تضادات
تم اپنے احساست اور سوچ کومانجھ کر اپنی حقیقت تک پہنچنے کی ‘ انسانی صلاحیتوں کو سدھار کرربّانیت تک پہنچنے کی سوچ رہے ہو ۔مگرنفسانی لذّتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے حیوانی آرزﺅں کے خلاف بغاوت کئے بغیر یہ کیسے ممکن ہے!؟
* * * * *
تم اپنی قلبی زندگی میں ”توحید“ تک پہنچنے کی‘اور رسمی اور روحانی ذوقیات میں ڈ وبے رہنے کی آرزو کرتے ہو مگر یہ کیسے ممکن ہے جبکہ تمہارے اندر ہزاروں بُرے احساسات حکمرانی کر رہے ہیں ‘ اور تم ہر موڑ پر جسمانی لذّتوں کو”لبیک“ کہتے رہتے ہو؟!
* * * * *
تم پر لگوا کر پرواز کرنے‘بلندیوں پر جا کر آسمانوں کے اُدھر کے عالموں میں پہنچ جانے کی سوچ میں رہتے ہو۔ مگر یہ کیسے ممکن ہو سکتاہے جب تک تم ایک بچے کی طرح اِس دنیا کے کیچڑ اور گندگی سے بندھے رہو گے!؟
* * * * *
تم ہمیشہ اِس امید میں رہتے ہو کہ تمہارے افق پر پلک جھپکنے میں نئے نئے شفق ظاہر ہوں جو ململ جیسے باریک کپڑے میں لپٹے دکھائی دیں ۔مگر اپنے دل کو بلند آئیڈیلوں سے آراستہ کئے بغیر یہ کیسے ممکن ہوگا!؟
* * * * *
تم صدیوں سے ایک دوسرے پر ڈھیروں کی طرح جمع ہونے والے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہو۔مگر جب کہ تم اِس بات کا ارادہ نہ کر لو کہ تم سالہا سال‘ بلکہ صدیوں تک عزم و ارادے کی راہ پرچلتے رہو گے تب تک یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے!؟
* * * * *
تم وطن کی ترقی کر کے بلندیوں تک رسائی اور اپنے ہم وطنوں کی فلاح کی بات کرتے ہو ‘مگر جب تک سکولوں ‘ فوج کی بیرکوں اور روحانی تکیوں کی مثلث کے ذریعے اپنی نسلوں کو پر مہیّا کر کے اُنہیں شیطانی مثلثوں سے زیادہ بلندی پر اُڑنے کے قابل نہیں بناﺅ گے تب تک یہ کام کیسے بن سکتا ہے!؟
* * * * *
تمہارا دل صاحبِ مال و ملک بننے کا خواہشمند ہے اور تم اپنی حِسّیاتی دنیا کے اعتبار سے زندگی سے استفادہ کرنے کو ترستے ہو مگر تم اِس محفل کو جاری نہیں رکھ سکتے جب تک کہ تم اپنا روزہ غروبِ آفتاب تک قائم نہیں رکھتے۔
* * * * *
تم چاہتے ہو کہ دنیا بھر کے ممالک اپنی کمر خم کر کے اور سر جھکا کر تمہارے احکام پر چلنے کو آمادہ ہو جائیں مگر جب تک تم اپنے ہوش و حواس سنبھال کر اپنی سستی کا لبادہ نہیں اتار پھینکتے‘ جوش میں آ کر ایک فاتح اور یاووُز نہیں بن جاتے‘ تب تک یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے!؟
* * * * *
تم ہمیشہ اس بات کی امید کرتے ہو اور اِس انتظار میں رہتے ہوکہ لوگوں کے دلوں اور آنکھوں میں سما جاﺅ‘ لوگ تعریفوں کے پُل باندھ کر تمہیں آسمانوں پر چڑھا دیں ۔ لیکن اگر تم ہر روز دن میں پچاس مرتبہ اپنے عہدوپیمان توڑتے رہو گے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوگا!؟
* * * * *
تم اپنے آپ کو مکمل اور بے قصور انسان سمجھتے ہو اور چاہتے ہو کہ ہر شخص بھی تمہیں ایسا ہی سمجھے۔ مگر رو زانہ تمہاری کمر پر لدے ایک ہزار گناہوں کے بار‘ معاشرے میں تمہاری حالتِ زار اور طرزِ عمل کے تضادات کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہوگا!؟
- Created on .