پھولوں کی آبیاری کی ذمہ داری
سوال: اعلیٰ عہدوں پر فائز اور بلند مقام کے حامل لوگ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو دوسروں سے بلند ترسمجھنے لگتے ہیں۔ وہ کون سی بنیادی تعلیمات ہیں،جواہل ایمان کو غرور میں مبتلا ہونے سے بچاسکتی ہیں؟
جواب:جب حق تعالیٰ پانی کے ایک قطرے سے پیدا ہونے والے انسانوں پر اپنی نعمتوں کی بارش برساتے ہیں تو ان میں احسان مندی، شکرگزاری اورتواضع کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ جس منصب پر بھی فائز ہوں اپنے آپ کو دوسروں سے (برتر سمجھنے کے بجائے ) کمتر سمجھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انسان محمد لطفی آفندی کے الفاظ میں یہ کہہ سکے:
ہر ایک مہذب ہے مگر میں غیرمہذب ہوں
ہر ایک مغز ہے مگر میں چھلکا ہوں
اگر آپ چاہیں تو اس قسم کی سوچ کو تواضع، فنائیت اور اپنے آپ کو ہیچ سمجھنے سے تعبیر کرسکتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ حقیقی وجود اسی طرز فکرکے سائے ہی میں پھلتا پھولتا ہے۔
کوئی شہابیہ گرسکتا ہے
کسی شاعر نے کتنی خوبصورت بات کہی ہے:
”مٹی میں ملے بغیرکوئی دانہ برکت حاصل نہیں کرسکتا ۔ جولوگ حقیقی تواضع سے متصف ہوتے ہیں وہی فضل خداوندی سے ترقی کرتے ہیں۔‘‘
اگرکوئی بیج اپنے آپ کو مٹی میں ملا کر فنا نہیں کرتا تو اس سے کونپل نکل سکتی ہے اور نہ ہی فصل پیدا ہو سکتی ہے۔ مفید فصل کی تیاری بیج کےمٹی کے نیچے دب کر خاک بن جانے اور فنا ہوجانے پر موقوف ہے۔ اس کے بعد ہی نشاۃ ثانیہ ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی کومعاشرے میں کیسا ہی مقام حاصل کیوں نہ ہو دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کواوپربیان کردہ نقطہ نظر سے دیکھے۔ ایسی سوچ کے حامل افرادمتواضع ہوتے ہیں اور خدا کے فضل سے سخت ترین آزمائش میں بھی پورے اترتے ہیں۔ ایسے لوگ کامیابیوں پر اتراتے ہیں اور نہ ہی دباؤ، حملوں اور تحقیر آمیز رویوں کی وجہ سے ہمت ہارتے ہیں، کیونکہ جوشخص اپنے آپ کوزمین کے نیچے دبا ہوا بیج تصورکرتا ہے وہ دوسروں کے اپنے اوپر چلنے سے کبیدہ خاطر نہیں ہوتا، لیکن جو لوگ اپنے نفس کے غلام بن جاتے ہیں وہ دوسروں کی نگاہوں، اشاروں حتی کہ معصوم مسکراہٹوں کا بھی غلط مطلب لیتے ہیں اور جب انہیں دوسروں سے متوقع احترام نہیں ملتا تو معمولی معمولی بات پر ناراض ہوجاتے ہیں۔
اس کے برعکس جولوگ تواضع اختیارکرتے اور اپنے آپ کو حقیر ترین ہستی سمجھتے ہیں وہ کسی بھی تحقیر آمیز سلوک یا لوگوں کے اپنے اوپر چلنے سے پریشان نہیں ہوتے۔ صرف یہی نہیں کہ وہ پریشان نہیں ہوتے بلکہ وہ اس طرح کی منفی صورت حال کو اپنے گناہوں کی جائز سزا سمجھ کر اسے خود احتسابی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ مثال کے طورپر اگران کے سر پر کوئی اخروٹ گرے تووہ کہتے ہیں: ’’میں اس سزا کا مستحق تھا، بلکہ میری موجودہ حالت کے پیش نظر اخروٹ کے بجائے یہ کوئی شہابیہ بھی ہوسکتا تھا۔‘‘ ان کا ایمان ہے کہ ہر واقعہ میں یقیناًبہت سی حکمتیں ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی بے فائدہ اور نامناسب فیصلہ نہیں فرماتے ہیں بلکہ ان کا حکم لاتعداد حکمتوں پر مبنی ہوتا ہے۔
خاص طورپر دور حاضر میں جب غرور بے قابوہوچکا ہے دوسر وں کی راہنمائی کے سلسلے میں تواضع ، عاجزی اور فنائیت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ذرا سوچیے کہ گلاب کے پھول زمرد، یاقوت، کوئلے، سونے یا چاندی پر نہیں اگتے۔ اگرچہ یہ خشکی اورتری میں خدا کے حکم سے پیدا ہونے والی چیزوں میں سے سب سے قیمتی دھاتیں ہیں،لیکن اس کے باوجود گلاب کے پھول ان پر نہیں اگتے۔ گلاب کے پھول مٹی پر اگتے ہیں حتی کہ فخر انسانیت حضرت محمد ﷺ بھی مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ آپ ﷺ کے مقدس آباءو اجداد بھی مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لہٰذا اگر ہم خوشمنا گلاب کے پھول اگانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی مٹی کی طرح متواضع بننا ہوگا۔
خود غرضی سے نجات
