فتح اللہ گولن : میں ترک جمہوریت کو لاحق تمام خطرات کی مذمت کرتا ہوں
حالیہ مہینے میں ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کے موقع پر میں نے اس کی سختی سے مذمت کی تھی۔ ’’حکومت کا حصول شفاف اور آزاد انتخابات کے ذریعے ہونا چاہیے نہ کہ طاقت کے ذریعے،‘‘ یہ میرے الفاظ تھے۔’’میں اللہ تعالیٰ سے ترکی، ترک عوام اور ترکی میں موجود تمام لوگوں کے لیے دعا کرتا ہوں کہ یہ صورتحال پر امن انداز میں اور جلد از جلد حل ہو جائے۔‘‘
ترکی کی حزب مخالف کی تینوں جماعتوں کے بیانات کی طرح میرے تمام تراحتجاج کے باوجود آمرانہ طرز حکومت میں حد سے بڑھتے ہوئے صدر نے فوراً ہی مجھے اس بغاوت کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار قرار دے دیا ۔انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ مجھے پنسلوینیا میں واقع میرے گھر سےملک بدرکردیا جائے جہاں میں 1999سے خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہوں۔
نہ صرف یہ کہ اردگان صاحب کے الزامات میرے تمام تر اعتقادات سے متصادم ہیں بلکہ میں انہیں غیر ذمہ دارانہ اور قطعاً غلط سمجھتا ہوں۔
میرا فلسفہ مشمولیت اور تکثیریت پر مبنی اسلام ہے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والے انسانوں کی خدمت کا جذبہ ہو جو مسلح بغاوت کے بالکل برعکس ہے۔ 40سال سے زائد عرصے سے اس تحریک ،جس سے میں منسلک رہا ہوں اور جسے خدمت یعنی خدمت کہا جاتا ہے، کے پیروکار نہ صرف اس طرز حکومت کے حامی رہے بلکہ اس پر اپنا مکمل یقین بھی رکھتے رہے جس کی بنیادعوام کی رائے پر ہو اور جو تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ ان کے مذہبی افکار، سیاسی وابستگی اور رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر کرتی ہو۔ حزمت کے افکار سے متاثر کاروباری حضرات اور رضا کاروں نے دنیا بھرکے 150سے زائد ممالک میں جدید تعلیم اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لیے مالی تعاون کیا۔
ایک ایسے وقت میں جب مغربی جمہورتیں جدید اسلامی آوازوں کی تلاش میں ہیں، میں نے اور حذمت تحریک میں موجود میرے دوستوں نے انتہا پسندی اور ظلم کے خلاف القائدہ کے 11ستمبر کے حملوں سے لے کر اسلامک سٹیٹ کے ظالمانہ قتل عام اور بوکو حرام کی جانب سے اغوا کے واقعات تک ایک واضح موقف اختیار کیا۔
اس بے سرو پا تشدد کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ جس میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہونے والا تشدد بھی شامل ہے ہم نے اپنے اس عزم کا بارہا اعادہ کیا جو ہم نے مسلمان نوجوانوں کی دہشت گردی کی تنظیموں میں شمولیت کو روکنے اور ایک پرامن مشمولیت پر مبنی طرز فکر کے فروغ کے لیے کیا ہے۔
اپنی پوری زندگی کے دوران میں نے اندرونی سیاست میں فوجی مداخلت کو اعلانیہ طور پر اور نجی محفلوں میں بھی رد کیا ہے۔ درحقیقت میں کئی عشروں سے جمہوریت کی وکالت کرتا رہا ہوں۔ ترکی میں چار عشروں کے دوران چار فوجی مداخلتوں سے متاثر ہونے اور ان فوجی حکومتوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور غیر قانونی قید و بند سے متاثر ہونے کی وجہ سے میں اپنے ہم وطنوں کے لیے کبھی بھی نہیں چاہوں گا کہ انھیں یہ سب دوبارہ برداشت کرنا پڑے۔ اگر بظاہر حذمت کا ہمدرد کوئی شخص کسی بغاوت میں شامل ہوا ہے تو اس نے میرے نصب العین سے دھوکہ کیا ہے۔
بہرحال اردگان صاحب کے الزامات میرے لیے حیران کن نہیں۔ اس لیے نہیں کہ جوکچھ انہوں نے میرے متعلق کہا ہے بلکہ اس لیے کہ ان سب سے شخصی آمریت کی جانب ان کی پیش قدمی اور خطرناک ارادوں کا پتہ چلتا ہے۔
