کامیابی ،آزمائش اورفتح کا نشہ
کامیابی حاصل کرنے کے بعد ، وہ ایمانی موقف کیا ہے جس کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
جواب: حقیقی مومن وہ ہے جو اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ اس نے جوبھی نیکی کی ہے، یا کوئی جمال حاصل کیا ہے، یا کوئی کامیابی ملی ہے، وہ اللہ جل شانہ کی جانب سے ہے ا ور اسے پہنچنے والی ہر برائی اور ناکامی خود اس کے اپنے نفس وجہ سے ہے ۔ کیونکہ حق تعالیٰ شانہ نے اس حقیقت کو وضاحت اورصراحت کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے:﴿مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ﴾ (النساء : 79) (اے آدم زاد تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی شامت اعمال کی وجہ سے ہے)۔
اس لئے مومن پر لازم ہے کہ وہ کسی بھی اچھائی یا جمال جس کا وہ ذریعہ بنا ہے یا کوئی بھی کام یا خدمت بجا لایا ہے، اس کو اپنی جانب منسوب نہ کرے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ جب ہم اپنی تمام نمازوں میں حق تعالیٰ شانہ کی تسبیح کرتے ہیں تو اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اس کے کاموں اور امور ربوبیت میں کوئی اس کا ہمسر ہے، نہ شریک ، نہ نظیر اور نہ مثال۔ پس جب ہم اس حقیقت کو اپنے دل کی گہرائی سے محسوس کریں (جس کو ہماری زبانیں بولتی ہیں) اور اس کو اپنے افکار پر پوری طرح حاوی کردیں تو(اللہ کے حکم سے)ہم جرم عظیم کے ارتکاب ،یعنی ان جمالیات اور کامیابیوں کو اپنی طرف منسوب کرنے سے بچ جائیں گے جن کا ہم ذریعہ بنے ہیں۔
اپنی حد پہچان کر اس پر رکنے والے کے لیے خوشخبری ہے!
مومن پر لازم ہے کہ وہ اپنی حد پہچانے ا ور اس سے آگے نہ بڑھے خواہ اس کی کامیابیاں کچھ بھی کیوں نہ ہوں۔ حضرت نورسی رحمہ اللہ اس حقیقت پر بہت زور دیتے ہیں جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: (طُوبَى لِمَنْ عَرَفَ حَدَّهُ وَلَمْ يَتَجَاوَزْ طَوْرَهُ )(1) (اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس نے ا پنی حد پہچانی اور اپنے طریقے سے آگے نہیں بڑھا) لیکن یہ بات انسان کے اس ادراک سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ گوشت پوست کا بنا ہوا ہے اور اس کی ماہیت میں عاجزی اور فقر شامل ہے، علاوہ ازیں انسان کے لیے ضرروی ہے کہ وہ سوچ میں گہرائی پیدا کرے اور اس بات کا خیال رکھے کہ وہ ان نجاستوں سے آلودہ ہے جن کو ’’عموم بلویٰ ‘‘ کہا جاسکتا ہے اور وہ اپنے کانوں تک گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
اس لئے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یوں کہے: میں ایک کمزور سا انسان ہوں، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت اور وسیع رحمت سے مجھ پر یہ ساری عنایات کی ہیں۔ پس اگر انسان اس انداز سے سوچے اور خالص توحید کے ذریعے اپنے رب کی طرف متوجہ ہو، تو وہ اوہام اس کے دل میں کبھی نہیں آئیں گے جو اس کو اس کی حد سے تجاوزکرنے پرمجبور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کو برقرار رکھے گا کیونکہ اس انسان کو ادراک ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر اس نعمت کا منبع ہے جس سے وہ لطف اندوز ہوتا ہے۔
انسان کو چاہئے کہ اس کے دماغ سے وہ گناہ اور خطائیں محو نہ ہوں جن کا اس نے ا رتکاب کیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات کا ادراک کرلے کہ اس کے نفس پر اعتبار کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے خطروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اس طرح اس کے دل میں غرور اور تکبر پیدا نہ ہوگا کیونکہ اسے اپنے جرم کا احساس ہے۔ وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ غرور اور تکبر کو چھوڑدو ۔ (علاوہ ازیں) وہ ہمیشہ اپنے نفس کو ایک مجرم انسان کی نظر سے دیکھے گا اور اپنے بظاہر نیک اعمال کو بھی اس نظر سے دیکھے گا کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی ایسے کام کسی فاجر کے ہاتھ سے بھی کرا دیتا ہے ۔ اس وقت وہ اپنے دل میں کہے گا: ’’میں ایک بے کس اور لاچار انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ اس آدمی کے ہاتھ سے بھی فائدہ پہنچا دیتا ہے جس سے اس کی امید نہیں ہوتی‘‘۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے مسلسل اپنے نفس کا محاسبہ کرنے سے نہ رکے۔
