اخلاق
عالم ہونا ایک الگ بات ہے ا ور ا نسان ہونا الگ۔ عالم‘ اپنے علم سمیت انسانیت کے ما تحت ہو کر اخلاق اور نیکی سے اپنے علم کی جس نسبت سے نمائیدگی کرتا ہے اُسی نسبت سے محض حافظہ بردار ہونے سے چھوٹ جاتا ہے اور ایک بلند مرتبہ انسان ہونے کے درجے پر جا پہنچتا ہے۔وگرنہ اُس میں اور ایک ایسے بدبخت شخص میں کوئی فرق نہیں رہتا جس نے اپنی ساری عمر فضول ضائع کر دی ہو۔ دراصل جہالت جو کہ لوہے کی مانند سخت ہوتی ہے اُسے سونے کی طرح مفید اور قیمتی بنا دینا بھی اخلاق اور فضیلت ہی کا کام ہے۔
* * * * *
اگر تمارے ساتھ دھوکا ہو چکا ہے پھر بھی تم کسی دوسرے کو ہرگز دھوکا نہ دو۔۔۔! علاوہ ازیں سچائی اور سیدھا راستہ سب سے بڑی خوبیاں ہونے کے باوجود اگر بعض اوقات انسے نقصان دہ نتائج برآمد ہونے کا خدشہ ہو تو بھی اُن کا ساتھ ہرگز مت چھوڑو !
* * * * *
زمانہ حال میں اخلاق‘ اُن معنوں میں نہیں لیا جاتا جن میں پچھلے زمانے کے لوگ سمجھتے تھے۔ وہ لوگ اخلاق کو فضیلتوں کا مرقع کے معنوں میں لیتے تھے ۔آج کا انسان چاہتا ہے کہ اِسے اجتماعی شائستگی اور تربیت کے معنوں میں لیا جائے۔اگر یوں بھی سمجھ لیا جائے تو بھی کتنا ہی اچھا ہوتا اگر ہم انسان کو انہیں معنوں کے اخلاق سے مزین پا سکتے!
* * * * *
اخلاق کے زمرے میں اولاد آدم کے طرزِ عمل سے متعلق بعض اعلےٰ قوانین آتے ہیں ۔ ان سارے قوانین کا منبع روح کی عظمت ہے۔ اس حقیقت پر انحصار کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ اپنی روح سے اچھی طرح واقف نہیں ہو سکتے اُن کے لیے مدتوں تک اخلاق کے قوانین کی نمائندگی کرسکنابھی خاصا مشکل ہوتا ہے۔
* * * * *
کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ” اب اخلاق کتابوں میں ہی باقی رہ گیا ہے“اب کہتے ہیں ” اخلاق پرا نی کتابوں میں ہی باقی رہ گیا ہے“ ۔ اگر یوں بھی ہو تو اخلاق جیسی قیمتی شے کو فرسودہ قرار دینے کے لیے کتنی نئی چیزوں کو قربان کرنالازم ہو گا۔
* * * * *
اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر قربان کر دینا روحانی عظمت اور جوانمردی ہے۔کسی بھی قسم کے بدلے کی امید رکھے بغیرہمیشہ نیکی کرنے والے اگر ایک غیر متوقع مقام پر اپنے کیئے گئے تمام نیک اعمال اور دوسروں کے بارے میں نیک خیالات سے دوچار ہو جائیں تو حیرت اور تعجب سے اپنی قسمت پر مسکرانے لگیں گے۔
- Created on .