیا گیا مگر اس وقت کے بعد سے ترکی اس کے نتائج بھگت رہا ہے۔
حکومت نے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کردیا اورہزاروں لوگوں کو گرفتار کرلیا، ایک لاکھ سے زائدلوگ اپنی ملازمتوں سے گئے جن میں سرکاری ملازمین ،یونیورسٹی پروفیسرز اور فوجی بھی شامل ہیں، مگر اردگان کے قہر کا سب سے بڑا نشانہ 78سالہ ترک مبلغ فتح اللہ گولن تھے جو امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اردگان گولن پر اس ناکام بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کرتا ہے۔ حکومت نے گولن کی تحریک کو ہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
گولن جن کے ترکی میں لاکھوں حامی موجود ہیں بغاوت کے لیے کسی بھی قسم کی ذمہ داری سے تسلسل کے ساتھ انکار کرتے رہے ہیں مگر ترکی امریکہ سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کررہا ہے ۔جہاں وہ 1990کے عشرے کے اواخر سے مقیم ہیں۔ ’’آج کے دن تک میں تمام بغاوتوں کا مخالف رہا ہوں۔‘‘گولن نے این پی آر کے رابرٹ سیجل کو بتایا جو سوموار کے دن مبلغ کی رہائش گاہ سائلسبرگ پنسلوینیا پہنچے تھے۔ گولن نے مزید کہا: ’’فوج کے لیے میرا احترام ایک جانب ، میں ہمیشہ سے ہر قسم کی مداخلت کے خلاف رہا ہوں۔۔۔اگر ان فوجیوں میں سے کوئی بھی مجھے کال کرتا اور اپنے منصوبہ کے متعلق بتاتا تو میں اس سے کہتا : ’’تم قتل کا ارتکاب کررہے ہو۔‘‘
گولن جو شاذو نادر ہی میڈیا سے بات کرتے ہیں۔ انہوں نے ترکی کے مستقبل کے متعلق فکر مندی کا اظہار کیا لیکن یہ بھی کہا کہ ’’کچھ امید اب بھی باقی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’اگر وہ مجھ سے میری آخری خواہش پوچھیں تو میں یہی کہوں گا کہ جس شخص نے بھی یہ تمام مشکلات کھڑی کیں اور ہزاروں بے گناہوں پر ظلم کا باعث بنا میں اس کے منہ پر تھوکنا چاہتا ہوں۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کا اشارہ اردگان کی طرف ہے تو انہوں نے جواب دیا: ’’یہ کوئی اور ہو بھی نہیں سکتا۔ وہ ظالم ہے۔ ‘‘
این پی آر نے ترک سفارتخانے سے اس پر رائے جاننے کی کوشش کی مگر انہوں نے گولن کے بیان پر تحریری جواب دینے سے انکار کردیا۔
انٹرویو کی جھلکیاں اردگان کی جانب سے گزشتہ برس کی ناکام بغاوت کی منصوبہ بندی کے دعوے کے جواب میں۔
میں آج کے دن تک تمام بغاوتوں کا مخالف رہا۔ میں نے 27مئی 1960کی فوجی بغاوت میں تکالیف سہیں اور ایک مرتبہ پھر 12مارچ 1971کو اور پھر 12ستمبر 1980کو اور مجھے 28فروری 1997کو نشانہ بنایا گیا۔ فوج کے لیے میرا احترام ایک طرف مگر میں ہمیشہ سے مداخلت کے خلاف رہا ہوں۔ میں 15جولائی کی بغاوت برپا کرنے والوں کو نہیں جانتا۔ شاید وہ مجھے جانتے ہوں ہو سکتا ہے انھوں نے میرے کچھ وعظ سنے ہوں۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں ،ہزار وں لوگ یہاں مجھ سے ملنے آتے ہیں۔جن میں پارلیمنٹ کے 50ممبران بھی شامل ہیں۔ سابق صدر عبداللہ گل، سابق وزیر خارجہ احمدداؤد اوغلو بھی ان میں سے تھے۔ اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگ مجھے جانتے ہوں مگر میں انہیں نہیں جانتا۔
ایک اور چیز یہ کہ میں یہاں ترکی سے ہزاروں میل دور رہ رہا ہوں،کچھ فوجیوں نے بغاوت برپا کرنے کا فیصلہ کیااور اس بات کے باوجود کہ بہت سے شکوک اور ابہام حکومت کے اس رات کے طرز عمل کے متعلق باقی ہیں مگر ان تمام دعوؤں کو درست مان لیا جائے تو میں حیرت سے کانپ جاتا ہوں لیکن اگر ان فوجیوں میں سے کوئی بھی مجھے کال کرتا اور اپنے منصوبے کے متعلق بتاتا تو میں اسے کہتا: ’’تم ایک قتل کا ارتکاب کررہے ہو۔‘‘
ترکی کی جانب سے ملک بدری کی درخواست پر
میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اپنی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے متعلق حساس ہے لیکن اگر اپنی اس ساکھ کو داؤ پر لگا کر ترکی کے دعوؤں اور درخواست کی بنیاد پر مجھے جلا وطن کردیا جائے تو میں نہ نہیں کروں گا، میں اپنی مرضی سے چلا جاؤں گا۔