اس سے کسی انسان کے دل میں یہ بات نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ وہ یہ سمجھنا شروع کردے کہ اس طرح کے اوہام سے بچنے کے لیے کوئی گناہ کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ گناہ جو ہم لاشعوری طورپر یا کسی سابقہ اصرار کے بغیر کرتے ہیں( جیسے گناہوں کوسننا یا کسی غلطی کا ا رتکاب ) وہی ایسے راس المال کے مانند ہیں جو یہ احساس دلانے کے لیے کافی ہے کہ نفس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ بہرحال اہم بات یہ ہے کہ ان خطاؤں سے فائدہ اٹھایا جائے کیونکہ اگرآدمی اپنے رب کے حضور ہزار بار توبہ کرے اور اپنی غلطی کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھے تو وہ ان نتائج کو کبھی اپنے نفس کی طرف منسوب نہیں کرے گا جو اس کے عمل اور کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مرحمت فرمائے ہیں اور یقینی طورپر اس بات کو محسوس کرے گا کہ یہ نتائج محض اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہیں۔
اس اعلیٰ محاسبہ کے دوران جس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ : شیطان غلطی کرنے والے کو اس کا جرم اتنا بڑا کرکے دکھائے گاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہوجائے اور شیطان اس کو یہ کہہ کر دھوکہ دے دے کہ :’’تم یہ جرم اٹھائے اپنے رب کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتے۔‘‘ اس لیے ایسے حالات میں انسان کے لیے لازمی ہے کہ وہ ہر اس ذریعے سے کوشش کرے جس سے وہ اپنے گناہوں سے پاک ہوسکتا ہو اور ساتھ ساتھ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو بلکہ یوں کہے کہ:’’ میراجرم تو بڑا ہے لیکن یا اللہ میرا دل تیراعاشق ہے۔‘‘
یہ بات ضروری ہے کہ اس کے گناہ اسے اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہونے اور اس کے لطف و کرم اور رحمت وعنایت کی امید رکھنے میں مانع نہ ہوں، یہاں تک کہ اگر اس کو یقین ہوجائے کہ ان گناہوں نے اسے اپنے رب سے بہت دور کردیا ہے، تو بھی اس کو چاہئے کہ وہ اپنے احساسات اور افکار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قرب کی جانب تیرنے کی کوشش کرے۔ اگر انسان اپنی ٹانگوں یا گھٹنوں تک نہیں بلکہ کانوں تک بھی گناہوں میں ڈوب گیا ہو، تو بھی اس کو چاہئے کہ وہ دائرہ ربوبیت و الوہیت کے یکتا سلطان یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے یا اس دائرے کے سب سے بڑے داعی یعنی ہمارے نبی کریم ﷺ کی جانب توجہ کرے اور اللہ اور رسول کی محبت میں فنا ہوجائے اور اس دروازے کوکبھی نہ چھوڑے ۔ یہ باتیں ایک رخ سے ایک دوسرے کی نقیض معلوم ہوسکتی ہیں لیکن ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ان تضادات میں ایک توازن پیدا کرے۔
پیر نہیں اڑتا بلکہ مرید اس کو گھڑے میں گراتا ہے۔
چلئے اپنے اصل موضوع کی طرف واپس جاتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں کے بارے میں انسان جن مہلک ترین امور کا شکار ہوتا ہے، ان میں سے سب زیادہ یہ ہے کہ وہ یہ سوچتا ہے کہ اس نے جو کامیابی حاصل کی ہے اور اس پر اس کی جو مدح سرائی ہو رہی ہے ، وہ اس کا مستحق ہے، حالانکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اپنی رحمت اور کرم سے انسان کو اس سے بھی بڑی لیاقت نصیب فرما دے، مگر وہ بذات خود ایک آزمائش ہو۔ اس لئے انسان کے اوپر لازم ہے کہ ایک طرف تو اپنے اوپر ہونے والے اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے اور دوسری طرف ان کو اپنی جانب منسوب کرنے سے بچے کیونکہ جو انسان اس جرم کی سمجھ رکھتا ہے جس کا وہ مرتکب ہوا ہے، وہ اللہ کے فضل کی کسی شے کو اپنی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ (مثلاً) اگر وہ گلاب کے تیار پھولوں اور اپنے آپ کو دیکھے گا تو اپنا احتساب کرے گا اور اس بنجر زمین میں ان پھولوں کے بڑھنے پر حیرت اور تعجب کا اظہار کرے گا۔