دوسروں کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہ سمجھنے اور تواضع کو اپنے کردار کا لازمی حصہ بنانے کے لحاظ سے احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلاۃ والتسلیم میں بیان کردہ رویوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’(حقیقی ) مومن بننے کے لیے ضروری ہے کہ تم دوسروں کے لیے بھی وہی چیز پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کریتے ہو۔‘‘[1] اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف وہی شخص حقیقی مومن ہے،جو اپنی پسند کے مطابق دوسروں کے لیے چیزیں پسند کرنے کی حد تک بامروت ، حساس اور دوسروں کا خیال رکھنے والا ہے۔ اس کے برعکس اگر لوگ دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند نہیں کرتے جووہ اپنے لئے پسند کرتے ہیں یا وہ دوسروں کے لیے وہ پسند کرتے ہیں جسے وہ اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں تو ایسے لوگ ایمان کی حفاظتی فضا سے باہر ایسی پھسلن والی زمین پر کھڑے ہیں جہاں سے وہ کسی بھی وقت ٹھوکر کھا کر گر سکتے ہیں۔
مزید برآں ہمیں دوسروں کے رویوں اورطرز عمل کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے، گو وہ بالکل صحیح معلوم نہ بھی ہوتے ہوں۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ شاید انہوں نے اس طرح کا رویہ کسی ایسی وجہ سے اختیار کیا ہو جو ہمارے علم میں نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں دوسروں کے ایسے رویوں کی اچھی توجیہ کرنی چاہیے،جوبظاہر غلط دکھائی دیتے ہیں،لیکن ان کی کوئی مناسب توجیہ کی جاسکتی ہے۔ دوسروں کے بارے میں اس طرح کا نقطہ نظر نہ صرف ان کے بارے میں غلط رائے رکھنے کے خلاف ایک اہم ڈھال ہے، بلکہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھنے کا ایک مضبوط محرک بھی ہے،نیز تکبر سے خالی ہونا اس طرح کے خیالات پر موقوف ہے۔
تواضع کوکردار کی لازمی خصوصیت کی حیثیت سے اپنان
ہر انسان کوجاننا چاہیے کہ اسے تعلیم و تربیت کے ذریعے تواضع کو اپنی شخصیت کی لازمی خصوصیت بنانےکےحوالے سے اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ہمیں اسمائے حسنیٰ میں سے رب (خدا بحیثیت خالق، مربی، پالن ہار اور تمام مخلوقات کے راہنما) کی پناہ میں آکر اپنے خدا کی حفاظت میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہنے اور خدائی تربیت وہدایات کے مطابق مثالی اخلاقیات کو اپنانے کے لیے پُرعزم رہنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں دینی معیارات کے مطابق روزانہ اپنی نگرانی کرنی چاہیے۔
فطری بات ہے کہ مستقل مزاجی اور ہم آہنگی کی بڑی اہمیت ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کی نظر میں سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے، گووہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘[2] جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پانی کے تسلسل سے گرنے والے قطرے سنگ مرمر میں بھی سوراخ کرسکتے ہیں۔ اس لحاظ سے اصلاح نفس، روحانی تربیت اور دینی گفتگو کی محفلوں میں باقاعدگی سے حاضری اس کے اہم ترین نکات ہیں۔
تاریخ کے ایک خاص دور میں روایتی مدارس اور صوفیائے کرام کی خانقاہوں کے احاطے میں زندگی کا ہر شعبہ شامل تھا اور انہوں نے مل کر اس ذمہ داری کو ادا کیا۔جن لوگوں نے اپنے آپ کو تعلیم و تربیت کے لیےمکمل طورپر وقف کردیا تھا وہ سنجیدہ روحانی تربیت سے گزر کر اپنی ذہنی، قلبی اورروحانی صلاحیتوں کی نشونما کرکے حقیقی انسانیت کے مقام پر فائز ہوگئے۔ سائنسی حقائق کو اپنی زندگی میں خوش آمدید کہنے کے لیے ذہنی طورپر تیاررہنے کے ساتھ ساتھ ان مقدس مقامات نے اس کی سرگرمیوں کودل، روح اور سر (ایک روحانی صلاحیت جس کے معنی ’’راز ‘‘ ہوتے ہیں) کے افق پر پھیلنے کا رستہ دکھایا۔ بصورت دیگر اگر معاملات کوصرف عقل کی بنیاد پر پرکھا جائے تو عقلیت پسندی اور اعتزالی فکرکی محدود سرحدوں میں قید ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے، تاہم یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ان مکاتب فکر کو اختیار کرنے والوں نے سازگار حالات کے باوجود اپنے اردگرد کے لوگوں کی صحیح رہنمائی کی ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں کودوسر وں کے دلوں میں درست خیالات ڈالنے میں کامیابی ہوتی ہے وہ ایسے لوگ ہیں،جنہوں نے روح اوردل کے آفاق کی طرف اپنی زندگیوں کو موڑا ہے۔
[1] سنن ترمذی، زہد، ۲؛ سنن ابن ماجہ، زہد، 24۔
[2] صحیح البخاری، رقاق، 18۔
- Created on .