میں اپنی زندگی کے آخری سالوں میں ہوں اگروہ مجھے قتل کرنے یا زہر دے کر یا واپس لا کر پھانسی دے کر ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیں تو اس سے کیا ہوگا، جب ابھی میں ایک نوجوان مبلغ تھا تو میں دو لوگوں کو سزائے دئیے جانے کے موقع پر موجودتھا اور میں نے ان سے ان کی آخری خواہش کے متعلق پوچھا تھا۔ اگر وہ مجھ سے میری آخری خواہش کے متعلق سوال کریں تو میں کہوں گا کہ جس شخص نے ہزاروں بے گناہوں کو اتنی مصیبتوں میں مبتلا کیا اور ظلم و ستم کیا میں اس کے چہرے پر تھوکنا چاہتا ہوں۔
ان کی تنظیم کے خفیہ ہونے کے الزامات پر
یہ سوچ کہ یہ سب میرے کنٹرول میں ہے اور یہ کہ جو کچھ بھی لوگ کررہے ہیں یہ میں انہیں کہتا ہوں، ایسی کوئی بات نہیں ۔جیسا کہ میں نے ایک قانون ساز سے بھی کہا کہ اگر کوئی بھی شک یا پراسراریت ہے تو وہ اس کے متعلق تحقیقات کرلیں اور اسے ثابت کردیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا واضح نہیں یا کیا راز ہے لیکن وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے اسے ثابت کرسکتے ہیں۔ میں اس کی کھل کر حمایت کرتا ہوں۔
ان کی تنظیم کی دیہی پنسلوینیا میں موجودگی کے متعلق
یہاں آنے سے قبل میں ہمیشہ ترکی میں رہا اور مختلف ادوار میں ہونے والی فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں مشکل صورتحال کا سامنا کیا۔ میں کبھی بھی ترکی کوچھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے دل کا کچھ عارضہ تھا۔ مایوکلینک میں ایک ماہر امراض دل نے کہا کہ میں یہاں آکر علاج کراؤں چنانچہ میں علاج کے لیے آگیا۔ابھی میں ہسپتال میں تھاکہ ترکی میں ایک پراسیکیوٹرنے میرے خلاف ایک کیس کھول دیا چنانچہ مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں معاملات ٹھنڈے ہونے تک یہیں رہوں مگر انہوں نے کبھی ایسا نہ ہونے دیا۔
میں نہیں چاہتا کہ اسے کسی بھی قسم کی خوشامد سے تعبیر کیا جائے مگر میں ہمیشہ سے امریکہ کی جمہوریت اور دنیا میں قائدانہ کردار کے متعلق تعریف کرتا رہا ہوں۔ مجھے یہاں آزادی حاصل تھی چنانچہ میں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا اور چند برس بعد مجھے مستقل رہائش کی اجازت مل گئی اور اس لیے میں اب تک یہیں مقیم ہوں اور میرے خیال میں یہ ایک عقلمندانہ فیصلہ تھا۔
میں یہاں اس رہائش گاہ سے زیادہ باہر نہیں جاتا صرف ہسپتال آتا جاتا ہوں کیونکہ میں سکون پسند کرتا ہوں۔
تحریک کے مستقبل کے سوال پر
(اردگان)سوچتا ہے کہ اگر وہ مجھے راستے سے ہٹا دے تو اس تحریک میں موجود ہر شخص ختم ہو جائے گا۔ اردگان سوچتا ہے کہ اگر وہ مجھ سے جان چھڑا لے، وہ سمجھتا ہے کہ میراخاتمہ تحریک کا خاتمہ ہوگا ۔ وہ غلطی پر ہے۔ ہم فانی ہیں ہم ایک دن مر جائیں گے۔ مگر یہ محبت اور انسانیت سے لگاؤ کی تحریک ہے اور اللہ نے چاہا تو اپنی قوتِ فیصلہ اور آزاد مرضی پر چلنے والے اس عظیم کام کو جاری رکھیں گے۔
ترکی کے مستقبل کے لیے ان کی امیدوں کے متعلق
میں نہ تو کوئی ماہر عمرانیات ہوں اور نہ ہی ماہر نفسیات لیکن آپ کو یہ سمجھنے کے لیے یہ سب بننے کی ضرورت بھی نہیں کہ ترکی مسائل کے بھنور میں گھرا ہوا ہے اور دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ ڈپلومیسی کی جگہ مفاد پرستی نے لے لی ہے۔
تمام دنیا اس کی شاہد ہے۔ اس نقطہ نظر سے میں ترکی کا مستقبل بہت روشن نہیں دیکھتا۔ یہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے مگر مجھے کچھ نہ کچھ امید ہے میں اس میں بہتری کے لیے دعا گو ہوں۔ یہ ایک بابرکت ملک ہے،نیٹو کا رکن ہے اور یورپی یونین کا امیدوار تھا۔ یہ چیزیں ہم چاہتے تھے تاکہ جمہوریت آگے بڑھے ۔ مختلف سوچ کے لیے احترام ہو۔
ترکی ایک متنوع ملک ہے۔ میرے خیال میں اس قسم کی معاشرتی بنیادوں کے حامل ملک کے لیے جمہوریت بہترین نظام ہے۔ میرا نقطہ نظر میرے اس ایمان پر ہے کہ ہر کسی کو اپنے نظریات کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہونی چاہیے اور یہ صرف ایک حقیقی جمہوری ماحول ہی میں ممکن ہے۔ میں اپنے خیالات پر اصرار کرتا ہوں اور اپنی بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں۔
اس کے علاوہ میں نے پہلے ہی دوسروں سے بھی کہا ہے کہ ترک آئین کو امریکی آئین کی طرز پر ڈھالنے کی ضرورت ہے۔امریکہ 300ملین سے زائد لوگوں کا ایک متنوع ملک ہے جہاں ایسا آئین موجود ہے۔ یہ ترکی کے لیے بہت موثر ثابت ہوگا۔
- Created on .