سچی بات یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر مزید فضل و کرم فرما دے جن کے پاؤں گناہوں اور معاصی سے روڑوں سے اٹکے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے کام انجام دیتے وقت سعی اور کوشش کی ہے۔ پس جب بعض لوگ اس شخص پر ہونے والے اللہ کے انعامات کو دیکھیں گے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس کے گرد اکٹھے ہوجائیں ، اس کی عزت اور احترام کریں بلکہ یہ بھی بعید نہیں کہ کچھ لوگ اس کو اللہ کے اولیاء میں سے ایک ولی سمجھنے لگ جائیں۔ پھریہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی آدمی اس صفت کو کم تر سمجھے اورکہے کہ: ’’ولی کیا ہوتا ہے؟ یہ تو اپنے بے مثال کارناموں سے غوث لگتا ہے‘‘ ۔ کوئی اور شخص اس حد سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے اندر غوث اور قطب کی صفات یکجا ہوگئی ہیں ۔ اس ساری مدح سرائی اور لوگوں کے حسن ظن کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ شخص خود بھی ان مقامات کی خواہش کرنے لگے اور پنے دل میں یوں کہنے لگے: ’’کس کو معلوم کہ حقیقت میں ، میں ولی ہوں یا غوث ہوں؟‘‘
پھر ایسے آدمی کو اس حالت کے معقول دلائل بھی مل سکتے ہیں، مثلاً وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ : ’’انسان کے اوپر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑاکرم یہ ہے کہ وہ اسے اس اکرام کا احساس بھی نہ ہونے دے۔‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ان منازل سے بے خبرتھا جن تک میں پہنچ چکا ہوں ، اس لیے یہ کثیر لوگ جو میرے ارد گرد ہیں ، وہ یقیناًجھوٹ نہیں بولتے۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ ’’لوگوں کے گرد جوتوں کی آہٹ نے کتنے ہی لوگوں کے سراڑا دیئے اوردین کوکتنا برباد کردیا!‘‘ درحقیقت وہ شخص خود نہیں اڑ رہا بلکہ دوسرے اسے اڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جبکہ سچی بات یہ ہے کہ یہ اڑان نہیں بلکہ ا(اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے) یہ گڑھے کی جانب لڑھکنا ہے کیونکہ ایسا زمانہ آسکتا ہے جب یہ شخص بے پناہ تعریف و توصیف کی وجہ سے قطب یا غوث ہونے پر اکتفا نہ کرے اور اس سے آگے مہدی یا مسیح ہونے کی جانب رخ کرلے ، خصوصاً اس وقت جب اس کے ارد گرد کے لوگ اس کے مسیح یا مہدی ہونے کا کہیں گے۔ چنانچہ یہ بیچارہ ان مراتب سے دھوکا کھا جائے گا جہاں تک دوسروں نے اپنے حسن ظن کی وجہ سے اسے پہنچایا ہے اوراپنے آپ کو بھی اس پر قائل کرے گا ۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی سوچ کی وضاحت نقلی تواضع سے کرے اور کبھی ان آیات اور احادیث کو بیان کرے جو اس موضوع سے متعلق ہیں اوراس سوچ کی تائید کرتی ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو آسمان میں اڑتا ہوا دیکھے جبکہ وہ اپنے گناہوں اور خطاؤں کی وجہ سے سیدھی زمین پر بھی چلنے کی سکت نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس طرح اپنے آپ کو گڑھے کی جانب لے جاتا ہے، حالانکہ انسان پر لازم ہے (جیسے کہ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے ذکر فرمایا ہے ) کہ وہ اپنے محبوبین کو ان کی حد سے بلند مرتبوں پر بٹھانے کی بجائے اپنے دعوے میں سچا اور مخلص ہو۔ جی ہاں، انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے بھائیوں سے ایسی محبت کرے کہ دنیاکی چیزیں اس محبت کا بدلہ نہ بن سکیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مبالغہ آرائی کے ساتھ تعریف و توصیف سے بچتا رہے جس سے وہ ممدوح کی گردن کاٹ سکتا ہے۔
دباغ کے ہاتھ میں کھال کی طرح
جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو (سلاطین اور شعراء سے لے کر اولیاء تک) بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ہ اپنے آپ کو کمتر اور حقیر سمجھتے تھے۔ اگرچہ وہ بڑی اونچی شخصیات اور مرتبوں کے مالک تھے مگراس کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو کوئی قدر و قیمت نہیں دی۔ سچی بات یہ ہے کہ انا پرست مغرور لوگ کوئی شے یا قیمت نہیں پیش کرسکتے کیونکہ ان کے لیے کسی بھی حال میں اوہام اور خیالات سے باہر قدم رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ دکھاوا اور شہرت جیسے دوسرے رستے اختیار کرلیتے ہیں۔ مثال کے طورپر ان میں سے کوئی شخص حضرت امام بخاری کے بارے میں بات کرتا ہے لیکن اسے اس وقت حیرت کا سامنا ہوتا ہے جب اس کو کوئی توجہ نہیں ملتی کیونکہ امام بخاری کے تمام اقوال محدثین کے ہاں مشہور ومعروف ہیں۔ چنانچہ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ امام بخاری کے اقوال سے وہ لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکتا تو اسے مزید پرانی اور اصل چیزوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ پس وہ آخرت کے وجود کے بارے میں کوئی نئی سوچ اختیار کرلیتا ہے اور ’’فلسفہ احادی‘‘ کے پیروکاروں کے اقوال جیسی باتیں کرکے دوبارہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے قول اور ’’الواردات ‘‘نامی کتاب میں مذکورشیخ بدرالدین کے اقوال میں کوئی فرق نہیں بلکہ جب ہم آخرت اور روح کے بارے میں ارسطو کے افکار کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ایک جیسے تضادات نظر آتے ہیں۔ اس لیے جب اس شخص کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جن خیالات کو اس نے قدیم اور اصل سمجھ کر پیش کیا تھا، ان کے بارے میں اس سے پہلے بہت سارے لوگ کلام کرچکے ہیں تو اب سوچنے لگتا ہے کہ اس بار کیا کہے؟! چنانچہ وہ تناسخ ارواح کے بارے میں بات کرتا ہے تاکہ اس طرح نئے اوہام اور خیالات پیدا کرسکے لیکن یہ شخص اپنے آپ کو تسلی دینے اور خوش کرنے کے لیے جن پرانے اور اصل خیالات کے مظاہر کو پیش کرتا ہے ان کا اختتام نقصان اور گمراہی پر ہوتا ہے کیونکہ وہ حقائق کو تلاش کرتا ہے اور نہ اسے ان کو پھیلانے سے کوئی غرض ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا بندہ بنا کر پیدا فرمایا ہے جبکہ انسان کے لیے عبودیت سے بڑا اور اونچا کوئی درجہ اور مرتبہ نہیں ہے ۔ تو پھر یہ سوال ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر اکتفا کیوں نہیں کرلیتے؟! کیونکہ ہماری ا صل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس کی ربوبیت اور الوہیت کے مقابلے میں اخلاص اورسنجیدگی کے ساتھ اس کی جانب متوجہ ہوں۔ حضرت بدیع الزمان نورسی کے الفاظ میں (کہہ سکتے ہیں کہ ) ’’عبودیت ان نعمتوں کا شکر ہے جو ہمیں پہلے عطا کی جا چکی ہیں، یہ ان نعمتوں کا پیش خیمہ نہیں جو بعد میں ہمیں دی جائیں گی‘‘۔(2) اس لیے کچھ خاص نعمتوں کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا اقرار اور یقین درست نہیں کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کسی بھی بدلے کے بغیر نعمتیں عطا کرسکتا ہے، اسی طرح وہ اس پر بھی قادر ہے کہ اپنی وسیع رحمت کی وجہ سے عبودیت کے بدلے میں بھی جزاء اور نعمتیں عطا کرے، لیکن اس کا انتظار نہیں کرناچاہئے کیونکہ ہم نے بندہ ہونے کے لحاظ سے اپنی اجرت اورجزاء پہلے ہی لے لی ہے جو ہمارے ذمے ہے بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالٰ کی تعریف اور شکرگریں۔