بہت سے دیگر ترک افراد کی مانند حذمت تحریک کے ماننے والوں نے بھی ترکی میں جمہوریت اور یورپین یونین میں شمولیت کی ضروریات کے لیے اردگان صاحب کی جانب سےکی جانے والی ابتدائی کوششوں کی حمایت کی مگر ہم اس وقت خاموش نہ رہ سکے جب وہ جمہوریت سے ہٹ کر مطلق العنانیت کی جانب چل پڑے ۔ موجودہ واقعات سے قبل بھی اردگان صاحب نے حالیہ برسوں میں اخبارات پر بندش لگائی،ہزاروں ججوں، تفتیش کاروں، پولیس والوں اور دیگر سول ملازمین کو ان کے عہدوں سے بے دخل کیا اور خصوصاً کردوں کے خلاف انتہائی سخت اقدامات کیے۔ انھوں نے اپنے مخالفین کو ریاست کے مخالفین قرار دے دیا ہے۔
خصوصاً حذمت تحریک ،صدر کے قہر کا نشانہ بنی ہے ۔2013میں اردگان صاحب نے ترک بیوروکریسی میں شامل حذمت کے ہمدردوں پر اس کرپشن تحقیقات کرنے کا الزام لگایا کہ جن کی زد میں ان کی کابینہ کے اراکین اور دیگر قریبی ساتھی بھی آئے۔ نتیجتاً بیسیوں پولیس افسران اور عدلیہ کے ممبران کو بے دخل کیا گیا یا پھر انھیں صرف اپنے فرائض کی انجام دہی کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔
2014ہی سے کہ جب اردگان صاحب 11سال وزیر اعظم رہنے کے بعد صدر منتخب ہو گئے، انہوں نے ترکی کے پارلیمانی جمہوریت کے نظام کو ’’خصوصی صدارت‘‘ میں بدلنے کی کوشش کی جس میں کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ اس پس منظر میں جناب اردگان کا یہ کہنا کہ بغاوت ان کے لیے ’’خدا کا تحفہ ‘‘ ہے بد شگونی کا باعث ہے۔ اب جبکہ وہ سرکاری اداروں سے مزید مخالفین کو نکالنے کے خواہاں ہیں، تقریباً 70ہزار افراد پہلے ہی اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور حذمت اور دیگر سول سوسائٹی اداروں پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے وہ مطلق العنانیت کی راہ میں بھی بچھی رکاوٹیں دور کرنے میں مصروف ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے باوثوق ذرائع کے توسط سے قید خانوں میں تشدد بشمول ریپ کی بھی رپورٹیں شائع کی ہیں۔ یہ بھی حیرت کی بات نہیں کہ اردگان صاحب نے یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کو معطل کردیا اور ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔
ترک صدر اسلامی سٹیٹ کے خلاف عالمی تعاون ختم کرنے کی دھمکی دے کر امریکہ کو بلیک میل کررہے ہیں۔ ان کا مقصد میری یہاں سے بے دخلی یقینی بنانا ہے اگرچہ ان کے پاس نہ تو کوئی ٹھوس شواہد ہیں اور نہ ہی بظاہر شفاف مقدمے کا کوئی امکان موجود ہے۔ اردگان صاحب کی اپنی خواہش کے مطابق ہر چیز حاصل کرلینے کی تمنا سمجھ سے باہر ہے ۔مگر امریکہ کو اس کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے۔
پر تشدد انتہا پسندی کو ان لوگوں کی مایوسی جلا بخشتی ہے جو ایسے آمر حکمرانوں کے تحت رہنے پر مجبور ہیں جنہیں پرامن احتجاج اور جمہوری سیاست سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔ ترکی میں اردگان حکومت کا آمرانہ طرز حکومت کی جانب جانا ملکی آبادی کو فرقوں، سیاسی، مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کررہا ہے جو کہ انتہا پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔
اس مشکل وقت میں قیام امن کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کی خاطر اور مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے مستقبل کو بچانے کے لیے امریکہ کو ایک ایسے آمر کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جو ایک ناکام شورش کو اپنی ہی آئینی حکومت کے خلاف ایک سست رفتار((slow motion بغاوت میں بدل رہا ہے۔
- Created on .