بے شک جو انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا وہ اپنے نفس کی عبادت کرتا ہے اور نفس کا غلام صرف اسی کے لیے جیتا ہے اور اسی کو دنیا کا مرکز سمجھتا ہے۔ ایسے انسان کو انانیت پر ست کہا جاتا ہے ، جیسے ہمیشہ اپنے آپ میں مشغول رہنے والے اور اپنے افکار و آراء بلکہ اپنے قد کا ٹھ ، کارکردگی اور تصرفات سے چمٹے رہنے والے انسان کو ’’نرگسی ‘‘کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگ صرف اور صرف ان کامیابیوں اور کاموں کو پسند اوران پر فخر کرتے ہیں جو صرف انہوں نے انجام دیئے ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کے کسی کام کوپسند کرنا، ان کے لیے محال ہے بلکہ یہ بات ثابت ہے اورنہ نظر آئی ہے کہ ایسے لوگوں نے کبھی اپنی تعریف و توصیف پر اکتفا کرلیا ہو، بلکہ ان کو ہمیشہ زیادہ اور مزید کی لالچ ہوتی ہے۔ یقیناًایسے انانیت پرست اورنرگسی لوگ انسانیت کے لیے کوئی فائدہ مند اورنافع کام نہیں کرسکتے۔ ان کے مقابلے میں منکسرالمزج لوگوں کو اللہ تعالیٰ بہت سے نیک اور اچھے اعمال کے لیے تیار کرتا ہے جیسے کہ شاعر کہتا ہے:
اگر بیج مٹی میں نہ چھپ جائے
تو تیرے رب کے فیض کا مظہر کس طرح بنے گا؟
اورآدمی جب اپنے رب کے سامنے عاجزی کرتا ہے
تو رحمن کی رحمت سے ظاہر ہو کر بلند ہوتا ہے
(مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے)
بیچ اس وقت تک اگ سکتا ہے اورنہ زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے جب تک اسے زمین کے اندر بونہ دیا جائے جبکہ تواضح کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس طرح بلند کرتا ہے کہ وہ اس کے مزید لطف و کرم سے بڑی بلند شخصیات کے مالک ہوجاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ایسے ہی تھے۔ یہی حال حضرت محمد بہادء الدین نقشبندی کا تھا، حضرت ابو الحسن شاذلی کا حال یہی تھا اور حضرت بدیع الزمان بھی ایسے ہی تھے کیونکہ ان لوگوں کے کوچ کرنےکے صدیوں اورزمانوں بعد بھی ہم ان کے اذکارو اوراد پڑھتے اوران کے آثار سے مستفید ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک ہمیشہ یاد رکھا جانے والا ایک نشان بن گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات تواضع ، فنا ،حیاء اور انکار ذات کے میدان کے سرخیل تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو بھلا کر ساری توجہ اللہ تعالیٰ کے اثبات پر مرکوز کردی تھی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر غور کیا، اپنے نفسوں کو پاک اور خالص کیا۔ مختصر الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی نظر صرف اس پر مرکوز کردی کہ ’’وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے سائے کا سایہ ہیں‘‘، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یاد کو بھی دوام بخش دیا۔ اس لیے وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، وہ آج بھی ہمارے اندر اس طرح رہتے ہی کہ میں بعض اوقات جب اپنے کمرے میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ میں حضرت ابو الحسن شاذلی یا حضرت عبدالقادر جیلانی سے ملوں گا۔ یہ حضرات میرے ذہن اور حاشیہ خیال میں موجود ہیں۔ جی ہاں، ان حضرات نے اللہ تعالیٰ کے اثبات کی کوشش کی ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی راسخ کردیا اوران کے ذکر کو باقی رکھا ، یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک ایسے مرشد اور رہنما کی ذمہ داری ادا کررہا ہے جو ہمیں رستہ دکھا رہا ہے حالانکہ ان کو اس دار فانی سے کوچ کیے زمانے بیت گئے ہیں۔مثلاً سات یا آٹھ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی ہم اب تک انپے اس زمانے کی مشکلات کا حل ان کے اوراد و اذکار میں تلاش کرتے ہیں۔ کیا اس سے زیادہ خوبصورت تائید اور کوئی ہو سکتی ہے؟!
حاصل کلام یہ ہے کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تکبر اور غرور ہمارے زمانے کی سب سے زیادہ پھیلی ہوئی بیماری ہے۔ اگر یہ بیماری انسان کو فتح اورکامیابی کے آخر میں لاحق ہوجائے تو یہ ایسی خطرناک ہے اسے ہلاک کردے گی۔ اس لیے ہمیں چاہئے کہ تمام کامیابیوں اوراچھے نتائج کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کریں، اس کی حمد و ثناء کریں اور تواضع اور احسانمندی کے ساتھ اس کے حضور جبین نیاز کو جھکا دیں۔
(1) البخاری، التاریخ الکبیر: 338/3، الطبرانی، المعجم الکبیر:71/5
(2) ملاحظہ فرمائیے: بدیع الزمان، الکلمات، چوبیسوا ں کلمہ ،پانچویں شاخ، ص: 405
- Created on .